Sunday, 27 September 2015

بچوں کے دو سوالات




سوال: اپنے چار سالہ بیٹے کو ان دو سوالات کا جواب کیسے دیا جائے؟ ... 
پہلا سوال ، ماما بے بی کہاں سے آتے ہیں ؟ ..
دوسرا سوال، ماما 'piggy' بہت 'yucky' ہوتے ہیں ، الله نے انہیں 'yucky' کیوں بنایا ہے ؟
.
جواب:
.
والدین کیلئے ان معصوم سوالوں کا جواب دینا واقعی آسان معلوم نہیں ہوتا. کوئی حتمی جوابات بھی متعین نہیں کئے جاسکتے. بہرحال چند بنیادی باتیں سمجھ لیں 
.
١. بچہ کے سوال کو نظر انداز نہیں کرنا. اس کے اس فطری استفسار کو دبانا نہیں ہے. 
.
٢. بچہ آپ پر مکمل اعتماد کرتا ہے ، اس سے جھوٹ نہیں بولنا. کوئی جھوٹی کہانی سنانا اسکی ذہنی تربیت کیلئے بھی مضر ہے 
.
٣. گھبرا کر یا شرمندہ ہنسی کے ساتھ بات نہیں کرنی. بلکہ سکون سے مسکرا کر سننا اور بولنا ہے. ایسا لگے کہ آپ ان سے مکالمہ کر رہی ہیں 
٤. بچہ سادہ ذہن ہوتے ہیں، ان کے سوال بھی سادہ ہوتے ہیں اور یہ سادہ جواب سے مطمئن ہوجاتے ہیں. لہٰذا غیرضروری تفصیل نہ بیان کریں. جوابوں کو سادہ اور مختصر رکھیں. وہ ابھی چھوٹے ہیں اور زیادہ تفصیل ان کے لئے نفع سے زیادہ ضرر کا کام کرتی ہے 
.
اب آجائیں سوال کی جانب :
سوال: ماما بے بی کہاں سے آتے ہیں ؟ 
.
جواب: الله میاں ، ممی پاپا کے پاس بھیجتے ہیں. جیسے درخت بیج سے آتے ہیں اور بیج ہم کیاری میں لگاتے ہیں. ایسے ہی الله مما کے پاس بھی بیج بھیج دیتے ہیں. جو بہت سارے دن مما کے پاس رہتا ہے اور اس بیج سے بے بی مما کے پاس چھپ کر بڑا ہوتا رہتا ہے. پھر جب الله میاں کو لگتا ہے کہ اب بے بی اتنا بڑا ہوگیا کہ وہ اپنی بہن بھائی سے مل سکے تو اسے اسے ان کے پاس بھیج دیتے ہیں 
.
سوال: ماما 'piggy' بہت 'yucky' ہوتے ہیں ، الله نے انہیں 'yucky' کیوں بنایا ہے ؟
.
جواب: یٹا 'piggy' صرف different ہوتے ہیں. ایسے ہی جیسے دوسرے جانور different ہوتے ہیں. انہیں بس کھانے سے الله نے منع کیا ہے ، جس طرح ہم اور بہت سے جانوروں کو نہیں کھا سکتے جیسے شیر کو ، بھالو کو ، ٹائیگر کو. 
.
یہ مختصر تبصرہ ہے . باقی جیسا میں نے عرض کیا کہ کوئی حتمی فارمولہ یا جواب نہیں ہے ، ہر بچہ کی ذہنی استعداد، دلچسپی اور سوال پوچھنے کی صلاحیت میں فرق ہوسکتا ہے. 
.
(عظیم الرحمٰن عثمانی)

مزاحیات



مزاحیات




بھائی اگر مرغن پکوان چھوڑ کر پتے کھاتے رہنے سے کسی کا وزن کم ہوتا تو یہ ساری بھینسیں سلم سمارٹ نہ ہوتیں ؟ 


اور اگر تیراکی جیسی ورزشوں سے کسی کا پیٹ کم ہونا ہوتا تو آج وہیل مچھلی سب سے دبلی ہوتی ... 
کوئی مصنف بتا رہا تھا کہ ایک مشہور بھاری بھرکم پاکستانی ہیروئن نے وزن کم کرنے کیلئے گھڑسواری شروع کردی ہے

اس سے وزن کم تو ہوا ہے ...... مگر گھوڑے کا 

مولوی برادری اس ضمن میں بلاوجہ بدنام ہے ، کسی نے واقعہ سنایا کہ ایک شادی میں مولوی صاحب نے بہت سا کھانا پلیٹ میں چھوڑ دیا

اب لوگ کہاں باز آتے ہیں ؟ فوری ٹوک دیا کہ ... 'مولانا پلیٹ صاف کرنا "سنت" ہے' ..
مولوی صاحب نے بیچارگی سے توند پر ہاتھ پھیرا اور منمنا کر بولے ... 'مگر جان بچانا "فرض" ہے' ..
یہ بڑے بھلے مولوی صاحب ہیں مگر طبیعت میں جلال ہے .. کسی کے گھر مدعو تھے تو میزبان نے پوچھا ' مولانا قورمہ لاؤں یا حلوہ؟' 

پس پھر کیا تھا .. لمحہ بھر کو سوچا ، پھر غصہ میں بد دعا دی کہ ' الله تجھے بھی ایسی ہی مشکل میں ڈالے جیسی مشکل میں تو نے مجھے مبتلا کیا ہے'
.
====عظیم نامہ=====

وقت سے قبل تجربہ



وقت سے قبل تجربہ



ایک شخص اپنے باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا. اچانک اس کی نظر ایک نومولود تتلی پر پڑی جو اپنے خول سے باہر آنے کیلئے بہت کوشش کررہی تھی. مگر خول میں موجود باہر نکلنے کیلئے سوراخ ابھی بہت باریک تھا، اسلئے وہ چاہ کر بھی نکل نہیں سکتی تھی. اس شخص کو رحم آیا اور اس نے آگے بڑھ کر اس خول کو قینچی سے کترڈالا. تتلی باہر نکل آئی مگر اس کے پنکھ ابھی بھی اس کے جسم سے چپکے ہوئے تھے. وہ شخص مسکراتے ہوئے انتظار کرنے لگا کہ اب بس کسی بھی وقت یہ پنکھ کھل جائیں گے اور تتلی آزادی سے اڑنے لگے گی. 
.
مگر جب کافی دیر گزرنے کے بعد بھی پنکھ نہ کھل سکے تو اس شخص کو معلوم ہوا کہ اس نے ہمدردی میں تتلی کو زندگی بھر کے لئے محتاج و معزور کردیا ہے. وقت سے پہلے خول سے نکال کر اس نے تتلی کے ارتقاء کو روک دیا.
.
ہم میں سے بھی اکثر لوگ اپنے پیاروں کو وقت سے پہلے ان حقائق سے روشناس کروادینا چاہتے ہیں جو انہوں نے تلخ اور مشکل تجربات سے گزر کر سیکھنے تھے. ایسا ہم محبت اور اخلاص سے کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرکے ہم نے انہیں 'دریافت' کرنے کے خوبصورت عمل سے محروم کردیا. ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو ٹھوکر نہ لگے مگر یہ فراموش کربیٹھتے ہیں کہ اس فطری طریق کو روک کر ہم انہیں ان کے شعوری ارتقاء سے محروم کررہے ہیں. انہیں اس تتلی کی مانند مفلوج کر رہے ہیں جو پھر کبھی آزاد فضا میں نہیں اڑ سکتی. 
.
اپنے تجربات ضرور بیان کریں، مشورہ بھی ضرور دیں مگر اسے کسی پر مسلط نہ کریں. راستہ دکھائیں مگر سفر انہیں خود کرنے دیں. خدا کی معرفت بھی ایک شعوری دریافت ہے. آپ بس تحقیق کی ترغیب دیں ، اس تحقیق میں ان کی مدد کریں مگر نتائج انہیں خود اخذ کرنے دیں. 
.
====عظیم نامہ=====

پاکستان کا قیام نعمت یا غلطی ؟


پاکستان کا قیام نعمت یا غلطی ؟



الله پاک مجھے بطور نعمت اولاد سے نوازتے ہیں. میں اس اولاد کی ٹھیک پرورش نہیں کرتا اور نتیجہ میں وہ بگڑ کر غنڈہ یا بدمعاش بن جاتی ہے. اب کیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ اولاد نعمت تھی ہی نہیں ؟ یا بات یوں ہوگی کہ الله نے تو نعمت سے نوازا تھا مگر میں نے کفران نعمت کیا جس کا نتیجہ تخریب میں نکلا. پاکستان اللہ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے مگر ہم نے کفران نعمت کیا ہے، جس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں. ہمیں حالات کی اصلاح میں کردار ادا کرنا ہے ، ملک کے قیام کو غلطی کہنا دراصل اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنا ہے
.
یہ انسان یا قوم کی اپنی شامت اعمال ہوتی ہے جو ایک نعمت کو تخریب میں بدل دیتی ہے. ایسے میں یا تو اس قوم کو مٹا دیا جاتا ہے یا انہیں بہتر لوگوں سے بدل دیا جاتا ہے. یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے ، یہاں کوئی لاڈلا نہیں ہے بلکہ ہر ایک کو عمل سے اپنا میرٹ ثابت کرنا ہے. ہمیں آگے بڑھ کر اصلاح کرنی ہے اپنی بھی اور اس ماحول کی بھی. بقول مودودی صاحب کے ، ہم سب دیہاڑی کے مزدور ہیں جنہیں اپنا کام پورا کرنا ہے .. نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے
.
====عظیم نامہ====

تزکیہ نفس کے قران و سنت سے ثابت شدہ مجاہدے



تزکیہ نفس کے قران و سنت سے ثابت شدہ مجاہدے





قران حکیم پر تدبر، کائنات پر تفکر، فرائض کی پابندی، تہجد کا قیام، نفلی روزے، مسلسل انفاق، تسبیحات و اذکار، نفلی اعتکاف، استغفار کی کثرت، مخلوق کی مدد اور اہل ایمان کی صحبت وغیرہ .. تزکیہ نفس کے آزمودہ اور قران و سنت سے ثابت طریق ہیں. اگر مجاہدہ کا شوق ہے تو پہلے ان کا اہتمام کر لیجیئے. اس کے بعد گنجائش نکلے تو یہ سوچیئے گا کہ سماع ، وجد، مراقبہ وغیرہ جائز و مباح ہیں یا نہیں. اگر واقعی اپنی تذکیر و تطہیر کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو علمی موشگافیوں سے باہر نکلیں اور ثابت شدہ ریاضتوں کو لے کرعمل کی دنیا میں قدم رکھیں.
.
====عظیم نامہ=====

مذہبی ہونا کیا بور انسان ہونے کی علامت ہے ؟



مذہبی ہونا  کیا بور انسان ہونے کی علامت ہے ؟


مذہب سے شغف رکھنے کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کی حس لطافت، زندہ دلی، حس مزاح اور جمالیاتی ذوق مفقود ہوکر رہ جائے. 

.

بہت سے احباب پہلے میرے بارے میں مذہبی ہونے کا گمان کرلیتے ہیں. پھر اس گمان نیک یا گمان غلط پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ آگے بڑھ کر یہ یقین کر بیٹھتے ہیں کہ میں غالباّ ہنسی مذاق سے عاری ایک خشک مزاج بور قسم کا انسان ہونگا. جو یا تو چوبیس گھنٹہ زبردستی تبلیغ کرتا رہتا ہوگا یا دیگر افراد کے کردار و افکار کو حلال حرام کے ترازو میں تولتا رہے گا. لہٰذا ایسے رفقاء مجھ سے مل کر یا میری تصاویر دیکھ کر اکثر حیرانی کا اظہار کرتے ہیں. 
.
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ قبلہ اگر آپ مجھ سے اب تک نہیں ملے ہیں تو خدارا یہ جان لیں کہ آپ کے اس بھائی کو نہ تو اپنے نیک ہونے کی خوش فہمی ہے اور نہ کسی اور کے گنہگار ہونے کی غلط فہمی. یقین جانیئے کہ میں آپ میں سے کئی احباب سے زیادہ گھومنے پھرنے اور دیگر صحتمند تفریحات کا شوق و ذوق رکھتا ہوں. میری نظر میں تو ایسا کرنا 'زندہ' ہونے کی علامت ہے. ہر وقت مذہبی گردان کرکے لوگوں کی زندگی اجیرن کردینے والے مجھے بھی اتنے ہی زہر لگتے ہیں جتنے آپ کو. میں دین کی بات دو ہی صورتوں میں کیا کرتا ہوں. پہلی یہ کہ محفل میں موضوع ہی دین کا ہو اور دوسری یہ کہ کوئی خود اصرار کرکے میری رائے جاننا چاہے. ایک بات جو میں نے اپنے ذاتی تجربہ اور اساتذہ دونوں سے سیکھی ہے، وہ یہ ہے کہ الله رب العزت نے ہمیں سننے کیلئے دو کان اور بولنے کیلئے ایک منہ عطا کیا ہے، ہمیں ان کا استمعال بھی اسی تناسب سے کرنا چاہیئے.
.
====عظیم نامہ====

Monday, 7 September 2015

خود کلامی


خود کلامی




ہماری آنکھیں کس لئے ہیں ؟ ... دیکھنے کیلئے ..
ہمارے کان کس لئے ہیں ؟ ... سننے کیلئے ..
ہمارے ہاتھ کس لئے ہیں ؟ .. تھامنے کیلئے ..
ہمارے پاؤں کس لئے ہیں ؟ .. چلنے کیلئے .. 
.
یہ درخت، پہاڑ، سمندر، حشرات، نباتات ... بہار کا آنا یا خزاں کا چھا جانا، سورج کا طلوع یا غروب ہونا، بچے کا رحم مادر میں ارتقائی مراحل گزارنا اور پھر پیدا ہوتے ہی ماں کے جسم میں اسکی غذا کا انتظام ہوجانا .. غرض اس کائنات میں جس طرف نظر کرتے ہیں ، ہمیں مقصدیت دکھائی دیتی ہے. کوئی بھی شے جو وجود رکھتی ہے ، اس کا کوئی نہ کوئی متعین مقصد ضرور ہے. پھر یہ کیسی حماقت ہوگی کہ انسان یہ تصور کرلے کہ اس کا اس دنیا میں ہونا کسی متعین مقصد کے بغیر ہے ؟ یقیناً عقلی طور پر انسان کا بھی اس دنیا میں ہونا بناء مقصدیت کے ممکن نہیں. 
.
مگراس کا مقصد آخر ہے کیا ؟ ... لطف کی بات یہ ہے کہ انسان باآسانی اپنے اردگرد موجود بیشمارفطری مظاھر کے مقصد کو بیان کرتا ہے اور جن کے متعلق نہیں جانتا ، ان کی بھی کھوج یقین کے ساتھ کرتا رہتا ہے مگر خود اپنے وجود کے کسی حتمی مقصد کو نہیں جان پاتا. ایسا کیوں ہے ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان وہ واحد مخلوق ہے جو ارادہ و اختیار کی آزادی کیساتھ پیدا کیا گیا ہے. باقی تمام مخلوقات اپنی جبلت اور فطری قوانین میں جکڑے ہوئے ہیں. لہٰذا ان مخلوقات میں سے ہر ایک شے کے پیچھے  مجموعی مقصدیت کو دیکھنا آسان ہے. اس کے برعکس ہر انسان دوسرے انسان سے فکری طور پرمختلف ہے ، جو اس بات کو اہمارے لئے ناممکن بنا دیتا ہے کہ ہم اپنی برادری یعنی انسان کا مجموعی مقصد اپنے شعوری ارتقاء سےجان پائیں. 
.
لیکن ظاہر ہے اس سے انسان کی یہ شعوری پیاس نہیں بجھ سکتی کہ اسے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ؟ نہ ہی اس کی بنیاد پر انسان کو استثنیٰ حاصل ہوسکتی ہے کہ کائنات میں ہر مخلوق کا تو متعین مقصد ہو مگر خود اس کا اپنا وجود اس مقصدیت سے خالی ہو ؟ یہ ممکن نہیں ہے. مگر سوال یہ ہے کہ جب انسان اپنے دنیا میں ہونے کے مقصد کو ازخود نہیں جان سکتا تو پھر کیسے معلوم ہوگا کہ اس کا مقصد کیا ہے ؟ اسے لازماً رجوع کرنا ہوگا اپنے تخلیق کار سے کہ جس نے اسے وجود بخشا ہے. صرف یہی ایک صورت ہے کہ اس سوال کا جواب جانا جاسکے. 
.
اب جب ہم قران حکیم کی جانب رجوع کرتے ہیں تو وہ واشگاف الفاظ میں انسان کا اس دنیا میں ہونے کا مقصد متعین کردیت 
.ہے
.
سورہ الذاریات کی ٥٦ آیت میں ارشاد ہوتا ہے

میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں
.
( جاری ہے)