Friday, 13 February 2015

انٹرویو اور وہ الله کا بندہ

 انٹرویو اور وہ الله کا بندہ

کچھ عرصہ سے میری کمپنی ایک کمپیوٹر ایکسپرٹ کو تلاش کر رہی ہے مگر سخت معیار ہونے کی وجہ سے انٹرویو پر انٹرویو ہوتے رہے لیکن کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکا. کچھ دن پہلے میں نے امیدواروں کے بائیو ڈیٹا کا تفصیلی جائزہ لیا اور ان میں سے زیادہ تجربہ یافتہ افراد کو انٹرویو کیلئے بلا لیا. ان ہی بائیو ڈیٹا کی چھان بین میں ایک ایسا امیدوار بھی نظر میں آیا جس کا تعلق پرتگال سے تھا. اس شخص کے پاس تجربہ اور تعلیم نسبتاً کم تھی. بظاہر ایسی کوئی خاص وجہ نہ تھی کہ اسے انٹرویو پر بلایا جائے مگر ایک بات جو حیرت انگیز تھی وہ یہ کہ اس بائیو ڈیٹا میں بلا کی سچائی سے کام لیا گیا تھا. وہ باتیں جن کا اعتراف کرنا بیوقوفی سمجھا جاتا ہے ، اس شخص نے اسے کھل کر بیان کردیا تھا. سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ شخص سچا ہے یا بیوقوف ؟ میں نے اپنے مینجر اور ایک سینئر کو یہ بائیو ڈیٹا دکھایا تو ان کا بھی یہی حال ہوا. خیر اسی مخمصے میں ہم نے اسے بھی بلانے کا فیصلہ کرلیا.
.
آج انٹرویو کا دن تھا ، جب اس شخص کی باری آئی تو یہ دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ ایک مسلم تھا. گو کے اسکے نام سے یہ ظاہر نہ ہوا تھا. چہرے پر ہلکی داڑھی ، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ماتھے پر نماز کا نشان. پہلی نظر پڑھی تو اس کے لبوں کو ہلتا دیکھا، ایک لمحہ میں سمجھ گیا کہ یہ تسبیحات پڑھ رہا ہے. خیر جناب مجھ سمیت تین افراد نے اس کا انٹرویو شروع کیا (بقیہ دونوں انگریز تھے) ، وہی سچائی جو اس کے بائیو ڈیٹا پر نمایاں تھی آج سامنے مجسم ہو گئی تھی. وہ باتیں جن میں وہ باآسانی جھوٹ بول کر یا بات گھما کر متاثر کرسکتا تھا، اس نے خالص سچ کو مسکرا کر کہہ دیا. صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس انسان کیلئے سچ بولنا .. نوکری حاصل کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے. ایک گھنٹے کے انٹرویو کے بعد ہم تینوں نے بیک وقت ایک آواز ہو کر یہ تبصرہ کیا کہ یہ کتنا سچا آدمی ہے ! اسکی سچائی کا ایسا اثر دل پر ہوا کہ ہم سب کا فیصلہ اس کے حق میں نکلا اور وہ نوکری جس میں اس سے کہیں زیادہ چالاک و تجربہ کار لوگ کامیاب نہ ہوسکے تھے ، وہ اسے حاصل ہوگئی. آج لاجک فیل ہوتے آنکھوں سے دیکھی، جھوٹ کو پھانسی پر چڑھتا دیکھا اور حق کا رستہ غیب سے بنتا نظر آیا. بس اب انتظار ہے کہ اس الله کے بندے کے ساتھ مل کر میں کام کر سکوں اور انشااللہ اس سے سیکھ سکوں. سبحان الله وبحمدہ سبحان اللہ العظیم


.
====عظیم نامہ====

Sunday, 8 February 2015

سیکھنے کا نسخہ


سیکھنے  کا نسخہ


سیکھنے کی استعداد ازخود بڑھ جاتی ہے جب انسان اپنی سننے کی صلاحیت میں اضافہ کردے. میری مراد یہ نہیں ہے کہ آپ شخصیت پرستی اختیار کرکے ، مخاطب کے ہر قول پر آمننا صدقنا کے مصداق ایمان لےآئیں .. مگر خاموشی سے مخاطب کی بات سنتے رہنا اور اسکے کہے پر کھلے ذہن سے غور کرکے کسی نتیجے کو اخذ کرنا، لازمی طور پر ہماری شخصی تربیت میں معاون ثابت ہوتا ہے. میں دیانتداری سے اعتراف کرتا ہوں کہ جب تک میں خاموشی سے مختلف مکاتب کو سنتا رہا، میرے سیکھنے کا عمل تیز سے تیزتر ہوتا گیا. لیکن جب سے بولنا شروع کردیا تو سیکھنے کی استعداد کم سے کمتر ہوگئی. بولنا اہم ہے مگر سننا اس سے دگنا اہم ہے. الله نے ہمیں ایک منہ اور دو کانوں سے نوازا ہے، ہمیں انکا استمعال بھی اسی تناسب سے کرنا چاہیے.


====عظیم نامہ====

کیا آپ بھی نفسیاتی مریض تو نہیں ؟



کیا آپ بھی نفسیاتی مریض تو نہیں ؟


کچھ لوگ ذہنی طور پر مفلوج پیدا ہوتے ہیں یا پھر کسی حادثے میں ذہنی مفلوج ہو جاتے ہیں. یہ ذہنی کمزوری انکے چہرے پر نظر آنے لگتی ہے. ہم بعض اوقات ان سے خوف کھاتے ہیں اور انہیں عرف عام میں پاگل کہتے ہیں. یہ درحقیقت ایسے خطرناک نہیں ہوتے بلکہ ہماری اضافی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں. ایک دوسری طرح کے ذہنی بیمار بھی ہوتے ہیں، یہ شکل سے بلکل پاگل نظر نہیں آتے بلکے اکثر علم و شرافت کا لبادہ بھی اوڑھے ہوتے ہیں. ان کے لئے لفظ پاگل نہیں بولا جاتا، بلکہ 'نفسیاتی' کی اصطلاح اختیار کی جاتی ہے. اصل خطرناک یہ نفسیاتی ہوتے ہیں. ان کا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنی بیماری کو بیماری نہیں سمجھتے اور نتیجے میں کسی علاج کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے. دنیا سے بھی یہ اکثر اپنی اس ذہنی بیماری کو ظاہری رکھ رکھاؤ سے چھپا لینے میں کامیاب رہتے ہیں. صرف وہ ہی افراد انکی بیماری سے آگاہ ہوتے ہیں جو انکا شکار ہوۓ ہوتے ہیں. ایسی مثالیں آپ کو اپنے عزیز و اقارب سے لیکر فیس بک کی اس دنیا تک بکثرت مل سکتی ہیں. ضروری ہے کہ ہم سب اپنا جائزہ لیتے ہوۓ دوسرے کی راۓ کو اہمیت دیں اور دیکھیں کہ کہیں ہم بھی تو نفسیاتی نہیں

====عظیم نامہ====

Friday, 6 February 2015

سوال پوچھو



سوال پوچھو 



سوال نہ پوچھنے سے سوال ختم نہیں ہوتا بلکہ آپ کے لاشعور میں جا دفن ہوتا ہے. لہٰذا سوال پوچھیں، ورنہ شکوک کے گرداب میں دھنستے رہیں گے. دستک دیں گے تو دروازہ کھلے گا، سوال پوچھیں گے تو جواب حاصل ہوگا. سوال پوچھیں گے نہیں تو جواب کہاں سے حاصل ہوگا ؟ یہ اور بات کہ زبان سے سوال پوچھنے والے بہت موجود ہیں مگر زبان حال سے پوچھنے والے شاذ ہی نظر آتے ہیں 

.
====عظیم نامہ====

قرانی عربی اور اردو کا فرق



قرانی عربی اور اردو کا فرق


اردو میں ایسے الفاظ کثرت سے موجود ہیں جو عربی سے مستعار لیے گئے ہیں. المیہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایک ہی لفظ دونوں زبانوں میں استمعال ہوتا ہے مگر معنی کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق رکھتا ہے. ایسے میں قاری اگر اس فرق کو ملحوظ نہ رکھے تو باآسانی غلط نتائج اخذ کرلیتا ہے. مثال کے طور پر اردو میں لفظ 'فتنہ' ایک منفی اثر رکھتا ہے اور کسی فسادی عنصر کیلئے استمعال ہوتا ہے، اسکے برعکس عربی میں 'فتنہ' کے سادہ معنی امتحان کے ہیں، چنانچہ قران اولاد کو بھی آپ کیلئے فتنہ یعنی امتحان کہتا ہے. اردو میں لفظ 'جاہل' غیر تعلیم یافتہ شخص کو کہتے ہیں مگر عربی میں عالم کی ضد جاہل نہیں ہے بلکہ ایسی شخصیت ہے جسکی عقل پر جذبات و تعصب کا پردہ پڑا ہو. اردو میں لفظ 'ذلیل' ایک گالی کی طرح استمعال ہوتا ہے اور کسی کی شخصی کمینگی کو اجاگر کرتا ہے، مگر عربی میں 'ذلیل' کے معنی محض کمزور کے ہیں، لہٰذا ایک عربی یہ کہہ سکتا ہے کہ میرے والد ذلیل یعنی کمزور ہوگئے ہیں. 
.

====عظیم نامہ====

استغفار اور توبہ - دو جدا الفاظ


استغفار اور توبہ - دو جدا الفاظ


 

استغفار اور توبہ مماثل الفاظ نہیں ہیں. استغفار نام ہے اپنی غلطی، جرم یا گناہ کو قبول کرکے اظہار ندامت کرنے کا جبکہ توبہ نام ہے اس مظبوط ارادے کا، کہ اب اس غلطی یا گناہ کو دوبارہ نہ دہراؤں گا. سادہ الفاظ میں استغفار کے زریعے آپ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے اسکی ذمےداری قبول کرتے ہیں اور توبہ کے راستے آپ اپنی اصلاح کا عہد کرتے ہیں.
.
===عظیم نامہ===

کیا آپ مساوی حقوق کی بات کرتے ہیں؟


کیا آپ مساوی حقوق کی بات کرتے ہیں؟


میں خود کو مساوی حقوق کا مبلغ بنا کر پیش کرتا ہوں، انسانیت کا درس میری زبان سے ہمہ وقت جاری رہتا ہے .. لیکن کیا میں واقعی اس مساوات کا اطلاق اپنی شخصیت پر کرتا ہوں ؟ کیا فی الواقع میرا رویہ اپنے ملازمین اور ماتحت سے مساوی ہوتا ہے ؟ یا پھر حقیقت یہ ہے کہ میرا عمل صرف خطبے دینے تک محدود ہے ؟ کیا میرے گھر کا ملازم میرے ساتھ صوفے پر بیٹھ سکتا ہے، کھانا کھا سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو جان لیں کہ سوٹ ٹائی پہن کر مساوی حقوق کی بڑی بڑی باتیں کرنا بہت آسان ہے، اور اس پر عمل خاصہ مشکل ! 

.
====عظیم نامہ====