Friday, 6 February 2015

جنت، جہنم یا پھر خالص الله سے محبت ؟


جنت سے محبت اور جہنم کا خوف یا پھر خالص الله سے محبت - کون سا طریقہ نجات کا ہے ؟




ایک صاحب کے تین بیٹے تھے، انہوں نے تینوں کو جمع کیا اور کہا کہ " بچوں ! میں چاہتا ہوں کہ تم خوب دل لگا کر پڑھو ، تم میں سے جو میری اس خواہش کو مان کر محنت کرے گا اور اچھے نمبروں سے پاس ہوگا .. اسے میں اسکی من پسند چیز دلاؤں گا اور اپنی جانب سے بھی بہت سا انعام دونگا. لیکن اگر تم میں سے کوئی دل لگا کر نہ پڑھے گا تو پھر اسکی سخت سزا پاۓ گا ! " .. اب ان تینوں میں سے پہلا بچہ اس لالچ میں پڑھتا ہے کہ پاس ہونے پر ڈھیروں انعام حاصل ہوگا، دوسرا بچہ اس خوف سے محنت کرتا ہے کہ پاس نہ ہوسکا تو بڑی مار پڑے گی اور تیسرا بچہ کہتا ہے کہ مجھےانعام کی لالچ یا سزا کے خوف سے کہیں زیادہ اپنے باپ کی خوشنودی درکار ہے.لہٰذا وہ صرف اسلیۓ پڑھتا ہے کہ وہ اپنے والد سے پیار کرتا ہے اور انکی بات نہیں ٹھکرا سکتا. جب نتیجہ آتا ہے تو کیونکہ تینوں نے دل لگا کر پڑھا ہوتا ہے، اسلیے سب پاس ہوجاتے ہیں اور اپنے باپ کی نظر میں کامیاب قرار پاتے ہیں. آپ یہاں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ شائد تیسرا بیٹا بقیہ دو بیٹوں سے زیادہ اچھا تھا اور باپ اسے شائد سب سے زیادہ پیار کرے مگر اس تیسرے کی کامیابی سے باقی دو کی ناکامی ثابت نہیں ہوتی. یہی عالم انسان اور اسکے رب کا ہے. ہم میں سے کوئی جنت کی چاہ میں نیکی اختیار کرتا ہے، کوئی جہنم کے خوف سے تقویٰ اپناتا ہے اور کوئی بس اپنے رب سے ملاقات کی لگن میں پاکیزہ رہتا ہے. آخرت یعنی روز جزاء میں ان تینوں کے درجات میں تو فرق ہوسکتا ہے مگر کامیاب یہ تینوں طرح کے لوگ ہونگے. شرط بس یہ ہے کہ وہ اعمال اخلاص اور ٹھیک سمجھ پر مبنی ہوں.
.
====عظیم نامہ====

وہ نوجوان



وہ نوجوان

بیس بائیس سال کا ایک نوجوان ، اسے میں جب بھی مسجد میں دعا مانگتے دیکھتا تو حیرت و رشک سے کھڑا رہ جاتا. یوں لگتا ہے کہ جب وہ دعا کرتا ہے تو اسکی ہاٹ لائن سیدھی رب العالمین سے منسلک ہو جاتی ہے. وہ آنکھیں بند کیۓ ایک جگہ سمٹ کر ساکت بیٹھا، اپنے ہاتھ بلند کئے گم سم نا جانے اپنے بنانے والے سےکیا سرگوشیاں کیۓ جاتا ؟ لوگ آتے، نماز پڑھتے اور چلے جاتے ، اسکے ارتکاز اور توجہ میں مجال ہے کہ کوئی فرق پڑ جاۓ ؟. مجھ سے نہ رہا گیا تو ایک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ وہ دعا کس اسلوب سے مانگتا ہے، کیا الفاظ استمعال کرتا ہے، کون سی خواہشوں کا تقاضہ کرتا ہے ؟ .. وہ پہلے ھچکچایا لیکن بار بار کے اصرار کے بعد آخراس نے مجھے اپنی پوری دعا سنائی. میں حیرت زدہ رہ گیا جب مجھے پتا چلا کہ میرے اس بھائی کی دعا کا ایک بہت بڑا حصہ کسی تقاضے یا مطالبے پر نہیں بلکے صرف خالص شکر پر مبنی ہے ! وہ ایک ایک نعمت جو اس کے ذہن میں آتی جاتی اسکا نام لیتا جاتا اور الله عزوجل کا شکریہ ادا کرتا جاتا. آج مجھے اس نوجوان لڑکے سے ایک بہت بڑی سیکھ ملی تھی اور وہ یہ کہ دعا صرف تقاضے کا نہیں بلکے ان بیشمار نعمتوں کے شکر کا بھی نام ہے جنہیں ہم اکثر اپنا حق سمجھ کر بیٹھے رہتے ہیں. اپنے رب سے اپنی ضرورتوں یا خواہشوں کو مانگنا غلط نہیں ہے مگر اسکی عطا کردہ نعمتوں کا صدق دل سے شکر کرنا، ہمیں اپنے خالق سے ایک زندہ تعلق و محبت فراہم کرتا ہے، جو از خود ایک بہت بڑی عطا ہے.

.
====عظیم نامہ=====

شکر ادا کیسے ہوتا ہے ؟



شکر ادا کیسے ہوتا ہے ؟




 فرض کریں کہ آپ کسی خوشی کے موقع پر مجھے پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے ہیں. میں بھی سی مہذب 'جینٹل مین' کی طرح آپ کا گرمجوشی سے شکریہ ادا کرتا ہوں، مصافحہ کرتا ہوں، گلے لگاتا ہوں. مگر پھر آپ کے ہی سامنے اس گلدستے کو کچرے کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہوں یا پھر اس گلدستہ سے جھاڑو لگانے لگتا ہوں. سوچیں آپ کے دل پر کیا گزرے گی ؟ کیا میرا وہ شکریہ ادا کرنا آپ کو اب ایک آنکھ بھی بھائے گا ؟ یا آپ مجھے ایک ایسا شخص سمجھیں گے جس نے تحفہ کی ذرا قدر نہ کی؟
.
بتانا یہ چاہتا ہوں کہ شکر صرف زبان سے ہی ادا نہیں کیا جاتا بلکہ اس تحفہ کا صحیح استمعال کرکے زبان حال سے بھی ادا کیا جاتا ہے. اگر یہ دوسرا حصہ موجود نہ ہو تو پھر زبانی کلامی شکریہ ایک مصنوعی ڈھکوسلے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا. رب کی شکر گزاری بھی یہی ہے کہ آپ لفظی الحمد الله کہنے پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ اس صلاحیت یا نعمت کو جو آپ کو عطا کی گئی ہے درست سمت میں بھرپور استمعال کرکے عملی شکرگزاری کا نمونہ بن جائیں. اس سے یہ تاثر ہرگز نہ لیجئے کہ زبانی شکرگزاری اہم نہیں بلکہ یہ تو ہماری فطرت کا عین تقاضہ ہے. آپ ایک پیاسی بکری یا گائے کو پانی پلائیں تو وہ بھی ایک لمحہ کو برتن سے چہرہ اٹھا کر تشکر بھری نظر سے دیکھتی ہے. ہر سلیم الفطرت انسان بھلائی کرنے والے کا زبانی شکریہ ضرور ادا کرتا ہے. یہ فلسفہ عجیب ہے کہ رب کا شکریہ الفاظ سے ادا نہ کیا جائے بلکہ صرف اطاعت سے کیا جائے. جیسے اپنے پیار کرنے والے رشتوں کی بات ہم عملی طور پر بھی بجا لاتے ہیں اور ساتھ ہی زبانی طور پر بھی ان سے اظہار محبت کے الفاظ ادا کرتے ہیں. تسبیحات، اذکار، مناجات - یہ سب رب کی بیشمار نعمتوں کا زبانی شکر ادا کرنے کا طریق ہیں اور اپنے بنانے والے سے زندہ تعلق کا مظہر ہیں. اسی طرح یہ سمجھ بھی شدید ناقص ہے کہ شکر گزاری صرف الفاظ میں قید ہو کر رہ جائے اور عطا کردہ صلاحیت یا نعمت کو مثبت انداز میں بروئے کار نہ لایا جائے. جیسا کے میں نے پہلے ہی گلدستہ والی مثال سے واضح کیا. عقل و شعور کی نعمت کا شکر یہ ہے کہ اسے مثبت طور پر بھرپور استمعال کیا جائے، اگر خدا نے آپ کو صاحب قلم بنایا ہے تو اس کا شکر یہ ہے کہ آپ کا قلم حق کی ترویج کا سبب ہو، اگر آپ کو کسی ٹیکنیکل صلاحیت سے مالا مال کیا گیا ہے تو اس کا شکر یہ ہے کہ آپ اسے بہترین طریق سے نہ صرف انجام دیں بلکہ اسکے ذریعے مخلوق کی بہتری کا سامان کریں. میری دعا ہے کہ الله پاک ہمیں شکر کو سمجھنے اور اسے اس کے دونوں پہلوؤں سے ادا کرنے والا بنائے آمین.
.
====عظیم نامہ====

مذہبی گالی


مذہبی گالی




ہر وہ لفظ گالی شمار ہوگا جس سے مخاطب کی تحقیر و تذلیل مقصود ہو. اگر آپ ایسا کوئی بھی لفظ ادا کرتے ہیں جس کے زریعے، سننے والے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے، تو امکان ہے کہ اس پر گالی کا اطلاق ہو سکتا ہے. اگر اس تعریف کو سمجھ لیں تو معلوم ہوگا کہ گالی صرف وہ الفاظ نہیں ہیں جنہیں معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے بلکے ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں جنہیں گالی کے طور پر ہم نے خود ایجاد کیا ہے. حد یہ ہے کہ ہم نے مذہبی گالیاں بھی ایجاد کر رکھی ہیں. وہ شیعہ کھٹمل ہے، یہ سنی دشمن اہل بیت ہے .. وہ وہابی نجدی کافر ہے، یہ قبر پرست صوفی ہے .. وہ دیوبند کی گند ہیں ، یہ حلوہ خور بریلوی ہیں ... وہ ہرے طوطے ہیں، یہ یہودی ایجنٹ ہیں. ایک لمبی فہرست ہے گالیوں کی جسے ادا کر کے ہم اپنے مخاطب کی تذلیل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایسا کر کے ہم دین کی خدمت کر رہے ہیں. وہ اسلام جس نے کافروں کے جھوٹے خداؤں کو بھی گالی دینے سے روکا تھا ، آج اسکے نام لیوابڑے فخر سے اپنے کلمہ گو بھائیوں کو مذہبی گالیاں دیتے ہیں. 
.
====عظیم نامہ====


علمی تنقید کیا ہوتی ہے؟


علمی تنقید کیا ہوتی ہے؟





علمی تنقید وہاں ممکن ہوتی ہے جہاں آپ کو کسی محقق کی کسی بات سے اتفاق ہو اور کسی سے اختلاف. آپ جہاں اسکی کسی غلط تشریح پر دلائل سے تنقید کر سکتے ہوں تو وہاں آپ میں اتنی اخلاقی جرات بھی ہو کہ اپ اسی محقق کی کسی دوسری صحیح بات پر اسکی تعریف کر سکیں. وگرنہ یہ صرف دھوکہ ہے کہ آپ کی تنقید 'علمی' ہے. دوسرے کی تضحیک کرکے آپ اپنے نفس کو موٹا کرتے ہیں اور پھر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ 'نہی عن المنکر' کا فریضہ انجام پارہا ہے


.
====عظیم نامہ====

Monday, 2 February 2015

پیغام پہنچانے کا سب سے موثر طریقہ



پیغام پہنچانے کا سب سے موثر طریقہ



کہانی سننا اور کہانی سنانا غالباﹰ تاریخ انسانی کا سب سے قدیم اور سب سے محبوب مشغلہ ہے. یہی وجہ ہے کہ افراد کی اکثریت کو اگر کوئی پیغام یا سوچ منتقل کرنی ہو تو کہانی سے موثر طریق دوسرا کوئی نہیں. شاعرانہ اسلوب گو کے پسند کیا جاتا ہے مگر اس سے پیغام اخذ کرنے والے بہت قلیل ہوتے ہیں. منطقی یا فلسفیانہ انداز کو تو اور بھی کم مخصوص طبیعتیں ہی سمجھ پاتی ہیں. غرض یہ کہ آپ کی اپنی طبیعت سے یہ حقیقت میل کھائے یا نہ کھائے، لیکن بھائی اگر عوام الناس میں تبدیلی لانی ہے تو پھر کہانی سنانی ہے.
 
 
.
====عظیم نامہ====

Sunday, 1 February 2015

توکل کیا ہے؟


توکل کیا ہے؟




توکل لفظ 'وکل' سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں خود کو سپرد کردینا یا مکمل بھروسہ کرنا. میری احقر رائے میں توکل کسی مولوی صاحب سے سیکھنے کے بجائے معصوم بچوں سے سیکھیں. مشاہدہ ہے کہ جب کسی بچے کو کوئی غیر انسان گود میں لینا چاہے تو وہ ڈر کر روتا ہے شور مچاتا ہے مگر جب اسی بچے کو اس کا باپ گود میں لے کر ہوا میں کئی فٹ اونچا اچھالتا ہے تو وہ ڈرنے کے بجاۓ خوشی سے قلقاریاں مارتا ہے اور اکثر دوبارہ اچھالنے کی فرمائش بھی کر ڈالتا ہے. وہ معصوم بچہ جانتا ہوتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے اسکا باپ اسے زمین پر گرنے نہ دے گا. اس بچہ کا یہ اعتماد اور بھروسہ دراصل اپنے باپ پر اس کا توکل ہے. 
.
کافی سال پہلے میں ایک بڑے اسٹور میں مینجر تھا. وہاں اکثر میرا مشاہدہ ہوتا کہ کوئی ماں اپنے بچے کی مسلسل شرارت سے تنگ آکر اسے ڈانٹ رہی ہوتی یا اس کی پٹائی کر رہی ہوتی اور وہ بچہ ماں سے دور بھاگنے کی بجائے اپنی ماں سے اور زیادہ لپٹ جاتا. اسے کامل یقین ہوتا کہ آس پاس کے مسکراتے چہرے غیر ہیں، اجنبی ہیں اور اس کی ماں غصہ ہونے کے باوجود اسکی اپنی ہے. اسے اعتماد ہوتا کہ اسی ماں کے پاس اسے پناہ ملے گی. بندے کا توکل یہ ہے کہ رب کی اجازت سے اس پر کتنی ہی سختیاں کیوں نہ آئیں ، وہ مسلسل اپنے رب کی جانب رجوع کرتا رہے کہ اسکی پناہ صرف اپنے خالق کے پاس ہے. 
.
بابا بلھے شاہ اپنے ایک پنجابی کلام میں توکل کو بیان کرتے ہیں، میں اس کا اردو مفہوم درج کر رہا ہوں
.
بلھے شاہ دیکھو ! آسمانوں میں اڑتے پنچھی 
دیکھو تو سہی وہ کیا کرتے ہیں ؟
.
نہ وہ کرتے ہیں رزق ذخیرہ 
نہ وہ بھوکے مرتے ہیں 
.
کبھی کسی نے یہ پرندے، بھوکے مرتے دیکھے ہیں ؟
بندے ہی کرتے ہیں رزق ذخیرہ اور بندے ہی بھوکے مرتے ہیں 
.
ترمزی شریف کی ایک روایت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ، رسول پاک صلی اللہ و الہے وسلم نے ایک بدو دیہاتی کو دیکھا کہ اس نے اپنے اونٹ کو کھونٹے سے نہیں باندھا اور کھلا چھوڑ دیا، آپ صلی اللہ و الہے وسلم نےدریافت کیا کہ کیوں نہیں باندھا ؟ بدو نے جواب دیا کہ میں اللہ پر توکل کرتا ہوں. آپ صلی اللہ و الہے وسلم نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلے اونٹ کو کھونٹے سے باندھو اور پھر الله پر توکل کرو. 
.
توکل سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اپنے حصہ کا کام نہ کیا جائے. جس طرح ایمان کے ساتھ عمل لازم ہے ، بلکل اسی طرح توکل کے ساتھ تدبیر ضروری ہے.
.
====عظیم نامہ=====