Thursday, 1 January 2015

عمرہ کا بلاوہ



عمرہ کا بلاوہ



اس بار جب پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو بیک وقت دو خواہشات نے دل میں جنم لیا. پہلی یہ کہ پچھلی بار کی طرح عمرہ کرتے ہوئے پاکستان جاؤں اور دوسری خواہش یہ کہ گیارہ سال بعد بقر عید اپنے گھر والوں کے ساتھ منا لوں. ظاہر ہے دونوں خواہشات ایک ساتھ پوری ہونا ناممکن تھا. بقرعید کے موقع پر چونکہ حج کا اہتمام ہوتا ہے لہٰذا عمرہ کا امکان ہی نہیں تھا. پھر مالی تنگی بھی کسی حد میں لاحق تھی. مجھے لامحالہ دو میں سے کسی ایک خواہش ہی کا انتخاب کرنا ضروری تھا. میں نے سوچ کر عمرہ کا انتخاب کیا اور ملازمت پر چھٹی کی درخوست دے دی. مینجر نے اس درخوست کو مسترد کردیا اور کہا کہ ستمبر یا اکتوبر میں ہی چھٹی مل سکے گی. بقر عید انہی مہینوں میں تھی. میں نے اسے غیبی اشارہ سمجھا اور منظور کرکے عید منانے پاکستان چلا آیا. دل میں لیکن ایک کسک سی باقی رہی کہ اللہ پاک ! عمرہ نہیں ہوسکا 
frown emoticon
 .. ابھی اسی سوچ میں دن گزار رہا تھا کہ ایک دن انگلینڈ میں گھر پر گھنٹی بجی اور ایک لفافے کی رجسٹرڈ ڈلیوری ہوئی. لفافہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ایک کمپنی جس کی سروس میں لیتا رہا تھا ، اس نے پورے برطانیہ میں ایک قرعہ اندازی کی ہے جس کے نتیجے میں میرا واحد نام نکلا ہے، لہٰذا مجھے عمرہ کا مفت ٹکٹ دیا جارہا ہے. 
.
الحمد اللہ ثم الحمد الله .. میرا رب پاک ہے، مسبب الاسباب ہے، قادر المطلق ہے، احکم الحاکمین ہے. میری کل شام عمرہ کے لئے روانگی ہے. میرے پروردگار نے مجھ سیاہ کار کو اپنے گھر بلایا ہے. آپ احباب سے انشااللہ دس گیارہ روز بعد ملاقات ہوگی. 
.
لبيك اللهم لبيك .. لبيك لا شريك لك لبيك .. إن الحمد والنعمة .. لك والملك .. لا شريك لك 



.
====عظیم نامہ====

Friday, 19 December 2014

تزکیہ قلب کیسے حاصل ہو؟

تزکیہ قلب کیسے حاصل ہو؟

 انسان کا قلب ایک آئینے کی مانند ہے جو اگر شفاف ہو تو اس میں تجلیات کا عکس نظر آنے لگتا ہے. چار امور ایسے ہیں جنہیں اپنا کر یہ عکس حاصل ہوجاتا ہے
.
١. پہلا ہے گناہوں کو ترک کی کوشش کرنا بلخصوص وہ گناہ جو جنسی شہوات یا منفی جذبات و خیالات سے متعلق ہوں
.
٢. دوسرا ہے استغفار کی کثرت ، یہ دل پر موجود گناہوں کی تاریکی کو مٹاتا ہے
.
٣. تیسرا ہے خاموشی اور تنہائی میں ذکر الٰہی یعنی تسبیحات میں مشغول رہنا ، یہ اس آئینے کو چمک فراہم کرتا ہے
.
٤. چوتھا ، آخری اور سب سے زیادہ ضروری امر ہے آیات قرانی، صحیفہ کائنات، موجودات، نفس انسانی اور واقعات و حالات پر قران حکیم کی روشنی میں مسلسل تدبر و تفکر کرنا. اس سے اس آئینے کو صحیح زاویہ اور رخ عطا ہوتا ہے
.


یہ دھیان رہے کہ مومن کی تمام کوشش و عبادات کا مقصد الله پاک کی قربت، خوشنودی اور عرفان ہوتا ہے. کسی کمتر درجے میں بھی آپ کا مقصد کشف و الہام نہیں ہونا چاہیئے. یہ اور بات ہے کہ ان چاروں امور کی بجا آوری سے اکثر روحانی وارداتوں کی کھڑکی کھل جاتی ہے. سچے خواب، ماوراء عقل واقعات، کشف، الہام، سکون و سرشاری، دل کی نرمی، آنسوؤں کا جاری ہونا، خود کو ہلکا پھلکا اڑتا محسوس کرنا، سینہ کشادہ محسوس ہونا، چیزیں زیادہ روشن نظر آنا، دعاؤں کی حیرت انگیز قبولیت وغیرہ اس مرحلے پر حاصل ہونے لگتے ہیں. یہی وہ موقع ہے جب شیطان دو دھاری تلوار سے حملہ اور ہوتا ہے.
.
١. پہلا وار یہ کہ اسکی جانب سے گناہ اور شہوات نفسانی کی تبلیغ و دعوت کئی گنا زیادہ کر دی جاتی ہے تاکہ کسی طرح سے سالک کو واپس دھکیلا جاسکے.
.
٢. دوسرا کاری وار یہ کہ وہ سالک کو خود پسندی میں مبتلا کردے یعنی یہ کہ تم کتنے نیک ہو، کتنے الله والے ہو گئے ہو، تم تو روحانیت رکھتے ہو وغیرہ.
.
اگر سالک اس دوسرے وار میں آجائے تو آھستہ آھستہ اس کا اعتبار اپنے ان نفسی تجربات پر اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ قران و شریعت کو ان تجربات کی عینک سے دیکھنے لگتا ہے. یہ بیماری بڑھتی چلی جائے تو انسان نبوت یا مہدیت کا دعویٰ کرنے سے بھی نہیں چوکتا. شیطان غیرمحسوس انداز میں اپنے شیطانی اعمال کو روحانیت کے دھوکے میں اس شخص پر مسلط کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ نہ صرف وہ شخص خود برباد ہوتا ہے بلکہ اپنے اردگرد معتقدین کا جھمگھٹ لگا کر انہیں بھی تباہ کردیتا ہے. اس سے بچنے کا واحد علاج یہ ہے کہ سالک سختی سے قران حکیم کو حق و باطل میں فرق کرنے والی کسوٹی بنائے رکھے. جو خواب، کشف، الہام وغیرہ قران و سنت سے متصادم نہ ہو اسے صرف اپنی ذات کے اعتبار سے قبول و رد کرے ، اسکا اطلاق کسی دوسرے پر نہ کرے اور اگر یہ تجربہ قران و سنت سے کسی بھی درجے میں ٹکراتا نظر آئے تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دے. الله سے مستقل توفیق مانگتا رہے اور یہ جانے کہ شیطان کا سب سے مہلک وار احساس پارسائی ہے..
.
ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے
.

====عظیم نامہ====

Thursday, 18 December 2014

تحریک طالبان پاکستان اور اسکول پر حملہ

 

 تحریک طالبان پاکستان اور اسکول پر حملہ




جنگ کی صورت میں بچوں کو نہ مارنا، بوڑھوں اور عورتوں پر ہاتھ نہ اٹھانا، پھل دار درخت بھی نہ کاٹنا، کوئی ہتھیار ڈال دے تو نہ مارنا، کوئی کلمہ پڑھ لے تو نہ مارنا، جانوروں پر ظلم نہ کرنا، کھیتیاں نہ اجاڑنا .. یہ سب کس دین کی تعلیمات ہیں ؟ وہ کون سا اسلام تھا ؟ یہ کون سا اسلام ہے ؟ ... تہمارا غصہ، تمہارا بدلہ ، یہ جو بھی ہے مگر خدا کے لئے یہ سب خدا کا نام لے کر تو نہ کرو ! اگر تم پر ظلم ہوا ہے تو کیا دین میں ظلم کا جواب ظلم ہے؟.. یہود و ہنود تو دشمن بن کر حملہ آور ہوتے ہیں .. ہم ا...نہیں کھل کر گالی دے لیتے ہیں مگر تم تو کلمہ گو ہو ، صوم و صلات اور شریعت کی باتیں کرتے ہو .. ہم تمھیں کیا کہیں ؟ .. مغربی پروپیگنڈا یا طاغوتی میڈیا سے تو ہم لڑ سکتے ہیں مگر تمہارا کیا کریں ؟ تمہارے عمل نے لوگوں کو دین سے جوڑنے کی بجائے اسلام سے متنفر کر دیا ہے. عام انسان کیلئے شریعت، خلافت، جہاد وغیرہ کی اصطلاحات خوف کی علامت بن گئے ہیں. جہاد کا نام سن کر ان کے سامنے کٹے ہوئے سر آجاتے ہیں، خلافت کا نام سن کر آج ان کی آنکھوں میں دور فاروقی رض کی علمی ترقی نہیں آتی بلکہ جدید علوم پر پابندیاں نظر آتی ہیں، شریعت سے انصاف کا تصور ذہن میں نہیں ابھرتا بلکہ کوڑے برستے نظر آتے ہیں. یہ کیسا دین کا مقدمہ ہے جو تم پیش کر رہے ہو؟ یہ اسلام دوستی نہیں .. اسلام دشمنی ہے. شیطان کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ برائی کو خوبصورت لبادہ پہنا کر پیش کرتا ہے. میں زیادہ نہیں جانتا مگر یہ وہ اسلام نہیں ہے ، قطعاً نہیں ہے جو رسول عربی صلی الله و الہے وسلم نے ہمیں دیا تھا.
.
زید حامد صاحب کو ہر ناکامی میں انڈیا اور اسرائیل کا ہاتھ نظر آتا ہے. مگر ہم جانتے ہیں کہ انکی یہ اپروچ درست نہیں. اسی طرح ان اسلام کا نام لینے والے قبائلی گروہوں کے جرائم کو ہم محض میڈیا پرپیگنڈا قرار دے کر چشم پوشی نہیں کر سکتے. ہم جانتے ہیں کہ میڈیا بکا ہوا ہے مگر ہمیں یہ بھی جاننا چاہیے کہ ان قبائلیوں کی سوچ تباہ کن ہے. میں کتنے ہی ٹی ٹی پی کے ہمدردوں سے بات کر چکا ہوں اور ہمیشہ انہیں متشدد تفسیریں کرتا ہوا پایا ہے. ابھی کجھ دنوں قبل فیس بک پر ایک ٹی ٹی پی کی ہمدرد خاتون مجهے دین کی روشنی میں سمجھا رہی تھیں کہ عمارتوں کو تباہ کرنا جس میں بے گناہ موجود ہوں پوری طرح جائز ہے. اسی سوچ کے علمبردار دوسرے گروہ جیسے انگلینڈ میں المہاجرون یا داعش وغیرہ سے گفتگو کریں، آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ سوچ صرف میڈیا پروپیگنڈہ هرگز نہیں ہے.
.
جیسے میں نے پہلے بھی لکھا کہ اسے ایک ظالم سے دوسرے ظالم کا بدلہ کہہ لیں مگر خدارا اسے اسلام کا نام دے کر رسوا نہ کریں. ڈرونز سے بےگناہوں کی ہلاکت ظلم ہے مگر اس کا اسلامی یا انسانی جواب اسکول کے بچوں کو مارنا نہیں ہو سکتا. یہ کیسی خلافت کی بات کرتے ہیں؟ جس میں نہ اقتصادی نظام کی کوئی ٹھوس صراحت پیش کی جاتی ہے اور نہ حکومتی ڈھانچے کا کوئی منشور رکھا جاتا ہے. کیا خلافت صرف داڑھی، برقعوں اور کوڑوں تک محدود ہے ؟ اگر یہ سچ نہیں ہے تو ان کا ڈاکیومینٹڈ منشور دکھایا جائے جس میں تعلیم، صحت، اقتصادیات وغیرہ کا بیان ہو. یہ محض جنگجو ہیں جنہیں کسی نہ کسی بہانے لڑنا ہے. سامنے روس امریکا ہوں یا مخالف قبائل .. نعرہ اسلام کا ہو یا قبائلی برتری کا .. کوئی فرق نہیں پڑتا
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 10 December 2014

چار غیبی محافظ



چار غیبی محافظ 


انسان کو جب کسی گناہ کا موقع میسر ہوتا ہے تو چار محافظ اسے روکنے کی سعی کرتے ہیں. اول 'عقل' چشم زدن میں یہ پیغام دیتی ہے کہ ایسا کرنا غلط یا گناہ ہے. دوئم 'حیا' اسے اپنے رب، ملائکہ اور افراد سے شرم دلاتی ہے. سوئم 'نفس لوامہ' اسے ایسا سوچنے پر ملامت کرتا ہے اور چہارم اس کا 'تقویٰ' بیچ میں رکاوٹ بنتا ہے. کوئی شخص جب ان چاروں محافظوں یا واعظوں کا رد کرتا ہے ، تب ہی گناہ کا ارتکاب کرپاتا ہے
.
====عظیم نامہ====


عورت طلاق کیوں نہیں دے سکتی اورحلالہ کیوں ؟

عورت طلاق کیوں نہیں دے سکتی اور عورت کو حلالہ کیوں کروانا ہوتا ہے ؟

.
اسے سمجھنے کے لئے سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اسلام میں 'خاندان' ایک نہایت اہم ادارہ ہے. ایسا ادارہ جہاں فرد کی تعمیر ہوتی ہے، جہاں نسل زندگی پاتی ہے، جہاں سے ایک تربیت یافتہ معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے. کسی بھی خاندان کی ابتدا ایک مرد اور عورت مل کر شروع کرتے ہیں. یہ رشتہ جو ان کے درمیان قائم ہوتا ہے اسے کامیاب بنانے کیلئے کچھ الہامی ہدایات دی گئی ہیں. جس طرح کسی ادارے کی کامیابی کیلئے لازم ہے کہ اسکا ایک سربراہ ہو ، اسی طرح خاندان کے ادارے کو کامیاب بنانے کیلئے شوہر کو سربراہ بنایا گیا ہے. اس سے ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ مرد عورت سے افضل ہے. دونوں کو برابر عزت و توقیر دی گئی ہے مگر مختلف صورتوں میں مختلف 'حفظ مراتب' کا خیال رکھا گیا ہے. لہٰذا ماں باپ کے درجات میں ماں کو تین گنا زیادہ درجہ حاصل ہے حالانکہ باپ مرد ہے اور ماں عورت. خاندان کے ادارے کی صورت میں شوہر کو مراتب میں سربراہ بنایا گیا ہے. یعنی کسی صورت میں ایک کی دوسرے پر برتری جنس کے حوالے سے نہیں بلکہ رشتہ کے مراتب کی بنیاد پر ہے.ہمسفر، شریک حیات، جیون ساتھی، لباس ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مراتب میں فرق نہیں ہوسکتا. سفر میں بھی نظم قائم رکھنے کیلئے ایک کو 'امیر' بنایا جاتا ہے. اس مراتب کے فرق کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دونوں انسانوں میں دوستی کا رشتہ نہیں ہوگا. یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ماں اپنی بیٹی کی بہت اچھی دوست ہوسکتی ہے مگر مراتب کا فرق پھر بھی برقرار ہوگا. جب یہ بات سمجھ آگئی تو ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ادارے میں شمولیت ادارے کے سربراہ اور ادارے کے رکن دونوں کی باہمی رضامندی سے ہوا کرتی ہے. لیکن جب برطرفی کا معاملہ ہو تو سربراہ آپ کو براہ راست برطرف کر سکتا ہے اور رکن درخوست کے ذریعے علیحدگی اختیار کرسکتا ہے. آسان لفظوں میں ایک 'ڈس مس' کر سکتا ہے اور دوسرا 'ریزائن '. یہی معاملہ طلاق کا ہے ، ایک براہ راست طلاق دے کر رشتہ ختم کرسکتا ہے جبکہ دوسرا درخواست یعنی خلع کے ذریعے علیحدہ ہوسکتا ہے.
.
طلاق تین مختلف اوقات پر دی جاتی ہے ، اور ہر طلاق کے بعد ایک مدت مقرر ہے جس میں دونوں فریق سوچ سمجھ کر ترک یا رجوع کا رستہ اپنا سکتے ہیں. اب اگر ایک شوہر گھر کا سربراہ تو بن گیا مگر خدا کی جانب سے دی گئی اس ذمہ داری کو اس نے مذاق بنا لیا. اس نے ایک بار طلاق دی پھر رجوع کر لیا ، دوسری بار دی پھر رجوع کرلیا لیکن اس کے بعد پھر تیسری بار طلاق دے بیٹھا. اب ظاہر ہے کہ ایسے شخص نے اس انتہائی نازک معاملے کو تماشہ بنا لیا ہے. ایسی صورت میں اب وہ رجوع کا اختیار کھو بیٹھا. اس عورت کو اب اجازت ہے کہ وہ اپنی زندگی کسی دوسرے مرد سے منسوب کر کے نکاح کرلے. یہ دوسرا نکاح عارضی نہیں ہوسکتا ، حلالہ کے نام پر آپ عارضی نکاح نہیں کرسکتے. اس طرح کے حلالہ پر رسول پاک صلی اللہ و الہے وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور کرائے کے سانڈ جیسے سخت الفاظ سے تعبیر کیا ہے. یہ دوسرے شخص سے نکاح اس نیت سے ہی کیا جائے گا کہ ایک نیا کامیاب خاندانی ادارہ قائم ہو. لیکن خدا نہ کرے اگر اس بار بھی کوئی بات بگڑگئی اور طلاق واقع ہوگئی تو اب عورت آزاد ہے کہ وہ کسی تیسرے شخص یا اسی پہلے شوہر سے واپس نکاح کرلے.
.
یہ امر بھی غور طلب ہے کہ نکاح نامہ میں ایسی شقیں موجود ہیں جس میں خاتون طلاق کے متعلق اپنی شرائط رکھ سکتی ہیں لیکن اکثر اسے بتایا نہیں جاتا بلکہ اس حصہ پر کاٹی لگادی جاتی ہے. اسی طرح اگر کوئی شرعی قدغن نہ ہو تو نئی شرائط کو بھی اہل علم کے ذریعے متعین کیا جاسکتا ہے. اس کی مثال بھی ایسی ہی ہے جیسے ایک ادارے کا سربراہ اور رکن معائدے کے آغاز ہی میں عموم سے ہٹ کر کچھ اضافی شرائط طے کرلیں. اللہ و عالم بلصواب
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: یہ میری ناقص سمجھ ہے، جس میں غلطی کا احتمال ہے. لہٰذا اس سے کوئی حکم اخذ نہ کیا جائے بلکہ اسے ایک طالبعلم کی سعی سمجھا جائے)
Like ·  · 

Tuesday, 28 October 2014

اردو بازار

 

اردو بازار

 
پاکستان جانے کی ایک بڑی کشش میرے لئے یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں سے میں اپنی من پسند کتابوں کی خریداری کرتا ہوں جو اکثر بلواسطہ یا بلاواسطہ دین سے متعلق ہوتی ہیں. اس بار بھی ایک لمبی فہرست لے کر اردو بازار کراچی جا پہنچا. جن کتابوں کو خریدنے کا متمنی تھا ، ان میں ایسی تصنیفات شامل تھیں جو آسانی سے کسی دکان پر میسر نہیں تھیں. ایک بڑی دکان پر یہ طے پایا کہ مالک دکان اپنے ملازمین کے ذریعے ان کتابوں کو پورے اردو بازار میں تلاش کروائے گا اور پھر میں اسے کچھ زیادہ دام دے کر خرید سکوں گا.... ایک ایک کر کہ کتابیں ملتی گئیں، یہ کتابیں ضحیم اور نادر ہونے کہ باوجود بھی نہایت مناسب قیمت میں مجھے حاصل ہو گئیں. اسی اثناء میں میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص آیا اور اس نے کسی کتاب کا دکان مالک سے تقاضہ کیا. وہ ایک بہت چھوٹا سا کتابچہ تھا، اس غریب آدمی نے قیمت پوچھی تو دکاندار نے کہا ٨٠٠ روپے !! .. میں چونکا کہ مجھے تو ہزاروں صفحات کی نادر کتاب بھی ٦٠٠ روپے تک میں حاصل ہو رہی ہے تو پھر اس چند صفحات کے کتابچے میں ایسا کیا ہے جو یہ ٨٠٠ روپے کا ہے ؟ غریب گاہک نے تقاضہ کیا کہ بھائی سات سو میں یہ کتابچہ دے دو، مگر مالک دکان نے جھڑک کر کہا کہ ایک پیسہ بھی کم نہ ہو گا ! لینا ہے تو لو ورنہ نکلو. اس میلے کچیلے لباس والے نے ٨٠٠ روپے جیب سے نکالے اور جھپٹ کر وہ کتابچہ لے لیا
 
.
میں حیرت سے یہ ماجرا دیکھتا رہا، اس کے جاتے ہی میں نے دکان مالک سے پوچھا کہ بھائی یہ کیسی کتاب تھی جس کی اتنی اہمیت ہے ؟ .. دکاندار نے نرم لہجے میں کہا ، سر آپ اسے چھوڑ دیں. میں نے مسلسل اصرار کیا تو اس نے مجبور ہوکر بتایا کہ یہ ہندووں کے سفلی عملیات کی ایک تصنیف تھی جس کے منہ مانگے دام مل جاتے ہیں. اس نے مزید بتایا کہ اس طرح کی اور بھی کئی کتابیں ہیں اور سب سے زیادہ اردو بازار میں یہی بکتی ہیں. میری موجودگی میں ہی کتابیں سپلائی کرنے والا ایک شخص وہاں آیا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ان اسلامی یا علمی کتب کے بیچ میں کتنے ہی ایسے چھوٹے چھوٹے عملیات کے کتابچے رکھے ہوئے تھے، جنہیں دکاندار نے فوری خرید لیا. میں افسردہ دل سے وہاں کھڑا رہ گیا ، آج میرا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا تھا کہ ان کتابوں سے سجی دکانوں کی رونق صرف علم دوست اشخاص سے ہے. یہاں تو علم کے عین درمیان میں جہل بک رہا تھا ، یہاں تو دین کی صدا لگا کر کفر کا بازار گرم تھا. میں نے اپنی خریدی ہوئی کتابوں کی قیمت ادا کی اور بوجھل قدموں سے گھر کی راہ لی
.
====عظیم نامہ====

شیطان کا سب سے کاری وار کون سا ہے؟

 

شیطان کا سب سے کاری وار

 
شیطان بڑا کایاں ہے. یہ بڑے صبر ،عقل اور تدریج سے اپنے شکار پر وار کرتا ہے. یہ کسی دینی رجحان والے حضرت کو یہ نہیں کہتا کہ جاکر جوا کھیلو یا شراب پیؤ. وہ واقف ہے کہ ایسا وسوسہ ڈالنے سے یہاں کام نہیں بنے گا. وہ اب اپنی پالیسی بدل کر اس دینی شخص کو یہ سمجھاتا ہے کہ واہ بھائی تم تو بڑے نیک ہو، الله والے ہو. وہ پیٹھ تھپتھپا کر سرگوشی کرتا ہے کہ دیکھو کتنے لوگ تمھاری علمیت کے مداح ہیں. آھستہ آھستہ وہ اپنے شکار کے نفس کو قائل کرتا ہے کہ اس کے نام کے ساتھ لوگ بہت سے ستائشی القابات جوڑ دیں جیسے پیران پیر یا مجدد العصر وغیرہ ، اس کے ہاتھوں کو چومیں اور ٹانگوں کو دبائیں. اس کے ایک اشارے پر خدمت گزار حاضر ہوں. وہ اس دھوکے میں یہ بلکل بھول جاتا ہے کہ کسی صحابی نے یہ خدمت کروانے والا طریق نہیں اپنایا تھا اور رسول صلی اللہ و الہے وسلم اپنے معمولی کام بھی اپنے ہاتھ سے انجام دینا پسند کرتے تھے.
.

اسی طرح وہ دینی لوگ جو نفسی تجربات سے روشناس ہوتے ہیں. انہیں بھی شیطان ایک نئے ڈھب سے پھانستا ہے. وہ پہلے سامنے نیک اور سچا بن کر اپنے شکار کا بھروسہ جیتتا ہے اور پھر خود فریبی کی دلدل میں اسے دفن کردیتا ہے. یہ یاد رکھیں کہ اس غیبی دنیا میں بہت سے درجات ہیں اور اس میں داخلہ ہر مسلم، ہندو، سکھ عیسائی کر سکتا ہے مگر ہر ایک کی استعداد مختلف ہوتی ہے. میرا اپنا ایک عیسائی دوست جس کے سچ بولنے پر مجھے اطمینان ہے .. اسکے بقول وہ خدا کی آواز سنتا ہے اور مجھے بھی وہ میری اپنی ایسی ذاتی باتیں بتا چکا ہے جو اس کے علم میں نہیں ہو سکتی تھیں. اس نفسی عالم میں خیر اور شر یعنی ملائک اور شیاطین دونوں کام کر رہے ہیں. ہوتا کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ ایک شخص مختلف 'نفسی' وارداتوں سے گزرتا ہے جسے اکثر روحانی تجربہ کہہ دیا جاتا ہے. سچے خواب دیکھتا ہے یا عجیب واقعات سے گزرتا ہے جو اسے مدد کرتے ہیں. رفتہ رفتہ اس شخص کا اعتبار ان تجربات یا وارداتوں پر محکم ہوجاتا ہے. وہ شخص اب یہ ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ اپنے اس تجربہ کو قران و سنت کی کسوٹی پر پرکھ لے. بھروسہ جیتنے کے بعد یہی وہ نقطہ آغاز ہے جہاں شیطان اپنی اصل کاروائی کرتا ہے. اب انہی خوابوں یا تجربات کے ذریعے وہ نہایت خوش نمائی سے اسے شرک، بدعت ، کفر کی جانب لیتا جاتا ہے. غلام احمد قادیانی ہو یا بہاالدین بہائی یہ سب شیطان کی اسی چال کا شکار ہوکر جھوٹی نبوت کے دعویدار بنے. کتنوں نے خدائی اور کتنوں نے امام مہدی ہونے کا دعوا کیا. ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ سالک اپنے ہر نفسی یا روحانی تجربہ کو چاہے وہ کتنا ہی واضح کیوں نہ ہو ، قران و سنت کی کسوٹی پر جانچے اور اگر وہ اس سے کسی درجے میں متصادم ہو تو ایسے تجربہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے.
.

میں نے کتنے ہی دینی رہنما ایسے دیکھے ہیں جو خود کو بہت اونچا زاہد و عابد سمجھتے ہیں، میں نے کتنے ہی ایسے روشن خیال مفکرین دیکھے ہیں جو قران حکیم پر اپنی علمیت کے حوالے سے مغرور ہیں، میں نے کتنے ہی ایسے پیر درویش دیکھے ہیں جو اپنی روحانیت پر نازاں ہیں. یاد رکھیں، شیطان کا سب سے مہلک وار .. احساس پارسائی ہے.
.
====عظیم نامہ====