Wednesday, 10 December 2014

عورت طلاق کیوں نہیں دے سکتی اورحلالہ کیوں ؟

عورت طلاق کیوں نہیں دے سکتی اور عورت کو حلالہ کیوں کروانا ہوتا ہے ؟

.
اسے سمجھنے کے لئے سب سے پہلے یہ جان لیں کہ اسلام میں 'خاندان' ایک نہایت اہم ادارہ ہے. ایسا ادارہ جہاں فرد کی تعمیر ہوتی ہے، جہاں نسل زندگی پاتی ہے، جہاں سے ایک تربیت یافتہ معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے. کسی بھی خاندان کی ابتدا ایک مرد اور عورت مل کر شروع کرتے ہیں. یہ رشتہ جو ان کے درمیان قائم ہوتا ہے اسے کامیاب بنانے کیلئے کچھ الہامی ہدایات دی گئی ہیں. جس طرح کسی ادارے کی کامیابی کیلئے لازم ہے کہ اسکا ایک سربراہ ہو ، اسی طرح خاندان کے ادارے کو کامیاب بنانے کیلئے شوہر کو سربراہ بنایا گیا ہے. اس سے ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ مرد عورت سے افضل ہے. دونوں کو برابر عزت و توقیر دی گئی ہے مگر مختلف صورتوں میں مختلف 'حفظ مراتب' کا خیال رکھا گیا ہے. لہٰذا ماں باپ کے درجات میں ماں کو تین گنا زیادہ درجہ حاصل ہے حالانکہ باپ مرد ہے اور ماں عورت. خاندان کے ادارے کی صورت میں شوہر کو مراتب میں سربراہ بنایا گیا ہے. یعنی کسی صورت میں ایک کی دوسرے پر برتری جنس کے حوالے سے نہیں بلکہ رشتہ کے مراتب کی بنیاد پر ہے.ہمسفر، شریک حیات، جیون ساتھی، لباس ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مراتب میں فرق نہیں ہوسکتا. سفر میں بھی نظم قائم رکھنے کیلئے ایک کو 'امیر' بنایا جاتا ہے. اس مراتب کے فرق کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دونوں انسانوں میں دوستی کا رشتہ نہیں ہوگا. یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ماں اپنی بیٹی کی بہت اچھی دوست ہوسکتی ہے مگر مراتب کا فرق پھر بھی برقرار ہوگا. جب یہ بات سمجھ آگئی تو ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ادارے میں شمولیت ادارے کے سربراہ اور ادارے کے رکن دونوں کی باہمی رضامندی سے ہوا کرتی ہے. لیکن جب برطرفی کا معاملہ ہو تو سربراہ آپ کو براہ راست برطرف کر سکتا ہے اور رکن درخوست کے ذریعے علیحدگی اختیار کرسکتا ہے. آسان لفظوں میں ایک 'ڈس مس' کر سکتا ہے اور دوسرا 'ریزائن '. یہی معاملہ طلاق کا ہے ، ایک براہ راست طلاق دے کر رشتہ ختم کرسکتا ہے جبکہ دوسرا درخواست یعنی خلع کے ذریعے علیحدہ ہوسکتا ہے.
.
طلاق تین مختلف اوقات پر دی جاتی ہے ، اور ہر طلاق کے بعد ایک مدت مقرر ہے جس میں دونوں فریق سوچ سمجھ کر ترک یا رجوع کا رستہ اپنا سکتے ہیں. اب اگر ایک شوہر گھر کا سربراہ تو بن گیا مگر خدا کی جانب سے دی گئی اس ذمہ داری کو اس نے مذاق بنا لیا. اس نے ایک بار طلاق دی پھر رجوع کر لیا ، دوسری بار دی پھر رجوع کرلیا لیکن اس کے بعد پھر تیسری بار طلاق دے بیٹھا. اب ظاہر ہے کہ ایسے شخص نے اس انتہائی نازک معاملے کو تماشہ بنا لیا ہے. ایسی صورت میں اب وہ رجوع کا اختیار کھو بیٹھا. اس عورت کو اب اجازت ہے کہ وہ اپنی زندگی کسی دوسرے مرد سے منسوب کر کے نکاح کرلے. یہ دوسرا نکاح عارضی نہیں ہوسکتا ، حلالہ کے نام پر آپ عارضی نکاح نہیں کرسکتے. اس طرح کے حلالہ پر رسول پاک صلی اللہ و الہے وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور کرائے کے سانڈ جیسے سخت الفاظ سے تعبیر کیا ہے. یہ دوسرے شخص سے نکاح اس نیت سے ہی کیا جائے گا کہ ایک نیا کامیاب خاندانی ادارہ قائم ہو. لیکن خدا نہ کرے اگر اس بار بھی کوئی بات بگڑگئی اور طلاق واقع ہوگئی تو اب عورت آزاد ہے کہ وہ کسی تیسرے شخص یا اسی پہلے شوہر سے واپس نکاح کرلے.
.
یہ امر بھی غور طلب ہے کہ نکاح نامہ میں ایسی شقیں موجود ہیں جس میں خاتون طلاق کے متعلق اپنی شرائط رکھ سکتی ہیں لیکن اکثر اسے بتایا نہیں جاتا بلکہ اس حصہ پر کاٹی لگادی جاتی ہے. اسی طرح اگر کوئی شرعی قدغن نہ ہو تو نئی شرائط کو بھی اہل علم کے ذریعے متعین کیا جاسکتا ہے. اس کی مثال بھی ایسی ہی ہے جیسے ایک ادارے کا سربراہ اور رکن معائدے کے آغاز ہی میں عموم سے ہٹ کر کچھ اضافی شرائط طے کرلیں. اللہ و عالم بلصواب
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: یہ میری ناقص سمجھ ہے، جس میں غلطی کا احتمال ہے. لہٰذا اس سے کوئی حکم اخذ نہ کیا جائے بلکہ اسے ایک طالبعلم کی سعی سمجھا جائے)
Like ·  · 

Tuesday, 28 October 2014

اردو بازار

 

اردو بازار

 
پاکستان جانے کی ایک بڑی کشش میرے لئے یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں سے میں اپنی من پسند کتابوں کی خریداری کرتا ہوں جو اکثر بلواسطہ یا بلاواسطہ دین سے متعلق ہوتی ہیں. اس بار بھی ایک لمبی فہرست لے کر اردو بازار کراچی جا پہنچا. جن کتابوں کو خریدنے کا متمنی تھا ، ان میں ایسی تصنیفات شامل تھیں جو آسانی سے کسی دکان پر میسر نہیں تھیں. ایک بڑی دکان پر یہ طے پایا کہ مالک دکان اپنے ملازمین کے ذریعے ان کتابوں کو پورے اردو بازار میں تلاش کروائے گا اور پھر میں اسے کچھ زیادہ دام دے کر خرید سکوں گا.... ایک ایک کر کہ کتابیں ملتی گئیں، یہ کتابیں ضحیم اور نادر ہونے کہ باوجود بھی نہایت مناسب قیمت میں مجھے حاصل ہو گئیں. اسی اثناء میں میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص آیا اور اس نے کسی کتاب کا دکان مالک سے تقاضہ کیا. وہ ایک بہت چھوٹا سا کتابچہ تھا، اس غریب آدمی نے قیمت پوچھی تو دکاندار نے کہا ٨٠٠ روپے !! .. میں چونکا کہ مجھے تو ہزاروں صفحات کی نادر کتاب بھی ٦٠٠ روپے تک میں حاصل ہو رہی ہے تو پھر اس چند صفحات کے کتابچے میں ایسا کیا ہے جو یہ ٨٠٠ روپے کا ہے ؟ غریب گاہک نے تقاضہ کیا کہ بھائی سات سو میں یہ کتابچہ دے دو، مگر مالک دکان نے جھڑک کر کہا کہ ایک پیسہ بھی کم نہ ہو گا ! لینا ہے تو لو ورنہ نکلو. اس میلے کچیلے لباس والے نے ٨٠٠ روپے جیب سے نکالے اور جھپٹ کر وہ کتابچہ لے لیا
 
.
میں حیرت سے یہ ماجرا دیکھتا رہا، اس کے جاتے ہی میں نے دکان مالک سے پوچھا کہ بھائی یہ کیسی کتاب تھی جس کی اتنی اہمیت ہے ؟ .. دکاندار نے نرم لہجے میں کہا ، سر آپ اسے چھوڑ دیں. میں نے مسلسل اصرار کیا تو اس نے مجبور ہوکر بتایا کہ یہ ہندووں کے سفلی عملیات کی ایک تصنیف تھی جس کے منہ مانگے دام مل جاتے ہیں. اس نے مزید بتایا کہ اس طرح کی اور بھی کئی کتابیں ہیں اور سب سے زیادہ اردو بازار میں یہی بکتی ہیں. میری موجودگی میں ہی کتابیں سپلائی کرنے والا ایک شخص وہاں آیا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ان اسلامی یا علمی کتب کے بیچ میں کتنے ہی ایسے چھوٹے چھوٹے عملیات کے کتابچے رکھے ہوئے تھے، جنہیں دکاندار نے فوری خرید لیا. میں افسردہ دل سے وہاں کھڑا رہ گیا ، آج میرا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا تھا کہ ان کتابوں سے سجی دکانوں کی رونق صرف علم دوست اشخاص سے ہے. یہاں تو علم کے عین درمیان میں جہل بک رہا تھا ، یہاں تو دین کی صدا لگا کر کفر کا بازار گرم تھا. میں نے اپنی خریدی ہوئی کتابوں کی قیمت ادا کی اور بوجھل قدموں سے گھر کی راہ لی
.
====عظیم نامہ====

شیطان کا سب سے کاری وار کون سا ہے؟

 

شیطان کا سب سے کاری وار

 
شیطان بڑا کایاں ہے. یہ بڑے صبر ،عقل اور تدریج سے اپنے شکار پر وار کرتا ہے. یہ کسی دینی رجحان والے حضرت کو یہ نہیں کہتا کہ جاکر جوا کھیلو یا شراب پیؤ. وہ واقف ہے کہ ایسا وسوسہ ڈالنے سے یہاں کام نہیں بنے گا. وہ اب اپنی پالیسی بدل کر اس دینی شخص کو یہ سمجھاتا ہے کہ واہ بھائی تم تو بڑے نیک ہو، الله والے ہو. وہ پیٹھ تھپتھپا کر سرگوشی کرتا ہے کہ دیکھو کتنے لوگ تمھاری علمیت کے مداح ہیں. آھستہ آھستہ وہ اپنے شکار کے نفس کو قائل کرتا ہے کہ اس کے نام کے ساتھ لوگ بہت سے ستائشی القابات جوڑ دیں جیسے پیران پیر یا مجدد العصر وغیرہ ، اس کے ہاتھوں کو چومیں اور ٹانگوں کو دبائیں. اس کے ایک اشارے پر خدمت گزار حاضر ہوں. وہ اس دھوکے میں یہ بلکل بھول جاتا ہے کہ کسی صحابی نے یہ خدمت کروانے والا طریق نہیں اپنایا تھا اور رسول صلی اللہ و الہے وسلم اپنے معمولی کام بھی اپنے ہاتھ سے انجام دینا پسند کرتے تھے.
.

اسی طرح وہ دینی لوگ جو نفسی تجربات سے روشناس ہوتے ہیں. انہیں بھی شیطان ایک نئے ڈھب سے پھانستا ہے. وہ پہلے سامنے نیک اور سچا بن کر اپنے شکار کا بھروسہ جیتتا ہے اور پھر خود فریبی کی دلدل میں اسے دفن کردیتا ہے. یہ یاد رکھیں کہ اس غیبی دنیا میں بہت سے درجات ہیں اور اس میں داخلہ ہر مسلم، ہندو، سکھ عیسائی کر سکتا ہے مگر ہر ایک کی استعداد مختلف ہوتی ہے. میرا اپنا ایک عیسائی دوست جس کے سچ بولنے پر مجھے اطمینان ہے .. اسکے بقول وہ خدا کی آواز سنتا ہے اور مجھے بھی وہ میری اپنی ایسی ذاتی باتیں بتا چکا ہے جو اس کے علم میں نہیں ہو سکتی تھیں. اس نفسی عالم میں خیر اور شر یعنی ملائک اور شیاطین دونوں کام کر رہے ہیں. ہوتا کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ ایک شخص مختلف 'نفسی' وارداتوں سے گزرتا ہے جسے اکثر روحانی تجربہ کہہ دیا جاتا ہے. سچے خواب دیکھتا ہے یا عجیب واقعات سے گزرتا ہے جو اسے مدد کرتے ہیں. رفتہ رفتہ اس شخص کا اعتبار ان تجربات یا وارداتوں پر محکم ہوجاتا ہے. وہ شخص اب یہ ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ اپنے اس تجربہ کو قران و سنت کی کسوٹی پر پرکھ لے. بھروسہ جیتنے کے بعد یہی وہ نقطہ آغاز ہے جہاں شیطان اپنی اصل کاروائی کرتا ہے. اب انہی خوابوں یا تجربات کے ذریعے وہ نہایت خوش نمائی سے اسے شرک، بدعت ، کفر کی جانب لیتا جاتا ہے. غلام احمد قادیانی ہو یا بہاالدین بہائی یہ سب شیطان کی اسی چال کا شکار ہوکر جھوٹی نبوت کے دعویدار بنے. کتنوں نے خدائی اور کتنوں نے امام مہدی ہونے کا دعوا کیا. ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ سالک اپنے ہر نفسی یا روحانی تجربہ کو چاہے وہ کتنا ہی واضح کیوں نہ ہو ، قران و سنت کی کسوٹی پر جانچے اور اگر وہ اس سے کسی درجے میں متصادم ہو تو ایسے تجربہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے.
.

میں نے کتنے ہی دینی رہنما ایسے دیکھے ہیں جو خود کو بہت اونچا زاہد و عابد سمجھتے ہیں، میں نے کتنے ہی ایسے روشن خیال مفکرین دیکھے ہیں جو قران حکیم پر اپنی علمیت کے حوالے سے مغرور ہیں، میں نے کتنے ہی ایسے پیر درویش دیکھے ہیں جو اپنی روحانیت پر نازاں ہیں. یاد رکھیں، شیطان کا سب سے مہلک وار .. احساس پارسائی ہے.
.
====عظیم نامہ====

Friday, 26 September 2014

بدگمانی سے پرہیز کتنا ضروری ہے؟

 

بدگمانی سے پرہیز کتنا ضروری ہے؟

 
 
 
دو سال قبل جب میں نے ایک کمپنی میں ملازمت کی تو وہاں کم و بیش سب ہی خوش مزاج لوگ تھے. مگر ایک انگریز نوجوان ایسا بھی تھا جو اکثر میری بات کا جواب نہیں دیتا، میں اسے آواز دیتا تو بعض اوقات وہ میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا اور کبھی میں مذاق کرتا تو مسکراتا تک نہیں. میرے دل میں یہ بات آگئی کہ کیسا بدمزاج آدمی ہے ، شائد اپنی گوری چمڑی پر نازاں ہے ..... یہاں تک کہ ایک سال یوں ہی گزر گیا ، پھر ایک روز اس نے کسی بات کے دوران مجھے بتایا کہ وہ سماعت سے جزوی طور پر محروم ہے ، اسلئے اکثر لوگوں کی باتیں سن نہیں پاتا. مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا کہ میں کیسے اس سے اتنا عرصہ بدگمان رہا !
.
میرے گھر سے قریبی علاقے میں ایک شخص مجھے اکثر نظر آتا ، وہ ڈبل روٹی یا چپس کھاتا تو کافی سارا کونے میں پھینک دیتا. میں سوچنے لگا کہ کیسا ناشکرا ہے، رزق کی بے حرمتی کرتا ہے، اسے ضائع کردیتا ہے ، اگر نہیں کھانا ہوتا تو تھوڑا لیا کرے. یہی سوچتے ایک روز اس سے آنکھیں چار ہوئی تو اس نے مسکرا کر چمکتی آنکھوں کے ساتھ کہا کہ 'بھائی یہ دیکھو ، یہ میں کیڑوں کو کھانا ڈالتا ہوں ، الله انہیں کیسے رزق دیتا ہے' .. میں ٹھٹھک کر رک گیا ، میں جسے ناشکرا سمجھتا تھا، وہ تو الله کی ناتواں مخلوق کو رزق دینے کا ذریعہ بنا ہوا تھا. ندامت سے میرا سر جھک گیا.
.
یہاں انگلینڈ میں رواج ہے کہ ہمارے دیسی لوگ اپنا نام بدل کر انگریزو جیسا بنا لیتے ہیں. جیسے جمشید بدل کر 'جم' بن جاتا ہے یا تیمور بدل کر ' ٹم ' رہ جاتا ہے وغیرہ .. ایک روز اپنے دوستوں سے ملنے ایک دوسرے علاقے گیا تو وہاں دیکھا کہ سب گورے میرے ایک دوست محمد کو 'مو' کہہ کر بلا رہے ہیں. مجھے شدید تکلیف ہوئی کہ کائنات کے حسین ترین نام کو بدل کر کیسا کرڈالا ؟ صرف اسلئے کہ گوروں سے مناسبت ہو جائے؟ .. اسی خیال کو دل میں دبائے رکھا لیکن کہا نہیں. واپس گھر آگیا. کچھ عرصہ بعد پھر ملاقات ہوئی اسی دوست سے، اس بار نہیں رہا گیا. میں نے کہا محمد تمہارا نام تو سب سے بلند ہے اور تم نے اسے بدل کر 'مو' کر دیا ، ایسا نہ کرو ! ... میری بات سن کر اس نے جواب دیا کہ 'عظیم بھائی ، میں نے ایسا جان کر کیا ہے، جب کام پر ہوتا ہوں تو یہ لوگ غصہ یا مذاق میں مجھے گالیاں دیتے ہیں، میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے نبی کے نام کے ساتھ کوئی نازیبا کلمہ یہ کہیں، لہٰذا میں نے اپنا نام 'مو' لکھوا دیا تاکہ یہ 'مو' کو گالی دیں ، 'محمد' کو نہیں ! ...... یہ سن کر میری حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں ، میں دہل گیا کہ اگر آج میری ملاقات نہ ہوتی اور میں اس سے یہ نہ پوچھتا تو ساری زندگی میں اپنے اس بھائی کے بارے میں بدگمانی سینے میں دبائے رکھتا. وہ حرکت جسکا کرنا مجھے گستاخی لگتا تھا ، وہ تو حب رسول کا اعلی نمونہ تھی.
.
میں اب جان گیا ہوں، میں اب سمجھ گیا ہوں کہ میری یہ آنکھ مجھے جو بھی دکھائے ، میں کسی کے بارے میں بدگمانی نہیں رکھوں گا ! میرے رب نے اپنی کتاب میں سچ کہا ہے کہ
.
سورہ الحجرات ١٢
''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، گمانوں سے بہت اجتناب کیا کرو، کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں؛ اور ٹوہ میں نہ لگو
  
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 17 September 2014

ہمارے اس دور میں اہل علم کیوں موجود نہیں ؟

ہمارے اس دور میں اہل علم کیوں موجود نہیں ؟



انسان کی ناقدری کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے گزرے ہوئے سلف کو تو بڑھا چڑھا کر یاد رکھتا ہے مگر اپنے زمانہ موجود میں اہل علم کی قدر نہیں کرتا. میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں
.
ڈاکٹر اسرار احمد جیسے مفکر کو پایا
جاوید احمد غامدی جیسے محقق کو پایا

احمد جاوید جیسے صوفی کو پایا 
پروفیسر احمد رفیق جیسے استاد کو پایا
اشفاق احمد جیسے مصنف کو پایا
مولانا طارق جمیل جیسے مبلغ کو پایا
ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے داعی کو پایا
مولانا وحید الدین خان جیسے ناصح کو پایا
.

یہ اور بہت سے دیگر اہل علم ہمارے اسی دور میں اور ہماری زندگی میں وارد ہوئے ہیں کہ جنکے علمی کام کو زمانوں یاد رکھا جائے گا. بدنصیب ہے وہ شخص جو کسی اختلاف یا تفرقہ کی بناء پر ان اشخاص کی قابلیت سے استفادہ حاصل نہ کرے. اس فہرست میں اور بھی کئی نام شامل کئے جاسکتے ہیں، مگر یہ وہ چند استاد الاساتذہ ہیں جن کی دانش سے میں مستفید ہوا ہوں
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 10 September 2014

سبق آموز لطائف

 

سبق آموز لطائف

 
 
ایک صاحب فٹ پاتھ پر سکون سے چلے جارہے تھے کہ اچانک ایک گاڑی تیزی سے فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور صاحب کو ٹکر مار دی. ابھی وہ صاحب زمین سے اٹھے بھی نہ تھے کہ گاڑی کا دروازہ کھلا اور ایک خاتون آگ بگولہ ہوئی باہر نکلیں اور بولی "اندھے ہو گئے ہیں سب کے سب ! صبح سے یہ ساتواں آدمی ہے جو میری گاڑی سے آکر ٹکرایا ہے"
.
میرے لئے یہ محض لطیفہ نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی حقیقت کا بیان ہے. ہمارے ارد گرد ایسے بیشمار لوگ ہوتے ہیں جو کسی حال اپنی غلطی ماننے کو رضامند نہیں ہوتے ، لوگ بار بار انکی کسی... اخلاقی کمی کی جانب اشارہ کرتے ہیں مگر وہ بجائے اپنی اصلاح کرنے کے ، اسی گردان میں مشغول رہتے ہیں کہ میرا کوئی قصور نہیں باقی سب برے ہیں. یہاں فیس بک پر بھی معاملہ مختلف نہیں، آپ کو ایسے احباب بآسانی میسر آجائیں گے جنہیں ہر دوسرے تیسرے ہفتے یہ شکایت ہوتی ہے کہ فلاں نے مجھے بلاک کردیا جبکہ میری کوئی بھی غلطی نہ تھی. وہ اس بات پر نظرثانی کرنے کو قطعاً تیار نہیں ہوتے کہ ان کا لہجہ یا الفاظ کا غلط انتخاب اسکی وجہ ہوسکتا ہے. پھر اس پر طرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اسے حق گوئی سے تعبیر کرنے لگتے ہیں. یہ ان حضرات کا پسندیدہ جملہ ہوتا ہے کہ 'سچ کڑوا ہوتا ہے' .. کاش کے انہیں کوئی سمجھائے کہ کڑوا اکثر سچ نہیں ہوتا ، بلکہ کڑوا اکثر آپ کا لہجہ یا الفاظ کا انتخاب ہوتا ہے
 
============
 
============ 
ایک شخص اکثر کہتا میں غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا .
میں غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا .
.
ایک دن اسکو پاگلوں کے ڈاکٹر . کے پاس لے گئے ؟
اس کا علاج ہوا اور وہ ٹھیک ہو گیا . ...
.
پھر اس سے ڈاکٹر . نے پوچھا : اب جا کے کیا کرو گے ؟
اس نے کہا : میں سب سے پہلے شادی کروں گا .
ڈاکٹر . نے کہا : بہت اچھا پھر ؟
میرے بچے ہونگے .
ڈاکٹر . : گڈ پھر ؟
ان کی برتھ ڈے پر اچھی سی نیکر اور شرٹ لا کر دونگا .
ڈاکٹر . : فائن پھر ؟
انکی نیکر سے لاسٹک نکالوں گا پھر غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا
.
ذرا غور کریں تو ہماری حکومتی پالیسیوں کا آج تک یہی حال رہا ہے کہ لاسٹک نکالوں گا پھر غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا
 
====عظیم نامہ====

Wednesday, 3 September 2014

فرقہ پرستی کے خاتمے کا آزمودہ نسخہ


فرقہ پرستی کے خاتمے کا آزمودہ نسخہ




آج سے کم و بیش دو ڈھائی برس قبل ، دو تین دوستوں کے کہنے پر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اسکائپ پر روز جمع ہوں اور قران حکیم پر مل کر تفکر کریں. ایک دوسرے سے کسی بات پر متفق ہوں نہ ہوں مگر پھر بھی خوش اسلوبی سے سب کو سنا جائے اور کسی قسم کے تفرقہ کو موضوع بننے نہ دیا جائے. قران حکیم ہی وہ کتاب ہے جس کی سند و اہمیت ہر مسلک و فرقہ کا اجماع ہے. طریقہ یہ رکھا گیا کہ پہلے چند آیات کی تلاوت لگائی جائے ، پھر ایک بھائی اس کا ترجمہ پڑھے اور پھر باری باری سب اس پر اظہار خیال کریں. کیونکہ دوستوں کا تعلق مختف فرقوں اور مسالک سے تھا لہٰذا اسکی مکمل اجازت رکھی گئی کہ ہر ایک اپنے مسلک کے عالم کی تفسیر کو پیش کر سکے. مولانا مودودی، مولانا اصلاحی، ڈاکٹر اسرار، جاوید غامدی صاحب، مولانا تقی عثمانی، مولانا شبیر عثمانی، نعمان علی خان اور دیگر کئی مفسرین و مبلغین کی سمجھ پیش کی جانے لگی. جب کبھی کوئی اختلافی آراء آتی تو یہ کہہ کر بات کو فوری سمیٹ دیا جاتا کہ "یہ علماء کی اختلافی رائے ہیں ، آپ سب خود غور کر کے اپنی سمجھ قائم کریں" یوں پیار محبت سے یہ سلسلہ جاری ہوگیا

.
رفتہ رفتہ دوستوں کی دلچسپی اور تعداد بڑھنے لگی. تین چار افراد سے دس، دس سے بیس اور بیس سے چالیس. نئے آنے والوں کے لئے اس بات کا بار بار اعلان کیا جاتا کہ ہم میں سے نہ کوئی عالم ہے، نہ فاضل، نہ ہی کوئی مستند تحقیق نگار اور اگر اردو میں کوئی لفظ ہمارا تعارف فراہم کرسکتا ہے تو وہ ہے لفظ "طالبعلم". ہم دین اور قران حکیم کے معمولی طالبعلم ہیں جن سے سمجھ میں غلطی ہو سکتی ہے. جہاں کوئی مشکل پیش آتی تو کسی مقامی عالم سے جاکر پوچھ لیتے. اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ کوئی گدی نشینی نہ ہو، یعنی سب کو بولنے کا نہ صرف حق ہو بلکہ ایسا کرنے پر اسکی حوصلہ افزائی کی جائے. ترجمہ بھی ہر بار مختلف شخص پڑھے تاکہ عملی شمولیت کا احساس سب کو رہے. قران مجید کے اس مسلسل مطالعہ کا اثر تمام دوستوں پر نظر آنے لگا، جو نماز نہ پڑھتا تھا وہ نمازی ہوگیا، جو صدقہ میں کنجوس تھا اسکا ہاتھ فراخ ہوگیا، حقوق العباد ترجیح بن گئے، الله رسول کی محبت دلوں میں گھر کرنے لگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تفرقہ کی سوچ کا خاتمہ ہوگیا. اب نہ کوئی سنی تھا نہ شیعہ، نہ دیوبندی نہ بریلوی، نہ صوفی اور نہ کوئی اہل حدیث. سب نے خود کو صرف مسلمان کہنے پر اکتفاء کرلیا. اختلافات گھٹ کر علمی رائے میں تبدیل ہوگئے اور برداشت پیدا ہونے لگی. دوستوں کی یہ محفل چونکہ مختلف شعبوں سے وابستہ پڑھے لکھے افراد پر مشتمل تھی لہٰذا ایمان و عمل کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور مکالمہ کی صلاحیت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوگیا
.
ایسے بہت سے لوگ ہم میں شامل ہو گئے جنہیں ہم نے دیکھ بھی نہ رکھا تھا، لہٰذا یہ فیصلہ کیا کہ مہینہ میں ایک بار سب کسی کے گھر پر اکٹھا ہو جائیں اور آپس میں دین پر گفتگو کریں. دو تین بھائیوں نے مختلف موضوعات جیسے 'قران سے تعلق'، 'تزکیہ نفس'، 'اتحاد امت' وغیرہ پر خوب تحقیق کرکے لیکچر تیار کئے. محفل کا فورمٹ یہ رکھا گیا کہ پہلے ایک بھائی اپنی تحقیق پیش کرے گا اور اس کے بعد باقی بھائی اس سے سوال جواب کریں گے. یہ تجویز بھی نہایت کامیاب ہوئی اور ہر مہینہ اس کا انعقاد کیا جانے لگا. شرط یہ کہ ہر بار کوئی نہ کوئی نیا بھائی موضوع تیار کرے گا اور یوں سب ایک دوسرے سے سیکھیں گے. جلد ہی بڑے بڑے محققین اور علماء ہم سے جڑنے لگے، یہ اہل علم فی سبیل اللہ آتے اور اس امر سے نہایت خوش ہوتے کہ اس محفل میں موجود شرکاء کی ذہنی و علمی قابلیت خاصی بلند ہے. لوگوں کو سارا مہینہ اس محفل کا انتظار رہنے لگا اور لوگوں کی شمولیت اتنی بڑھی کہ ایک بڑا ہال کرائے پر لینا پڑا. اس روایت کو برقرار رکھا گیا کہ ان اہل علم کے ساتھ ساتھ ہر بار کسی نئے دوست کو خطاب کا موقع دیا جائے. اس محفل میں ہر مسلک اور ہر نقطہ نظر کے مقررین اپنی تحقیق پیش کرتے اور حاظرین کھلے ذہن سے اس کو سن کر اپنے سوالات پیش کرتے. دوستوں کی وہ محفل جو کبھی بھانت بھانت کے فرقوں کی مبلغ تھی، آج تفرقہ سے دور اور دین سیکھنے کی جستجو سے سرشار ہو گئی، جہاں وہ مانا جاتا ہے جو قران و سنت کی دلیل سے ثابت ہو اور جہاں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ رائے کا اختلاف رکھ کر بھی آپس میں محبت سے رہا جا سکتا ہے


 اسی طرح اور بھی کئی تجویز اس محفل کے ذریعے روبہ عمل ہوئیں. جیسے خاندانوں کا تعلیم اور تفریح کیلئے جمع ہونا، دوسرے شہروں آباد دوستوں کے پاس جا کر اسی اصلاحی سلسلے کو جاری کرنا، عربی سیکھنے کی مشترکہ کوشش کرنا، صدقات دینے کی مشترکہ کاوش کرنا، ایک دوسرے کو مختلف دنیاوی علوم بھی فری سکھانا جیسے کمپیوٹر کورس وغیرہ

 

.
یہ سلسلہ الحمد الله آج دو سال بعد بھی پوری آب و تاب سے جاری ہے، جہاں ہفتے میں چھ دن ایک گھنٹے سے زائد سکائپ کلاس کا اہتمام کیا جاتا ہے، جہاں سب مسالک کے دوست مل کر مختلف تفاسیر ، ترجموں اور فہم سے غور کرتے ہیں. سوالات پوچھتے ہیں. اسی طرح ہر مہینہ ایک بڑی علمی محفل کا انعقاد ہوتا ہے جہاں مختلف علمی و فکری موضوع زیر بحث آتے ہیں اور بڑے اہل علم کا ساتھ ہوتا ہے. ایک دفع قران ختم کیا جاچکا ہے اور دوسری بار مزید گہرائی سے غور و تدبر جاری ہے. یہ دوست اب صرف دوست نہیں بھائی بن چکے ہیں. ایسی محبت ہے دلوں میں جو کسی بھی دنیاوی فائدے سے بےنیاز ہے اور الله کے قرب سے معمور ہے
 
.
جناب یہ ہے وہ آزمودہ عملی نسخہ جسے ہم نے اختیار کیا اور الله کے فضل کو خود پر برستا پایا. آپ بھی یہ کر سکتے ہیں، چند دوست مل کر روز یا ہفتے میں چند دن قران حکیم پر غور کرنے کیلئے بیٹھیں ، پھر دیکھیں الله پاک آپ کا ہاتھ کیسے تھام لیتے ہیں. الله ہمیں دین سیکھنے کی کوشش کرنے والا بنائے اور ہمارے لئے ہدایت کے دروازوں کو کھول دے. آمین یا رب العالمین
 
.
====عظیم نامہ=====