Tuesday, 4 March 2014

(Soul/Spirit) کیا روح یا نفس کا کوئی وجود ہے ؟

 

کیا روح یا نفس کا کوئی وجود ہے ؟

 
 
جب میں کہتا ہوں کہ فلاں کام 'میں' نے کیا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ 'میں' ہے کون ؟؟ ... کیا اس سے مراد میرا جسمانی وجود ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہو جو میرا خدانخواستہ ایکسیڈنٹ ہو جائے اور میں اپنے ہاتھ یا پیر یا آنکھ سے محروم ہو جاؤں ؟ .. سوچنا یہ ہے کہ کیا پھر بھی میں 'میں' رہوں گا ؟؟ ... جواب ہے کہ بلکل رہونگا. میرے کسی حصے کے جسم سے الگ ہوجانے سے میری 'میں' کو کوئی فرق نہیں پڑتا. ثابت ہوا کہ یہ 'میں' میرا جسمانی وجود نہیں ہے بلکے یہ تو اس جسمانی ہیولے کے اندر چھپا کوئی نادیدہ روحانی وجود ہے جو مجھے 'میں' بناتا ہے. ہم اس وجود کا مشاہدہ نہیں کر سکتے لیکن ہماری اصل حقیقت یہی غیبی وجود ہے. اسی وجود کو قران اپنی اصطلاح میں نفس سے تعبیر کرتا ہے.
 

کیا نفس (سول) کا واقعی کوئی وجود ہے ؟ یا ہماری یہ غیبی شخصیت محض ہمارے جسمانی اور کیمیائی اجزاء کی ترتیب کا نتیجہ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر جدید اذہان کے درمیان موضوع بنتا رہتا ہے. ملحدین کے لئے نفس کو ایک مستقل حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ناممکن ہے انہیں یہ امر الحاد کی خودکشی کے مترادف نظر آتا ہے. اس عنوان کی تحقیق میں جو سب سے پہلا سوال ذہن پر دستک دیتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا محض اجزاء کی کیمیائی ترکیب سے ایک عاقل ، ذہین اور باشعور وجود کا بن جانا ممکن ہے ؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہاں ممکن ہے تو ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم مردہ انسانی اجزاء کو آپس میں جوڑ کر ایک جیتا جاگتا عاقل وجود کھڑا کر دیں ؟ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ باوجود تمام تر علمی دریافتوں کے، ہم ایک باشعور وجود تو درکنار محض زندگی پیدا کردینے سے بھی قاصر ہیں. یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسان نے خود بیشمار تخلیقات کی ہیں ، جن میں بہت سی تخلیقات ذہین بھی ہیں جیسے کمپیوٹر یا روبوٹ وغیرہ. مگر ان تمام ذہین تخلیقات میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ کسی تخلیق کو ذہین بنانے کے لئے اس میں ذہانت باہر سے ڈالنی پڑتی ہے. دوسرے لفظوں میں ذہانت کی اپنی جداگانہ حیثیت ہے اور یہ صرف اجزاء کی ترتیب سے ازخود حاصل نہیں ہوسکتی. کمپیوٹر کی مثال لیجنے ، آپ اس کے بیرونی اور اندرونی اجزاء کو جوڑ کر اسے میکانکی حرکت میں تو لاسکتے ہیں مگر اس میں ذہانت ڈالنے کے لئے آپ کو لازمی ایک جدا سافٹ وئیر کو انسٹال کرنے کی ضرورت ہو گی. محض ہارڈ وئیر کو ترتیب دے لینے سے یا اس میں برقی توانائی کے بہاؤ سے آپ 'ذہانت' نہیں پیدا کرسکتے. انسانی جسم کی ترتیب کا بھی یہی معاملہ ہے ، آپ حد سے حد جسمانی و کیمیائی اجزاء کو ہارڈ وئیرکی طرح یکجا کرسکتے ہیں مگر اس میں ذہانت پیدا کرنے کے لئے لازم ہے کہ نفس (سول) نام کا سافٹ وئیر منطبق کیا جاۓ. اسکے علاوہ کسی اور راۓ کا اظہار محض حقیقت سے فرار ہے.

اسکی ایک اور مثال دیکھئے، اگر آپ ٹی وی پر اس وقت اپنا پسندیدہ چینل ملاحظہ کر رہے ہوں اور اچانک آپکا ٹی وی بند ہو جاتا ہے. آپ اٹھ کر اسکا جائزہ لیتے ہیں تو آپ پر منکشف ہوتا ہے کہ اس ٹی وی سیٹ میں تو کوئی سخت تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی ہے. اب سوال یہ ہے کہ آپ کے اس ٹی وی سیٹ کے خراب ہو جانے کا کیا یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ آپ کا پسندیدہ چنیل بھی بند ہو گیا ہے ؟ اسکا وجود ختم ہوگیا ہے؟ جواب ہے کہ ہرگز نہیں. وہ تو اس وقت بھی آپ کے کمرے می برقی لہروں کی صورت میں موجود ہے مگر اب آپ کے پاس اس ٹی وی سیٹ کی صورت میں کوئی آلہ ایسا موجود نہیں رہا جو ان لہروں کو قابو کر کے اس کا ایک تصویری خاکہ آپ کو دکھا سکے. اگر آپ بازار سے نیا ٹی وی لے آئیں گے تو یہ چنیل پھر پوری آب و تاب سے نظر آنے لگے گا. ہمارے اس جسمانی وجود کی مثال بھی ایک ایسے ہی ٹی وی سیٹ کی مانند ہے جس سے ہماری روح یا ہماری شخصیت کا اظہار ہوتا ہے. کل جب ہمارا یہ خاکی وجود بیکار ہو جائے گا تو اس سے ہرگز یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارا حقیقی روحانی وجود بھی ختم ہو گیا ہے. کل جب ہمیں ہمارا رب دوبارہ ایک جسم عطا کرے گا تو پھر اس شخصیت کا ویسے ہی شعوری اظہار ہوگا جیسا اس وقت ہے.

====عظیم نامہ====

تمام رسول اور نبی عرب میں ہی کیوں ؟

 

اگر خدا سب کا ہے تو پھر تمام رسول اور نبی عرب میں ہی کیوں بھیجے گئے ؟



 منکرین خدا میں ایک اعتراض خاصہ مقبول ہے اور وہ یہ کہ اگر الہامی مذاھب خدا کی جانب سے نازل کردہ ہیں تو پھر تمام  پیغمبر صرف عرب میں ہی کیوں آے ؟ اس سوال کو اٹھا کر یہ منکرین حسب عادت خود کو بڑا علامہ تصور کرتے ہیں. مگر قران حکیم کا کوئی بھی احقر طالب علم اس سوال کے بودےپن کا سوچ کر بھی مسکرا دیتا ہے. قران واشگاف الفاظ میں متعدد مقامات پر یہ اعلان کرتا ہے کہ الله رب العزت نے ہر دور اور ہر قوم میں اپنے رسول بھیجے. مثال کے طور پر سوره نحل میں کہا گیا کہ "اور ہم نے ہر قوم میں پیغمبر بھیجا کہ الله کی ہی عبادت کرو.." یا پھر سوره ابراہیم میں ارشاد ہے کہ "اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا .." .. غور کیجیے ، اگر صرف عربی زبان یا جزیرہ العرب میں ہی رسولوں کو بھیجنا مقصود ہوتا تو کبھی یہ الفاظ نہیں کہے جاتے کہ 'اپنی قوم کی زبان میں بولتا تھا' .

قران جہاں رہتی دنیا کے لئے ہدایت ہے وہاں یہ نقطہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسکی براہ راست مخاطب عرب میں بسنے والی وہ اقوام ہیں جو دور نزول میں موجود تھی. لہٰذا یہ بات نہایت سادہ، عقلی اور سمجھ میں آنے والی ہے کہ قران میں صرف ان چند انبیاء کا تفصیلی ذکر ہوا ہے جن سے عرب کسی نہ کسی حوالے سے آگاہ تھے. وگرنہ قران میں کئی ایسے پیغمبروں کے نام مذکور ہیں جنکا علاقہ، قوم یا ملک نہیں بیان کیا گیا جیسے حضرت نوح الہے سلام یا حضرت آدم الہے سلام وغیرہ. ایک مشہور حدیث کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں بھیجے گئے، جن میں سے صرف چند کا ذکر قران میں موجود ہے. یہ سوچنا بھی سراسر حماقت ہے کہ یہ ایک لاکھ سے زائد پیغمبر صرف عرب ہی میں آتے رہے.

مسلم محققین نے ہر دور میں تحقیق کر کے مختلف مشہور اشخاص کے پیغمبر ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے. مثال کے طور پر کچھ تحقیق نگاروں نے عبادات اور تعلیمات کا تقابلی جائزہ لے کر 'زرتشت' کو پیغمبر کہا ہے جو ملک ایران میں آے تھے. اسی طرح مولانا شمس نوید عثمانی نے اپنی گراں قدر تصنیف میں ہندوؤں کے ویدوں کو پرکھہ کر بہت سے علمی ثبوت فراہم کئے ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ ہندودھرم یا قوم دراصل نوح الہے سلام کی امّت ہیں. ان کےابتدائی صحائف میں ایک عظیم شخصیت کا ذکر آتا ہے جس کا نام 'مانو' ہے ، سنسکرت کے اعتبار سے دراصل یہ نام 'مہا نوح' بنتا ہے یعنی 'عظیم نوح' ! .. یہی نہیں بلکے مہا نوح سے وابستہ ایک پورا واقعہ بھی درج ہے جو ایک عذاب والے سیلاب کے آنے اور کشتی می سوار ہونے کی پوری روداد بیان کرتا ہے. بہرحال یہ تحقیقات چونکہ قران اور تاریخ میں واضح انداز میں موجود نہیں ہیں اس لئے تحقیق کی بنیاد پر صرف علمی قیاس قایم کیا جاسکتا ہے. انہیں حتمی درجہ دینا ممکن نہیں ہے مگر یہ تحقیقات بلند آواز میں اعلان کر رہی ہیں کہ الله عزوجل نے ہر امّت میں ہدایت کے لئے اپنے نبی بھیجے.

واللہ عالم بصواب

====عظیم نامہ====

زلزلے آنے کا مقصد عذاب یا پھر آزمائش؟


زلزلے کیوں آتے ہیں؟ ان کے آنے کا مقصد کیاعذاب دینا ہوتا ہے یا پھر آزمائش؟ 

 یہ وہ سوال ہے جو مسلمانوں میں خاصا مقبول ہے اور مختلف مولانا حضرات اس پر اپنی اپنی سمجھ کے مطابق تبصرہ فرماتے رہتے ہیں. میرے نزدیک زلزلے، طوفان، سیلاب جیسی قدرتی آفات دراصل فطرت کے مظاھر ہیں اور کائناتی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں ہر صورت آنا ہی آنا ہے. ان کا آنا کسی عذاب یا آزمائش سے مشروط ہرگز نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ زلزلے ان دور دراز سیاروں پر بھی آتے ہیں جہاں زندگی موجود نہیں. سیلاب ان سمندروں کی تہوں میں بھی اٹھتے ہیں جہاں کوئی انسان نہیں بستا. طوفان ان صحراؤں میں بھی آتے ہیں جہاں کوئی زی روح سانس نہیں لیتا.
 یہ اور بات ہے کہ مومن کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہر آنے والی آفت یا پریشانی کو چاہے وہ کوئی زلزلہ ہو یا معمولی بخار، ایک آزمائش کی صورت میں دیکھتا ہے تاکہ صبر و شکر کو اپنا سکے. اسے یقین ہوتا ہے کہ اسکا رب زلزلے جیسی فطرتی مظاھر کو اپنی قدرت سے ٹال بھی سکتا ہے اور اسے اس میں مبتلا کرکے آزما بھی سکتا ہے. حضرت علی (رضی الله) سے منسوب ایک قول اسی کی ترجمانی کرتا ہے کہ اگر کوئی تکلیف تجھے خدا سے قریب کردے تو وہ تکلیف نہیں بلکے آزمائش ہے اور اگر کوئی تکلیف تمھیں خدا سے دور کردے تو وہ تکلیف نہیں عذاب ہے.
 رہی بات انبیاء کے ان قصوں کی جن میں نافرمان اقوام کو ان قدرتی آفات کے ذریعے الله نے عذاب میں پکڑ لیا ، وہاں جائزہ لیں تو معاملہ بلکل مختلف ہے. وہاں ایسا نہیں ہوتا کہ کسی بستی پر سیلاب آیا تو اس میں اچھے برے سب پس گئے. بلکہ وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ الله نیک افراد کو بد سے علیحدہ کر دیتا ہے اور انہیں عذاب کے وقت سے قبل اس علاقے سے نکال دیتا ہے جسے نوح اور لوط الہے سلام کا مشھور واقعہ. پھر وہ قدرتی آفات اپنے مقررہ وقت پر آتی ہیں اور
نافرمان بستی کا نام و نشان مٹا دیتی ہیں.




====عظیم نامہ====




پاکستانی قوم کا موجودہ مزاج


پاکستانی قوم کا موجودہ مزاج



سعادت حسن منٹو اردو زبان کے ایک مشہور نثرنگار گزرے ہیں. انکی تحریر میں انفرادی و معاشرتی شہوات کا بہت ذکر ہے. جس کی وجہ سے اہل علم میں ہمیشہ انکی شخصیت متنازع رہی. ایک گروہ انہیں فحش نگار کہہ کر دھتکارتا رہا اور دوسرا گروہ انہیں حقیقت پسندی کہ تاج پہناتا رہا. ایک ادبی تبصرہ نگار کا تجزیہ مجھے انکے بارے میں خاصہ پسند ہے، وہ کہتے ہیں کہ "منٹو نے زندگی کو غسل خانہ کی روزن (کھڑکی) سے دیکھا ہے، لہٰذا اسے جو بھی نظر آتا ہے بناء کپڑوں کے نظر آتا ہے. " .. ہمارے دور حاضر کے بہت سے مفکرین کا یہی حال ہے، وہ زندگی کو بس ایک ہی مایوس زاویے سے دیکھنے کے عادی ہیں. وہ چاہ کر بھی امید کے چراغ نہیں جلا سکتے، بس کسی لٹی ہوئی بیوہ کی طرح ماتم کر سکتے ہیں، کوسنے دے سکتے ہیں، صلواتیں سنا سکتے ہیں. یہ کبھی محقق بن ہی نہیں سکتے، کیونکہ اسکے لئے حالات کو غیر جانبداری سے دیکھنا لازم ہے اور یہ ان کے لئے ممکن نہیں.
 
 
لگتا ہے ہماری قوم مجموئی اعتبار سے اعتدال کی صفت سے خالی ہوچکی ہے. یہاں یا تو حسن نثار جیسے مایوسی کے پیغمبر بیٹھے ہیں یا پھر زید حامد جیسے خوش فہمی کے چیمپئن ! .. یہاں یا تو ایک شخص کو موسیٰ کی مسند پر بیٹھا دیا جاتا ہے یا پھر سیدھا فرعون کا تمغہ دیا جاتا ہے. بیچ کا کوئی امکان ہی نہیں .. یہاں ایسا کوئی تصور نہیں ہے کہ ایک شخص کی بیک وقت کچھ باتیں غلط اور کچھ صحیح تسلیم کی جایئں .. یہاں حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کا رواج نہیں ہے. یہاں حق و باطل کی کسوٹی انصاف نہیں عقیدت ہے. یہاں اگر آپ نے کسی کو حق کہنا ہے تو اسکے باطل کو بھی حق کہنا ہے، اور اگر کسی کو باطل پکارنا ہے تو اسکے حق کو بھی باطل پکارنا ہے. مختاراں مائی سے لے کر رمشا تک، عافیہ سے لے کر لال مسجد تک اور ملالہ سے لے کر بیت الله محسود تک سب یہی معاملہ ہے.

====عظیم نامہ====

Monday, 3 March 2014

کیا ہم کرسمس، نیو ایر، میلادالنبی، برتھ ڈے مناسکتے ہیں؟


کیا ہم کرسمس، نیو ایر، میلادالنبی، برتھ ڈے مناسکتے ہیں؟



.
 کیا ہم عیسائیوں کو جواب میں ' ہپپی کرسمس' کہہ سکتے ہیں ؟ کیا ہم ایک دوسرے کو 'ہیپی نیو ایر' کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی سالگرہ کر سکتے ہیں ؟ کیا ہم 'عید میلاد النبی' منا سکتے ہیں ؟ کیا ہم 'جمعہ مبارک' کہہ سکتے ہیں؟ .. یہ وہ سوال ہیں جو مستقل میرے سامنے آتے رہتے ہیں. میں نے چاہا کہ اس ضمن میں حق بات جان لوں مگر الجھن کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا. علماء بدقسمتی سے دو گروہوں میں منقسم ہیں اور دونوں کی راۓ مختلف انتہاؤں کو چھو رہی ہے

ایک گروہ کے مطابق یہ سب سراسر ضلالت اور گمراہی پر مبنی ہے. وہ یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ ایسی مبارکباد دے کر آپ زنا سے بھی بڑا گناہ کرتے ہیں. دوسری راۓ میں یہ سب نہ صرف جائز ہے بلکے احسن عمل ہے اسلیے وہ بعض اوقات اسے ثواب سمجھ کر ادا کرتے ہیں. میری ناقص راۓ میں اگر ہم ان سوالات کا بحیثیت طالبعلم دو زاویوں سے تجزیہ کریں تو بات خاصی واضح ہو جاتی ہے

پہلا زاویہ وہ حدیث ہے جس میں رسول الله صلی الله و الہے وسلم نے فرمایا ہے کہ غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنے والا مسلم، قیامت کے روز ان ہی کے ساتھ اٹھایا جاۓ گا. اب ظاہر ہے یہ ایک بہت بڑی تنبیہہ ہے، لہٰذا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسی حدیث کو جواز بناکر کسی بھی غیرمسلم تہوار کو منانا تو دور اس کی مبارکباد تک نہیں دیتی. لیکن اگر حدیث کے الفاظ کا ذرا دقت نظر سے جائزہ لیا جاۓ تو بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہاں مراد مذہبی مشابہت ہے ، نہ کہ ثقافتی یا معاشرتی مشابہت ! ورنہ تو آپ کا انگریزی کپڑے پہننا یا چھری کانٹے سے کھانا بھی قابل گرفت قرار پاۓ گا. لہٰذا وہ غیر مسلم تہوار یا معاشرت جسکا براہ راست تعلق انکے مذہب سے ہے جیسے کرسمس یا دیوالی، انہیں منانا تو مسلمانوں کیلئے قطعی جائز نہیں. البتہ اس کی مبارکباد دینا جائز ہے کہ نہیں؟ اسمیں صاحبان علم دو مختلف آراء رکھتے ہیں. غالب ترین اکثریت تو مبارکباد دینے کو بھی حرام قرار دیتی ہے. جب کے کچھ اہل علم کے نزدیک مبارکباد دے دینا کوئی معیوب بات نہیں بلکہ  دعوتی پہلو سے کئی بار مندوب ہے. جو اسکی مخالفت کرتے ہیں وہ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ کہنے لگتے ہیں کہ 'ہیپی کرسمس' کے الفاظ ادا کرنے سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں (معاذ اللہ) اور یہ کہہ کر آپ بھی اسی عقیدے کو اپنا لیتے ہیں. ظاہر ہے کہ ان الفاظ میں ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی اور اگر کوئی مسلم اپنے کرسچن دوست کو ہیپی کرسمس کہہ دیتا ہے تو وہ کسی درجے میں یہ نہیں یقین رکھتا کہ خدا نے بیٹا جنا ہے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ. یہ الزام ایسا ہی ہے جیسے کوئی عیسآئی اپنے ہم عقیدہ سے کہے کہ عید مبارک کہنے سے آپ مسلمان ہو جاتے ہیں. اب یہاں چونکہ اجتہادی علماء میں اختلاف ہے ، اسلئے اب آپ کا اپنا فیصلہ ہے کہ آپ کس رائے کو دین کے قریب پاتے ہیں. چاہیں تو مبارکباد دینے والی رائے اپنائیں یا پھر ان الفاظ سے مبارکباد نہ دیں. یہاں یہ خیال رہے کہ مبارکباد نہ دینے سے مراد بدتہذیبی کرنا نہیں ہے اور ضروری ہے کہ ہم کچھ ایسے متبادل الفاظ ادا کریں جو مخاطب کو کسی خفت میں مبتلا نہ کریں. ضروری یہ ہے کہ ایک رائے رکھنے والا دوسری رائے رکھنے والے پر چڑھائی نہ کرے.


رہی بات ان تہواروں کی جن کا تعلق کسی مذہب سے براہ راست نہیں بلکے معاشرت سے ہے جیسے سالگرہ یا نیو ائیر ، میرے نزدیک ان کی مبارکباد دے دینا یا بناء کسی حرام کا ارتکاب کیۓ واجبی سا منا لینا ایک اجتہادی مسلہ ہے. آپ اسے اصراف یا کسی اور منفی پہلو کی بنیاد پر نہیں منانا چاہتے تو بلکل نہ منایئے، اسکی مبارکباد نہیں دینا چاھتے تو نہ دیں، مگر یہ فیصلہ آپ کے تقویٰ سے متعلق ہے، فتویٰ سے نہیں.


دوسرا زاویہ یہ ہے کہ رسول پاک صلی الله و الہے کے ایک اور قول کے مطابق دین میں کی گئی ہر بدعت گمراہی اور جہنم کا رستہ ہے. یہاں بھی سب سے پہلے تو یہ سمجھیں کہ اس قول میں صرف ان اعمال کو ایجاد کرنے سے روکا گیا ہے جو عین ' دین ' سمجھ کر اختیار کیۓ جایئں، ورنہ مساجد کے لاؤڈ سپیکر سے لے کر قران پاک کی جدید تدوین تک سب بدعت کے زمرے میں آ جایئں گے. ہمیں بدعت اور مباح کے باریک فرق کو سمجھنا ہوگا. بدعت وہ اعمال ہیں جنکی کوئی بھی سند یا اصل موجود نہ ہو مگر عوام میں انکی شہرت دین کے حوالے سے منسوب ہوجاۓ. اسکی ایک مثال میلادالنبی کو 'عید' سمجھ کر منانا ہے. اب ظاہر ہے اس کی نہ تو کوئی اصل ہے اور نہ ہی کوئی واضح سند لہٰذا راقم کی احقر رائے میں ہمیں اسے عید کہنے یا منانے سے اجتناب کرنا چاہیے. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں میلاد کا مخالف نہیں بلکہ رسول صلی الله و الہے وسلم کے یوم ولادت پر ایک اضافی خوشی کا احساس ہونا تو ہر مسلم کے دل کی آواز ہے مگر اسکے اظہار کے لئے باونچے اونچے کیک کاٹنا، موسیقی کا استعمال کرنا، رنگ برنگے جلوس نکالنا، بڑے بڑے ماڈل بنانا یا اسے اسلام کی تیسری عید کہنا کوئی پسندیدہ بات نہیں. اس ضمن میں بھی ہمیں اعتدال کی ضرورت ہے.


دوسری طرف وہ حلال اعمال ہیں جن کا من وعن بیان تو قران و سنت میں نہ ملتا ہو مگر اپنے اصل میں وہ تعمیری نوعیت کے ہوں اور انکی ادائیگی امت کیلئے دینی فریضہ نہ بنائی گئی ہو. بدعت اور مباح کے فرق کو ایک سادہ مثال سے سمجھئے. رسول پاک صلی الله علیہ وسلم ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے، اب اگر آپ بھی پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں تو یہ سنت پر عمل ہے. لیکن فرض کیجیۓ کوئی شخص منگل اور بدھ کا روزہ رکھتا ہے، اب یہ سنت تو نہیں ہے مگر اپنے آپ میں روزے کے حوالے سے ایک احسن اور ' مباح ' عمل ہے جسکی دین میں کوئی ممانعت نہیں. اب ایک اور تیسرا شخص ہے جو کہتا ہے کہ میں بدھ کو اس لیۓ روزہ رکھوں گا کیونکہ بدھ کو روزہ رکھنا فلاں وجہ سے افضل ہے. اب یہ فلاں وجہ وہ ایسی بیان کرتا ہے جس کا نہ قران میں ذکر ہے، نہ وہ سنت سے ثابت ہے اور نہ ہی وہ اجماع صحابہ سے منتقل ہوئی ہے. اب ان صاحب کا اس دن میں روزہ رکھنا تو اپنی اصل میں مباح عمل تھا مگر کیونکہ انہوں نے اب اس دن کو کسی غیر ثابت وجہ سے منسوب کرکے دینی فضیلت کا باعث بنا دیا لہٰذا اب یہ عمل مباح نہیں رہا بلکہ بدعت کی صورت اختیار کر گیا جس کا ترک ضروری ہے. 'مباح اعمال' کے لئے بعض اوقات 'بدعت حسنہ' کی اصطلاح بھی اختیار کی جاتی ہے 


یہ دھیان رہے کہ مذکورہ بالا سطور میری اپنی ناقص طالبعلمانہ فہم کا شاخسانہ ہے ، اس لیۓ اسمیں غلطی کا احتمال شدید ہے. میں دست بدستہ ہر اس قاری سے معافی کا خواستگار ہوں جسے اس تحریر کے کسی بھی حصے سے چوٹ پہنچی ہو.

واللہ اعلم بلصواب

====عظیم نامہ====

اگر خدا ہے تو لاکھوں سیارے بیکار بے آباد کیوں؟


اگر کوئی خالق ہے جو ہر تخلیق کو مقصدیت کیساتھ پیدا کرتا ہے تو پھر ان لاکھوں آوارہ اور اجاڑسیاروں کا کیا مقصد ہے؟



 پوچھا جاتا ہے کہ اگر ہماری زمین کا بہترین نظم، متعین مقصدیت اور زندگی کا خوبصورت ارتقاء کسی صاحب شعور خالق کا وجود ثابت کرتا ہے تو پھر ان کہکشاؤں میں آوارہ تیرتے لا تعداد بیابان سیاروں کا کیا مصرف ہے ؟ .. اس سوال کو چار زاویوں سے پرکھا جاسکتا ہے، پہلا یہ کہ انسان کا علم اپنے بیمثال ارتقاء کے باوجود بھی انتہائی محدود ہے. انسان کی علمی محدودیت کا آج بھی یہ عالم ہے کہ وہ کھربوں ستاروں و سیاروں کے بیچ ایک نقطہ برابر زمین کے بارے میں بھی پانچ سات فیصد سے زیادہ علم نہیں رکھتا. ایسی عاجزی میں جسارت کرکے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنی محدود علم سے ان بیشمار سیاروں کے مقصد کو اب تک سمجھ نہیں پاۓ مگر امید ہے کہ جیسے باقی اشیاء مقصد سے خالی نہیں، اسی طرح ان سیاروں کا بھی متعین مقصد ہوگا جسے ہم مستقبل میں شائد بہتر جان پائیں. اس سے زیادہ کچھ بھی کہنا محض تجاوز ہے

 دوسرا زاویہ ایک مثال سے سمجھیئے، اگر آپ ایک ایسے بڑے میدان میں ہیں جہاں آپ کو سو دو سو مٹی کے بے ہنگم ٹیلے نظر آتے ہیں. کوئی چھوٹا کوئی بڑا، کوئی سوکھا کوئی گیلا، کوئی سخت کوئی نرم .. مگر پھر اچانک ان ٹیلوں کے بیچ ایک شاندار شیش محل نظر آتا ہے. اونچے دروازے، متوازن کمرے، حسین فرش، چمکتی کھڑکیاں. اب اس حسین تعمیر کو دیکھ کر کوئی یہ احمقانہ استدلال نہیں کرے گا کہ کیونکہ باقی دو سو ٹیلے بے ہنگم پڑے ہیں، اسلیئے اس محل کا کوئی معمار نہیں ہوگا ! .. حد سے حد یہ کہا جا سکتا ہے کہ معمار نے کسی وجہ سے ان دو سو ٹیلوں میں سے اس ایک کا انتخاب کیا ہے. لاکھوں اجاڑ سیاروں کی موجودگی اپنی جگہ ایک حقیقت، مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ یہ بہترین ترتیب و نظم والی زمین اور اس پر بسنے والی زہین مخلوق کسی زہین تر خالق کے بناء خود بخود وجود پا گئی؟ نہایت احمقانہ بات ہے.

 تیسرا زاویہ یہ ہے کہ سائنس اپنی تمام تر محدودیت کے باوجود کچھ ایسے سراغ پا گئی ہے جو ان اجاڑ سیاروں کی توجیح بیان کر رہے ہیں. مثال کے طور پر کوسمولوجی (علم فلکیات) کے حالیہ انکشافات یہ بتاتے ہیں کہ مشتری یعنی جوپیٹر اپنے حجم کی وجہ سے نظام شمسی کو مہلک ٹکراؤ سے محفوظ رکھتا ہے ، اسی طرح کئی سیاروں کے بارے میں آج یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ کائنات میں کشش ثقل کے نظام کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. ایک سائنسی تھیوری ' بٹر فلائی افیکٹ ' کے نام سے رائج ہے، جو یہ بیان کرتی ہے کہ یہ ساری کائنات ایک مشترکہ اکائی کے طور پر کام کر رہی ہے، یہاں ایک تتلی کا پنکھ پھڑپھڑانا بھی مستقبل کے کسی بہت بڑے واقعہ کے رونما ہونے کی علت ہوتا ہے.
البرٹ آئین اسٹائن سے لے کر آج اسٹیفن ہاکنگ تک بڑے بڑے سائنسدان اس تگ و دو میں مصروف ہیں کہ اس کائنات کو ایک اکائی کے طور پر سمجھا جا سکے، اسے 'تھیوری آف ایوری تھنگ' کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے,
 صاف نظر آتا ہے کہ جوں جوں انسانی علم ترقی پاۓ گا ، خلا میں تیرتے ان آوارہ سیاروں کے وجود کی مقصدیت سمجھ آتی جائے گی


 چوتھا اور آخری زاویہ صرف اہل ایمان کے لئے ہے اور جسکا اشارہ قران حکیم دیتا ہے. وہ جہاں سائنس کی اس دریافت پر مہر لگاتا ہے کہ واقعی ایک روز یہ ساری کائنات ایک عظیم حادثے سے دوچار ہوگی اور ہماری زمین تباہ و برباد ہو جائے گی. وہاں قران یہ بھی خبر دیتا ہے کہ ایک بار پھر زندگی کی بساط سجائی جائے گی ، زمین و آسمان کو نۓ زمین و آسمان سے تبدیل کردیا جاۓ گا (سورہ ابراہیم ٤٨). اسوقت زمین اور آسمان کو نئی ندرت اور نئے فطری اصولوں سے آراستہ کیا جاۓ گا. وہ واشگاف انداز میں کہتا ہے کہ اب اس نئی زمین کا حجم اتنا چھوٹا نہ ہوگا بلکے اسے کئی گنا بڑھا دیا جائے گا (سورہ آل عمران ١٣٣). ظاہر ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب یہ تیرتے بیشمار مادے کے ڈھیر (سیارے) موجودہ زمین میں ضم کردیئے جایئں. لہٰذا ایک مومن کے لئے یہ سوچنا قرین قیاس ہے کہ جو خدا انسان کے بچے کو بھی ارتقاء سے گزار کر وجود بخشتا ہے وہی خدا اس کائنات میں موجود تمام سیاروں یا ستاروں کو ایک عظیم تر مقصد کی تکمیل کے لئے ارتقاء سے گزار رہا ہے. ان ستاروں کا بننا یا ٹوٹنا سب اسی منصوبے کے جزو ہیں.

====عظیم نامہ====

زنا کی سزا اتنی عبرتناک کیوں؟




اسلام میں جرائم بلخصوص زنا کی سزا اتنی عبرتناک کیوں
ہے ؟


اسلامی معاشرے میں فحاشی کی روک تھام کے لئے قران نے تین مراحل بیان کیۓ ہیں. پہلے مرحلے پر وہ معاشرے کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے. وہ مردوں کو نظر نیچی رکھنے اور عورتوں کو محتاط لباس کی تلقین کرتا ہے. اس عمدہ اہتمام کے بعد بھی اگر کوئی مرد یا عورت جذبات سے مغلوب ہو کر زنا کر بیٹھتا ہے تو پھر دوسرے مرحلے پر ریاست کو تفتیش کا حکم دیتا ہے. یہ تفتیش کچھ اس انداز کی ہے کہ جس میں زانی پر جرم اسی وقت ثابت ہو پاۓ گا جب اس نے اسکا ارتکاب کھلے عام کیا ہو. وہ چار ایسے شریف گواہوں کا مطالبہ کرتا ہے، جنہوں نے اس عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو. اب ظاہر ہے کہ یہ قریب قریب نا ممکن ہے. اسمیں مصلحت یہی ہے کہ جب تک یہ گناہ انفرادی حد میں ہے اور اسکے برے اثرات معاشرے کو پراگندہ نہیں کر رہے، تب تک اس جوڑے کو سزا سے محفوظ رکھا جائے. کیا معلوم وہ دونوں کب توبہ کر لیں؟


 یہ خوب جان لیں کہ یہاں چار گواہوں کی شرط زنا بالجبر یعنی ریپ کیلئے نہیں ہے. زنا بالجبر تو فساد فل ارض میں داخل ہے، جسکی سزا موت ہے اور جو جرم کے کسی بھی واضح ثبوت ملنے پر نافذ کی جا سکتی ہے. بدقسمتی سے ہمارے کچھ علماء نے چار گواہوں کی شرط کا اطلاق زنا بالجبر پر بھی کر دیا ہے جو قران کی منشاء سے میل نہیں کھاتا. اب تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ اس تمام تربیتی اہتمام اور ریاعیت کے باوجود بھی کوئی کھلے عام زنا کر بیٹھتا ہے تو اب عبرتناک سزا ہے. ایسی سزا جسکا نفاز معاشرے کے سامنے ہوگا تاکہ باقی افراد میں کسی بھی نا جائز شہوت کی حوصلہ شکنی ہو
 

 یہاں بھی قاضی مجرم کے حالات و تربیت کا جائزہ لیکر کوئی کمی یا تخفیف کر سکتا ہے. جیسے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے مشکل دور میں چوری کی سزا کو معطل کردیا تھا یا جیسے قران نے جہاں عام زانی کی سزا سو کوڑے مقرر کی وہاں لونڈیوں کی اخلاقی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ان پرصرف پچاس کوڑوں کی حد کا حکم صادر کیا. اس پورے سلسلے پر اعتراض صرف وہی کم فہم شخص کر سکتا ہے جس کی نظر صرف اسلامی سزا پر ہو اور وہ پہلے دو مراحل سے بلکل بےخبر ہو. 


====عظیم نامہ====