Monday, 3 March 2014

اگر خدا ہے تو پھر یہاں اتنا ظلم کیوں؟




 اگر خدا کا دین سچا ہے تو پھر یہاں اتنا ظلم کیوں؟ ظالم کوظلم کی آزادی کیوں؟



ہمارے خوش یا غمگین ہونے سے یہ حق نہیں بدلتا کہ زمین گول ہے. کسی پر ظلم ہو یا کسی کو اعزاز ملے ، اس سے یہ حق نہیں بدلتا کہ پانی حیات کے لیے ضروری ہے. ہمارے جذبات، احساسات یا حالات سے دنیا کا کوئی بھی حق تبدیل نہیں ہوتا. مگر افسوس کہ جب بات سب سے اونچے حق یعنی الله کے وجود کی آتی ہے تو لوگ یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ میرا سارا پیسہ لٹ گیا اسلیے خدا نہیں ہے. میری محبت مجھے چھوڑ گئی اسلیے خدا نہیں ہے. میری اولاد مجھ سے بچھڑ گئی اسلیے خدا نہیں ہے. فلاں جگہ سیلاب یا زلزلہ آگیا اسلیے خدا نہیں ہے. الله کا وجود سب سے بڑا حق ہے اور اس کا ہونا ہمارے جذبات و حالات سے مشروط ہرگز نہیں ہے.


دین نے کبھی یہ دعوا نہیں کیا کہ اس دنیا میں سب کو انصاف حاصل ہوگا. بلکے وہ تو بتاتا ہے کہ اس دنیا کو امتحان کے اصول پر بنایا گیا ہے. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کبھی تو قاتل صاف بچ نکلتے ہیں تو کبھی معصوم پھانسی چڑھ جاتے ہیں اور کبھی ظالم مظلوم کا استحصال کرتے ہیں. دراصل یہی وہ بے انصافی ہے جو انسان میں اس فطری تقاضے کو پیدا کرتی ہے کہ ایک ایسی دنیا کا وجود ضرور ہو جہاں ہر اچھے کو اسکی اچھائی اور ہر برے کو اسکی برائی کا پورا پورا بدلہ ملے. دین اسی نئی دنیا کی بشارت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس آنے والی دنیا میں انصاف کے تقاضے اپنی کامل ترین صورت میں نافذ ہونگے. دین کے اس واضح اور کھلے مقدمے کے بعد بھی اگر کوئی الله کے وجود کا اسلیے انکار کرتا ہے کہ موجودہ دنیا میں فلاں جگہ بھوک، جنگ یا نا انصافی ہے تو یہ اسکی لاعلمی اور کج فہمی کا ثبوت ہے، جس پر اس سے ہمدردی سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا






اس دنیا میں مکمل انصاف کا تصور بھی ناممکن ہے. یہاں تو مشاہدہ یہ ہے کہ ظالم طاقت و اقتدار کے نشے میں چور رہتا ہے اور مظلوم، استبداد کی چکی میں پستا ہی جاتا ہے. یہاں اکثر حرام کھانے والا عیاشیوں کا مزہ لوٹتا ہے اور محنت کش پر زندگی کی بنیادی ضروریات بھی تنگ ہو جاتی ہیں. کتنے ہی مجرم، فسادی اور قاتل کسی عدالت کی پکڑ میں نہیں آتے. ایک مثال لیں، اگر ایک بوڑھا شخص کسی نوجوان کو قتل کردیتا ہے اور مان لیں کہ وہ پکڑا بھی جاتا ہے. عدالت اسے اسکی جرم کی بنیاد پر سزاۓ موت بھی نافز کردیتی ہے. اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ انصاف ہے ؟ کہنے کو تو قاتل کو قتل کے بدلے میں قتل کردیا گیا ؟ مگر کیا یہی انصاف کی مکمل صورت ہے ؟ قاتل تو ایک بوڑھا شخص تھا ، جو اپنی زندگی گزار چکا تھا. جبکہ مقتول ایک نوجوان تھا ، اسکی پوری زندگی اسکے سامنے تھی. ممکن ہے کہ اسکی اچانک موت سے اسکی بیوی بے گھر ہوجاۓ ، اسکے یتیم بچے باپ کا سایہ نہ ہونے سے آوارگی اختیار کرلیں. کیا یہی حقیقی انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں. یہی وہ صورتحال ہے جو انسان میں یہ فطری و عقلی تقاضا پیدا کرتی ہے کہ کوئی ایسی دنیا و عدالت برپا ہو جہاں انصاف اپنے اکمل ترین درجے میں حاصل ہو. جہاں بد کو اسکی بدی کا اور نیک کو اسکی نیکی کا پورا پورا بدلہ مل سکے. دین اسی عدالت کی خبر روز حساب کے نام سے دیتا ہے اور اسی دنیا کی بشارت جنت و دوزخ سے دیتا ہے.

انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ مجموئی اعتبار سے کبھی بھی ناممکن کا تقاضہ نہیں کرتا. یعنی وہ یہ دعا ہرکز نہیں کرتا کہ اسکے دو کی جگہ چار ہاتھ نکل آئیں، وہ یہ تمنا نہیں رکھتا کہ کاش ! دو اور دو چار نہ ہوتے بلکے پانچ ہوتے. مگر کیا یہ عجب نہیں ہے؟ کہ یہی انسان فطری طور پر تمنا رکھتا ہے کہ اسے موت نہ پکڑے، وہ ہمیشہ کی زندگی جئے . اسے بیماری نہ ستائے ، وہ ہمیشہ صحت سے بھرپور رہے. اس پر بڑھاپا نہ سوار ہو، وہ ہمیشہ جوانی کے شباب میں رہے. یہ تقاضے اس لیے ہماری فطرت میں موجود ہیں کہ بھلے اس دنیا میں ان کی تعبیر ناممکن محسوس ہو لیکن ایک اور دنیا ایسی ضرور سجائی جائے گی جہاں ان فطری تقاضوں کی تکمیل ہوگی. دین اسی دنیا کی بشارت دیتا ہے

====عظیم نامہ=====



ہدایت کسےملتی ہے؟ اور متقی کون ہوتے ہیں؟


ہدایت کسےملتی ہے؟اور متقی کون ہوتے ہیں؟



قران مجید کے آغاز میں ہی یعنی سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات میں بیان ہوا کہ.. "اس کتاب (قران) میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متقین کے لئے" ... یہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ قران کا ایک قاری اس سے علم کے خزائن تو حاصل کر سکتا ہے ، معلومات کے ذخائر تو دریافت کرسکتا ہے، شائد تفسیر کی قابلیت بھی حاصل کر لے لیکن اگر وہ قاری ہدایت کی دولت حاصل کرنے کا متمنی ہے تو لازم ہے کہ اس میں تقویٰ موجود ہو مال، دولت، اولاد اور بہت سی نعمتیں الله رب العزت اکثر بناء مانگے بھی عطا فرما دیتے ہیں مگر ہدایت وہ قیمتی گوہر ہے جو بناء تقویٰ اور طلب کے عطا نہیں کیا جاتا . تقویٰ کوئی اضافی صفت نہیں بلکہ ایک مستقل رویہ کا نام ہے، ایک ایسا رویہ جو سلیم الفطرت اشخاص کو ہی حاصل ہوتا ہے. یہ خیر اور شر میں تفریق کرنے کی اس صلاحیت کا ظہور ہے جو ہر انسان کی فطرت میں الہامی طور پر مضمر ہے. متقی وہ ہے جس میں حق کو جاننے اور باطل سے بچنے کی چاہ ہو. اس طلب سے خالی انسان نہ متقی کہلا سکتا ہے اور نہ ہی ہدایت پاسکتا ہے

سکی مثال یوں سمجھ لیں کہ کوئی شخص مصروف سڑک پر گاڑی چلا رہا ہے ، اسکی رہنمائی کیلئے منتظمین کی جانب سے طرح طرح کی ہدایات کناروں پر آویزاں کی جاتی ہیں. جیسے رفتار کم کر لیں یا اتنا فاصلہ رکھیں یا پھر لائٹ جلا لیں وغیرہ. اب ان ہدایات سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو بچ بچ کر چلنا چاہتا ہے. جو ایسا چاہتا ہی نہیں وہ لامحالہ ان ہدایات کو پڑھ کر بھی ان پر عمل نہ کرے گا اور کسی حادثہ کا شکار ہوکر خود کو ہلاکت میں ڈال لے گا. اس بچ بچ کے چلنے والے کو متقی کہا جاتا ہے اور قران میں موجود ہدایت ایسے ہی شخص کے لئے خاص ہے. اسی لئے قران خود کو ہدایت کہتا ہے اور اس ہدایت کے حصول کے لئے تقویٰ کا مطالبہ کرتا ہے 

 
ہم نماز کی ہر رکعت میں 'اھد نا صراط المستقیم' کے الفاظ ادا کرکے الله رب العزت سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں ھدایت کا سیدھا رستہ دکھاۓ اور اس پر قائم فرماۓ. یہ جانتے ہوۓ کہ قران کی صورت میں ہدایت کا پورا نسخہ ہمارے پاس موجود ہے، ہمیں پھر بھی ہدایت کے حصول کی دعا کرتے رہنے کا حکم ہے. اس رویہ سے انسان کبھی جمود یا خودپرستی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت شعوری ارتقاء اور خود احتسابی کے عمل سے گزرتا رہتا ہے. ضروری ہے کہ ہم خود کو عقل کل نہ سمجھ بیٹھیں بلکے یہ احساس ہر وقت ہمارے وجود کا حصہ ہو کہ کیا معلوم کہ کن قرانی ہدایات و تصورات کے بارے میں میری راۓ غلطی پر ہو ؟ اس احساس سے مزین ہو کر آپ دوسروں کی آراء کو نہ صرف احسن انداز سے برداشت کر سکیں گے بلکہ اپنی تصیح کرنے میں بھی کوئی اشکال محسوس نہیں کریں گے

====عظیم نامہ====

شعور، لا شعور اور تحت الشعور



شعور، لا شعور اور تحت الشعور



میرے نزدیک انسانی ذہن کو تین حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے. شعور، لا شعور اور تحت الشعور. یہ تینوں کڑیاں
انسان کی یادداشت سے مربوط انداز میں جڑی ہوتی ہیں. انسان کچھ جبلتیں، کچھ خصلتیں اور کچھ خصوصیات ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا ہوتا ہے. جیسے رونا، تکلیف محسوس کرنا، ڈرنا، نیکی اور بدی کا بنیادی تصور رکھنا وغیرہ. یہ تمام معلومات وہ مشاہدے کے ذریعے سے حاصل نہیں کرتا بلکے یہ اس کی فطرت میں خدا کی جانب سے ودیعت شدہ ہوتی ہیں. اسی سے انسان کا فطری شاکلہ وجود پذیر ہوتا ہے اور ذہن کے جس حصے میں ان کا الہامی اندراج ہے، وہ حصہ تحت الشعور کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے

 سورہ شمس میں
' فالھما ھا فجورھا واتقواھا ' اسی کی تفسیر ہے. ذہن کا دوسرا اور سب سے اہم حصہ لاشعور ہے، یہاں انسان کا کل علم جو اسے کسی بھی مشاہدے یا حادثے کے نتیجے میں حاصل ہوا ہوتا ہے، پنہاں رہتا ہے. ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کا وقوع اور ماخذ تو ذہن سے مٹ جاتا ہے لیکن اپنی اثر انگیزی کی وجہ سے اسکا احساس راسخ رہتا ہے. قران کی اصطلاح میں نفس امارہ اور نفس لوامہ کی کشمکش اسی حصے میں برپا رہتی ہے. جیسے بچپن کا کوئی حادثہ، موسیقی، گزرتی عمر کے اچھے برے واقعات وغیرہ. ذہن کا تیسرا اور فعال حصہ شعور کہلاتا ہے، جو اپنا تعلق صرف حال سے قائم رکھتا ہے. اسکا کام یہ ہے کہ جو حالات اور واقعات اسکے سامنے وقوع پذیر ہوں، یہ انکا جائزہ لے کر اسی سے متعلق معلومات لاشعور یا تحت الشعور سے اخذ کرکے جاری کردے. یہ معلومات اکثر تو شعوری کاوش کا نتیجہ ہوتی ہیں مگر بعض صورتوں میں انکا اخراج لاشعوری طور پر سرزد ہوتا ہے. شعور کے سامنے جو بھی حالات وارد ہوتے ہیں، یہ انکا تقابلی جائزہ اپنی پچھلی معلومات سے کرتا ہے، پھر جو نتیجہ نکلتا ہے اسے بھی لاشعور سے منسلک کردیتا ہے. یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور انسانی شخصیت تکمیل پاتی ہے. 
====عظیم نامہ====

خواب کیا ہیں ؟

                                                      

                                                          خواب و حقیقت




باباۓ نفسیات فرائیڈ اپنی تحقیق میں بیان کرتا ہے کہ خواب درحقیقت ہماری سوچ و فکر کا تصویری عکس بن کر نمایاں ہوتے ہیں. فرض کیجیۓ کہ مجھے اپنی پالتو بلی سے محبت ہے جبکہ آپ بلی سے خوف کھاتے ہیں تو ہوگا کچھ یوں کہ میرے خواب میں بلی کا نظر آنا محبت یا کسی مثبت جذبے کا ترجمان ہوگا مگر آپ کے خواب میں بلی کا دکھائی دینا خوف، نقصان یا دشمنی کا استعارہ ہوگا. میرا قران و حدیث کا ناقص مطالع یہ بتاتا ہے کہ نیند کی مثال دراصل موت کی بہن جیسی ہے، جس طرح نیند میں ہمارے جذبات اور خیالات تصویری خاکہ بن جاتے ہیں، اسی طرح موت کے بعد بھی ہمارے اعمال و افکار متشکل ہو جائیں گے. لہٰذا ممکن ہے کہ حسد و کینہ سانپ بچھو کی شکل میں نمودار ہوکر ڈسے، حرام کاموں میں اگر دنیا گزاری ہو تو وہ ایک بدصورت بدبودار بڑھیا بن کر ہاتھ بڑھاۓ، عبادت و اذکار خوبصورت دوست یا ساتھی کے روپ میں سامنے ہوں 

یہ عین الیقین یعنی آنکھوں دیکھا یقین ہے. اس دنیا میں ہمیں علم الیقین حاصل ہے یعنی محض علم کی بنیاد پر یقین رکھنا، بلکل اسی طرح روز جزا کو ہمیں حق الیقین حاصل ہوگا ییعنی ایسا یقین جسکا ہمیں مکمل جسمانی تجربہ ہو. جس وقت ہم حالت خواب میں ہوتے ہیں ، اسوقت ہم اسی خواب کو حقیقت سمجھتے ہیں اور جو حالات اس خواب میں وارد ہوتے ہیں وہ براہ راست ہماری شخصیت پر اثر مرتب کرتے ہیں. مثال کے طور پر آپ خواب دیکھتے ہیں کہ کوئی خنجر لئے آپ کو قتل کرنے کے لئے آپکے پیچھے بھاگ رہا ہے، اچانک آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سارا جسم پسینے میں شرابور ہے اور دل خوف سے دھڑک رہا ہے. وجہ یہی ہے کہ حالت نیند میں خواب ہی ہمارے لئے حقیقت ہوتے ہیں. چنانچہ قبر کا برزخی احوال جسمانی نہ بھی ہو تب بھی وہ ہماری شخصیت پر سکون یا ازیت کے مکمل اثرات مرتب کرے گا. خواب محض نفسانی خواہشات کا پرتو نہیں ہیں بلکہ خواب ایک ذریعہ یا میڈیم بھی ہیں جس کا صحیح یا غلط استمعال کیا جاسکتا ہے.

رسول عربی صلی الله و الہے وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ خواب تین اقسام کے ہوتے ہیں، پہلا وہ جو نفس کی جانب سے ہوتا ہے ، اسمیں ہماری خواہشات، خیالات، جذبات تصویری شکل میں نظر آتے ہیں. جیسے اگر کوئی شدید پیاسا سو جاۓ تو خواب میں بہانے بہانے پانی پیتا رہے گا. دوسری قسم خواب کی شیطان کی جانب سے ہوتی ہے، جسطرح وہ ہمیں جاگتے ہوۓ برائی کی دعوت دیتا ہے ، اسی طرح خواب میں بھی کبھی کھل کر اور کبھی نیکی کا لبادہ اوڑھ کر باطل کی ترغیب دیتا ہے. بعض اوقات ہماری نفسیات کو کمزور کرنے کے لئے ڈراؤنے مناظر مرتب کرتا ہے. خواب کی تیسری اور آخری قسم وہ ہے جس میں انسان کو خدا اور اسکے فرشتوں کی جانب سے کوئی بشارت یا تنبیہ (وارننگ) دی جاتی ہے. حدیث میں اسے مبشرات کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. یہ دھیان رکھیں کہ خواب دین میں ہرگز حجت نہیں ہیں اور لازم ہے کہ انہیں حق و باطل کی کسوٹی نہ سمجھا جاۓ، بلکہ ہمیشہ قران و سنت کی روشنی میں اسے قبول یا رد کردیا جاۓ. جن افراد نے نیک ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر خوابوں کو مطلق من جانب الله سمجھا وہ برباد ہوگئے. مرزا غلام احمد قادیانی اور بہاء الدین بہائی اسی کی مثال ہیں. 

====عظیم نامہ=====

اتنے نبی کیوں بھیجے؟ اور اب نبوت کیوں ختم کی؟

 

اتنے نبی کیوں بھیجے؟ اور اب نبوت کیوں ختم کی؟

 
 
الله عزوجل نے انسانیت کی تربیت کے لیے ہر دور میں اپنی الہامی کتاب نازل کی. ان کتابوں کا بنیادی مقدمہ ہمیشہ یکساں رہا. قران کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو تمام انبیاء کو عطا کیا گیا اور ہر کتاب ایک آنے والے آخری نبی کی بشارت دیتی رہی. وہ توحید کا عقیدہ ہو یا سزا و جزا کی خبر، وہ ملائکہ و جنات پر ایمان کا معاملہ ہو یا وحی و تقدیر پر ایمان کا تقاضہ. تمام ایمانیات اسی طرح سے سابقہ الہامی کتابوں میں درج ہیں جس طرح قران حکیم میں مذکور ہیں.
 
یہی معاملہ من و عن عبادات کے حوالے سے بھی ہے، لہٰذا سابقہ مذاہب میں تحریف کے باوجود آج تک نماز کے حوالے سے پرستش کا تصور موجود ہے، چیرٹی کے نام پر زکات و صدقات کی ترغیب ہو یا روزہ، قربانی و حج کی دیگر روایات، تمام تر مالی و بدنی عبادات اصولی سطح پر ہر نبی کی امت کو عطا کی گئی. یہ اور بات ہے کہ انکے اظہار کی حرکات و سکنات اور وقت کا تعین زمانی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف رکھا گیا ہے جو کے معمولی و ثانوی بات ہے.
 
یہاں یہ فطری سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پیغام ایک ہی تھا تو اتنی مختلف کتابوں کے نزول کی حکمت ہی کیا تھی ؟ یہ بھی تو ممکن تھا کہ بس ایک ہی کتاب بھیجی جاتی جسے پروردگار ہر طرح کی تحریف سے محفوظ فرما دیتا. اسکا ایک منطقی جواب تو یہ ہے کہ الله نے انسانوں کی اصلاح کے لئے انکی شعوری استعداد کے حساب سے نبوت کو ہر دور و علاقے میں ہمیشہ جاری رکھا مگر جب خالق نے اپنے علم کل سے یہ جانا کہ اب ذرائع ابلاغ کے ایسے ذرائع پیدا ہو چکے ہیں کہ الہامی پیغام کو عالمی سطح پر پہنچایا جا سکتا ہے اور انسانی شعور زمانی ارتقاء سے گزر کر اپنی بلوغت کو پہنچ چکا ہے تو اس نے نبوت کو ختم فرما کر قران کی حفاظت کا خدائی اعلان فرمادیا.
 
اسکا دوسرا جواب خدا خود اپنی آخری کتاب سورہ مائدہ کی ٤٨ آیت میں دیتا ہے یہ کہتے ہوۓ کہ اگر ہم چاہتے تو تمام امتوں کو ایک ہی امت بنادیتے لیکن چونکہ ہم نے یہ دنیا امتحان کے اصول پر بنائی ہے ، لہٰذا ہماری حکمت کا یہ لازمی پرتو ہے کہ ہم نے ایسے حالات کا انتظام کیا ، جس میں حق و باطل کی کشمکش واضح ہو سکے. اسکا نتیجہ یہ ہے کہ اب اختلاف ہوگا اور پھر دیکھا جائے گا کہ کون اس اختلاف میں علم و انصاف کی راہ اپناتا ہے اور کون محض آباء کی اندھی تقلید سے خود کو پراگندہ کرتا ہے؟
 
====عظیم نامہ====
 

منکر حدیث کون ہے؟


  منکر حدیث کون ہے؟

 منکر حدیث وہ ہے جو یا تو حدیث کا مطلق انکار کردے یا پھر وہ محض حدیث ماننے کا دکھاوا کرے اور صرف ان احادیث کو قبول کرے جو اسکی اپنی ناقص سمجھ سے مماثل ہوں. وہ حدیث کے قبول و رد میں نہ روایت کا اصول دیکھے اور نہ ہی درایت کا پاس رکھے. نہ اسماء الرجال کے فن سے اسے کوئی آگہی ہو اور نہ ہی اصول حدیث سے کوئی واقفیت. وہ نہ یہ جانچے کہ کونسی حدیث راوی سے متصل ہے اور یہ بھی نہ سمجھے کہ کون سی سنت اجتماعی طور پر پوری امت کو منتقل ہوئی ہے. اسکا معاملہ یہ ہو کہ وہ پہلے قران کی من مانی تفسیر کرے اور پھر اسی تفسیر کو قبول و رد کا معیار سمجھ کر یہ غلط فہمی پال لے کہ اسکا غلط فہم ہی درحقیقت قران حکیم کی منشاء ہے. 
.
 ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ بہت سے محدثین نے مختلف حدیثوں کو رد کیا ہے تو کیا وہ سب بھی منکر حدیث نہیں ہوئے؟ یہ ایک فکری مغالطہ ہے جو حدیث کا انکار کرنے والے اصحاب کی جانب سے عوام الناس کو دیا جاتا ہے. علم کی دنیا میں ایسے اعتراضات وزن نہیں رکھتے. مثال کے طور پر امام بخاری کو بھی معاذاللہ وہ اپنے ساتھ منکرین میں ، اس استدلال سے جوڑنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے بھی لاکھوں احادیث کی قبولیت سے انکار کیا تھا. یہ فرماتے ہوئے، وہ اس حقیقت سے دانستہ یا نادانستہ چشم پوشی کرتے ہیں کہ امام صاحب کا قبول و رد کا معیار خود ساختہ تفسیر پر نہ تھا بلکہ ان متفقہ تحقیقی اصولوں پر تھا جن کا اشارہ میں نے اس پوسٹ کی ابتداء میں درج کر دیا ہے. لہٰذا ان کی اس علمی تحقیق کو انکار حدیث کے فلسفے سے تشبیہہ دینا علمی بد دیانتی اور بھونڈی سازش کے سوا کچھ نہیں. مسلمانوں میں منکر حدیث ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو یا تو حدیث کا مکمل انکار کر دے یا صرف حدیث کے قبول کا ڈھونگ کرے. وہ تمام رائج تحقیقی میعارات کو بالاۓ طاق رکھ کر پہلے لغت یا الفاظ سے کھیل کر ایک خود ساختہ تفسیر ایجاد کرے اور پھر اس تفسیر کو کلام اللہ جان کر اپنی من پسند احادیث کا انتخاب کر لے.
.
 ستم یہ ہے کہ اخبار احاد کو بنیاد بناکر یہ عقلمند حدیث متواتر کا بھی انکار کردیتے ہیں. جو اپنے آپ میں قران حکیم ہی کی طرح دین کا قطعی ماخذ ہیں. اکثر کو تو احاد اور تواتر کا فرق تک نہیں معلوم. قولی یا عملی تواتر وہ ہے جو یا تو نسل در نسل بناء کسی اصولی اختلاف کے منتقل ہوا ہو یا اتنے ذرائع اور روایات سے ہم تک پہنچا ہو کہ اب اس میں شک کی معمولی گنجائش بھی نہ رہے. جیسے صلاہ، صوم وغیرہ مگر منکرین حدیث کے گروہ میں وہ لوگ بھی بکثرت نظر آتے ہیں جو چند بظاہر متنازع اخبار احاد کو بخاری و مسلم سے نکال کر تواتر کے انکار کی حماقت کرتے ہیں. پھر نماز، روزہ، حج، قربانی، معجزات، ملائکہ، جنات غرض ہر ہر دینی تعبیر کو لغت کا کھیل، کھیل کر ایسے ایسے معنی پہناتے ہیں کہ سر پکڑلیں. اس پر طرہ یہ کہ ان کے آپس میں بھی بہت سے گروہ ہیں جو 'صرف قران' سے دین کو سمجھنے کا دعویٰ تو ضرور کرتے ہیں مگر دین کی بنیادی تعبیرات میں مشرق و مغرب کا فرق رکھتے ہیں. اگر آپ کو کسی حدیث (خبر احاد) کی صحت پر اعتراض ہے تو اس کی اسناد کے حوالے سے تحقیق کریں، اگر نہیں تو صحیح اسناد والی احادیث کو بھی درایت کے اصول پر پرکھا جاسکتا ہے. اہل علم نے ہمیشہ یہ کام کیا ہے اور انہیں کسی نے منکر حدیث نہیں کہا. اسکی تازہ مثال ہمارے وقت کے مقبول ترین محدث شیخ ناصر الدین البانی کی ہے، آپ نے صحیح بخاری سمیت کئی کتب پر تحقیق کر کے کچھ روایات کو ضعیف ثابت کیا ہے اور انہیں ہر مکتب فکر کے نمائیندہ علماء نے سراہا ہے. یہ تو علمی کام ہے، ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہنا چاہیئے مگر قبول و رد کے پیچھے من مانی لغوی تفسیر یا عقل پرستی کو بنیاد بنانا صریح گمراہی ہے.
.
حدیث کے ذخیرے کا جائزہ لیجیے تو وہ دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے. ایک اجتماعی احادیث یعنی وہ اعمال جنکی حفاظت و ترسیل کا اہتمام رسول پاک (ص) نے ویسا ہی کیا جیسا کے قرآن کا کیا گیا. ان اعمال کو نہ صرف رسول الله (ص) نے پوری امّت کو کرکے دکھایا بلکے پورے معاشرے میں اسے قایم بھی کیا. جس طرح قران ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا آیا ہے، ٹھیک ویسے ہی یہ اعمال بھی نسل در نسل منتقل ہوۓ. نماز، زکات، حج، روزہ وغیرہ یہ تمام وہ اعمال ہیں جنہیں نبی پاک (ص) نے پورے معاشرے میں قایم فرمایا اور ان کی ترسیل بنا کسی رکاوٹ کے ایک نسل سے دوسری نسل کو منقل ہوتی چلی گئی. ان اجتماعی احکام کے بارے میں کسی طرح کا ابہام نہیں ہونا چاہیے اور ان کا انکار اتباع رسول کا صریح انکار ہے. دوسرا حصہ انفرادی احادیث کا ہے،  یہ پیارے رسول (ص) کے بارے میں ایک قیمتی خزانہ ہے. ہر امتی کی محبت کا لازمی تقاضہ ہے کہ وہ نبی (ص) سے ثابت ہر قول و عمل کو اپنی زندگی میں داخل کرلے. انفرادی احادیث کے زریعے حاصل معلومات محبت رسول کی عکاس ہوتی ہیں. ان پر عمل کرنے والا اجر پاتا ہے لیکن نہ کرنے والا گنہگار نہیں شمار ہوتا. جیسے خوشبو لگانا، ہر کام سے پہلے مسنون دعا پڑھنا وغیرہ. انفرادی احادیث کے سلسلے میں چونکہ ہم راوی کی سند کے محتاج ہوتے ہیں، لہٰذا اس پر علمی تنقید و تصویب کا کام علماء کے درمیان جاری رہتا ہے. دھیان رہے کہ اس علمی تحقیق کے لئے روایت اور درایت کے اصولوں پر قایم حدیث کآ ایک مکمل فن موجود ہے اور اس علم کے ماہرین ہی یہ کام سرانجام دے سکتے ہیں.
====عظیم نامہ====

Sunday, 2 March 2014

عجز اور قدرت کا مفہوم

 فعل نہ کر سکنے اور وجود میں نہ لانے کی عموما دو وجہیں ھوتی ہیں :

 ایک۔۔۔فاعل کی ذات میں ایسی کمزوری ھو جس کی وجہ سے وہ فعل سر انجام نہ دے سکتا ھو
۔
دو۔۔۔مادہ اوراس شئ میں خرابی و نقص ھو جس پر فعل واقع ھو رھا ھے،اور اس خرابی و نقص کی وجہ سے اس میں فاعل کے فعل کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ ھو ۔جیسے پانی میں کاتب کا کتابت نہ کر سکنا کاتب کا نقص نہیں بلکہ پانی کی کمزوری ھے کہ وہ کتابت کو قبول نہیں کرسکتا۔یا شیر خوار بچے کا تعلیم و تربیت کو نہ لینا معلم و مربی کا... عجز نہیں بلکہ بچے کا نقص ھے کہ اس میں تعلیم و تربیت قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ھے ۔

 عجز پہلی صورت کو کہا جاتا ھے نہ کہ دوسری صورت کو ۔اور عموما لوگ عجز کے مفہوم سے نا واقف ھونے کی وجہ سے ذات باری تعالی پر عجز کا الزام لگاتے ہیں (نعوذباللہ )چنانچہ اللہ تعالی کا اپنی مثل پیدا نہ کر سکنا اللہ کا عجز نہیں ھے بلکہ مادہ کا نقص ھے کہ اس میں مثل باری تعالی کی صلاحیت ہی نہیں ھے کہ اس سے مثل باری تعالی بنایا جائے ،یا اللہ کا ہمیں بیک وقت قاعد و قائم نہ کر سکنا اللہ کا عجز نہیں ،بلکہ ہمارا عجز وکمزوری ھے کہ ہم بیک وقت قائم و قاعد قائم نہیں رہ سکتے ،اسی طرح دیگر تمام ان صورتوں میں اصل عجز،نقص ،خرابی اور قصور مادہ اور مفعول کا ھے کہ اس میں اللہ کے فعل کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ھوتی ،نہ کہ اللہ کی قدرت کی کمزوری و خرابی ۔اللہ تعالی تو قادر مطلق ھے ،بس اس کے فعل کو قبول کرنی کی صلاحیت مادہ میں نہیں ھوتی ،جس کی وجہ سے جہلاء مادے کی خرابی کو اللہ کی طرف منسوب کر تے ہیں ۔
============================

کائنات کے اندر رہتے ہوئے تمام چیزوں کو کائنات کے اصولوں کے مطابق پرکھا جائے گا۔ جیسے خالق و مخلوق ہے، علت و معلول ہے۔ پھر خالق بھی کسی خالق سے وجود میں آکر اس مفہوم میں مخلوق ہوگا۔ علت بھی کسی اور علت سے وجود میں آئے گی تو کہیں معلول بنے گی۔لیکن سوال یہ ہے کہ جس وقت علت و معلول کے یہ رشتے ہی موجود نہ تھے اس وقت کسے علت کی ضرورت تھی؟یہ ایک بہت فرسود...ہ سوال ہوچکا ہے کہ اگر ہر چیز کی کوئی علت ہے تو خدا کی علت کیا ہے؟ یا ہر چیز کو پیدا کیا گیا ہے تو خدا کو کس نے پیدا کیا؟ پہلی تو بات یہ طے کی جائے گی کہ کائنات کے اصول کا اطلاق خدا پر بھی ہوتا ہے یا نہیں؟تو جواب یہی ہے کہ ظاہر ہے جب کائنات کو بنانے والا خدا ہے تو خدا پر مادی کائنات کے اصولوں کا اطلاق ممکن نہیں۔ کیونکہ خدا پر نہ تو کوئی زمانے کی پابندی ہے نہ کوئی مکان (بشمول خود مکمل کائنات) خدا کو اپنے آپ میں سما سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی موجودگی کائنات کے اندر ہی نہیں بلکہ اسکی سرحدوں سے بہت ماورا ہے جس پر کائنات کے اصول کا اطلاق یقینی طور پر نہیں ہوگا۔ جبکہ علت و معلول کے رشتے کی پابندی کا ماخذ ضروری ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھیں۔ہم جانتے ہیں کہ بائیولوجیکل سائنس میں مائٹوکونڈریل ایو (Mitochondrial Eve) کا جو وجود ہے وہ انسانیت کی پہلی ماں ہے۔ ہم یہاں علت و معلول کے رشتے کے مقابلے پر ماں اور اولاد کے رشتے کو بطورِ مفروضہ مانتے ہیں۔ لیکن جو اہم بات ہے وہ یہ کہ ایو جب تک اکیلی تھی اس وقت تک نوعِ انسان میں ماں اور اولاد کے رشتے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ایو نے پہلے انسان کو جنم دیا تو اب وہ ماں بنی اور اس نے یہ اصول تخلیق کردیا کہ نوعِ انسان میں جو بھی عورت بچے کو جنے گی وہ انسان ہی ہوگا۔اب اگر آج کوئی یہ سوال کرے کہ جب انسان ماں ہمیشہ انسان بچے کو جنم دیتی ہے تو پہلا انسان بچہ کہاں سے آیا؟ تو اس کا معلوم جواب یہی ہے کہ پہلے انسان بچے کو کسی انسان ماں کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ انسان ماں سے انسان بچے کا اصول تو اس ایو کے بعد تخلیق ہوا ہے۔ اس سے ایک اور بات بھی معلوم ہوئی کہ انسان اس وقت بھی تھا جب نوعِ انسان میں انسان ماں اور انسان اولاد کا اصول قائم نہیں ہوا تھا۔ جب یہ اصول ہی موجود نہیں تھا اس وقت ایو کو کہاں ضرورت تھی کہ وہ بھی اس اصول پر پوری اترے؟اسی مفروضے کا اگر علت و معلول کے رشتے پر اطلاق کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ:1۔ علت و معلول کا رشتہ جہاں سے شروع ہوا ہے وہ ایک ایسی ہستی ہے جس سے قدیم کوئی ہے ہی نہیں۔ 2۔ علت و معلول کا رشتہ اس قدیم ہستی کے پہلی بار کسی معلول کو وجود میں لانے سے وجود میں آیا۔ 3۔
جب اس قدیم ہستی نے پہلی بار کسی معلول کو وجود دیا تو ہر شے علت و معلول کی ڈور میں بندھ گئی۔
================================

ڈیفائین کرتے ہی ہم چیزوں کومحدود کردیتے ہیں
چیزوں کی تعریف کر کے ہم انہیں بہت محدود، مجسم، قید اور  کومحدود کردیتے ہیں
چیزوں کی تعریف کر کے ہم انہیں بہت محدود، مجسم، قید اور (Limited) چونکہ ہر چیز لامحدود ہے جبکہ مائنڈ اور اس کا کینوس بہت محدود ہے اسی لیے وہ یہ سازش کرتا ہے۔
مثال کے طور پہ جس کمرے میں اس وقت بیٹھا ہوا ہوں، وہاں دنیا بھر کے ٹی وی چینلز کی نشریات ریڈیائی لہروں کی صورت میں موجود ہے۔ لیکن میں اپنے حواس خمسہ کیمدد سے انہیں دیکھ یا سن نہیں سکتا، اس کے لیے ٹی وی آن کرنا پڑتا ہے، کہ ٹی وی ان ریڈیائی لہروں کا ڈی کورڈر ہے۔
وہ ان لہروں کو ڈی کوڈ کر کے سکرین پر چلتی پھرتی تصویروں کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ فرض کریں کے بی۔بی۔سی کے ورلڈ چینل پر نیلسن منڈیلا کا انٹر ویو چل رہا ہے۔۔۔۔میرے کمرے میں مینڈیلا ریڈیائی لہروں کی صورت میں موجود ہے۔۔۔
بٹن دباتے ہی وہ سکرین پر باتیں کرتا ہوا ظاہر ہوجائے گا، کیا میرے کمرے میں منڈیلا کی تمام ریڈیائی لہریں میرے ٹی وی سیٹ میں سمادی گئی ہیں؟ قطعا نہیں، میں کمرے میں ایک اور ٹی وی سیٹ آن کر کے بی۔بی۔سی کا ورلڈ چینل لگاؤں تو اس میں بھی وہی مینڈیلا جلوہ گر ہو جائے گا۔۔۔۔
کمرے میں ہزار ٹی وی لگادوں ان سب پر مینڈیلا ہوگا، پہر بھی میرے کمرے میں اسکی ریڈیائی لہریں ختم نہیں ہوگی، میرا کمرہ ہی نہیں پورا کرہ ارض سٹیلائٹ کے ذریعے اسوقت مینڈیلا کی لہروں سے بھرا ہوگا، دنیا کے کسی بھی کونے میں مزکورہ چینل لگانے سے سکرین پر مینڈیلا ہی ظاہر ہوگا۔۔۔۔
پوری زمین ٹی وی سکرینوں بھر دی جائے تو بھر بھی ہر سکرین پر نظر آنے کے باوجود فضاؤں سے اسکا ریڈیائی وجود ختم نہیں ہوگا اور نہ ہی کم۔ ٹی وی کی ہر تصویر اصل میں ریڈیائی لہر ہے، مختلف ٹی وی چینلز مختلف فریکوئینسیز پر اپنی نشریات براڈ کاسٹ کرتے ہیں۔۔۔۔چینل بدلنے سے فریکوئینسی اور اس کے ساتھ ہی نشریات/تصاویر بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ارد گرد بھی سب کچھ ریڈیائی لہروں کی طرح ہے، سب کچھ انرجی ہے، ہر چیز اسی انرجی کی مختلف فریکوئنسی ہے، ہمارا مائنڈ ٹی وی سکرین کی مانند ہے۔ ہمارا دماغ مختلف فریکوئینسیز ڈی کوڈ کرتا ہے، مائنڈ اپنی سکرین پر اسکی تصویر دکھاتا ہے۔۔۔۔

  جس طرح ٹی وی سکرین پر نظر آنے والا مینڈیلا مکمل مینڈیلا نہیں، سکرین بلکہ سکرینوں پر نظر آنے کے باوجود وہ ریڈیائی لہروں کی صورت میں پوریے کرہ ارض کی فصاء میں پھیلا ہوا ہے، جو چاہے جب چاہے، جہاں چاہے، اپنا ٹی وی چینل آن کر کے اسے سکرین میں سمیٹ کر دیکہ سکتا ہے۔۔۔بلکل اسی طرح ہمارے مائنڈ کی سکرین پر آنے والی ہر شکل بھی انرجی کی فریکوئنسی کی صورت میں پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے۔
ٹی وی نشریات کا دائرہ زمین تک محدود ہے، جبکہ ''قدرتی نشریات'' کا دائرہ آسمانوں سے بھی آگے، لا محدود ہے۔ ٹی وی سکرین پر مینڈیلا کی تصویر کا کرہ ارض پر اس کی ریڈیائی لہروں سے تناسب نکالا جائے، تو اعشاریہ کے ساتھ متعدد صفر لگانے کے بعد ہی کہیں جاکر کسی ہندسے کی باری آئیگی۔۔۔۔
اور اگر مائنڈ کی سکرین پر آنے والی کسی تصویر کا زمینوں پر پھیلی، آسمانو پہ چھائی اس کی انرجی فریکوئنسی سے تناسب نکالا جائے تو اعشاریہ کے بعد اتنے صفر لگانے پڑیں گے کہ کوئی ہندسہ شروع ہونے سے پہلے کمپیوٹر سکرین ختم ہو جائے گی۔ مائنڈ کے ذریعے کسی بھی چیز کی ''اصلیت'' جانتے/پہچانتے/مانتے ہیں، حقیقت سے اسکا تناسب بس اتنا ہے۔
اتنی معمولی سی نام نہاد ''اصلیت'' پر ہم حقیقت قربان کر دیتے ہیں۔ اسے ہی ہم پوری حقیقت سمھتے ہیں، ہمارے ارد گرد کی دنیا کی اوقات بس اتنی سی ''اصلیت'' پر مشتمل ہے، اسی لیے دنیا کو سراب کہا گیا ہے، مایا قرار دیا گیا یے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ارد گرد کچھ بھی نہیں، بلکہ مقصد یہ ہے جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے اصل میں وہ اہسا نہیں، حقیقت کے سامنے اس کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔
جسے ہم اتنا اہم سمجھ رہے ہیں وہ بہت معمولی ہے، انبیاء/صوفیاء نے جسے ترک دنیا کہا اسکا مطلب جنگلوں میں نکل جانا نہیں بلکہ دنیا کی اصلیت جاننا ہے، کہ جسئ ہم سونا سمجھ رہے ہیں وہ اصل میں مٹی کا ایک ڈھیلہ ہے۔
اتنی سی حقیقت کو پم حقیقت کے مقابل لاکر (Duality) پیدا کر دیتے ہیں، قطرے کا سمندر کو للکارتے ہی مائنڈ کا کام چل پڑتا ہے، ڈیفائین کرتے ہی ہم چیزوں کو (Confine) کردیتے ہیں، ان کی حقیقت کو نام نہاد ''اصلیت'' کا روپ دے دیتے ہیں۔ لامحدود کی حد بندی کر دیتے ہیں انکی حدود متعین کر دیتے ہیں، انہیں قید کرلیتے ہیں، پابند کر دیتے ہیں، غلام بنا لیتے ہیں، انہیں حقیقت سے الگ کر دیتے ہیں اور اسی چکر میں ہم خود بھی (Existence) سے جدا ہو جاتے ہیں۔
دوسروں کی حدیں بناتے بناتے خود اپنی حد بندی کر لیتے ہیں، حدود کی دیواریں کھڑی کر لیتے ہیں، خود بھی قید ہو جاتے ہیں، پابند ہو جاتے ہیں، غلام بن جاتے ہیں۔ ہر چیز کی حقیقت کو نام نہاد ''اصلیت'' کا روپ دیتے دیتے، ہم خود بہروپیئے بن گئے ہیں۔ ہر حقیقت کو جسمت بخشتے بخشتے ہم خود اپنے ہی جسم کی بخشش بن کر رہ گئے ہیں۔
ہماری حقیقت بھی اس نام نہاد ''اصلیت'' میں مجسم ہوگئی ہے، اب یہ مریل جسم ہی سب کچھ ہے، یہی پیدا ہوتا ہے، یہی مرتا ہے، یہی جنت ہے یہی جہنم جاتا ہے، یہی جہنم جاتا ہے، دوسروں کو ڈیفائین کرتے کرتے ہم خود (Confine) ہوگئے ہیں۔ جب تک دوسروں کا ڈیفائین کرنا ہے تب تک خود کا (Confine) ہونا ہے۔
دوسروں کی پیمائش اصل میں اپنی آزمائش ہے۔ جب تک دوسروں کو جسامت میں ڈھالتے رہیں گے تب تک خود کو ہلاکت میں ڈالتے رہیں گے۔ جب تک دوسروں کو سمیٹتے رہیں گے تب تک خود سکڑتے رہیں گے، جب تک دوسروں کی حدود ناپتے رہیں گے تب تک خود اپنی حدود میں کانپتے رہیں گے۔
دوسروں کی حدود کا تعین کرنا اپنی حدود متعین کرنا ہے۔ یہ حد بندی ہی الحاد ہے۔ الحاد کا مطلب ''کسی ایک طرف مائل ہونا، جھک جانا'' ہے۔ اسی سے لفظ لحد بنا ہے جسکا مطلب قبر ہے۔ قبر کو لحد اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ لوگوں سے الگ ہے، زندگی سے دوسری طرف ہے، زندگی مرکز میں ہے، حرکت کا نام ہے جبکہ مردہ مرکز میں نہیں، زندگی میں نہیں، زندگی سے دوسری جانب جھک گیا ہے، قبر میں محدود ہوگیا ہے۔ قبر ہی اب اس کی حد ہے اسی لیے لحد ہے۔
مرکز میں ہونا زندہ ہونا ہے اور مرکز سے دور ہونا، مرکز سے دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے کہیں بھی ہونا مردہ ہونا ہے، ایسے ہی شخص کو ملحد کہتے ہیں۔ انبیاء/صوفیاء ایسے ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں، انہیں مرکز میں لاتے ہیں، ملحد کو موحد بناتے ہیں۔۔
تحریر: عدم وجود
==================================
لوگ اسی لیے خدا کو مانتے ہیں کیونکہ وہ خدا کو جانتے نہیں،
جاننے کے بعد ماننے کی ضرورت نہیں رہتی۔۔
===================================
''۔۔افسوس کے سیاستدانوں نے سقراط کو بھی فلاسفر بناکر پیش کیا۔۔''


حالانکہ سقراط ایتھنز میں وہی کچھ کہ رہا تھا جو چین میں لاؤتنز اور بہار میں بدھا کہ رہا تھا۔ اگر سقراط کو فلاسفر کہا جاتا ہے تو پھر لاؤتنز اور بدھا کو فلاسفر کیوں نہیں مانا جاتا؟؟؟


اگر لاؤتنز اور بدھا نبی/صوفی ہیں تو پھر سقراط کو نبی/صوفی کیوں نہیں گردانا جاتا؟؟؟ سقراط کو فلاسفر کہنا، سقراط کو گالی دینا ہے۔ سارے فلاسفر گفتار کے غازی... ہیں کردار کے یہ بیچارے ''شہید'' ہیں۔۔

ساری زندگی ان بیچاروں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکے۔ الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھے رہے۔ تمام فلاسفر بے بنیاد باتوں کو بنیاد بنا کر اپنا کاروبار چلاتے رہے، رائی کا پہاڑ بناتے رہے اور پہر اسی پہاڑ کے نیچے دب کر اوپر جاتے رہے۔

ان کتابی کیڑوں کی زندگی ریشم کے کیڑے جیسی ہوتی ہے۔ محض لفظوں کی چگالی کرتے رہتے ہیں۔ ساری زندگی الفاظ کی ادھیڑ بن سے اپنا کفن بنتے ہیں۔ اپنے ہی نظریات کے قفس میں دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ یہ وہ اندھے ہیں جو دنیا کو قوس و قزح دیکھاتے پھر رہے ہیں، وہ گونگے ہیں جو گانے گاتے پھر رہے ہیں، وہ بہرے ہیں جو ترانے سنتے پھر رہے ہیں۔۔۔

بقل شخصے فلاسفر وہ شخص ہے جو اندھیری رات کو اندھیرے کمرے میں ایسی کالی بلی تلاش کرنے میں مصروف ہے کہ جو وہاں موجود ہی نہیں، کسی یونیورسٹی میں چلے جایئں، وہاں جو شخص مفلوک الحال نظر آئے، بال بکھرے ہوں، کپڑے پھٹے ہوں، عینک کا ایک شیشہ ٹوٹا ہو، دیکھتا پیچھے ہو چلتا آگے ہو، کبھی خواہ مخوہ ہنسنے لگے، کبھی بلا وجہ رونے لگے، تو سمجھ لیجئے گا کے موصوف بھیک مانگنے آئے ہیں یا فلسفہ پڑھانے آئے ہیں۔

سقراط کی بدنصیبی تھی کہ افلاطون کو چند روز اسکی صحبت میں گزارنے کا موقعہ مل گیا اور وہ خود کو سقراط کا شاگرد کہلوانے لگا، پھر ارسطو، افلاطون کا شاگرد تھا، ان دونوں نام نہاد شاگردوں کی زندگی کا واحد مقصد سقراط کو الٹا لٹکانا معلوم ہوتا ہے، لیکن سقراط کو الٹا لٹکاتے لٹکاتے خود لوجک کی چھت سے جا لٹکے۔۔۔

پورا مغربی فلسفہ اور سارے نام نہاد مزاہب ان دو ''چمکادڑوں'' کی دم سے لٹکے ہوئے ہیں، اسی لیے انہیں سب الٹا دکھائی دیتا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ جب بھی کسی نبی/صوفی کی تعلیمات کو اسکے کسی نام نہاد ''چند روزہ شاگرد'' نے الٹا لٹکانے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں جو
 بھی مزہب، نظریہ یا فقہ بنا وہ الٹا ہی پیدا ہوا۔۔۔
====================================
'حمزہ ہاشمی نے پوچھا کے تم کب سے رہبان بن گئے؟؟؟
تو سنوں حمزہ میں جب سے رہبان بنا،
جب میں نے ماں سے پوچھا کے ماں اللہ کون ہے؟؟؟
ماں نے پیار سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں میں میرا چہرہ
لے کر بولی عدم مجھے دیکھ میں کون ہوں،
میرے دل نے...
''الستُ بربکم''؟ کی آواز سُنی
اور روح پکار اٹُھی: ''بلٰی''۔
اگر کوئی جان سکتا ہے تو جان لے،
خمیر کے بغیر دودھ نہیں جمتا
خواہ وہ ابل ابل کر
سرخ کیوں نہ ہوجائے۔
عدم!
جب مسجدوں سے
بھاگ نکلے،
تو آنکھوں نے
مقصود کو پالیا۔
کہ پڑھے بغیر پڑھا جارہا ہے۔
کانوں میں انگلیاں دے رکھی ہیں
اور سنے بغیر سنا جا رہا ہے۔
اور دیکھے بغیر دیکھائی دے رہا ہے۔
درد مند یہ اشارے سمجھ گئے۔۔۔۔۔۔
اور بے درد ۔۔۔۔۔۔۔ اگر
اسکو نہ سمجھیں
تو وہ جائے بھاڑ میں

==================================
''۔۔کسی ایک کا انتخاب موت ہے۔۔''

جس طرح سانس کااندر آنا منظور اور باہر جانا نامنظور، نئے خلیئوں کا بننا قبول اور پرانے خلیؤں کا بکھرنا مسترد اور صرف کچن کا بنانا، ٹوائلٹ کا ڈھانا موت۔ بلکل اسی طرح ہر وہ چیز جسے مائنڈ اپنی سہولت کیلئے دو میں تقسیم کر دیتا ہے، اس میں سے کسی ایک کو قبول اور دوسرے کو مسترد کرنا بھی ہلاکت ہے۔

جب ہم دوسرے کو قبول نہیں کرتے ہیں تو دوسرا بھی ہمیں مسترد کر دیتا ہے۔ جب ہم دوسرے کو دوست سمجھتے ہیں تو وہ ہمیں عزیز جانتا ہے۔ جسطرح ہم اندر آنے والی سانس کو محبت سے خوش آمدید کہتے ہیں، باہر جانے والی سانس کو بھی اسی محبت سے واپسی کے انتظار میں وداع کرتے ہیں۔ ہم اپنے خلیؤں کی تعمیر و تخریب کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔ اس عمل میں پڑنے والی کسی بھی رکاوٹ کو فوری طور پر دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمارے کچن جتنے دلکش ہوتے ہیں ٹوئلٹ بھی اتنے جاذب نظر ہوتے ہیں۔ ہم دونوں کو بخوشی قبول کرتے ہیں، اسی لئے زندگی رواں دواں ہے، ہم جنہیں دو سمجھ رہے ہیں وہ اصل میں تو ایک ہی ہے۔

مثلا ہماری اندر آنے والی سانس باہر جانے والی سانس سے الگ اور مختلف نہیں ہے۔ سانس وہی ہے، اندر آکسیجن دیتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتی ہے۔ اور باہر جاکر اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضاء میں چھوڑتی ہے وہاں سے پھر آکسیجن بھر کر تازہ ہو جاتی ہے اور پھر ہمارے پھیپڑوں کا دورہ کرتی ہے اورپھر سے میں آکسیجن دیتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

اسی طرح کھانے سے پہلے جو غزا ہے، چبانے کے چند گھنٹوں بعد وہی فضلہ ہے۔ یہ سوچ انتہائی نا معقول ہے کہ ایک قبول تو دوسرا فضول ہے، یہ فضول قبول کے بعد ہی معرض وجود میں آیا۔ ہر بائی پراڈکٹ اصل میں پراڈکٹ ہی کاحصہ ہے۔ جب ہم ایک کو قبول اور دوسرے کو فضول قرار دیتے ہیں، پراڈکٹ منظور کر کے بائی پراڈکٹ مسترد کرتے ہیں، تو یہی فضول پراڈکٹ ہماری جان لے لیتی ہے۔

جب ہم کاربن ڈائی آلسائیڈ خارج نہیں کرینگے تو مزید آکسیجن بھی جزب نہیں کرسکیں گے، خارج نہ ہونے کی وجہ وہی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمارے جسم میں زہر بن جائیگی، دوسری مثال کا اخراج نہ ہونے پر بھی ہمارا جسم زہر آلود ہوجائے گا۔

جب ہم دوسرے کو مسترد کرتے ہیں تو براہ راست ہم پہلے کو بھی مسترد کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اصل میں تو وہ دونوں ایک ہی ہوتے ہیں، وہ تو مائنڈ نے اپنی نااہلی اور مجبوری کی وجہ سے انہیں الگ الگ مختلف اور متضاد کے طور پر پیش کیا، اس مقام پر ہمارے لیے صرف اتنا جاننا ضروری اور کافی ہے کہ ہر وہ چیز جو ہمیں الگ الگ، مختلف اور متضاد دکھائی دیتی ہے وہ اندر آنے اور باہر جانے والی سانس کی طرح اصل میں ایک ہی ہے۔

ہر ایک بظاہر دو ہے، جبکہ ہر دو اصل میں ایک ہیں، محبت اور نفرت ایک ہی انرجی کے اظہار کے مختلف انداز ہیں، دکھ سکھ ایک ہی حالت کی مختلف صورتیں ہیں، مرد و عورت ایک ہی انسان کے دو مختلف شکلیں ہیں۔

ہر چیز، ہر جزبہ انرجی ہی کی کوئی نہ کوئی شکل ہے اور اسکی متضاد صورتیں اصل میں اسی انرجی کے اظہار کی مختلف سمتیں ہیں۔ ایک کو قبول کرکے ہم دوسرے کو بھی لامحالہ قبول کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ دونوں اصل میں ایک ہی ہیں لیکن مائنڈ کے جہان سے میں آکر ہم اسکا اقرار نہیں کرتے، اسی سے ٹینشن پیدا ہوتی ہے، اور ہم مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔

جس طرح ایک کو قبول کرکے ہم بلا واسطہ طور پر دوسرے کو قبول کر رہے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح دوسرے کو مسترد کر کے ہم پہلے کا بھی استرداد کر دیتے ہیں کیونکہ دونوں ایک ہی ہیں، الگ الگ نہیں رہ سکتے۔ یہاں بھی ہم مائنڈ کے چکر میں آکر تسلیم نہیں کرتے، اس سے ٹینشن پیدا ہوتی ہے، ہم عزاب جھیلتیں ہیں، مائنڈ اسی ٹینشن میں سروے کرتا ہے۔

جسمانی معاملات میں تو ہم مائنڈ کے جھانسے میں نہیں آتے کہ اسکا مطلب ہماری فوری موت ہے تاہم دیگر تمام معاملات میں ہم اسکے جھانسے میں آئے بغیر نہیں رہتے کہ اس میں اس کی موت ہے۔ ان معنوں میں (Duality) کا مطلب انرجی کی دونوں صورتوں کو محض جاننا، ماننا تسلیم کرنا نہیں بلکہ کسی ایک کے ساتھ وابستہ، نتھی ہوجانا ہے۔ اسے اپنی شناخت کی بنیاد بناکر وہیں سے دوسرے کے خلاف جنگ چھیڑ دینا ہے۔

یہ تو بلکل ایسے ہی ہوا جیسے ہم کہیں کہ ایک گائیں کا سر دھڑ دو مختلف حصے ہیں، ہم پچھلے حصے کے ساتھ ہوجائیں کہ وہ دودھ دیتا ہے جبکہ اگلے کی مزمت کریں کے ہر وقت گھاس کھاتا رہتا ہے۔ گائے کو دم سے پکڑ کر گھسیٹتے پھریں کہ صرف پچھلا حصہ ہمارا ہے جبکہ اگلے حصہ سے ہمارا کوئی سروکار نہیں۔ اسطرح سے گھسیٹے جانے پرتو وہ مسکین سی گائے بھی ہماری پشت پر دولتی رسید کرتے ہوئے دم چھڑوا کر بھاگ کھڑی ہوگی۔

اس توہین پر تو ایک گائے ہماری یہ درگت بنا سکتی ہے تو ہماری ''خدائی'' صفت انرجی تقسیم کی تزلیل پر ہمارا کیا حشر کرتی ہوگی؟؟؟ کلی (ٹوٹل) انرجی خود ہمیں خدا بنا دیتی ہے، آسمانوں پہ پہنچا دیتی ہے۔ منقسم انرجی خود شیطان بن جاتی ہے، دنیا بھر میں رسوا کر دیتی ہے
================================
''۔۔ہماری زندگی کی بنیاد موت پر رکھی گئی ہے۔۔''

مزہب کی بنیاد پر ہمیں بچپن سے کسی ایک کے انتخاب کی تعیلم و تربیت دی جاتی ہے۔ کسی ایک کا انتخاب زندگی کا اصول بنا دیا گیا ہے حالانکہ کسی ایک کاانتخاب موت ہے، یعنی ہماری زندگی کی بنیاد موت پر رکھی گئی ہے،

تو پھر زندگی موت سے بدتر کیوں نہ ہو؟ ایک چپو سے کشتی اور ایک پر سے پرندہ ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں، آگے بڑھ نہیں سکتے۔

ہم اپنے اسی انتخاب کی رسوئی کا شکار ہیں، اسی لیے دائرے کا سفر جاری و ساری ہے۔ انسان اسی لیے خسارے میں ہیں کہ یہ انتخاب اس کا اپنا سودا ہے خسارے کا سودا ہے۔۔

کسی ایک کا انتخاب موت ہے۔
اپنا نظام تنفس دیکھ لجیئے، نظام تنفس سے مراد سانس اندر لیجانا نہیں بلکہ سانس باہر نکالنا بھی ہے۔ سانس کی یہ آمدورفت ہی ہماری زندگی کی نشانی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے ہمیں دونوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔

اگر ہم کسی ایک کا انتخاب کریں مثلاسانس کو اندر آنے تو دیں مگر اسے باہر نا نکالیں تو کیا ہوگا؟ موت، جان ہی نکل جائے گی کیونکہ زندہ رہنے کے لیے صرف سانس لینا ہی ضروری نہیں سانس دینا بھی لازمی ہے۔

ہمارے جسم میں ہر لمحہ نئے خلیئے جنتے اور پرانے مرتے رہتے ہیں۔ ہر سات سال میں خلیہ بدل جاتا ہے، انسان کا پورا جسم تبدیل ہوجاتا ہے، بلکل نیا بن جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے خلیوں کی اس جیون مرن میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔

مثلا نئے خلیئے تو بننے دیں اور پرانوں کو مرنے نہ دیں تو کیا ہوگا؟ موت ہمارے جسم کا ہر ایک انچ کینسر کا شکار ہو جائے گا، کیونکہ کینسر خلیئوں کی غیر ضروری افزائش ہی کا نام ہے۔ اکر ہم اس کینسر کو برداشت بھی کرلیں تو چند سالوں میں ہمارا جسم ہاتھی کی طرح ہوجائے گا۔

اپنا نظام انہضام ہی دیکھ لیں، صرف کھانا نہیں، ٹوائلٹ جانا بھی ضروری ہے، اگر ہم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، مثلا گھر میں کچن تو بنائیں لیکن ٹوائلٹ مسمار کر دیں تو کیا ہوگا؟

ہمارے جسم کو صرف غزا کے اندراج کی ضرورت نہیں، فضلات کے اخراج کی حاجت بھی ہے۔ اپنے اندرونی معاملات میں ہم ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ دونوں کو قبول کرتے ہیں مگر بیرونی معاملات میں ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ دونوں کو قبول نہیں کرتے۔

اللہ کو مانتے ہیں شیطان کو دھتکارتے ہیں، جنت قبول، دوزخ فضول، ثواب اچھا، گناہ برا، خوبصورتی منظور، بد صورتی دور۔ ہر معاملہ میں ہم نے میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
''
۔۔ہماری زندگی کی بنیاد موت پر رکھی گئی ہے۔۔''

مزہب کی بنیاد پر ہمیں بچپن سے کسی ایک کے انتخاب کی تعیلم و تربیت دی جاتی ہے۔ کسی ایک کا انتخاب زندگی کا اصول بنا دیا گیا ہے حالانکہ کسی ایک کاانتخاب موت ہے، یعنی ہماری زندگی کی بنیاد موت پر رکھی گئی ہے،

تو پھر زندگی موت سے بدتر کیوں نہ ہو؟ ایک چپو سے کشتی اور ایک پر سے پرندہ ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں، آگے بڑھ نہیں سکتے۔

ہم اپنے اسی انتخاب کی رسوئی کا شکار ہیں، اسی لیے دائرے کا سفر جاری و ساری ہے۔ انسان اسی لیے خسارے میں ہیں کہ یہ انتخاب اس کا اپنا سودا ہے خسارے کا سودا ہے۔۔

کسی ایک کا انتخاب موت ہے۔
اپنا نظام تنفس دیکھ لجیئے، نظام تنفس سے مراد سانس اندر لیجانا نہیں بلکہ سانس باہر نکالنا بھی ہے۔ سانس کی یہ آمدورفت ہی ہماری زندگی کی نشانی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے ہمیں دونوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔

اگر ہم کسی ایک کا انتخاب کریں مثلاسانس کو اندر آنے تو دیں مگر اسے باہر نا نکالیں تو کیا ہوگا؟ موت، جان ہی نکل جائے گی کیونکہ زندہ رہنے کے لیے صرف سانس لینا ہی ضروری نہیں سانس دینا بھی لازمی ہے۔

ہمارے جسم میں ہر لمحہ نئے خلیئے جنتے اور پرانے مرتے رہتے ہیں۔ ہر سات سال میں خلیہ بدل جاتا ہے، انسان کا پورا جسم تبدیل ہوجاتا ہے، بلکل نیا بن جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے خلیوں کی اس جیون مرن میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔

مثلا نئے خلیئے تو بننے دیں اور پرانوں کو مرنے نہ دیں تو کیا ہوگا؟ موت ہمارے جسم کا ہر ایک انچ کینسر کا شکار ہو جائے گا، کیونکہ کینسر خلیئوں کی غیر ضروری افزائش ہی کا نام ہے۔ اکر ہم اس کینسر کو برداشت بھی کرلیں تو چند سالوں میں ہمارا جسم ہاتھی کی طرح ہوجائے گا۔

اپنا نظام انہضام ہی دیکھ لیں، صرف کھانا نہیں، ٹوائلٹ جانا بھی ضروری ہے، اگر ہم ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں، مثلا گھر میں کچن تو بنائیں لیکن ٹوائلٹ مسمار کر دیں تو کیا ہوگا؟

ہمارے جسم کو صرف غزا کے اندراج کی ضرورت نہیں، فضلات کے اخراج کی حاجت بھی ہے۔ اپنے اندرونی معاملات میں ہم ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ دونوں کو قبول کرتے ہیں مگر بیرونی معاملات میں ہمیشہ کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ دونوں کو قبول نہیں کرتے۔

اللہ کو مانتے ہیں شیطان کو دھتکارتے ہیں، جنت قبول، دوزخ فضول، ثواب اچھا، گناہ برا، خوبصورتی منظور، بد صورتی دور۔ ہر معاملہ میں ہم نے میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
============================