Sunday, 1 December 2013

شاعری







  • ہر ایک پر لگاتا ہے تو کفر کے فتوے !
    اسلام تیرے باپ کی جاگیر تو نہیں


Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - 29 May 2013
  • دستار کے ہر تار کی تحقیق ہے لازم
    ہر صاحب دستار معزز نہیں ہوتا

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Jul 23
خیام اگر بادہ کشی سے خوش ہے
شیشے کی بنی لال پری سے خوش ہے
.
کیوں روکتے ہو ؟ اسے نصیحت کرکے !
خوش رہنے دو، اگر اپنی خوشی سے خوش ہے

Not helpful
Quote


تفسیر ہستی کیا ہوگی ؟ انسانی فہم کے حلقہ میں ؟
جو عقل کی مکڑی بنتی ہے ، وہ فکر و نظر کا جالا ہے

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Jul 23
خواب مرتے نہیں ..
.
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جایئں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جایئں گے...
.
خواب مرتے نہیں ..

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Jul 27
ﺑﻮﻟﻮﮞ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﭦ ﺗﻮ ____ﻣﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺿﻤﯿﺮ
ﮐﮩﮧ ﺩﻭﮞ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﭻ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﻨﮕﮯ ﻟﻮﮒ

جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں 
میں اس شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Jul 27
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا

کہیں ممکن ہوا کہیں واجب
کہیں فانی کہیں بقا دیکھا

دید اپنے کی تھی اسے خواہش
آپ کو ہر طرح بنا دیکھا

صورتِ گُل میں کھل کھلا کے ہنسا
شکل بلبل میں چہچہا دیکھا

شمع ہو کر کے اور پروانہ
آپ کو آپ میں جلا دیکھا

کر کے دعویٰ کہیں انالحق کا
بر سرِ دار وہ کھنچا دیکھا

تھا وہ برتر شما و ما سے نیاز
پھر وہی اب شما و ما دیکھا

کہیں ہے بادشاہ تخت نشیں
کہیں کاسہ لئے گدا دیکھا

کہیں عابد بنا کہیں زاہد
کہیں رندوں کا پیشوا دیکھا

کہیں وہ در لباسِ معشوقاں
بر سرِ ناز اور ادا دیکھا

کہیں عاشق نیاز کی صورت
سینہ بریاں و دل جلا دیکھا

(نیاز بریلوی)

وہ نظر چھپ کے مجھے دیکھ رہی ہو جیسے
.
ایک لمحہ میں سمٹ آیا .. صدیوں کا سفر
زندگی تیز .. بہت تیز چلی ہو جیسے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Jul 27

میں نے کوئی خطاء کی نہیں 
اس خطاء کی سزا دیجیئے ؟
.
میرا دامن بہت صاف ہے 
کوئی تہمت لگا دیجیئے ؟

لذت غم بڑھا دیجیئے
آپ پھر مسکرا دیجیئے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Jul 27

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
.
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
.
نہ سنو اگر ____برا کہے کوئی
نہ کہو، ____ گر برا کرے کوئی
.
روک لو ،__ گر غلط چلے کوئی
بخش دو ،__گر خطا کرے کوئی
.
جب توقع ہی اٹھ گئی ،_ غالب
کیوں کسی کا __گلاکرے کوئی

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 11
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻋﺸﻖ ﺗﮭﺎ، ﻧﻤﺎﺯ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺳﻼﻡ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺷﮏ ﺍﺷﮏ ﺗﮭﺎ ﻣﻘﺘﺪﯼ، ﺗﺮﺍ ﺣﺮﻑ ﺣﺮﻑ ﺍﻣﺎﻡ ﺗﮭﺎ

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 14
یہ جو تم نے بدلا ہے
یہ بدلا ہے یا بدلہ ہے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 14
بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدم
بارش کے سب حروف کو الٹا کے پی گیا

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 14
کہتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ،
 ہم لوگ بھی مرید اسی سلسلے کے ہیں

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 20
سلجھا ہوا سا فرد سمجھتے ہیں مجھ کو لوگ
الجھا ہوا سا مجھ میں کوئی دوسرا بھی ہے
تم وہی دُشمن ِ احیائے صدا ہو کہ نہیں
پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں
.
تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی
تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی...
اینٹ سے اینٹ بجادی گئی خودداری کی
خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی
.
آج تم مجھ سے مری جنس ِ گراں مانگتے ہو ؟
حَلَفِ ذہن و وفادارئ جاں مانگتے ہو ؟
.
جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو
طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو
اپنے دربانوں سے بدتر فُقرا سے مانگو
اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو
.
مجھ سے پوچھو گے تو خنجر سے عُدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا
.
تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے
جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے
اپنی آسائش ِ یک عُمر ِ گریزاں کے لِیے
سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے
.
تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں ؟
عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں ؟
مشعلوں کا یا اندھیروں کا طلبگار بنوں ؟
کس کے خرمن کے لیے شعلہء اسرار بنوں ؟؟
.
آج تم رام کے مونس نہ ہنومان کے دوست
تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ مُسلمان کے دوست
نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست
.
تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہو بازاروں میں

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 20
مُفلسی دھات کے سکّوں کو جنم دیتی ہے
زندگی موت کے چکلوں کو جنم دیتی ہے
.
روحیں تہذیب کے شعلوں سے کچل جاتی ہیں
کونپلیں ریل کے پہیوں میں کچل جاتی ہیں ...
.
قہقہے جلتے ہوئے گوشت کی بو دیتے ہیں
اسپتالوں کو جراثیم نمو دیتے ہیں
.
خون بھی ملتا ہے ہوٹل میں رگِ تاک کے ساتھ
عمداً زہر دیا جاتا ہے خوراک کے ساتھ
.
اُسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جسم بکتے ہیں ، ادب بکتا ہے ، فن بکتا ہے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 20
مہر و وفا کی لاش پر سربلند ہیں
جن کو وفا پسند ہے، وہ لوگ چند ہیں
.
ان ہی چند لوگوں سے ہے التجا میری
اٹھو اور جلا دو پھر دیا کوئی !...
.
پھر دور سے نظر آئے ، ہمیں منزل کی روشنی
پھر سے زمانہ دیکھے، یہ قوم ہے وہی !
.
ممکن ہے ہم تو جیتے جی ، منزل نہ پاسکیں
لیکن ہماری نسلیں تو منزل پر جاسکیں ؟
.
ایک بار پھر قائد اور اقبال دے ہمیں
اے سرزمیں کی کوکھ ! کوئی لعل دے ہمیں
کوئی لعل دے ہمیں ؟
کوئی لعل دے ہمیں ..

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 20
دو چار نہیں مجھ کو فقط ایک دکها دو
وہ شخص جو اندر سے بهی باهر کی طرح هو

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 20
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
.
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو...
.
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
.
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
.
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
.
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
.
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 20
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
اکبر الہ آبادی

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 20
ان پتھروں کےشہر میں جینا محال ھے
ہرسنگ کہہ رہا ھے مجھے دیوتا کہو

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 20
کمال کا پیر ہے عشق
چھوڑ دیتا ہے مرید کرکے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 21
اس شہر کے انداز عجب دیکھے ہیں یارو
گونگوں سے کہا جاتا ہے بہروں کو پکارو

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 21
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا


چلو چھوڑو یہ سب بحث و تکرار کی باتیں
یہ بتاؤ ، بچھڑ کے خوش تو ہو نا ۔ ۔ ۔ ؟؟


Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 21
دائرہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
خود سے نکلوں تو تجھ سے بات کروں

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 21
نہ تھیں اور کوئی بھی رنجشیں،
صرف عادتوں میں تضاد تھا
.
کہ اسے پسند تھیں شوخیاں،
مجھے سادگی میں کمال تھا !

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 23
اس بار وہ تلخی ہے کہ روٹھے بھی نہیں ہم
اب کہ وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے!
جون ایلیا

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 23
ڈارون تیرا نظریہ ہے سراسر الٹا
____
نسل_ انساں سے بتدریج ہیں بندر نکلے
______
حیدر علی اثر

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 23
ارتقاء پر بھی انساں نہ بنے 
الہی یہ کیسے بندر ہیں  ؟

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 23
کہا منصور نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا، بوزنا ہوں میں
ہنس کے کہنے لگے مرے اک دوست
’’فکر ہر کس بقدر ہمت اوست‘‘


Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 23
کسی کو ہم اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
منیر نیازی


Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 23

مرید سادہ تو رو رو کے ہوگیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 23
اجڑا ہے یوں چمن کہ گزرا ہے یہ گمان
اس کام میں شریک کہیں باغباں نہ ہو
تیری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی 
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ " تو " بدل جائے 
.
تیری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا 
عجب نہیں کہ یہ چار سو بدل جائے
.
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
میری دعا ہے تری آرزو بدل جائے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 23
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 26
یه جو تکتا هے آسماں میں تُو
کوئی رهتا هے آسماں میں کیا ؟
جون ایلیا

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 26
آسمانوں سے پکارے جائیں گے
ھم اسی دھوکے میں مارے جائیں گے
رات ہی ھو گی علامت رات کی
رائیگاں سب استعارے جائیں گے...
اکبر معصوم

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 26
شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو سیدھا دکھائی دے گا

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 26
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا 

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 28
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
.
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں...
.
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
.
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
.
علامہ اقبال رح

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 29
پھر سے آنکھوں میں خواب انشاء جی
اجتناب اجتناب اجتناب انشاء جی

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 29
اپنی تعریف سن نہیں سکتا ..
خود سے مجھ کو بلا کی وحشت ہے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Aug 29
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو 
گھری ہوئی ہے طوائف، تماش بینوں میں 
.
آغا شورش کاشمیری
ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮ ؟ , ﺳُﻨﺎ ﮨﮯ ﭨﻮﮎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮ ؟
ﺑﺘﺎﺅ ﮐﯿﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ؟ ﻭﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ.. !

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 1
سارا عالم 'ھو' کا ہے
جھگڑا میں اور تو کا ہے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 1
پانی سستا ہے تو پھر اسکا تحفظ کیسا
خون مہنگا ہے تو ہر شہر میں بہتا کیوں ہے ؟

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 2
اس زندگی کے ہیں دو جہاں
ایک یہ جہاں، ایک وہ جہاں
.
ان دونوں جہانوں کے درمیاں
بس فاصلہ ہے سانس کا !
.
جو چل رہی تو یہ جہاں
جو رک گئی تو وہ جہاں

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
جن پتهروں کو هم نے عطا کی تهیں دهڑکنیں
ان کو زبان ملی تو همیں پر برس پڑے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
کتنے اچھے ہیں میرے گھر کے پرانے برتن
.چھت ٹپکتی ہے تو کیچڑ نہیں ہونے دیتے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
اپنا مسلک ھی نہیں زخم دکھاتے پھرنا
جانتا ھوں کہ ترے پاس مسیحائی ہے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪِ ﻣُﺤﺒﺖ ﮨﯽ ﺑﺘﺎ ﺳﮑﺘﺎ ہے
ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﻧﮯ ﮐﺎ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮧ کیا ہے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
محبتِ اور پھر __ترکِ محبت
حماقت در حماقت ہو رہی ہے!

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
یہ تو اندر کا کرشمہ ھے، جو ھو جاتا ھے ۔ ۔
کب فقیری کسی پوشاک سے وابستہ ھے


تشنہ لب اٹھ گئے دنیا سے تو پانی برسا!!
جل گیا دل تو ملے آگ بجھانے والے!!


Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر..
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
کنارے سے سمندر دیکھتے ہیں
محبت استخارہ کر رہی ہے

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
سانس کو راستہ نہیں ملتا
آپ ہجرت کی بات کرتے ہیں

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
تیری حد سے میں کہاں دور نکل سکتا هوں ۔ ۔؟؟
تیری مرضی هے، مجھے توڑ دے اور پھر سے بنا

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
مست و دیوانہ و مجذوب پہ ہنسنے والو
تم تماشا جسے سمجھے ہو تماشائی ہے

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے ............. بدنام خرد ہوتی ہے
مظفر وارثی

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
لپٹ جاتی ہے پاس جو بھی ہو
بیل کب پیڑوں کا نسب پوچھتی ہے

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 5
مارنا دل کا سمجھتا ہوں جہاد اکبر ۔ ۔ ۔۔
وہی غازی ہے بڑا، جس نے یہ کافر مارا

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 7
'پلکوں' کے 'بند' توڑ کے 'دامن' پہ گر گیا
اک 'اشک' میرے 'ضبط' کی 'توہین' کر گیا
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصر
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 7
کسی بے کس کو اے بیداد مارا تو کیا مارا​ ؟
جو آپ ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا​ ؟
.
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا ​
نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا​ ؟
.
گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں​
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا​ ؟
.
ابراہیم ذوق

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 8
تاریخ ہزاروں سالوں میں بس اتنی سی بدلی ہے
پہلے دور تھا پتھر کا، اب لوگ ہیں پتھر کے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 9
ہے عجب چیز یہ "شرافت" بھی
اس میں "شر" بھی ہے اور "آفت" بھی

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 9
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا
(غالب)

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 11
'زبر' نہیں 'زیر' ہوجا
کیونکہ آگے 'پیش' ہونا ہے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 11
زاہد تجھے معلوم نہیں اندازِ عقیدت
سر خود بخود جُھکتا ہے جُھکایا نہیں جاتا

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 11
دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظ
بات دل میں کہاں سے آتی ہے؟ 

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 11
کس قدر یہ سادہ ہیں
سود کے نوالوں سے
.
جب ڈکار آتے ہیں
شکر کی صداؤں سے
.
رب کو یاد کرتے ہیں
رب بھی مسکراتا ہے
.
جب یہ طاق راتوں میں
کچھ تلاش کرتے ہیں

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 11
کسی کو ہم اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
یہ طبیبوں کے بس کی بات نہیں
آپ کا مسئلہ محبت ہے..........

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 12
اے مصور!  تجھے اُستاد میں مانوں گا
درد بھی کھینچ لے، میری تصویر کے ساتھ

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 12
پڑھتا ہے درود آپ ہی تجھ پر تیرا خالق
تصویر پہ خود اپنی مصور بھی فدا ہے
(سید سلیمان ندوی رحمتہ الله علیہ)

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 12
زندگی آمد، برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 12
کہہ رہاہے شوردریاسے سمندرکاسکوت
جتناجس کاظرف ھےاتناوہ خاموش ہے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 12
یہ بھی ممکن ہے تجھے عشق ولایت دے دے
یہ بھی ممکن ہے.... تیرے ہوش ٹھکانے آجائیں

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 12
اگر وہ پوچھ لیں ہم سے، تمہیں کس بات کا غم ہے
تو پھر کس بات کا غم ہے، اگر وہ پوچھ لیں ہم سے

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 12
قبریں ہی جانتی ہیں کہ اِس شہرِجبر میں
مر کر ہوۓ ہیں دفن کہ زندہ گڑے ہیں لوگ

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 12
سو میں نے بات ہی بدل دی گلے لگا کے اسے
درست آدمی.......... غلط بات پر اڑا ہوا تھا

Not helpful
Quote
View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 16
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے


کمزور ھے میری صحت بھی کمزور میری بیماری بھی !
جب اچھا تھا کچھ کر نہ سکا ،بیمار پڑا تو مر نہ سکا !


Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 16
مجھے مرہم سے نفرت ہے میں زخموں کا ہوں شیدائی
جہاں منزل دکھائی دے ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ میں چھالے پھوڑ دیتا ہوں
عابی مکھنوی

Not helpful
Quote

View more popular replies Popular
Azeem Ur Rehman - Sep 18
دیکھنے والا تھا منظر ! جب کہا درویش نے ،
کج کلاہو ! .. بادشاہو ! .. تاجدارو ! .. تخلیہ !!!

Not helpful
Quote

Monday, 4 November 2013

hadees



حضرت ثوبان ؓ روایت کرتے ھیں کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ھے کہ ’’مجھے امت کے کچھ لوگوں کو دکھلایا گیا ھے ، جو قیامت کے دن مکہ کے پہاڑوں جیسی نیکیاں لے کر آئیں گے ؛لیکن اللہ تعالی ان ساری نیکیوں کو اکارت کر دیں گے۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ان کی کچھ نشانیاں تو بیان فرما دیجئے کہ کہیں ھم ان جیسے نہ ھو جائیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا وہ تمہارے ھی بھائی بندھوں گے، تمہاری جنس اور نسل میں سے ھوں گے۔وہ تمہاری ھی طرح رات کی نیکیوں کوحاصل کرنے والے ھونگے لیکن خلوت اور تنہائی میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں میں مبتلا ھو جائیں گے (رواہ ابن ماجہ)

مسند احمد:جلد چہارم:حدیث نمبر 927 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون آدمی ہے جو مجھ سے پانچ باتیں حاصل کرے اور ان پر عمل کرے یا کم از کم کسی شخص کو بتادے جو ان پر عمل کرے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور انہیں شمار کرنے لگے۔ (١) حرام کاموں سے بچوسب سے بڑے عابد بن جاؤ گے۔ (٢) اللہ کی تقسیم پر راضی رہو سب سے بڑے غنی بن جاؤ گے۔ (٣) پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرو مومن بن جاؤ گے۔ (٤) جو اپنے لئے پسند کرتے ہو لوگوں کے لئے بھی وہی پسند کرو مسلمان بن جاؤ گے۔ (٥) کثرت سے نہ ہنسا کرو کیونکہ کثرت ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔


Narrated Abu Dhar:
Allah's Messenger (ﷺ) said, "Someone came to me from my Lord and gave me the news (or good tidings) that if any of my followers dies worshipping none (in any way) along with Allah, he will enter Paradise." I asked, "Even if he committed illegal sexual intercourse (adultery) and theft?" He replied, "Even if he committed illegal sexual intercourse (adultery) and theft."
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الأَحْدَبُ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي فَأَخْبَرَنِي ـ أَوْ قَالَ بَشَّرَنِي ـ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ ‏"‏ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ ‏"‏‏.‏
Reference : Sahih al-Bukhari 1237
In-book reference : Book 23, Hadith 1
USC-MSA web (English) reference : Vol. 2, Book 23, Hadith 329
  (deprecated numbering scheme)
Narrated `Abdullah:
Allah's Messenger (ﷺ) said, "Anyone who dies worshipping others along with Allah will definitely enter the Fire." I said, "Anyone who dies worshipping none along with Allah will definitely enter Paradise."
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا شَقِيقٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ ‏"‏‏.‏ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ‏.‏
Reference : Sahih al-Bukhari 1238
In-book reference : Book 23, Hadith 2
USC-MSA web (English) reference : Vol. 2, Book 23, Hadith 330
  (deprecated numbering scheme)

Friday, 1 November 2013

نیچرل سیلکشن ادریس آزاد







ظریہ ارتقأ ، نیچرل سیلکشن اور انسانیت کا مستقبل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اکثر کہا کرتاہوں کہ ارتقأ کا اگلہ مرحلہ انسان کا اخلاقی طور پر بہتر ہوجاناہوگا۔ نیچرل سیلیکشن کا عظیم قانون دیکھا جائے تو ثابت ہوتاہے کہ انسان جس چھلنی سے چھانے جارہے ہیں، اب صرف وہی ڈی این اے نئے نئے جین پول بناسکنے کے اہل ہونگے جو کم وائیلنٹ خصلتوں کے حامل ہونگے۔ میری دانست میں ’’نیچرل سیلکشن‘‘ سائنس کی تاریخ میں سب سے دلچسپ قانون ہے۔ ایسا کوئی بھی شخص جو نظریۂ ارتقأ کو اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں نیچرل سیلیکشن کے قانون کو کسی اچھے ٹیچر سے سمجھ لے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ نظریۂ ارتقا کی صداقت سے پھر کبھی انکار کرسکے۔
اس پر مستزاد نیچرل سیلیکشن کو سمجھنا نہایت آسان ہے۔ یہ ایک چھلنی کی طرح سے کام کرتاہے۔ چھلنی یا چھاننی جب چیزوں کو چھانتی ہے تو دو طرح کی اجزأ سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ جو چھلنی سے پار ہوجاتے ہیں اور دوسرے وہ جو چھلنی سے پار نہیں جاسکتے اس لیے چھلنی پر ہی رہتے ہیں۔ ارتقأ میں بھی بالکل اِسی طرح ہر نوع کے دو گروہ ہوتے ہیں۔ ایک وہ گروہ جو سروائیو کرجاتاہے اور دوسرا وہ جو سروائیو نہیں کرپاتا۔ جو گروہ سروائیو کرجاتاہے وہ ’’نیا جین پول‘‘ یعنی مورثوں کا کُنڈ کہلاتا ہے اور اس میں ضرور کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی ہے۔
دراصل ہوتا یوں ہے کہ قدرت نے کسی نوع کے مختلف افراد میں جو اختلاف اور تنوع پیدا کیا ہے، وہی بنیادی طور پرنیچرل سیلکشن میں کامیابی یا ناکامی کا باعث بنتارہتاہے۔ ایک باپ کے چار بیٹے ہوں تو ضروری نہیں کہ سارے ہی ایک جیسے قد قامت اور شکل و صورت کے ہوںگے۔ کوئی قدرے لمبا ہوگا، کوئی قدرے چھوٹا، کوئی قدرے کالا ہوگا، کوئی قدرے گورا۔ یہ تھورا تھوڑا فرق ہی ارتقأ میں سب سے اہم ہے۔ آپ نیچرل سیلیکشن کے تجربات خود بھی کرسکتے ہیں اور ارتقأ کا یہ عجیب و غریب مظہر اپنی آنکھوں سے اپنے گھر میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اِسے ’’نیچرل سیلیکشن‘‘ سے زیادہ ہیومین سیلیکشن کہا جانا چاہیے اور کہا بھی جاتاہے، میرا مطلب ہے بیالوجی کی زبان میں اسے سیلیکٹو بِریڈنگ (Selective Breeding) کہا جاتاہے۔ سیلیکٹو بریڈنگ یوں ہوتی ہے کہ آپ اپنی مرضی سے خاص قسم کی خصلتوں والے پوردے ، پرندے یا جانورایک جگہ رکھ کر ایک خاص قسم کا جین پول تعمیر کرسکتے ہیں، جس کے تمام ممبران میں بالآخر وہ خصوصیات پائی جائینگی جو آپ چاہتے ہیں۔
نیچرل سیلیکشن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی مثال فرض کرلیں۔ فرض کریں آپ نے اپنے فارم پر بلیک اینڈ وائیٹ خرگوشوں کی ایک نسل آباد کررکھی ہے۔ اب آپ دیکھیں گے کہ ان کے جسم پر سفید اور کالے دھبے مختلف تناسب سے ہونگے۔ کسی پر سفید رنگ کے دھبوں کا غلبہ ہوگا تو کسی پر سیاہ کے دھبوں کا، کسی پر دونوں رنگ برابر ہونگے وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ ’’مجھے ایک ایسی نسل تیاری کرنی ہے جس کا رنگ خالصتاً سفید ہو‘‘ تو آپ کیا کرینگے؟ سادہ سی بات ہے ، آپ اُن خرگوشوں کو الگ کرلینگے جن کے جسم پر سفید رنگ زیادہ ہوگا۔ آپ ان خرگوشوں کو الگ رکھیں گے اور اُن سے بچے پیدا کروائینگے۔ اگلی نسل میں آپ دوبارہ وہی عمل دہرائینگے اور اس سے اگلی نسل میں دوبارہ پھر وہی عمل، علیٰ ھذا القیاس۔ غرض ہر بار جب آپ نئی نسل حاصل کرینگے توایسے خرگوش الگ کرتے چلے جائینگے جن پر سفید رنگت پہلے سے غالب ہو۔ ایک وقت آئے گا کہ بعض خرگوش کلیۃً سفید پیدا ہونا شروع ہوجائیں گے۔ آپ ان کو آپس ملائینگے اور ان سے اگلی نسلوں میں فقط اکّا دکّا ایسے خرگوش پیدا ہوا کرینگے جن پر کالا دھبہ ہو، ورنہ عموماً بالکل سفید خرگوش ہی پیدا ہوا کرینگے۔ کافی طویل عرصہ یہی عمل دہراتے رہیں اور اپنی مرضی سے سیاہ دھبے والے خرگوش جھنڈ سے باہر نکالتے رہیں تو ایک وقت آئے گا جب پورے جھنڈ یعنی پورے جین پول میں کوئی کالا جِین باقی نہیں رہیگا۔
یہ عمل نیچر میں لاکھوں سال ہوتا رہاہے۔ کچھووں کی کچھ نسلیں سبزی خور ہیں اور کچھ گوشت خور۔ اسی طرح بیبون بندر گوشت خور ہے اور پرانی دنیا کا بندر سبزی خور ہے۔ بہت پیچھے جاکر دیکھا جائے تو اتنے بڑے پیمانے پر جدا ہوجانے والی نسلیں بھی کبھی ایک ہی نسل ہوا کرتی تھیں۔ اور تو اور وہیل مچھلی اور بھینس کا جدِ امجد ایک ہے۔ فطرت میں یہ عمل اس وقت پیش آتاہے جب بیرونی ماحول میں کوئی چھوٹی موٹی تبدیلی آتی ہے۔ اور نئی تبدیلی کے لیے جو نسلیں زیادہ مناسب ہوتی ہیں ان کے جین پول خودبخود الگ ہوجاتے ہیں۔ فرض کریں، کسی برفانی علاقے میں بکریوں کی ایک نسل تھی جس کے جسم پر لمبے لمبے بال تھے۔ ہوا یوں کہ وہاں کی برفیں پھگلنا اور ختم ہونا شروع ہوگئیں۔ اب کیا ہوا؟ یہ ہوا کہ وہاں سردی کم ہونا شروع ہوگئی۔ جبکہ دوسری طرف چشمِ تصور میں یہ بھی دیکھیں کہ بکریوں کی اس نسل کے افراد میں قدرتی طور پر ایک ورائٹی تھی۔ یعنی بعض بکریوں کے بال زیادہ لمبے تھے تو بعض کے اتنے زیادہ لمبے نہ تھے۔ چنانچہ زیادہ لمبےبالوں والی بکریوں کے لیے گرمی کو برداشت کرنا مشکل ہوگیا اور کم لمبے بالوں والی بکریوں کے لیے ابھی اتنا مشکل نہیں تھا۔ سو زیادہ لمبے بالوں والی بکریاں جلد مرنا شروع ہوگئیں جس کے نتیجے میں قدرے کم لمبے بالوں والی بکریاں تعداد میں بڑھتی چلی گئیں۔ فرض کریں کہ برفیں مسلسل پگھلتی رہیں اور وہاں گرمی بڑھتی چلی گئی۔ تو دوسری طرف یہ بھی دیکھیں کہ نئے جین پول میں بھی وہی ہوا، یعنی اب جن بکریوں کے اور بھی کم لمبے بال تھے ان کی تعداد بڑھ گئی اور قدرے زیادہ لمبے بالوں والی بکریوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ اگلی چند نسلوں میں یہی ہوتا رہا اور پھر ایک وقت آیا کہ بکریوں کے جین پول میں زیادہ لمبے بالوں والی بکریوں کے جینز بہت ہی کم ہوگئے۔ یعنی بغیر بالوں والی بکریوں کی نئی نوع تیار ہوگئی۔
اسے نیچرل سیلکشن اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں فطرت کسی چھلنی کی طرح چھان لیتی ہے اور صرف ان جینز کو نئے نئے جین پول بنانے دیتی ہے جو نئے ماحول کے لیے مناسب ہوتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب انڈسٹریاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو یورپ کے درختوں کی رنگت دھوئیں اور آلودگی کی وجہ سے قدرے تاریک ہوگئی۔ ان درختوں پر رہنے والی تتلیاں پرانی رنگت کے درختوں جیسی ہلکی بھوری ہوا کرتی تھیں۔ جونہی درختوں کی رنگت تاریک ہوئی تتلیاں ’’کنٹراسٹ کلر‘‘ کی وجہ سے زیادہ ہائی لائیٹ ہوگئیں۔ پہلی تتلیاں چونکہ درختوں کے رنگوں کی ہوا کرتی تھیں اس لیے وہ دشمن کے حملوں سے محفوظ رہتی تھیں کیونکہ ان کی رنگت انہیں کمیوفلاج ہونے میں مدد دیتی تھی لیکن جب درخت ڈارک ہوگئے تو تتلیاں اپنے دشمنوں کے سامنے ایکسپوز ہوگئیں۔ تب یہ ہوا کہ جو تتلیاں پہلے سے ہی قدرے سیاہی مائل تھیں ، وہ تو دشمن سے محفوظ رہیں جب کہ باقی ماندہ ماری گئیں۔ فطرت نے ایک نیا جین پول سیلیکٹ کرلیا اور ایک نئی نوع یعنی تاریک تتلیاں وجود میں آگئی۔
کوئل عجیب و غریب پرندہ ہے۔ اپنا گھونسلہ نہیں بناتی بلکہ اپنا انڈہ دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں جاکر دیتی ہے۔ کوّوں، چڑیاؤں، فاختاؤں، کبوتروں، اور ایسے ہی چھوٹے بڑےپرندوں کے گھونسلوں میں، تاکہ اُس کے انڈے محفوظ رہیں۔
پھر کیا ہوتاہے کہ کوئل کے انڈے لازمی طور پر اُس گھونسلے میں موجود دوسرے انڈوں سے پہلے تیار ہوجاتے ہیں اور کوئل کا ننھا بچہ انڈے سے نکلتے ہی پہلا کام یہ کرتاہے کہ اپنے آس پاس رکھے دوسرے انڈوں کو دھکے مار مار کر گھونسلے سےباہر پھینک دیتا ہے۔ وہ اپنی پِیٹھ سے انڈوں کو دھکیلتاہے اور ایک ایک کرکے بقیہ سارے انڈے گھونسلے سے نیچے پھینک دیتاہے۔
کوئل کے انڈوں میں ایک عجیب و غریب خاصیت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ جس گھونسلے میں دیے جائیں، اُس گھونسلے میں موجود انڈوں جیسی شکل و شباہت اور رنگت اختیار کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک کوئل نے چڑیا کے گھونسلے میں انڈہ دیاہے تو اس کا انڈہ چڑیا کے انڈوں جیسی شکل و صورت اور رنگت اختیار کرلیگا تاکہ چڑیا کو پتہ نہ چلے کہ اس کے انڈوں میں کسی نے اجنبی انڈہ شامل کردیا ہے۔ یہ نہایت عجیب و غریب مظہر ہے۔ جسے سمجھنے کے لیے ریسرچر نے بے پناہ محنت کی اور بالآخر کوئل کی اِس جادُو گری کا اندازہ اِس طرح لگایا گیا کہ دراصل بظاہر ایک طرح کی نظر آنے والی کوئلیں فی الواقعہ ایک دوسرے سے تھوڑی سی مختلف ہیں۔ مختلف اس طرح کہ مثلاً جو کوئلیں چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں وہ الگ ہیں اور جو کوئلیں فاختاؤں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں وہ الگ،علیٰ ھٰذالقیاس۔ یعنی ایک ہی نوع کی کوئلوں کے غیر محسوس قسم کے کئی گروہ ہیں جو بظاہر نہیں پہچانے جاسکتے ہیں۔
سو ہوتا یہ ہےکہ جو کوئلیں چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں اُن کو ’’جینٹک کوڈنگ‘‘ کے ذریعے یہ شعور ملا ہے کہ وہ چڑیوں کے انڈوں جیسے انڈے دیں اور جو کوئلیں فاختاؤں کے انڈوں جیسے انڈے دیتی ہیں اُن کے جینٹک کوڈ میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ وہ جب بھی اور جہاں بھی انڈہ دیں تو فاختاؤں کے انڈوں جیسا انڈہ دیں۔ یہ شعور انہیں جینز کے ذریعے کیسے ملتاہے؟ ریسرچرز نے سب سے پہلے یہ نوٹ کیا کہ ہر مادہ کوئل جب جنم لیتی ہے تو وہ جس گھونسلے میں جنم لیتی ہے، جب بڑی ہوکر خود ماں بننے لگتی ہے تو اُسی قسم کے گھونسلے میں ہی انڈہ دینے کی اہل ہوتی ہے اس لیے اسی قسم کے گھونسلے میں جاکر ہی انڈہ دیتی ہے۔ اس بات کا پتہ بھی انہیں اپنے جینزمیں لکھی ہدایت کی وجہ سے چلتاہے کہ انہوں نے کوّوں، چڑیوں یا فاختاؤں کے گھونسلے کیسے ڈھونڈنے ہیں۔ یعنی صدیوں سے ایک کام کرتے کرتے اب ان مادہ کوئلوں کے جینز میں داخل ہوگیاہے کہ چڑیوں ار فاختاؤں کے گھونسلوں کو الگ الگ پہنچانیں اور ان میں جاکر انڈہ دیں۔
اس راز کا پتہ چلا تو ریسرچرز انگشت بدندان رہ گئے۔ انہوں نےسوچا کہ آخر ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ نوع تو خالصتاً ایک ہی ہو لیکن پھر بھی ان میں تقسیم کی جاسکے کہ فلاں تو چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دینے والی کوئلیں ہیں اورفُلاں فاختاؤں کے گھونسلوں میں انڈے دینے والی۔ تب مزید تحقیات پر یہ راز یوں کھلا کہ جیسے انسانوں میں نَر (مرد) کے کروموسوموں کے ایک جوڑے کو ’’ایکس وائی‘‘ کروموسوم کہتے ہیں اور مادہ کے کروموسومز کے سارے جوڑوں کو ’’ایکس ایکس‘‘ کروموسوم کہتے ہیں کوئل میں اس کے برعکس ہوتا ہے اور مادہ کوئل میں ایک جوڑا ایکس وائی کروموسوم جبکہ نَر کوئلوں میں سارے جوڑے ایکس ایکس کروموسوم کے پائےجاتے ہیں۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ وائی کروموسوم کا حامل ہونے کی بدولت ماداؤں کی نسلوں کو اپنے اجداد کے جینز سے متوارث ہدایات منتقل ہوتی ہیں جبکہ ایکس ایکس کروموسوم میں وہ ہدایات نہیں جاتیں اور یوں ایک ہی نوع اس لیے قائم رہتی ہے کہ نَر کوئل تو ہرحال میں ایکس ایکس کروموسوم والا ہونے کی وجہ سے کبھی بھی اپنے اجداد کے جینز سے وہ ہدایات نہیں لیتا جو اس کو اپنی نوع میں ایک الگ ذات کی کوئل کا نر بنادے جبکہ مادہ کوئل اکیلے وائی کروموسوم کی وجہ سے الگ الگ گروہوں کی شکلوں میں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چونکہ کائنات کی کوئی شئے پرفکیٹ نہیں اس لیے مادہ کوئلوں سے کبھی کبھار غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ یعنی ایک کوئل جس نے چڑیا کے گھونسلے میں انڈہ دینا تھا وہ غلطی سے فاختہ کے گھونسلے میں انڈہ دے دیتی ہے۔ اس سے فطرت نے ایک اور مقصد پورا کرناہوتاہے۔ ان غلطیوں کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ مادہ کوئلوں کے نئے نئے گروہ تیار ہوتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت کا پتہ اس طرح چلا کہ ماداؤں کے ایک گروہ کے انڈے بہروپ دھارنے کی قدرے کم قابلیت رکھتے ہیں تو کسی اور گروہ کے انڈے قدرے زیادہ قابلیت رکھتے ہیں۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے جینز پر تفکر ہوا تو معلوم ہوا کہ کچھ نئے نئےوائی کروموسوم سے ہدایات لینے کے کام پر شروع ہوئے ہیں اور کچھ بہت پرانے لگے ہوئے ہیں ۔ جو نئے نئے شروع ہوئے ہیں یہ نئے اور تازہ گروہ ہیں جو اُن غلطیوں کی وجہ سے ممکن ہوپاتےہیں جو بعض ماداؤں سے سرزد ہوتی ہیں۔
انسانوں میں بھی ایسا ہوتاہے۔ انسانی جین پول معاشی، سیاسی اور سماجی حالات کے تحت تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان جو گزشتہ ستر سال سے پاکستان میں رہ رہے ہیں اور ان کی تین چار نسلیں پاکستان میں پیدا ہوگئی ہیں اب اپنے، وہاں موجود رشتہ داروں سے جسمانی طور پر تھوڑے سے مختلف ہیں۔ یہ تبدیلی اگرچہ بہت ہی کم ہے، اتنی کم ہے کہ عام آدمی کے لیے اسے نوٹ کرنا مشکل ہے لیکن تحقیقی نگاہ سے یہ تبدیلی چھپ نہیں پاتی۔ اسی طرح افغان مہاجرین کی جو نسلیں یہاں پروان چڑھی ہیں اُن میں اور افغانستان میں موجود افغانیوں میں بھی فرق آچکاہے۔ یہ نہایت معمولی فرق ہیں جن کا ذکر کچھ خاص اہم نہیں لیکن بڑے پیمانے پر انسانی آبادیوں میں نیچرل سیلیکشن کے واضح اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ کیا ہم چینیوں میں ایسا جین پول خود پیدا کرسکتے ہیں جن کے ناک چپٹے نہ ہوں؟ ہم اگر چین جاکر وہاں موجود ایسے چینیوں کو الگ کرلیں جن کی ناک چپٹی نہیں ہے تو ہم ایسا جین پول آسانی سے تیار کرسکتے ہیں۔
اس سارے مضمون میں، ہم نے جس بات پر توجہ نہیں دی وہ تھی، ’’بیرونی ماحول‘‘ میں موجود تبدیلی۔ انسانی معاشروں کا بیرونی ماحول گزشتہ صدی میں بڑی تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ پہلے لوگ اونچی چھتوں اور موٹی دیواروں والے مٹی کے وسیع اور بڑے کمروں میں رہتے تھے۔ اب لوگ نیچی چھتوں، پتلی دیواروں اور کنکریٹ، سیمٹ، لوہے اور بجری سے بنے مکانوں میں رہتے ہیں۔ پہلے لوگ بجلی اور ٹیلیفون کے بغیر رہتے تھے۔ اسی طرح کی ان گنت ایسی تبدیلیاں ہیں جو گزشتہ صدی میں پوری انسانی معاشرت میں واقع ہوئی ہیں۔ چنانچہ وہ جینز جو نئے ماحول کے لیے مناسب تھے تعداد میں بڑھ گئے ہیں اور باقی فنا ہوگئے ہیں۔
لیکن گزشتہ صدی میں واقع ہونے والی ماحولیاتیِ تبدیلیوں میں سب سے بڑی تبدیلی ’’عقیدے کا خاتمہ‘‘ ہے۔ لوگ چاہے جتنے بھی مذہبی ہیں لیکن دورِ حاضر کے لوگ اپنے مذہبی عقائد پر یقین کھو چکےہیں۔ ایک طرف چند سائنس دان اعلان کردیں کہ آنے والےچند دنوں میں ایسا زلزلہ آئے گا کہ فُلاں شہر مکمل طور پر زمین میں دھنس جائے گا اور دوسری طرف پوری دنیا کے مسلمان مولوی مل کر یہ اعلامیہ جاری کریں کہ ’’رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اُمت پر عذابِ خسف یعنی زمین میں دھنسانے کا عذاب نہیں آئے گا‘‘ تو لوگ مولویوں کی بات نہیں مانیں گے اور سائنسدانوں کی بات کا مکمل یقین کرلینگے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ دورِ حاضر کے سائنسی اور منطقی فہم کے سامنے عقیدے کا دعویٰ ہار چکاہے بایں ہمہ عملاً عقیدے کا خاتمہ ہوچکاہے، اگرچہ رسماً باقی ہے اورسائنسی عقل کا اِسی طرح عروج رہا تو ایک آدھ صدی بعد بالکل ہی فنا ہوجائے گا۔ اب چونکہ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جو لوگوں کے دِل و دماغ میں اجتماعی طور پر وارد ہوئی ہے اور مسلسل ہورہی ہے تو کیا ہورہا ہے کہ اب نیچرل سیلیکشن کی چھلنی میں صرف ایسی پود چھَن رہی ہے جو سائنس کے انکشافات پر مذہبی عقائد سے زیادہ یقین رکھتی ہے۔ مزید برآں چونکہ سائنس میں ایسا کوئی خیال نہیں پایا جاتا جو دو انسانی گروہوں کے درمیان رنگ، نسل،خون، وطن،قوم، قبیلہ یا مذہب کی بنیاد پر تفریق کا موجب بن سکتاہو اِس لیے نہایت تیزی کے ساتھ نئے نئے انسانی جین پول تیار ہورہے ہیں جو اجتماعی طور پر انسانیت کو سب سے بڑا عقیدہ تصور کرتے ہیں۔
اس پر مستزاد مذہبی پیشواؤں کا جین پول بھی الگ ہورہاہے۔ مولویوں اور پادریوں کے ساتھ بھی نیچرل سیلکشن کا عمل پیش آرہاہے۔ ایک صدی پہلے تک ایک باپ اپنے چار بیٹوں میں سے سب سے لائق اور ذہین بچے کو دینی مدرسے بھیجتا تھا۔ بہادرشاہ ظفر کے زمانے تک ملک کی سب سے بڑی ڈگری ’’مولوی‘‘ ہوتی تھی۔ اور آج زیادہ تر والدین اپنے سب سے ڈفر، کند ذہن اور نالائق بچے کو دینی مدرسے میں داخل کرواتے ہیں۔ جہاں اس تبدیلی کی وجہ معاشی حالات اور مادہ پرست فکر ہے وہاں سائنسی انقلاب اور جدید فکری رجحانات کے علاوہ میڈیا اور ترقی یافتہ دنیا کے مناظر بھی ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں مولویوں کی جو کھیپ تیار ہوئی ہے اس میں کند ذہن، کم ذہین یا تھوڑے آئی کیو لیول کے مولویوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مثلاً پہلے اگر دس مسجدوں کے خطیبوں میں سے سات ایسے خطیب ہوتے تھے جو دانائی اور علم وحکمت سے آراستہ خطبہ دیتے تھے تو آج دس میں سے تین خطیب بھی ایسے نہیں ہیں جو دانائی یا علم کی باتیں خطبے میں بتاسکیں۔ یوں مولویوں کے ساتھ بھی نیچرل سیلکشن کا عمل پیش آیا ہے اور ذہین مولویوں کی تعداد اس جھنڈ میں بہت کم رہ گئی ہے۔ یہ چونکہ پوری دنیا کے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ پیش آیا ہے اس لیے مذہبی پیشوا اب دانائی کی علامت نہیں رہے۔ ان کے مقابلے میں لوگوں نے اپنے لائق اور ذہین بچوں کو سائنسی تعلیم کی طرف بھیجا ہے چنانچہ سائنسدانوں کا جو گروہ تیار ہوا ہے وہ فی زمانہ سب سے زیادہ ذہین اور عاقل لوگوں کا گروہ سمجھا جاتاہے۔
مضمون کے شروع میں ، میں نے کہا کہ اب ارتقا کا اگلہ مرحلہ انسانوں کو اخلاقی طو رپر بہتر ہوجانا ہوگا۔ یہ اس لیے کہا کیونکہ ارتقا کا اصول ہے کہ بیرونی ماحول کا مقابلہ کرسکنے کے اہل جینز باقی رہینگے اور ان کے علاوہ سب فنا ہوجائینگے۔ بحیثیتِ مجموعی دیکھا جائے تو انسانوں کو اب جسمانی طور پر مسائل کا اتنا سامنا نہیں جتنا ذہنی مسائل کا سامنا ہے۔ مثلا اب گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے متبادل بندوبست ہے لیکن اینگزائٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ بندوبست نہیں ہے۔ اینگزائٹی، ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن، فرسٹریشن، مالیخولیا، اور طرح طرح کے فوبیاز وغیرہ، یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو دورِ حاضر کے انسان کو جسمانی مسائل سے زیادہ درپیش ہیں۔ اگلا انسانی جین پول صرف ان لوگوں کو تیار ہوگا جو ذہنی دباؤ اور اینگزائٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے جینیاتی طور پر مضبوط ہونگے۔ کوئی شخص اینگزائٹی کا مقابلہ کرنے کا جینیاتی طور پر اہل کیونکر ہوسکتاہے؟ ماسوائے اس کے کہ وہ لوگ بچ جائیں جو اپنے آپ کو ذہنی دباؤ والے کاموں سے دُور رکھتے ہیں۔ چوری کرنا ڈپریشن والا کام ہے سو بہتر ہے کہ میں چوری نہ کروں۔ لیکن اگر میرے اندر چوری کرنے کی شدید ترین خواہش موجود ہے تو میں باز نہ رہ سکونگا اور اگر میں پہلے سے ہی چوری جیسی چیز کو اپنی طبیعت کے مطابق نہیں سمجھتا اور ایسے عمل سے بیزار سا رہتاہوں تو یقیناً میں اپنے آپ کو اِس ڈپریشن کے دور میں تو اور بھی باز رکھونگا اور چوری والے عمل کے نزدیک تک نہیں جاؤنگا۔ چنانچہ آنے والی نسلوں کے جینز جہاں پہلے سے زیادہ نازک اور حساس خصلتوں کے حامل ہونگے وہاں ڈپریشن والے کاموں سے طبعاً دُور بھی ہونگے۔
فرض کریں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایک ہی صورت ہے کہ انسان زمین پر زندہ نہیں بچے گا۔ زمین کو تباہ کرلیگا یا خود کو۔ انسان کے باقی بچنے کا حل ہی صرف یہی ہے اور یہی ایک ہے کہ وہ جلد سے جلد اخلاقی طور پر بہتر لوگوں کا جین پول تیار کرلے۔ ایسے لوگ جن کی طبیعت میں کسی کو تکلیف دینا نہیں پایا جاتا اور فقط اس لیے نہیں پایا جاتا کہ ایسے کاموں سے انہیں جبلی طور پر ٹینشن ہوجاتی ہے۔ ایسا جین پول تیار ہوگیا تو یقینی ہے کہ انسان بہت لمبا جیے گا۔ بصورتِ دیگرفقط ایک دو صدیاں کاٹنا بھی دشوار ہے کیونکہ سیّارہ زمین اب بُری طرح سے ڈانواڈول ہے اور اسے بیخ و بن سے ہِلا دینے کا کارنامہ بھی انسانوں نے ہی مل کر سرانجام دیاہے۔

Monday, 16 September 2013

قطعی الدلالہ

فقہائے کرام آیات نہیں الفاظ کی دلالت کی بات کرتے ہیں اور قطعیت یا ظنیت کے لحاظ سے لفظ کو آٹھ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: محکم، مفسر، نص، ظاہر، خفی، مشکل، مجمل، متشابہ۔ ایک جانب مکمل قطعیت اور دوسری جانب مکمل ابہام؛ جبکہ درمیان میں قطعیت و ظنیت کے چھ مدارج یا شیڈز۔ جب ہر لفظ کو صرف دو قسموں – قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ – میں تقسیم کیا جاتا ہے تو دنیا بلیک اینڈ وائٹ ہوجاتی ہے اور باقی رنگوں کی نفی ہوتی ہے۔ پھر جب یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن تنہا مکمل طور پر قطعی الدلالہ ہے تو اس سے وہ شدید قسم کا علمی تکبر جنم لیتا ہے جس کے سامنے صدیوں کی علمی روایت ناقابلِ قبول ٹھہرتی ہے کیوں کہ وہ ”خلافِ قرآن“ قرارپاتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ لفظ جب جملے کا حصہ بنتا ہے تو اس کی ظنیت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ سیاق و سباق، سائل کے متعلق علم، تاریخی پس منظر، دیگر آیات و احادیث اور اسی طرح کے اور قرائن سے ظنیت کم ہوتی جاتی اور قطعیت بڑھتی جاتی ہے اور بالآخر ظنیت ختم اور قطعیت ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ پراسس ہوتا ہے اور اتنا سادہ نہیں ہوتا کہ لفظ کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے اور باقی سارے قرائن ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ جنھیں ثانوی حیثیت دی جاتی ہے، درحقیقت انھی کے ذریعے تو لفظ کا مطلب متعین ہوتا ہے۔
ثلٰثۃ قروء کو ہی لے لیجیے۔ ثلاثۃ کو فقہائے کرام ”خاص“ (Specific) قرار دیتے ہیں اور مانتے ہیں کہ یہ قطعی الدلالہ ہے؛ اس کے معنی تین ہیں؛ نہ دو ، نہ چار، نہ ساڑھے تین۔ لفظ قرء البتہ فی الاصل ظنی الدلالہ ہے کیوں کہ لغت میں اس کا اطلاق حیض پر بھی ہوتا ہے اور قرء پر بھی۔ اسے اصطلاحاً مشترک (Equivocal) کہا جاتا ہے۔ تحقیق کے بعد کسی ایک مفہوم کا راجح ہونا معلوم ہوجائے تو اسے ”موول“ اور اس کوشش کو تاویل کہتے ہیں۔ یہاں دوسرے کسی احتمال کی نفی نہیں ہوتی لیکن اس میں کم زوری معلوم ہوتی ہے۔ جب ایک احتمال قطعی طور پر ثابت ہوجائے تو اسے ”مفسر“ اور اس کوشش کو تفسیر کہتے ہیں۔ موول ظنی ہوتا ہے، یعنی ظن غالب اس کے حق میں ہوتا ہے؛ مفسر قطعی ہوتا ہے، یعنی یہ مفہوم یقینی ہوتا ہے۔ گویا مفسر ہوجانے کی صورت میں equivocal لفظ unequivocal ہوجاتا ہے۔
یہ تفسیر ایک ہی نص کے کسی اور لفظ سے بھی ہوسکتی ہے اور اس صورت میں اسے مفسر بنفسہ کہا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے: عین جاریۃ۔ یہاں عین، جو مشترک تھا، جاریۃ کی وجہ سے مفسر ہوا۔ کبھی یہ تفسیر کسی دوسری نص، جیسے حدیث، سے بھی ہوتی ہے اور اس صورت میں اسے مفسر بغیرہ کہتے ہیں۔ جیسے “الربوٰ” کا مفہوم احادیثِ ربا نے یا ”الصلوٰۃ“ کا مفہوم احادیثِ نماز نے واضح کردیا ہے۔
فقہائے کرام مانتے ہیں کہ بعض الفاظ کا ابہام دور کرنے، یا کئی معانی میں کسی ایک کے تعین کے لیے لغوی تحقیق کافی ہوتی ہے ۔ یہ اس وقت جب لفظ خفی یا مشکل کی سطح کا ہو۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ لفظ جب مجمل کی سطح کا ہو تو اس کے مفہوم کے تعین کے لیے لغت کی طرف نہیں بلکہ شارع کی طرف جایا جائےگا۔ اسی لیے الربوٰ، الصلوٰۃ ، الزکوٰۃ اور اس طرح کی دیگر اصطلاحات کا مفہوم وہ لغت کے بجائے حدیث سے متعین کرتے ہیں۔
پس مسئلہ کی صحیح نوعیت یہ نہیں ہے کہ قرآن کی ساری آیات قطعی الدلالہ ہیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا پورے قرآن کی دلالت تنہا قرآن سے قطعی طور پر معلوم کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
مثال کے طور پر تمام فقہائے کرام مانتے ہیں کہ ابتدا میں وصیت فرض تھی کیوں کہ آیتِ وصیت میں ”کتب علیکم“ کے الفاظ ہیں جن سے فرضیت ہی ثابت ہوتی ہے ۔ البتہ بعد میں جب وراثت کی آیات آئیں تو ورثا کے حق میں وصیت ناجائز قرار پائی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر احادیث کو نظرانداز کیا جائے تو کیا آیات مواریث نے کوئی ایسی تصریح کی ہے کہ اب ورثا کے حق میں وصیت ناجائز ہوئی؟ فحوائےکلام اور دیگر قرائن کی بات الگ ہے۔ کہنے والا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ آیات مواریث نے وصیت کو تحفظ فراہم کیا ہے کیوں کہ ان میں بار بار تصریح کی گئی ہے کہ یہ حصص وصیت کے بعد کے ہیں۔ تاہم تمام فقہائے کرام مانتے ہیں کہ کسی وارث کے حق میں کی گئی وصیت ناجائز ہے (البتہ دیگر ورثا اس کی اجازت دیں تو حنفی فقہائے کرام کے نزدیک پھر اس کا نفاذ جائز ہوتا ہے)۔ فقہائے کرام کے اس موقف کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرار دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے کسی وارث کے حق میں وصیت نہ کی جائے۔
یہاں یہ بحث بھی کی جاتی ہے کہ کیا آیت ِوصیت کو آیاتِ مواریث نے منسوخ کیا ہے یا حدیث لا وصیۃ لوارث نے۔ لیکن میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ میں صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حدیث لا وصیۃ لوارث نہ ہوتی تو کیا محض آیاتِ مواریث سے ورثا کے حق میں وصیت کے جواز کی منسوخی ثابت کی جاسکتی تھی؟ مولانا اصلاحی کا بیان کردہ یہ نکتہ بھی محض نکتہ ہی ہے کہ اللہ کی وصیت (یوصیکم اللہ ) کو انسان کی وصیت پر فوقیت حاصل ہے۔ جب تک حدیث لا وصیۃ لوارث ذہن میں نہ ہو، اس نکتے سے ورثا کے حق میں وصیت کا عدم جواز ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
اس سے زیادہ سنجیدہ مسئلہ ”غیر وارث“ راشتہ داروں کے حق میں وصیت کی فرضیت کا ہے۔ آیتِ وصیت کو اگر آیاتِ مواریث یا حدیث ِ لاوصیۃ لوارث نے منسوخ کیا ہے تو یہ تو بظاہر ”نسخِ جزئی“ ہے، یعنی وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت ناجائز ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا آیتِ وصیت کا اطلاق ان رشتہ داروں پر نہیں ہوتا جن کا وراثت میں حصہ نہ ہو؟ اگر ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے تو ان کے حق میں وصیت کی فرضیت تو آیاتِ مواریث یا حدیثِ لا وصیۃ لوارث سے منسوخ نہیں ہوسکتی ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فقہائے کرام کی غالب اکثریت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت جائز تو ہے لیکن فرض نہیں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض نے غیر ورثا کے حق میں وصیت کی، بعض نے اس کی شدید تاکید بھی کی اور بعض نے مال رکھنے کے باوجود غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت نہیں کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت جائز تھی ، بعض کے نزدیک مستحب بھی تھی ، لیکن فرض بہرحال نہیں تھی ۔ اب دیکھیں یہاں مفروضہ کیا ہے ؟ یہ کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرض نہیں چھوڑ سکتے تھے اور وہ قرآن کو ہم سے بہتر سمجھتے تھے۔ ان مفروضوں کے بعد ہی جب آیتِ وصیت اور دیگر نصوص کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آجاتا ہے کہ غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت کیوں فرض نہیں ؟
چناں چہ مسئلے کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ کہ کیا پورے قرآن کی دلالت تنہا قرآن سے قطعی طور پر معلوم کی جاسکتی ہے یا نہیں؟اسی وجہ سے یہ مسئلہ محض پورے قرآن کی دلالت کو قطعی ماننے یا نہ ماننے کا نہیں ہے بلکہ قرآن فہمی میں حدیث اور فہم ِ صحابہ کے مقام کے تعین کا بھی ہے ۔
ھذا ما عندی ، و العلم عند اللہ ۔

(ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ایسوسی ایٹ پروفیسر قانون، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)

Tuesday, 2 April 2013

سب کچھ تقدیر میں ہی لکھا ہے تو انسان کی کیسی غلطی ؟

تقدیر کیا ہے ؟ .. اگر سب کچھ پہلے ہی لکھا ہے تو انسان کی کیسی غلطی ؟

اگر تاریخ انسانی کا جائزہ لیا جاۓ تو معلوم ہوگا کہ مذہب اور فلسفہ کا مشکل ترین موضوع 'مسلہ جبر و قدر' ہے یا یوں کہہ  لیجیۓ کہ ' تقدیر کا مسلہ ' ہے. روز اول سے بیشمار فلسفی، ان گنت منطق ساز، چوٹی کے مذہبی رہنما، بڑے بڑے شاعر اور  نمائندہ نثرنگار اس عنوان پر طبع آزمائی کرتے آئے ہیں لیکن مجھے یہ لکھنے کی اجازت دیجیۓکہ آج تک کسی نتیجہ ور متفق نہ ہوسکے. کہا جاتا ہے کہ اس موضوع کو جتنا سلجھایا جاۓ یہ اتنا ہی الجھتا جاتا ہے. جتنا اسے کھولنے کی سعی کی جاۓ اتنے ہی نئے سوالات وجود میں آجاتے ہیں.ہم مسلمانوں کیلئے یہ موضوع اس حوالے سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ تقدیر پر ایمان ان چھ ایمانیات میں سے ایک ہے جن کو ماننا مومن ہونے کی لازمی شرط ہے. آج سے چند برص قبل میں نے چاہا کہ دور حاضر کے بڑے علماء سے اس عنوان کے متعلق استفادہ حاصل کروں جیسے ڈاکٹر اسرار احمد ، پروفیسر احمد رفیق، اور جاوید احمد غامدی صاحب مگر سچ پوچھیں تو سب نے تشنہ چھوڑ دیا. اس عنوان پر غلام احمد پرویز صاحب کی ایک  کتاب بھی نظر سے گزری جو ایک عمدہ علمی کاوہ تھی. اسی طرح انگریزی میں کیونڈش پبلشنگ کی جانب سے فری ول پر ایک تحقیقی کتاب مرتب دی گئی جس نے کئی ذہنی الجھنوں کو دور کیا. قصہ مختصر کہ کافی ورق گردانی کے بعد میں اس تحریر کو لکھنے کی جسارت کررہا ہوں اس امید کیساتھ کہ اگر قارئین کے تمام اشکال دور نہ بھی کرپاؤں تو کم از کم اپنی سوجھ بوجھ یہاں درج کردوں

   تقدیر لفظ قدر سے وجود پزیر ہوا ہے جسکے معنی 'حدود یا اندازہ مقرر کرنے' کے ہیں اسی مادہ لفظ قدر سے اردو زبان کے اور بھی الفاظ زندگی پاۓ ہیں جیسے مقدار، مقدور، اقدار، قادر، معاشرتی قدریں وغیرہ ان تمام الفاظ میں حدود یا اندازے کی صفات پنہاں ہیں. سادہ الفاظ میں تقدیر درحقیقت مجموعہ ہے ان قوانین، اصولوں اور حدود کا جو اس کائنات کی ہر شے کو باندھے ہوۓ جکڑے ہوۓ ہیں. قدر کے یہی معانی قران حکیم کی اس آیت سے عیاں ہیں ٤٣:١١

قبر میں جزا و ثواب کی نوعیت کیا ہوگی ؟ اس بارے میں محققین کی مختلف آراء موجود ہیں. میں اس وقت انکا تقابلی جائزہ نہیں لوں گا بلکہ صرف اپنے تجزیہ سے آپ کو آگاہ کروں گا. پڑھنے والوں پر فرض ہے کہ وہ میری اس تحقیق کو ایک علمی کاوش سمجھیں اور اپنا نتیجہ خود قائم کریں.


============================================

قبر میں جزا و ثواب کی نوعیت کیا ہوگی ؟ اس بارے میں محققین کی مختلف آراء موجود ہیں. میں اس وقت انکا تقابلی جائزہ نہیں لوں گا بلکہ صرف اپنے تجزیہ سے آپ کو آگاہ کروں گا. پڑھنے والوں پر فرض ہے کہ وہ میری اس تحقیق کو ایک علمی کاوش سمجھیں اور اپنا نتیجہ خود قائم کریں.

سب سے پہلے تو تمہیدی طور پر یہ جان لیں کہ یقین کے تین درجے ہیں پہلا درجہ ہے علم الیقین - یعنی وہ یقین جو علمی استدلال سے حاصل ہو. اس دنیاوی زندگی میں ہم سے صرف علم الیقین ہی مطلوب ہے. دوسرا درجہ ہے عین الیقین - یعنی آنکھوں دیکھا یقین، یہ وہ یقین ہے جو عالم برزخ یعنی یعنی موت کے بعد قبر میں حاصل ہوگا. تیسرا اور اعلیٰ ترین درجہ حق الیقین کا ہے جو روز محشر یعنی قیامت کے بعد قائم ہوگا. علم الیقین چونکہ اس مادی دنیا میں مطلوب ہے لہٰذا اس میں ہمارے مادی یعنی جسمانی حواس غالب ہیں. قبر میں کیونکہ جسم مٹی ہوجانے ہیں تو یہاں ہمارا روحانی وجود یا روحانی حواس کا غلبہ ہے لہٰذا معاملات بھی عین الیقین سے متعلق ہیں. روز حساب ہمارے جسمانی اور روحانی دونوں حواس پوری طرح بیدار ہونگے تو یہاں حقیقت اپنے دونوں پہلوؤں سے سامنے آئے گی جسے حق الیقین سے تعبیر کیا گیا ہے.

قران حکیم کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیند اور موت میں ایک یقینی مشابہت موجود ہے. نیند اور موت جیسے دو بہنیں ہیں. قران کی سورہ الزمر میں درج ٤٢ آیت ملاحظہ ہو

خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں (نفوس) قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں

جس طرح نیند میں ہمارا شعور جزوی اور عارضی طور پر معطل ہوجاتا ہے اور جس طرح ہمارا لاشعور ہمارے خیالات کو خواب کی صورت میں تصویری خاکہ بنا دیتا ہے بلکل ویسے ہی موت میں اس سے ملتے جلتے لیکن کہیں زیادہ گہرے نفسی و روحانی تجربات پیش آیئنگے. اس بارے میں بابائے نفسیات فرائیڈ کی تحقیقات بھی قابل غور ہیں ، وہ کہتا ہے کہ خواب میں آپ کے جذبات و خیالات تصویری پیغام بن جاتے ہیں. انکی تعبیر بھی ہر شخص کے انفرادی تصورات کے مطابق جدا جدا ہوتی ہے. ایک مثال سے اسے سمجھتے ہیں، اگر بلی میرا پسندیدہ جانور ہے اور آپ بلی سے خوف کھاتے ہیں تو میرے خواب میں بلی کا نظر آنا محبت کا اشارہ ہوسکتا ہے ، اسکے برعکس آپ کے خواب میں بلی کا نظر آنا خوف کی علامت ہوسکتا ہے. ہر خوابیدہ تصویر کی تعبیر کے پیچھے اس سے متعلق تصورات وابستہ ہوتے ہیں.

اب جب ہم اسی تحقیق کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جن میں احوال قبر بیان ہوئے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی نماز یا نیک اعمال اسکے سامنے ایک خوبصورت چہرے والے انسان کے روپ میں ظاہر ہونگے. اسی طرح ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے پیچھے بھاگنے والے کے سامنے دنیا ایک بدصورت بڑھیا کی صورت میں نمودار ہوگی. اسی رعایت سے یہ بہت ممکن ہے کہ حسد اور کینہ سانپ بچھو بن کر عذاب کا بائث بن جاۓ. مگر یہ سب احوال روحانی سطح پر ہونگے. عذاب قبر سے متعلق موجود تمام احادیث غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں. اس کے لئے عالم برزخ کی اصطلاح رائج ہے. یعنی یہ ایک علیحدہ روحانی عالم ہے ، یہ لفظ برزخ دراصل 'پردہ ' کا متبادل ہے اور اُس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔یہ گویا ایک روکاٹ ہے جو اُنہیں واپس آنے نہیں دیتی ۔ " 'من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون " '( اُنکے آگے ایک پردہ ہے اُس دن تک کے لیے،جب وہ اُٹھائے جائیں گے) (المومنون٢٣: ١٠٠) ۔ اسے صرف قبر کے گڑھے تک محدود رکھنا شائد درست نہ ہو. ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو قبر میسر ہی نہیں ہوتی ، بعض پانی میں ڈوب جاتے ہیں، بعض کو جنگلی درندے کھا جاتے ہیں، بعض کو جلادیا جاتا ہےاور وہ جنہیں قبر میسر آجائے ، انکے اجسام کو بھی ایک وقت بعد کیڑے کھا جاتے ہیں اور ان کیڑوں کو بھی دوسرے کیڑے کھا جاتے ہیں لہٰذا قبر میں جسمانی سطح پر جزا و ثواب کا نظریہ ایک مشکل نظریہ ہے. حد سے حد یہ کہا جاسکتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی روح کا کوئی نہ کوئی تعلق جسم کہ ذرات سے باقی رہتا ہے مگر جزا و ثواب کے احوال اسکی روح پر ہی وارد ہوتے ہیں. غور کریں تو یہی معاملہ ہمیں خواب میں بھی درپیش آتا ہے، مثال کے طور پر آپ خواب میں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کے پیچھے خنجر لئے دوڑ رہا ہے یا آپ کے پیچھے بھیانک کتے لگے ہوئے ہیں اور آپ ان سے بچنے کی خاطر سرپٹ دوڑ رہے ہیں، اچانک آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ .سارا جسم پسینہ میں شرابور ہے، سانس تیز تیز چل رہی ہے اور خوف سے دل بھی زور زور دھڑک رہا ہے . حالانکہ نہ تو حقیقت میں کوئی آپ کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور نہ ہی آپ کسی سے بچ رہے تھے. اس سے تین اہم باتیں ثابت ہوتی ہیں پہلی یہ کہ اصل تکلیف یا فرحت روح محسوس کرتی ہے، دوسری یہ کہ روح پر گزرے احوال آپ کے جسم پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں اور تیسری یہ کہ خواب کے دوران آپ خواب ہی کو اصل حقیقت تسلیم کرتے ہیں. برزخ میں بھی جو فرحت و عذاب آپ کی اصل نفسانی شخصیت یعنی روح پر وارد ہونگے اس کا احساس  بلکل حقیقی محسوس ہوگا ، یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا جسم جو شائد ذرات کی صورت میں کہیں موجود ہو وہ بھی ایک نامعلوم تعلق کی بنیاد پر اس اثر کو محسوس کرے مگر وہ تعلق کتنا مظبوط ہے؟ ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا وہ وقتاً فوقتاً کمزور ہوتا جاتا ہے؟ ان سب باتوں سے قطع نظر حقیقی معاملہ دراصل روح ہی کو پیش ہوگا اور قبر کی شکل یا ان میں سوال و جواب بھی شائد تمثیلی روحانی سطح پر ہی ہونگے البتہ روح اپنے جسم سے انسیت کے باعث اس سے ایک غیبی تعلق برقرار رکھے گی

شائد اسی بنیاد پر احادیث میں یہ آتا ہے کہ منکر و نکیر فرشتوں کے سوالات کے بعد قبر میں جنت یا جہنم کی کھڑکی کھول دی جاۓ گی جس میں صاحب قبر اپنے ٹھکانے کا شب و روز مشاھدہ کرے گا. قبر کو خوب کشادہ کر دیا جاۓ گا یا نہایت تنگ. یہاں قبر سے مراد میرے نزدیک برزخی یعنی روحانی قبر ہے جسکا تعلق اس مادی قبر سے انس کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے. ہم اپنی سمجھ کی آسانی کیلئے اصحاب قبر کو تین گروہ میں کرکے دیکھ سکتے ہیں. پہلے وہ جو سرکش تھے، دوسرے وہ جو نیک و پارسا تھے اور تیسرے وہ جن کی زندگی گناہ و ثواب دونوں میں گڈمڈ گزری. 

قرآن سے یہ بات  واضع ہوتی ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ وہ سرکشی اور تکبر سے جھٹلانے والے اور اپنے پروردگار کے کھلے نافرمان تھے یا ہونگے ۔ اُن کے لیے ایک نوعیت کا عذاب بھی اِسی عالم برزخ میں شروع ہوجائے گا۔ اسی مشاہدے کی دلیل ہمیں قران پاک کی سورۂ مومن (غافر) میں ملتی ہے جہاں فرمایا :
وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَاب
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب

فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
( غافر:40 - آيت:45-46 )

یعنی صاف ظاہر ہے کہ آل فرعون پر قبر میں عذاب اسی صورت میں ہوتا ہے کہ انہیں انکا ٹھکانہ دکھایا جاتا رہتا ہے جسے دیکھ کر وہ خوفزدہ ہوتے ہیں اور روز آخر انہیں اس عذاب میں حقیقی طور پر داخل کردیا جاۓ گا

قرآن کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے لیے درجہ کمال میں وفاداری کا حق ادا کیا ہے اور کرنے والے ہیں ۔ اُن کے لیے ایک نوعیت کا ثواب اِسی عالم میں شروع ہوجائے گا ۔قرآن کے مطابق اِس کی مثال وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اپنے پروردگار کے حکم پر اُس کے دشمنوں سے جنگ کی اور پھر شہید ہوگئے۔قرآن کا ارشاد ہے کہ وہ زندہ ہیں،اور اپنے پروردگا کی عنایتوں سے بہرہ یاب ہورہے ہیں(آل عمران٣: ١٦٩-١٧١) ۔

ان دو انتہاؤں کے بیچ بیچ جو افراد ہونگے ، جن کے گناہ و ثواب دونوں بکثرت موجود ہوں ایسے افراد کے لئے جنت و جہنم دونوں امکانات کا مشاہدہ رکھا جاۓ گا اور انکا حتمی اعلان آخرت میں حساب و کتاب سے ہی واضح ہو پاۓ گا. ان پر ایک طرح کی نیند طاری رہے گی جس میں یہ خوابیدہ مشاہدہ مختلف شعوری سطح پر کرتے رہے گے. یہ زندگی چونکہ جسم کے بغیر ہوگی لہٰذا روح کے شعور،احساس اور مشاہدات وتجربات کی کیفیت اِس زندگی میں کم وبیش وہی ہوگی جو خواب کی حالت میں ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ قیامت کے صور سے یہ خواب ٹوٹ جائے گا، روح کو جسم سے پھر جوڑا جاۓ گا اور مجرمین اپنے آپ کو یکایک میدان حشر میں جسم و روح کے ساتھ زندہ پاکر کہیں گے: 'یویلنا من بعثنا من مرقدنا ۔ '(ہائے ہماری بد بختی ،یہ ہماری خواب گاہوں سے ہمیں کون اُٹھالایا ہے) (یس٣٦: ٥٢)۔

یہ وہ مختصر روداد ہے جو احوال قبر کے بارے میں مرے نقطہ نظر کو بیان کرتی ہے. میری پھر استدعا ہے کہ اسے محض ایک علمی کاوش سمجھا جاۓ اور کوئی بھی نتیجہ انفرادی تحقیق کے بعد قائم کیا جاۓ. الله رب العزت ہم سب کو اپنے دین کی ٹھیک سمجھ اور اچھا عمل عطا کرے. آمین.

واللہ و عالم بلصواب

====عظیم نامہ====



Saturday, 16 February 2013

لونڈیوں کو خریدتے ہوئے جسمانی جانچ

لونڈیوں کو خریدتے ہوئے جسمانی جانچ پرکھ کا سوال
(تحریر کافی طویل ہو گئی، لیکن ناگزیر تھا)
لونڈیوں کی بحث سے متعلق یوں تو بہت سے فکری، فقہی اور سماجی پہلو قابل غور ہیں اور مختلف پہلووں پر وقتاً فوقتاً بات بھی ہوتی رہے گی، لیکن پیش کردہ بعض تفصیلات سے چونکہ کافی لوگوں کا ’’ایمان‘‘ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے، اس لیے باقی پہلووں کو موخر کرتے ہوئے سردست اس ایک پہلو پر معروضات پیش کی جا رہی ہیں جو ’’ایمان‘‘ کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے، یعنی لونڈیوں کو خریدتے ہوئے ان کی Physical Inspection کا پہلو۔ ظاہر ہے، جدید ذہن کے زاویہ نظر سے اس میں لونڈی کی تذلیل اور اس کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا پہلو نمایاں ہے اور یہ باور کرنا مشکل محسوس ہو رہا ہے کہ اسلام، جو عورت کو شرف وعزت بخشنے کا دعویدار ہے، کیونکر اس چیز کو روا رکھ سکتا ہے۔
میرے نزدیک اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے humanistic idealism کے بجائے سماجی پیچیدگیوں اور قانون کی محدودیتوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے اور یہ زاویہ اس بحث میں کوئی نیا زاویہ نہیں ہوگا، بلکہ آج ہم جس زاویہ نظر سے قدیم معاشروں میں غلامی کے پورے ادارے کا جواز تسلیم کرتے ہیں، اس میں یہ زاویہ پہلے سے موجود اور مسلم ہے۔ اگر جدید تصور کے مطابق شرف انسانی کے معیارات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو غلامی کا تصور ہی غیر اخلاقی اور ناقابل قبول ہے، لیکن ہم اس دور کی سماجی ضرورتوں اور مجبوریوں کے تناظر میں اس کے جواز کو قبول کرتے ہیں۔ یہاں پیش نظر رکھنے کا نکتہ یہ ہے کہ جب آپ کسی مخصوص سماجی تناظر میں کسی چیز کا قانونی اور اخلاقی جواز تسلیم کر لیتے ہیں تو اس کے ساتھ وابستہ تمام تر مضمرات اور عملی نتائج کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ نفس تصور پر تو سمجھوتہ کر لیں، لیکن اس کے بعد اس سے جڑے ہوئے مضمرات ولوازم کو قبول نہ کریں۔ آپ کو قبول نہیں کرنا تو پہلے ہی مرحلے پر نفس تصور کو غیر اخلاقی قرار دے کر رَد کر دیں، لیکن نفس تصور کا قانونی جواز کسی بھی درجے میں قبول کرنے کے بعد اس کے لوازم کی نفی کرنا غیر منطقی بھی ہوگا اور عملاً اس جواز کی نفی کے بھی مترادف ہوگا جسے اصولاً قبول کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر ہم نے یہ قبول کر لیا کہ ایک انسان کا کسی بھی سماجی ضرورت کے تحت کسی دوسرے انسان کی ملکیت قرار پانا قانونی طور پر جائز ہے۔ یہ مانتے ہی کچھ قانونی اور عملی نتیجے خود بخود مرتب ہونا شروع ہو جائیں گے اور ہمیں وہ نتیجے جتنے بھی ناپسند ہوں، انھیں قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایسا شخص اپنے بہت سے ایسے معاشرتی حقوق کھو دے گا اور ان بہت سی آزادیوں سے محروم ہو جائے گا جو معاشرے کے آزاد افراد کو حاصل ہیں۔ اس کی حیثیت معاشرے کے ایک دوسرے درجے کے فرد کی ہوگی جو کسی بھی لحاظ سے اپنے مالک اور اس کے ہم مرتبہ افراد کی برابری کا خواب نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اپنی ذات پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اس کا مالک اسے جب چاہے اور جس کے ہاتھ چاہے، بیچ سکتا ہے۔ وہ اپنے مالک کی رضامندی کے بغیر شادی بیاہ تو درکنار، کہیں سیر وتفریح کے لیے بھی نہیں جا سکتا۔ اس کی کوئی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ اسے دیا جائے گا یا وہ اپنی محنت سے کمائے گا، وہ اس کے مالک کی ملکیت ہوگا۔ اب یہ تمام چیزیں جتنی بھی ناخوش کن اور انسانی شرف ووقار کے منافی لگیں، ان کی نفی نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ یہ ’’ملکیت‘‘ کے تصور کے ساتھ لازم وملزوم ہیں۔ اگر ملکیت ہے تو یہ سب چیزیں بھی ہیں۔ اگر یہ لوازم قابل قبول نہیں تو اس کے لیے نفس ملکیت کی نفی اور عدم جواز مانے بغیر کوئی دوسرا راستہ موجو دنہیں۔
یہی معاملہ باندی کا ہے۔ اگر آپ نے ایک دفعہ اس کے ’’مملوک‘‘ ہونے کے تصور کو قبول کر لیا ہے تو آپ مجبور ہیں کہ اس ملکیت پر مرتب ہونے والے تمام قانونی نتائج کو قبول کریں۔ ملکیت کو مان لینے کے بعد اس کے لوازم ونتائج سے اس بنیاد پر چھٹکارا نہیں مل سکتا کہ وہ شرف انسانی کے تصور کو گراں گزارتے ہیں۔ مثلاً ملکیت کے بعد، مالک کا یہ حق ماننا ناگزیر ہے کہ وہ اس سے جسمانی استمتاع کرے۔ اگر آپ کو یہ برا لگتاہے تو آپ پہلے ملکیت کے تصور کی نفی کریں۔ ملکیت کے تصور کو مان کر حق استمتاع کو نہ ماننا (جیسا کہ ہمارے دور کے بعض مفکرین نے یہ تصوراتی اعجوبہ پیش کیا ہے) ایک داخلی تضاد کی حامل بات ہے۔ اسی پر باقی لوازم کو بھی قیاس کر لیں۔ مالک کو باندی سے حق استمتاع بر بنائے ملکیت حاصل ہے تو مقاربت سے بچے کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ بھی مالک کرے گا۔ باندی یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ بچہ پیدا کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ اسی طرح اگر ایک مالک کی ملکیت میں باندی کا نکاح کسی شخص سے کر دیا گیا تو اس نکاح کا برقرار رہنا بھی سر تا سر مالک کے اختیار پر منحصر ہے۔ وہ آج باندی کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھ بیچنے کا فیصلہ کر لے تو نئے مالک کی ملکیت میں جاتے ہی اس کا نکاح شوہر سے فسخ ہو جائے گا، چاہے باندی اپنے شوہر کے ساتھ کتنی ہی خوش کیوں نہ ہو، کیونکہ نئے مالک نے بھی اسے استمتاع ہی کی غرض سے خریدا ہے اور اس کا حق باندی اور اس کے شوہر، دونوں سے مقدم ہے۔ یہ اور اس نوعیت کے دیگر بہت سے امور، جیسا کہ عرض کیا گیا، ملکیت کے تصور کے لازمی اور منطقی نتائج ہیں جن سے کوئی راہ فرار اختیار نہیں کی جا سکتی۔
اب آتے ہیں اصل سوال، یعنی باندی کو خریدتے ہوئے اس کی جسمانی جانچ پرکھ کی طرف۔ غور فرمائیے، اگر باندی کا ’’مملوک‘‘ ہونا درست ہے اور مالک کا اس سے جسمانی استمتاع کرنا ملکیت کا لازمی تقاضا اور گویا باندی کو خریدنے کا ایک بنیادی مقصد ہے تو بتائیے، کس اصول کے تحت خریدار کو منع کیا جا سکتا ہے کہ وہ خریدنے سے پہلے باندی کے ان جسمانی پہلووں کی تحقیق نہ کرے جو کہ اس کی غرض سے براہ راست متعلق ہیں؟ اگر یہ باندیوں کی عزت نفس کے منافی ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں تو کیا آج ایک، کل دوسر ے اور پرسوں تیسرے مالک کے ہاتھوں میں گردش کرنا اور باری باری ان سب کے تلذذ کا سامان بنتے رہنا عزت نفس اور شرف انسانی کے مطابق ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں، لیکن ہم نتائج کو قبول کرتے ہیں، اس لیے کہ حق ملکیت کو ماننا دراصل ان تمام ناگوار اور ناخوش کن نتائج کو بھی ماننا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس حد تک نکاح کے لیے عورت کا انتخاب کرتے ہوئے اس کا ظاہری جائزہ لیا جاتا ہے، اسی حد تک باندیوں کا بھی جائز ہونا چاہیے، اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن یہاں ہم بھول رہے ہیں کہ معاشرتی مقام اور احترام کے پہلو سے ہم آزاد عورت اور باندی کا فرق پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں۔ عورت کا انتخاب اس کی آزادانہ مرضی سے ایک معاہدے کے تحت ہوتا ہے، جبکہ باندی کی خریداری اس کی مرضی کے بغیر ایک ’’سامان‘‘ کے طور پر کی جاتی تھی۔
یہاں بات کی تفہیم کے لیے ایک نامناسب مثال دینا بھی شاید مناسب ہوگا۔ جدید مغربی معاشروں میں عورت کا یہ قانونی حق تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ جسم فروشی کرے۔ شرف انسانی کے لحاظ سے اس کا جو بھی درجہ متعین کیا جائے، اپنے اسباب کے تحت مغربی قانون اس کو ایک جائز قانونی حق قرار دیتا ہے۔ اب فرض کیجیے، کسی شخص کو جنسی تلذذ کے لیے کسی عورت کے ساتھ معاملہ کرنا ہے تو کیا عرف وقانون کی رو سے ’’خریدار‘‘ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ معاملے کی ضروریات کے لحاظ سے عورت کے جسمانی خصائص کا جائزہ لے؟ اس کے لیے مغربی قوانین میں عملاً کیا ضابطہ ہائے اخلاق وضع کیے گئے ہیں، مجھے نہیں معلوم (شاید انعام رانا اس پر روشنی ڈال سکیں)، لیکن خریدار کو اس حق کا حاصل ہونا کامن سینس کی بات ہے۔ باندی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ جسم فروشی کرنے والی عورت، مرد کو جنسی عمل کا اختیار بھی اپنی مرضی سے دیتی ہے اور اس سے پہلے جسمانی جائزہ لینے کا بھی، جبکہ باندی، مالک کا بستر گرم کرنے کے لیے بھی مجبور ہے اور ملکیت میں آنے سے پہلے خود کو جسمانی جائزہ کے لیے پیش کرنے پر بھی مجبور ہے۔
تاریخ کی کیسی ستم ظریفی ہے کہ باندی اپنی ’’مجبوریوں‘‘ پر مجبور ہے اور معاشرتی قانون (چاہے وہ اسلام کا ہو یا کسی اور مذہب کا) اس کی ان ’’مجبوریوں‘‘ کو قانونی جواز دینے پر مجبور۔
ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم واحکم