Friday, 1 November 2013

نیچرل سیلکشن ادریس آزاد







ظریہ ارتقأ ، نیچرل سیلکشن اور انسانیت کا مستقبل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اکثر کہا کرتاہوں کہ ارتقأ کا اگلہ مرحلہ انسان کا اخلاقی طور پر بہتر ہوجاناہوگا۔ نیچرل سیلیکشن کا عظیم قانون دیکھا جائے تو ثابت ہوتاہے کہ انسان جس چھلنی سے چھانے جارہے ہیں، اب صرف وہی ڈی این اے نئے نئے جین پول بناسکنے کے اہل ہونگے جو کم وائیلنٹ خصلتوں کے حامل ہونگے۔ میری دانست میں ’’نیچرل سیلکشن‘‘ سائنس کی تاریخ میں سب سے دلچسپ قانون ہے۔ ایسا کوئی بھی شخص جو نظریۂ ارتقأ کو اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں نیچرل سیلیکشن کے قانون کو کسی اچھے ٹیچر سے سمجھ لے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ نظریۂ ارتقا کی صداقت سے پھر کبھی انکار کرسکے۔
اس پر مستزاد نیچرل سیلیکشن کو سمجھنا نہایت آسان ہے۔ یہ ایک چھلنی کی طرح سے کام کرتاہے۔ چھلنی یا چھاننی جب چیزوں کو چھانتی ہے تو دو طرح کی اجزأ سامنے آتے ہیں۔ ایک وہ جو چھلنی سے پار ہوجاتے ہیں اور دوسرے وہ جو چھلنی سے پار نہیں جاسکتے اس لیے چھلنی پر ہی رہتے ہیں۔ ارتقأ میں بھی بالکل اِسی طرح ہر نوع کے دو گروہ ہوتے ہیں۔ ایک وہ گروہ جو سروائیو کرجاتاہے اور دوسرا وہ جو سروائیو نہیں کرپاتا۔ جو گروہ سروائیو کرجاتاہے وہ ’’نیا جین پول‘‘ یعنی مورثوں کا کُنڈ کہلاتا ہے اور اس میں ضرور کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی ہے۔
دراصل ہوتا یوں ہے کہ قدرت نے کسی نوع کے مختلف افراد میں جو اختلاف اور تنوع پیدا کیا ہے، وہی بنیادی طور پرنیچرل سیلکشن میں کامیابی یا ناکامی کا باعث بنتارہتاہے۔ ایک باپ کے چار بیٹے ہوں تو ضروری نہیں کہ سارے ہی ایک جیسے قد قامت اور شکل و صورت کے ہوںگے۔ کوئی قدرے لمبا ہوگا، کوئی قدرے چھوٹا، کوئی قدرے کالا ہوگا، کوئی قدرے گورا۔ یہ تھورا تھوڑا فرق ہی ارتقأ میں سب سے اہم ہے۔ آپ نیچرل سیلیکشن کے تجربات خود بھی کرسکتے ہیں اور ارتقأ کا یہ عجیب و غریب مظہر اپنی آنکھوں سے اپنے گھر میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اِسے ’’نیچرل سیلیکشن‘‘ سے زیادہ ہیومین سیلیکشن کہا جانا چاہیے اور کہا بھی جاتاہے، میرا مطلب ہے بیالوجی کی زبان میں اسے سیلیکٹو بِریڈنگ (Selective Breeding) کہا جاتاہے۔ سیلیکٹو بریڈنگ یوں ہوتی ہے کہ آپ اپنی مرضی سے خاص قسم کی خصلتوں والے پوردے ، پرندے یا جانورایک جگہ رکھ کر ایک خاص قسم کا جین پول تعمیر کرسکتے ہیں، جس کے تمام ممبران میں بالآخر وہ خصوصیات پائی جائینگی جو آپ چاہتے ہیں۔
نیچرل سیلیکشن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کوئی مثال فرض کرلیں۔ فرض کریں آپ نے اپنے فارم پر بلیک اینڈ وائیٹ خرگوشوں کی ایک نسل آباد کررکھی ہے۔ اب آپ دیکھیں گے کہ ان کے جسم پر سفید اور کالے دھبے مختلف تناسب سے ہونگے۔ کسی پر سفید رنگ کے دھبوں کا غلبہ ہوگا تو کسی پر سیاہ کے دھبوں کا، کسی پر دونوں رنگ برابر ہونگے وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ ’’مجھے ایک ایسی نسل تیاری کرنی ہے جس کا رنگ خالصتاً سفید ہو‘‘ تو آپ کیا کرینگے؟ سادہ سی بات ہے ، آپ اُن خرگوشوں کو الگ کرلینگے جن کے جسم پر سفید رنگ زیادہ ہوگا۔ آپ ان خرگوشوں کو الگ رکھیں گے اور اُن سے بچے پیدا کروائینگے۔ اگلی نسل میں آپ دوبارہ وہی عمل دہرائینگے اور اس سے اگلی نسل میں دوبارہ پھر وہی عمل، علیٰ ھذا القیاس۔ غرض ہر بار جب آپ نئی نسل حاصل کرینگے توایسے خرگوش الگ کرتے چلے جائینگے جن پر سفید رنگت پہلے سے غالب ہو۔ ایک وقت آئے گا کہ بعض خرگوش کلیۃً سفید پیدا ہونا شروع ہوجائیں گے۔ آپ ان کو آپس ملائینگے اور ان سے اگلی نسلوں میں فقط اکّا دکّا ایسے خرگوش پیدا ہوا کرینگے جن پر کالا دھبہ ہو، ورنہ عموماً بالکل سفید خرگوش ہی پیدا ہوا کرینگے۔ کافی طویل عرصہ یہی عمل دہراتے رہیں اور اپنی مرضی سے سیاہ دھبے والے خرگوش جھنڈ سے باہر نکالتے رہیں تو ایک وقت آئے گا جب پورے جھنڈ یعنی پورے جین پول میں کوئی کالا جِین باقی نہیں رہیگا۔
یہ عمل نیچر میں لاکھوں سال ہوتا رہاہے۔ کچھووں کی کچھ نسلیں سبزی خور ہیں اور کچھ گوشت خور۔ اسی طرح بیبون بندر گوشت خور ہے اور پرانی دنیا کا بندر سبزی خور ہے۔ بہت پیچھے جاکر دیکھا جائے تو اتنے بڑے پیمانے پر جدا ہوجانے والی نسلیں بھی کبھی ایک ہی نسل ہوا کرتی تھیں۔ اور تو اور وہیل مچھلی اور بھینس کا جدِ امجد ایک ہے۔ فطرت میں یہ عمل اس وقت پیش آتاہے جب بیرونی ماحول میں کوئی چھوٹی موٹی تبدیلی آتی ہے۔ اور نئی تبدیلی کے لیے جو نسلیں زیادہ مناسب ہوتی ہیں ان کے جین پول خودبخود الگ ہوجاتے ہیں۔ فرض کریں، کسی برفانی علاقے میں بکریوں کی ایک نسل تھی جس کے جسم پر لمبے لمبے بال تھے۔ ہوا یوں کہ وہاں کی برفیں پھگلنا اور ختم ہونا شروع ہوگئیں۔ اب کیا ہوا؟ یہ ہوا کہ وہاں سردی کم ہونا شروع ہوگئی۔ جبکہ دوسری طرف چشمِ تصور میں یہ بھی دیکھیں کہ بکریوں کی اس نسل کے افراد میں قدرتی طور پر ایک ورائٹی تھی۔ یعنی بعض بکریوں کے بال زیادہ لمبے تھے تو بعض کے اتنے زیادہ لمبے نہ تھے۔ چنانچہ زیادہ لمبےبالوں والی بکریوں کے لیے گرمی کو برداشت کرنا مشکل ہوگیا اور کم لمبے بالوں والی بکریوں کے لیے ابھی اتنا مشکل نہیں تھا۔ سو زیادہ لمبے بالوں والی بکریاں جلد مرنا شروع ہوگئیں جس کے نتیجے میں قدرے کم لمبے بالوں والی بکریاں تعداد میں بڑھتی چلی گئیں۔ فرض کریں کہ برفیں مسلسل پگھلتی رہیں اور وہاں گرمی بڑھتی چلی گئی۔ تو دوسری طرف یہ بھی دیکھیں کہ نئے جین پول میں بھی وہی ہوا، یعنی اب جن بکریوں کے اور بھی کم لمبے بال تھے ان کی تعداد بڑھ گئی اور قدرے زیادہ لمبے بالوں والی بکریوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ اگلی چند نسلوں میں یہی ہوتا رہا اور پھر ایک وقت آیا کہ بکریوں کے جین پول میں زیادہ لمبے بالوں والی بکریوں کے جینز بہت ہی کم ہوگئے۔ یعنی بغیر بالوں والی بکریوں کی نئی نوع تیار ہوگئی۔
اسے نیچرل سیلکشن اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں فطرت کسی چھلنی کی طرح چھان لیتی ہے اور صرف ان جینز کو نئے نئے جین پول بنانے دیتی ہے جو نئے ماحول کے لیے مناسب ہوتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب انڈسٹریاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو یورپ کے درختوں کی رنگت دھوئیں اور آلودگی کی وجہ سے قدرے تاریک ہوگئی۔ ان درختوں پر رہنے والی تتلیاں پرانی رنگت کے درختوں جیسی ہلکی بھوری ہوا کرتی تھیں۔ جونہی درختوں کی رنگت تاریک ہوئی تتلیاں ’’کنٹراسٹ کلر‘‘ کی وجہ سے زیادہ ہائی لائیٹ ہوگئیں۔ پہلی تتلیاں چونکہ درختوں کے رنگوں کی ہوا کرتی تھیں اس لیے وہ دشمن کے حملوں سے محفوظ رہتی تھیں کیونکہ ان کی رنگت انہیں کمیوفلاج ہونے میں مدد دیتی تھی لیکن جب درخت ڈارک ہوگئے تو تتلیاں اپنے دشمنوں کے سامنے ایکسپوز ہوگئیں۔ تب یہ ہوا کہ جو تتلیاں پہلے سے ہی قدرے سیاہی مائل تھیں ، وہ تو دشمن سے محفوظ رہیں جب کہ باقی ماندہ ماری گئیں۔ فطرت نے ایک نیا جین پول سیلیکٹ کرلیا اور ایک نئی نوع یعنی تاریک تتلیاں وجود میں آگئی۔
کوئل عجیب و غریب پرندہ ہے۔ اپنا گھونسلہ نہیں بناتی بلکہ اپنا انڈہ دوسرے پرندوں کے گھونسلوں میں جاکر دیتی ہے۔ کوّوں، چڑیاؤں، فاختاؤں، کبوتروں، اور ایسے ہی چھوٹے بڑےپرندوں کے گھونسلوں میں، تاکہ اُس کے انڈے محفوظ رہیں۔
پھر کیا ہوتاہے کہ کوئل کے انڈے لازمی طور پر اُس گھونسلے میں موجود دوسرے انڈوں سے پہلے تیار ہوجاتے ہیں اور کوئل کا ننھا بچہ انڈے سے نکلتے ہی پہلا کام یہ کرتاہے کہ اپنے آس پاس رکھے دوسرے انڈوں کو دھکے مار مار کر گھونسلے سےباہر پھینک دیتا ہے۔ وہ اپنی پِیٹھ سے انڈوں کو دھکیلتاہے اور ایک ایک کرکے بقیہ سارے انڈے گھونسلے سے نیچے پھینک دیتاہے۔
کوئل کے انڈوں میں ایک عجیب و غریب خاصیت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ جس گھونسلے میں دیے جائیں، اُس گھونسلے میں موجود انڈوں جیسی شکل و شباہت اور رنگت اختیار کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک کوئل نے چڑیا کے گھونسلے میں انڈہ دیاہے تو اس کا انڈہ چڑیا کے انڈوں جیسی شکل و صورت اور رنگت اختیار کرلیگا تاکہ چڑیا کو پتہ نہ چلے کہ اس کے انڈوں میں کسی نے اجنبی انڈہ شامل کردیا ہے۔ یہ نہایت عجیب و غریب مظہر ہے۔ جسے سمجھنے کے لیے ریسرچر نے بے پناہ محنت کی اور بالآخر کوئل کی اِس جادُو گری کا اندازہ اِس طرح لگایا گیا کہ دراصل بظاہر ایک طرح کی نظر آنے والی کوئلیں فی الواقعہ ایک دوسرے سے تھوڑی سی مختلف ہیں۔ مختلف اس طرح کہ مثلاً جو کوئلیں چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں وہ الگ ہیں اور جو کوئلیں فاختاؤں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں وہ الگ،علیٰ ھٰذالقیاس۔ یعنی ایک ہی نوع کی کوئلوں کے غیر محسوس قسم کے کئی گروہ ہیں جو بظاہر نہیں پہچانے جاسکتے ہیں۔
سو ہوتا یہ ہےکہ جو کوئلیں چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دیتی ہیں اُن کو ’’جینٹک کوڈنگ‘‘ کے ذریعے یہ شعور ملا ہے کہ وہ چڑیوں کے انڈوں جیسے انڈے دیں اور جو کوئلیں فاختاؤں کے انڈوں جیسے انڈے دیتی ہیں اُن کے جینٹک کوڈ میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ وہ جب بھی اور جہاں بھی انڈہ دیں تو فاختاؤں کے انڈوں جیسا انڈہ دیں۔ یہ شعور انہیں جینز کے ذریعے کیسے ملتاہے؟ ریسرچرز نے سب سے پہلے یہ نوٹ کیا کہ ہر مادہ کوئل جب جنم لیتی ہے تو وہ جس گھونسلے میں جنم لیتی ہے، جب بڑی ہوکر خود ماں بننے لگتی ہے تو اُسی قسم کے گھونسلے میں ہی انڈہ دینے کی اہل ہوتی ہے اس لیے اسی قسم کے گھونسلے میں جاکر ہی انڈہ دیتی ہے۔ اس بات کا پتہ بھی انہیں اپنے جینزمیں لکھی ہدایت کی وجہ سے چلتاہے کہ انہوں نے کوّوں، چڑیوں یا فاختاؤں کے گھونسلے کیسے ڈھونڈنے ہیں۔ یعنی صدیوں سے ایک کام کرتے کرتے اب ان مادہ کوئلوں کے جینز میں داخل ہوگیاہے کہ چڑیوں ار فاختاؤں کے گھونسلوں کو الگ الگ پہنچانیں اور ان میں جاکر انڈہ دیں۔
اس راز کا پتہ چلا تو ریسرچرز انگشت بدندان رہ گئے۔ انہوں نےسوچا کہ آخر ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ نوع تو خالصتاً ایک ہی ہو لیکن پھر بھی ان میں تقسیم کی جاسکے کہ فلاں تو چڑیوں کے گھونسلوں میں انڈے دینے والی کوئلیں ہیں اورفُلاں فاختاؤں کے گھونسلوں میں انڈے دینے والی۔ تب مزید تحقیات پر یہ راز یوں کھلا کہ جیسے انسانوں میں نَر (مرد) کے کروموسوموں کے ایک جوڑے کو ’’ایکس وائی‘‘ کروموسوم کہتے ہیں اور مادہ کے کروموسومز کے سارے جوڑوں کو ’’ایکس ایکس‘‘ کروموسوم کہتے ہیں کوئل میں اس کے برعکس ہوتا ہے اور مادہ کوئل میں ایک جوڑا ایکس وائی کروموسوم جبکہ نَر کوئلوں میں سارے جوڑے ایکس ایکس کروموسوم کے پائےجاتے ہیں۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ وائی کروموسوم کا حامل ہونے کی بدولت ماداؤں کی نسلوں کو اپنے اجداد کے جینز سے متوارث ہدایات منتقل ہوتی ہیں جبکہ ایکس ایکس کروموسوم میں وہ ہدایات نہیں جاتیں اور یوں ایک ہی نوع اس لیے قائم رہتی ہے کہ نَر کوئل تو ہرحال میں ایکس ایکس کروموسوم والا ہونے کی وجہ سے کبھی بھی اپنے اجداد کے جینز سے وہ ہدایات نہیں لیتا جو اس کو اپنی نوع میں ایک الگ ذات کی کوئل کا نر بنادے جبکہ مادہ کوئل اکیلے وائی کروموسوم کی وجہ سے الگ الگ گروہوں کی شکلوں میں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چونکہ کائنات کی کوئی شئے پرفکیٹ نہیں اس لیے مادہ کوئلوں سے کبھی کبھار غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ یعنی ایک کوئل جس نے چڑیا کے گھونسلے میں انڈہ دینا تھا وہ غلطی سے فاختہ کے گھونسلے میں انڈہ دے دیتی ہے۔ اس سے فطرت نے ایک اور مقصد پورا کرناہوتاہے۔ ان غلطیوں کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ مادہ کوئلوں کے نئے نئے گروہ تیار ہوتے رہتے ہیں۔ اس حقیقت کا پتہ اس طرح چلا کہ ماداؤں کے ایک گروہ کے انڈے بہروپ دھارنے کی قدرے کم قابلیت رکھتے ہیں تو کسی اور گروہ کے انڈے قدرے زیادہ قابلیت رکھتے ہیں۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے جینز پر تفکر ہوا تو معلوم ہوا کہ کچھ نئے نئےوائی کروموسوم سے ہدایات لینے کے کام پر شروع ہوئے ہیں اور کچھ بہت پرانے لگے ہوئے ہیں ۔ جو نئے نئے شروع ہوئے ہیں یہ نئے اور تازہ گروہ ہیں جو اُن غلطیوں کی وجہ سے ممکن ہوپاتےہیں جو بعض ماداؤں سے سرزد ہوتی ہیں۔
انسانوں میں بھی ایسا ہوتاہے۔ انسانی جین پول معاشی، سیاسی اور سماجی حالات کے تحت تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان جو گزشتہ ستر سال سے پاکستان میں رہ رہے ہیں اور ان کی تین چار نسلیں پاکستان میں پیدا ہوگئی ہیں اب اپنے، وہاں موجود رشتہ داروں سے جسمانی طور پر تھوڑے سے مختلف ہیں۔ یہ تبدیلی اگرچہ بہت ہی کم ہے، اتنی کم ہے کہ عام آدمی کے لیے اسے نوٹ کرنا مشکل ہے لیکن تحقیقی نگاہ سے یہ تبدیلی چھپ نہیں پاتی۔ اسی طرح افغان مہاجرین کی جو نسلیں یہاں پروان چڑھی ہیں اُن میں اور افغانستان میں موجود افغانیوں میں بھی فرق آچکاہے۔ یہ نہایت معمولی فرق ہیں جن کا ذکر کچھ خاص اہم نہیں لیکن بڑے پیمانے پر انسانی آبادیوں میں نیچرل سیلیکشن کے واضح اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ کیا ہم چینیوں میں ایسا جین پول خود پیدا کرسکتے ہیں جن کے ناک چپٹے نہ ہوں؟ ہم اگر چین جاکر وہاں موجود ایسے چینیوں کو الگ کرلیں جن کی ناک چپٹی نہیں ہے تو ہم ایسا جین پول آسانی سے تیار کرسکتے ہیں۔
اس سارے مضمون میں، ہم نے جس بات پر توجہ نہیں دی وہ تھی، ’’بیرونی ماحول‘‘ میں موجود تبدیلی۔ انسانی معاشروں کا بیرونی ماحول گزشتہ صدی میں بڑی تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ پہلے لوگ اونچی چھتوں اور موٹی دیواروں والے مٹی کے وسیع اور بڑے کمروں میں رہتے تھے۔ اب لوگ نیچی چھتوں، پتلی دیواروں اور کنکریٹ، سیمٹ، لوہے اور بجری سے بنے مکانوں میں رہتے ہیں۔ پہلے لوگ بجلی اور ٹیلیفون کے بغیر رہتے تھے۔ اسی طرح کی ان گنت ایسی تبدیلیاں ہیں جو گزشتہ صدی میں پوری انسانی معاشرت میں واقع ہوئی ہیں۔ چنانچہ وہ جینز جو نئے ماحول کے لیے مناسب تھے تعداد میں بڑھ گئے ہیں اور باقی فنا ہوگئے ہیں۔
لیکن گزشتہ صدی میں واقع ہونے والی ماحولیاتیِ تبدیلیوں میں سب سے بڑی تبدیلی ’’عقیدے کا خاتمہ‘‘ ہے۔ لوگ چاہے جتنے بھی مذہبی ہیں لیکن دورِ حاضر کے لوگ اپنے مذہبی عقائد پر یقین کھو چکےہیں۔ ایک طرف چند سائنس دان اعلان کردیں کہ آنے والےچند دنوں میں ایسا زلزلہ آئے گا کہ فُلاں شہر مکمل طور پر زمین میں دھنس جائے گا اور دوسری طرف پوری دنیا کے مسلمان مولوی مل کر یہ اعلامیہ جاری کریں کہ ’’رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اُمت پر عذابِ خسف یعنی زمین میں دھنسانے کا عذاب نہیں آئے گا‘‘ تو لوگ مولویوں کی بات نہیں مانیں گے اور سائنسدانوں کی بات کا مکمل یقین کرلینگے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ دورِ حاضر کے سائنسی اور منطقی فہم کے سامنے عقیدے کا دعویٰ ہار چکاہے بایں ہمہ عملاً عقیدے کا خاتمہ ہوچکاہے، اگرچہ رسماً باقی ہے اورسائنسی عقل کا اِسی طرح عروج رہا تو ایک آدھ صدی بعد بالکل ہی فنا ہوجائے گا۔ اب چونکہ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جو لوگوں کے دِل و دماغ میں اجتماعی طور پر وارد ہوئی ہے اور مسلسل ہورہی ہے تو کیا ہورہا ہے کہ اب نیچرل سیلیکشن کی چھلنی میں صرف ایسی پود چھَن رہی ہے جو سائنس کے انکشافات پر مذہبی عقائد سے زیادہ یقین رکھتی ہے۔ مزید برآں چونکہ سائنس میں ایسا کوئی خیال نہیں پایا جاتا جو دو انسانی گروہوں کے درمیان رنگ، نسل،خون، وطن،قوم، قبیلہ یا مذہب کی بنیاد پر تفریق کا موجب بن سکتاہو اِس لیے نہایت تیزی کے ساتھ نئے نئے انسانی جین پول تیار ہورہے ہیں جو اجتماعی طور پر انسانیت کو سب سے بڑا عقیدہ تصور کرتے ہیں۔
اس پر مستزاد مذہبی پیشواؤں کا جین پول بھی الگ ہورہاہے۔ مولویوں اور پادریوں کے ساتھ بھی نیچرل سیلکشن کا عمل پیش آرہاہے۔ ایک صدی پہلے تک ایک باپ اپنے چار بیٹوں میں سے سب سے لائق اور ذہین بچے کو دینی مدرسے بھیجتا تھا۔ بہادرشاہ ظفر کے زمانے تک ملک کی سب سے بڑی ڈگری ’’مولوی‘‘ ہوتی تھی۔ اور آج زیادہ تر والدین اپنے سب سے ڈفر، کند ذہن اور نالائق بچے کو دینی مدرسے میں داخل کرواتے ہیں۔ جہاں اس تبدیلی کی وجہ معاشی حالات اور مادہ پرست فکر ہے وہاں سائنسی انقلاب اور جدید فکری رجحانات کے علاوہ میڈیا اور ترقی یافتہ دنیا کے مناظر بھی ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں مولویوں کی جو کھیپ تیار ہوئی ہے اس میں کند ذہن، کم ذہین یا تھوڑے آئی کیو لیول کے مولویوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مثلاً پہلے اگر دس مسجدوں کے خطیبوں میں سے سات ایسے خطیب ہوتے تھے جو دانائی اور علم وحکمت سے آراستہ خطبہ دیتے تھے تو آج دس میں سے تین خطیب بھی ایسے نہیں ہیں جو دانائی یا علم کی باتیں خطبے میں بتاسکیں۔ یوں مولویوں کے ساتھ بھی نیچرل سیلکشن کا عمل پیش آیا ہے اور ذہین مولویوں کی تعداد اس جھنڈ میں بہت کم رہ گئی ہے۔ یہ چونکہ پوری دنیا کے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ پیش آیا ہے اس لیے مذہبی پیشوا اب دانائی کی علامت نہیں رہے۔ ان کے مقابلے میں لوگوں نے اپنے لائق اور ذہین بچوں کو سائنسی تعلیم کی طرف بھیجا ہے چنانچہ سائنسدانوں کا جو گروہ تیار ہوا ہے وہ فی زمانہ سب سے زیادہ ذہین اور عاقل لوگوں کا گروہ سمجھا جاتاہے۔
مضمون کے شروع میں ، میں نے کہا کہ اب ارتقا کا اگلہ مرحلہ انسانوں کو اخلاقی طو رپر بہتر ہوجانا ہوگا۔ یہ اس لیے کہا کیونکہ ارتقا کا اصول ہے کہ بیرونی ماحول کا مقابلہ کرسکنے کے اہل جینز باقی رہینگے اور ان کے علاوہ سب فنا ہوجائینگے۔ بحیثیتِ مجموعی دیکھا جائے تو انسانوں کو اب جسمانی طور پر مسائل کا اتنا سامنا نہیں جتنا ذہنی مسائل کا سامنا ہے۔ مثلا اب گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے متبادل بندوبست ہے لیکن اینگزائٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ بندوبست نہیں ہے۔ اینگزائٹی، ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن، فرسٹریشن، مالیخولیا، اور طرح طرح کے فوبیاز وغیرہ، یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو دورِ حاضر کے انسان کو جسمانی مسائل سے زیادہ درپیش ہیں۔ اگلا انسانی جین پول صرف ان لوگوں کو تیار ہوگا جو ذہنی دباؤ اور اینگزائٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے جینیاتی طور پر مضبوط ہونگے۔ کوئی شخص اینگزائٹی کا مقابلہ کرنے کا جینیاتی طور پر اہل کیونکر ہوسکتاہے؟ ماسوائے اس کے کہ وہ لوگ بچ جائیں جو اپنے آپ کو ذہنی دباؤ والے کاموں سے دُور رکھتے ہیں۔ چوری کرنا ڈپریشن والا کام ہے سو بہتر ہے کہ میں چوری نہ کروں۔ لیکن اگر میرے اندر چوری کرنے کی شدید ترین خواہش موجود ہے تو میں باز نہ رہ سکونگا اور اگر میں پہلے سے ہی چوری جیسی چیز کو اپنی طبیعت کے مطابق نہیں سمجھتا اور ایسے عمل سے بیزار سا رہتاہوں تو یقیناً میں اپنے آپ کو اِس ڈپریشن کے دور میں تو اور بھی باز رکھونگا اور چوری والے عمل کے نزدیک تک نہیں جاؤنگا۔ چنانچہ آنے والی نسلوں کے جینز جہاں پہلے سے زیادہ نازک اور حساس خصلتوں کے حامل ہونگے وہاں ڈپریشن والے کاموں سے طبعاً دُور بھی ہونگے۔
فرض کریں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایک ہی صورت ہے کہ انسان زمین پر زندہ نہیں بچے گا۔ زمین کو تباہ کرلیگا یا خود کو۔ انسان کے باقی بچنے کا حل ہی صرف یہی ہے اور یہی ایک ہے کہ وہ جلد سے جلد اخلاقی طور پر بہتر لوگوں کا جین پول تیار کرلے۔ ایسے لوگ جن کی طبیعت میں کسی کو تکلیف دینا نہیں پایا جاتا اور فقط اس لیے نہیں پایا جاتا کہ ایسے کاموں سے انہیں جبلی طور پر ٹینشن ہوجاتی ہے۔ ایسا جین پول تیار ہوگیا تو یقینی ہے کہ انسان بہت لمبا جیے گا۔ بصورتِ دیگرفقط ایک دو صدیاں کاٹنا بھی دشوار ہے کیونکہ سیّارہ زمین اب بُری طرح سے ڈانواڈول ہے اور اسے بیخ و بن سے ہِلا دینے کا کارنامہ بھی انسانوں نے ہی مل کر سرانجام دیاہے۔

Monday, 16 September 2013

قطعی الدلالہ

فقہائے کرام آیات نہیں الفاظ کی دلالت کی بات کرتے ہیں اور قطعیت یا ظنیت کے لحاظ سے لفظ کو آٹھ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: محکم، مفسر، نص، ظاہر، خفی، مشکل، مجمل، متشابہ۔ ایک جانب مکمل قطعیت اور دوسری جانب مکمل ابہام؛ جبکہ درمیان میں قطعیت و ظنیت کے چھ مدارج یا شیڈز۔ جب ہر لفظ کو صرف دو قسموں – قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ – میں تقسیم کیا جاتا ہے تو دنیا بلیک اینڈ وائٹ ہوجاتی ہے اور باقی رنگوں کی نفی ہوتی ہے۔ پھر جب یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ قرآن تنہا مکمل طور پر قطعی الدلالہ ہے تو اس سے وہ شدید قسم کا علمی تکبر جنم لیتا ہے جس کے سامنے صدیوں کی علمی روایت ناقابلِ قبول ٹھہرتی ہے کیوں کہ وہ ”خلافِ قرآن“ قرارپاتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ لفظ جب جملے کا حصہ بنتا ہے تو اس کی ظنیت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ سیاق و سباق، سائل کے متعلق علم، تاریخی پس منظر، دیگر آیات و احادیث اور اسی طرح کے اور قرائن سے ظنیت کم ہوتی جاتی اور قطعیت بڑھتی جاتی ہے اور بالآخر ظنیت ختم اور قطعیت ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ پراسس ہوتا ہے اور اتنا سادہ نہیں ہوتا کہ لفظ کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے اور باقی سارے قرائن ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ جنھیں ثانوی حیثیت دی جاتی ہے، درحقیقت انھی کے ذریعے تو لفظ کا مطلب متعین ہوتا ہے۔
ثلٰثۃ قروء کو ہی لے لیجیے۔ ثلاثۃ کو فقہائے کرام ”خاص“ (Specific) قرار دیتے ہیں اور مانتے ہیں کہ یہ قطعی الدلالہ ہے؛ اس کے معنی تین ہیں؛ نہ دو ، نہ چار، نہ ساڑھے تین۔ لفظ قرء البتہ فی الاصل ظنی الدلالہ ہے کیوں کہ لغت میں اس کا اطلاق حیض پر بھی ہوتا ہے اور قرء پر بھی۔ اسے اصطلاحاً مشترک (Equivocal) کہا جاتا ہے۔ تحقیق کے بعد کسی ایک مفہوم کا راجح ہونا معلوم ہوجائے تو اسے ”موول“ اور اس کوشش کو تاویل کہتے ہیں۔ یہاں دوسرے کسی احتمال کی نفی نہیں ہوتی لیکن اس میں کم زوری معلوم ہوتی ہے۔ جب ایک احتمال قطعی طور پر ثابت ہوجائے تو اسے ”مفسر“ اور اس کوشش کو تفسیر کہتے ہیں۔ موول ظنی ہوتا ہے، یعنی ظن غالب اس کے حق میں ہوتا ہے؛ مفسر قطعی ہوتا ہے، یعنی یہ مفہوم یقینی ہوتا ہے۔ گویا مفسر ہوجانے کی صورت میں equivocal لفظ unequivocal ہوجاتا ہے۔
یہ تفسیر ایک ہی نص کے کسی اور لفظ سے بھی ہوسکتی ہے اور اس صورت میں اسے مفسر بنفسہ کہا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے: عین جاریۃ۔ یہاں عین، جو مشترک تھا، جاریۃ کی وجہ سے مفسر ہوا۔ کبھی یہ تفسیر کسی دوسری نص، جیسے حدیث، سے بھی ہوتی ہے اور اس صورت میں اسے مفسر بغیرہ کہتے ہیں۔ جیسے “الربوٰ” کا مفہوم احادیثِ ربا نے یا ”الصلوٰۃ“ کا مفہوم احادیثِ نماز نے واضح کردیا ہے۔
فقہائے کرام مانتے ہیں کہ بعض الفاظ کا ابہام دور کرنے، یا کئی معانی میں کسی ایک کے تعین کے لیے لغوی تحقیق کافی ہوتی ہے ۔ یہ اس وقت جب لفظ خفی یا مشکل کی سطح کا ہو۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ لفظ جب مجمل کی سطح کا ہو تو اس کے مفہوم کے تعین کے لیے لغت کی طرف نہیں بلکہ شارع کی طرف جایا جائےگا۔ اسی لیے الربوٰ، الصلوٰۃ ، الزکوٰۃ اور اس طرح کی دیگر اصطلاحات کا مفہوم وہ لغت کے بجائے حدیث سے متعین کرتے ہیں۔
پس مسئلہ کی صحیح نوعیت یہ نہیں ہے کہ قرآن کی ساری آیات قطعی الدلالہ ہیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا پورے قرآن کی دلالت تنہا قرآن سے قطعی طور پر معلوم کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
مثال کے طور پر تمام فقہائے کرام مانتے ہیں کہ ابتدا میں وصیت فرض تھی کیوں کہ آیتِ وصیت میں ”کتب علیکم“ کے الفاظ ہیں جن سے فرضیت ہی ثابت ہوتی ہے ۔ البتہ بعد میں جب وراثت کی آیات آئیں تو ورثا کے حق میں وصیت ناجائز قرار پائی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر احادیث کو نظرانداز کیا جائے تو کیا آیات مواریث نے کوئی ایسی تصریح کی ہے کہ اب ورثا کے حق میں وصیت ناجائز ہوئی؟ فحوائےکلام اور دیگر قرائن کی بات الگ ہے۔ کہنے والا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ آیات مواریث نے وصیت کو تحفظ فراہم کیا ہے کیوں کہ ان میں بار بار تصریح کی گئی ہے کہ یہ حصص وصیت کے بعد کے ہیں۔ تاہم تمام فقہائے کرام مانتے ہیں کہ کسی وارث کے حق میں کی گئی وصیت ناجائز ہے (البتہ دیگر ورثا اس کی اجازت دیں تو حنفی فقہائے کرام کے نزدیک پھر اس کا نفاذ جائز ہوتا ہے)۔ فقہائے کرام کے اس موقف کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرار دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے کسی وارث کے حق میں وصیت نہ کی جائے۔
یہاں یہ بحث بھی کی جاتی ہے کہ کیا آیت ِوصیت کو آیاتِ مواریث نے منسوخ کیا ہے یا حدیث لا وصیۃ لوارث نے۔ لیکن میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ میں صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حدیث لا وصیۃ لوارث نہ ہوتی تو کیا محض آیاتِ مواریث سے ورثا کے حق میں وصیت کے جواز کی منسوخی ثابت کی جاسکتی تھی؟ مولانا اصلاحی کا بیان کردہ یہ نکتہ بھی محض نکتہ ہی ہے کہ اللہ کی وصیت (یوصیکم اللہ ) کو انسان کی وصیت پر فوقیت حاصل ہے۔ جب تک حدیث لا وصیۃ لوارث ذہن میں نہ ہو، اس نکتے سے ورثا کے حق میں وصیت کا عدم جواز ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
اس سے زیادہ سنجیدہ مسئلہ ”غیر وارث“ راشتہ داروں کے حق میں وصیت کی فرضیت کا ہے۔ آیتِ وصیت کو اگر آیاتِ مواریث یا حدیث ِ لاوصیۃ لوارث نے منسوخ کیا ہے تو یہ تو بظاہر ”نسخِ جزئی“ ہے، یعنی وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت ناجائز ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا آیتِ وصیت کا اطلاق ان رشتہ داروں پر نہیں ہوتا جن کا وراثت میں حصہ نہ ہو؟ اگر ہوتا ہے اور یقیناً ہوتا ہے تو ان کے حق میں وصیت کی فرضیت تو آیاتِ مواریث یا حدیثِ لا وصیۃ لوارث سے منسوخ نہیں ہوسکتی ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فقہائے کرام کی غالب اکثریت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت جائز تو ہے لیکن فرض نہیں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض نے غیر ورثا کے حق میں وصیت کی، بعض نے اس کی شدید تاکید بھی کی اور بعض نے مال رکھنے کے باوجود غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت نہیں کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت جائز تھی ، بعض کے نزدیک مستحب بھی تھی ، لیکن فرض بہرحال نہیں تھی ۔ اب دیکھیں یہاں مفروضہ کیا ہے ؟ یہ کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرض نہیں چھوڑ سکتے تھے اور وہ قرآن کو ہم سے بہتر سمجھتے تھے۔ ان مفروضوں کے بعد ہی جب آیتِ وصیت اور دیگر نصوص کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں نظر آجاتا ہے کہ غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیت کیوں فرض نہیں ؟
چناں چہ مسئلے کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ کہ کیا پورے قرآن کی دلالت تنہا قرآن سے قطعی طور پر معلوم کی جاسکتی ہے یا نہیں؟اسی وجہ سے یہ مسئلہ محض پورے قرآن کی دلالت کو قطعی ماننے یا نہ ماننے کا نہیں ہے بلکہ قرآن فہمی میں حدیث اور فہم ِ صحابہ کے مقام کے تعین کا بھی ہے ۔
ھذا ما عندی ، و العلم عند اللہ ۔

(ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ایسوسی ایٹ پروفیسر قانون، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)

Tuesday, 2 April 2013

سب کچھ تقدیر میں ہی لکھا ہے تو انسان کی کیسی غلطی ؟

تقدیر کیا ہے ؟ .. اگر سب کچھ پہلے ہی لکھا ہے تو انسان کی کیسی غلطی ؟

اگر تاریخ انسانی کا جائزہ لیا جاۓ تو معلوم ہوگا کہ مذہب اور فلسفہ کا مشکل ترین موضوع 'مسلہ جبر و قدر' ہے یا یوں کہہ  لیجیۓ کہ ' تقدیر کا مسلہ ' ہے. روز اول سے بیشمار فلسفی، ان گنت منطق ساز، چوٹی کے مذہبی رہنما، بڑے بڑے شاعر اور  نمائندہ نثرنگار اس عنوان پر طبع آزمائی کرتے آئے ہیں لیکن مجھے یہ لکھنے کی اجازت دیجیۓکہ آج تک کسی نتیجہ ور متفق نہ ہوسکے. کہا جاتا ہے کہ اس موضوع کو جتنا سلجھایا جاۓ یہ اتنا ہی الجھتا جاتا ہے. جتنا اسے کھولنے کی سعی کی جاۓ اتنے ہی نئے سوالات وجود میں آجاتے ہیں.ہم مسلمانوں کیلئے یہ موضوع اس حوالے سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ تقدیر پر ایمان ان چھ ایمانیات میں سے ایک ہے جن کو ماننا مومن ہونے کی لازمی شرط ہے. آج سے چند برص قبل میں نے چاہا کہ دور حاضر کے بڑے علماء سے اس عنوان کے متعلق استفادہ حاصل کروں جیسے ڈاکٹر اسرار احمد ، پروفیسر احمد رفیق، اور جاوید احمد غامدی صاحب مگر سچ پوچھیں تو سب نے تشنہ چھوڑ دیا. اس عنوان پر غلام احمد پرویز صاحب کی ایک  کتاب بھی نظر سے گزری جو ایک عمدہ علمی کاوہ تھی. اسی طرح انگریزی میں کیونڈش پبلشنگ کی جانب سے فری ول پر ایک تحقیقی کتاب مرتب دی گئی جس نے کئی ذہنی الجھنوں کو دور کیا. قصہ مختصر کہ کافی ورق گردانی کے بعد میں اس تحریر کو لکھنے کی جسارت کررہا ہوں اس امید کیساتھ کہ اگر قارئین کے تمام اشکال دور نہ بھی کرپاؤں تو کم از کم اپنی سوجھ بوجھ یہاں درج کردوں

   تقدیر لفظ قدر سے وجود پزیر ہوا ہے جسکے معنی 'حدود یا اندازہ مقرر کرنے' کے ہیں اسی مادہ لفظ قدر سے اردو زبان کے اور بھی الفاظ زندگی پاۓ ہیں جیسے مقدار، مقدور، اقدار، قادر، معاشرتی قدریں وغیرہ ان تمام الفاظ میں حدود یا اندازے کی صفات پنہاں ہیں. سادہ الفاظ میں تقدیر درحقیقت مجموعہ ہے ان قوانین، اصولوں اور حدود کا جو اس کائنات کی ہر شے کو باندھے ہوۓ جکڑے ہوۓ ہیں. قدر کے یہی معانی قران حکیم کی اس آیت سے عیاں ہیں ٤٣:١١

قبر میں جزا و ثواب کی نوعیت کیا ہوگی ؟ اس بارے میں محققین کی مختلف آراء موجود ہیں. میں اس وقت انکا تقابلی جائزہ نہیں لوں گا بلکہ صرف اپنے تجزیہ سے آپ کو آگاہ کروں گا. پڑھنے والوں پر فرض ہے کہ وہ میری اس تحقیق کو ایک علمی کاوش سمجھیں اور اپنا نتیجہ خود قائم کریں.


============================================

قبر میں جزا و ثواب کی نوعیت کیا ہوگی ؟ اس بارے میں محققین کی مختلف آراء موجود ہیں. میں اس وقت انکا تقابلی جائزہ نہیں لوں گا بلکہ صرف اپنے تجزیہ سے آپ کو آگاہ کروں گا. پڑھنے والوں پر فرض ہے کہ وہ میری اس تحقیق کو ایک علمی کاوش سمجھیں اور اپنا نتیجہ خود قائم کریں.

سب سے پہلے تو تمہیدی طور پر یہ جان لیں کہ یقین کے تین درجے ہیں پہلا درجہ ہے علم الیقین - یعنی وہ یقین جو علمی استدلال سے حاصل ہو. اس دنیاوی زندگی میں ہم سے صرف علم الیقین ہی مطلوب ہے. دوسرا درجہ ہے عین الیقین - یعنی آنکھوں دیکھا یقین، یہ وہ یقین ہے جو عالم برزخ یعنی یعنی موت کے بعد قبر میں حاصل ہوگا. تیسرا اور اعلیٰ ترین درجہ حق الیقین کا ہے جو روز محشر یعنی قیامت کے بعد قائم ہوگا. علم الیقین چونکہ اس مادی دنیا میں مطلوب ہے لہٰذا اس میں ہمارے مادی یعنی جسمانی حواس غالب ہیں. قبر میں کیونکہ جسم مٹی ہوجانے ہیں تو یہاں ہمارا روحانی وجود یا روحانی حواس کا غلبہ ہے لہٰذا معاملات بھی عین الیقین سے متعلق ہیں. روز حساب ہمارے جسمانی اور روحانی دونوں حواس پوری طرح بیدار ہونگے تو یہاں حقیقت اپنے دونوں پہلوؤں سے سامنے آئے گی جسے حق الیقین سے تعبیر کیا گیا ہے.

قران حکیم کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیند اور موت میں ایک یقینی مشابہت موجود ہے. نیند اور موت جیسے دو بہنیں ہیں. قران کی سورہ الزمر میں درج ٤٢ آیت ملاحظہ ہو

خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں (نفوس) قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں (ان کی روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کرچکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں

جس طرح نیند میں ہمارا شعور جزوی اور عارضی طور پر معطل ہوجاتا ہے اور جس طرح ہمارا لاشعور ہمارے خیالات کو خواب کی صورت میں تصویری خاکہ بنا دیتا ہے بلکل ویسے ہی موت میں اس سے ملتے جلتے لیکن کہیں زیادہ گہرے نفسی و روحانی تجربات پیش آیئنگے. اس بارے میں بابائے نفسیات فرائیڈ کی تحقیقات بھی قابل غور ہیں ، وہ کہتا ہے کہ خواب میں آپ کے جذبات و خیالات تصویری پیغام بن جاتے ہیں. انکی تعبیر بھی ہر شخص کے انفرادی تصورات کے مطابق جدا جدا ہوتی ہے. ایک مثال سے اسے سمجھتے ہیں، اگر بلی میرا پسندیدہ جانور ہے اور آپ بلی سے خوف کھاتے ہیں تو میرے خواب میں بلی کا نظر آنا محبت کا اشارہ ہوسکتا ہے ، اسکے برعکس آپ کے خواب میں بلی کا نظر آنا خوف کی علامت ہوسکتا ہے. ہر خوابیدہ تصویر کی تعبیر کے پیچھے اس سے متعلق تصورات وابستہ ہوتے ہیں.

اب جب ہم اسی تحقیق کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جن میں احوال قبر بیان ہوئے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی نماز یا نیک اعمال اسکے سامنے ایک خوبصورت چہرے والے انسان کے روپ میں ظاہر ہونگے. اسی طرح ایک حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے پیچھے بھاگنے والے کے سامنے دنیا ایک بدصورت بڑھیا کی صورت میں نمودار ہوگی. اسی رعایت سے یہ بہت ممکن ہے کہ حسد اور کینہ سانپ بچھو بن کر عذاب کا بائث بن جاۓ. مگر یہ سب احوال روحانی سطح پر ہونگے. عذاب قبر سے متعلق موجود تمام احادیث غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں. اس کے لئے عالم برزخ کی اصطلاح رائج ہے. یعنی یہ ایک علیحدہ روحانی عالم ہے ، یہ لفظ برزخ دراصل 'پردہ ' کا متبادل ہے اور اُس حد فاصل کے لیے استعمال ہوا ہے ، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔یہ گویا ایک روکاٹ ہے جو اُنہیں واپس آنے نہیں دیتی ۔ " 'من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون " '( اُنکے آگے ایک پردہ ہے اُس دن تک کے لیے،جب وہ اُٹھائے جائیں گے) (المومنون٢٣: ١٠٠) ۔ اسے صرف قبر کے گڑھے تک محدود رکھنا شائد درست نہ ہو. ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کو قبر میسر ہی نہیں ہوتی ، بعض پانی میں ڈوب جاتے ہیں، بعض کو جنگلی درندے کھا جاتے ہیں، بعض کو جلادیا جاتا ہےاور وہ جنہیں قبر میسر آجائے ، انکے اجسام کو بھی ایک وقت بعد کیڑے کھا جاتے ہیں اور ان کیڑوں کو بھی دوسرے کیڑے کھا جاتے ہیں لہٰذا قبر میں جسمانی سطح پر جزا و ثواب کا نظریہ ایک مشکل نظریہ ہے. حد سے حد یہ کہا جاسکتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی روح کا کوئی نہ کوئی تعلق جسم کہ ذرات سے باقی رہتا ہے مگر جزا و ثواب کے احوال اسکی روح پر ہی وارد ہوتے ہیں. غور کریں تو یہی معاملہ ہمیں خواب میں بھی درپیش آتا ہے، مثال کے طور پر آپ خواب میں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کے پیچھے خنجر لئے دوڑ رہا ہے یا آپ کے پیچھے بھیانک کتے لگے ہوئے ہیں اور آپ ان سے بچنے کی خاطر سرپٹ دوڑ رہے ہیں، اچانک آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ .سارا جسم پسینہ میں شرابور ہے، سانس تیز تیز چل رہی ہے اور خوف سے دل بھی زور زور دھڑک رہا ہے . حالانکہ نہ تو حقیقت میں کوئی آپ کے پیچھے بھاگ رہا تھا اور نہ ہی آپ کسی سے بچ رہے تھے. اس سے تین اہم باتیں ثابت ہوتی ہیں پہلی یہ کہ اصل تکلیف یا فرحت روح محسوس کرتی ہے، دوسری یہ کہ روح پر گزرے احوال آپ کے جسم پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں اور تیسری یہ کہ خواب کے دوران آپ خواب ہی کو اصل حقیقت تسلیم کرتے ہیں. برزخ میں بھی جو فرحت و عذاب آپ کی اصل نفسانی شخصیت یعنی روح پر وارد ہونگے اس کا احساس  بلکل حقیقی محسوس ہوگا ، یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا جسم جو شائد ذرات کی صورت میں کہیں موجود ہو وہ بھی ایک نامعلوم تعلق کی بنیاد پر اس اثر کو محسوس کرے مگر وہ تعلق کتنا مظبوط ہے؟ ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا وہ وقتاً فوقتاً کمزور ہوتا جاتا ہے؟ ان سب باتوں سے قطع نظر حقیقی معاملہ دراصل روح ہی کو پیش ہوگا اور قبر کی شکل یا ان میں سوال و جواب بھی شائد تمثیلی روحانی سطح پر ہی ہونگے البتہ روح اپنے جسم سے انسیت کے باعث اس سے ایک غیبی تعلق برقرار رکھے گی

شائد اسی بنیاد پر احادیث میں یہ آتا ہے کہ منکر و نکیر فرشتوں کے سوالات کے بعد قبر میں جنت یا جہنم کی کھڑکی کھول دی جاۓ گی جس میں صاحب قبر اپنے ٹھکانے کا شب و روز مشاھدہ کرے گا. قبر کو خوب کشادہ کر دیا جاۓ گا یا نہایت تنگ. یہاں قبر سے مراد میرے نزدیک برزخی یعنی روحانی قبر ہے جسکا تعلق اس مادی قبر سے انس کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے. ہم اپنی سمجھ کی آسانی کیلئے اصحاب قبر کو تین گروہ میں کرکے دیکھ سکتے ہیں. پہلے وہ جو سرکش تھے، دوسرے وہ جو نیک و پارسا تھے اور تیسرے وہ جن کی زندگی گناہ و ثواب دونوں میں گڈمڈ گزری. 

قرآن سے یہ بات  واضع ہوتی ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ وہ سرکشی اور تکبر سے جھٹلانے والے اور اپنے پروردگار کے کھلے نافرمان تھے یا ہونگے ۔ اُن کے لیے ایک نوعیت کا عذاب بھی اِسی عالم برزخ میں شروع ہوجائے گا۔ اسی مشاہدے کی دلیل ہمیں قران پاک کی سورۂ مومن (غافر) میں ملتی ہے جہاں فرمایا :
وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَاب
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب

فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
( غافر:40 - آيت:45-46 )

یعنی صاف ظاہر ہے کہ آل فرعون پر قبر میں عذاب اسی صورت میں ہوتا ہے کہ انہیں انکا ٹھکانہ دکھایا جاتا رہتا ہے جسے دیکھ کر وہ خوفزدہ ہوتے ہیں اور روز آخر انہیں اس عذاب میں حقیقی طور پر داخل کردیا جاۓ گا

قرآن کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کا معاملہ اِس پہلو سے بالکل واضح ہوگا کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے لیے درجہ کمال میں وفاداری کا حق ادا کیا ہے اور کرنے والے ہیں ۔ اُن کے لیے ایک نوعیت کا ثواب اِسی عالم میں شروع ہوجائے گا ۔قرآن کے مطابق اِس کی مثال وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اپنے پروردگار کے حکم پر اُس کے دشمنوں سے جنگ کی اور پھر شہید ہوگئے۔قرآن کا ارشاد ہے کہ وہ زندہ ہیں،اور اپنے پروردگا کی عنایتوں سے بہرہ یاب ہورہے ہیں(آل عمران٣: ١٦٩-١٧١) ۔

ان دو انتہاؤں کے بیچ بیچ جو افراد ہونگے ، جن کے گناہ و ثواب دونوں بکثرت موجود ہوں ایسے افراد کے لئے جنت و جہنم دونوں امکانات کا مشاہدہ رکھا جاۓ گا اور انکا حتمی اعلان آخرت میں حساب و کتاب سے ہی واضح ہو پاۓ گا. ان پر ایک طرح کی نیند طاری رہے گی جس میں یہ خوابیدہ مشاہدہ مختلف شعوری سطح پر کرتے رہے گے. یہ زندگی چونکہ جسم کے بغیر ہوگی لہٰذا روح کے شعور،احساس اور مشاہدات وتجربات کی کیفیت اِس زندگی میں کم وبیش وہی ہوگی جو خواب کی حالت میں ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ قیامت کے صور سے یہ خواب ٹوٹ جائے گا، روح کو جسم سے پھر جوڑا جاۓ گا اور مجرمین اپنے آپ کو یکایک میدان حشر میں جسم و روح کے ساتھ زندہ پاکر کہیں گے: 'یویلنا من بعثنا من مرقدنا ۔ '(ہائے ہماری بد بختی ،یہ ہماری خواب گاہوں سے ہمیں کون اُٹھالایا ہے) (یس٣٦: ٥٢)۔

یہ وہ مختصر روداد ہے جو احوال قبر کے بارے میں مرے نقطہ نظر کو بیان کرتی ہے. میری پھر استدعا ہے کہ اسے محض ایک علمی کاوش سمجھا جاۓ اور کوئی بھی نتیجہ انفرادی تحقیق کے بعد قائم کیا جاۓ. الله رب العزت ہم سب کو اپنے دین کی ٹھیک سمجھ اور اچھا عمل عطا کرے. آمین.

واللہ و عالم بلصواب

====عظیم نامہ====



Saturday, 16 February 2013

لونڈیوں کو خریدتے ہوئے جسمانی جانچ

لونڈیوں کو خریدتے ہوئے جسمانی جانچ پرکھ کا سوال
(تحریر کافی طویل ہو گئی، لیکن ناگزیر تھا)
لونڈیوں کی بحث سے متعلق یوں تو بہت سے فکری، فقہی اور سماجی پہلو قابل غور ہیں اور مختلف پہلووں پر وقتاً فوقتاً بات بھی ہوتی رہے گی، لیکن پیش کردہ بعض تفصیلات سے چونکہ کافی لوگوں کا ’’ایمان‘‘ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے، اس لیے باقی پہلووں کو موخر کرتے ہوئے سردست اس ایک پہلو پر معروضات پیش کی جا رہی ہیں جو ’’ایمان‘‘ کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے، یعنی لونڈیوں کو خریدتے ہوئے ان کی Physical Inspection کا پہلو۔ ظاہر ہے، جدید ذہن کے زاویہ نظر سے اس میں لونڈی کی تذلیل اور اس کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا پہلو نمایاں ہے اور یہ باور کرنا مشکل محسوس ہو رہا ہے کہ اسلام، جو عورت کو شرف وعزت بخشنے کا دعویدار ہے، کیونکر اس چیز کو روا رکھ سکتا ہے۔
میرے نزدیک اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے humanistic idealism کے بجائے سماجی پیچیدگیوں اور قانون کی محدودیتوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے اور یہ زاویہ اس بحث میں کوئی نیا زاویہ نہیں ہوگا، بلکہ آج ہم جس زاویہ نظر سے قدیم معاشروں میں غلامی کے پورے ادارے کا جواز تسلیم کرتے ہیں، اس میں یہ زاویہ پہلے سے موجود اور مسلم ہے۔ اگر جدید تصور کے مطابق شرف انسانی کے معیارات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو غلامی کا تصور ہی غیر اخلاقی اور ناقابل قبول ہے، لیکن ہم اس دور کی سماجی ضرورتوں اور مجبوریوں کے تناظر میں اس کے جواز کو قبول کرتے ہیں۔ یہاں پیش نظر رکھنے کا نکتہ یہ ہے کہ جب آپ کسی مخصوص سماجی تناظر میں کسی چیز کا قانونی اور اخلاقی جواز تسلیم کر لیتے ہیں تو اس کے ساتھ وابستہ تمام تر مضمرات اور عملی نتائج کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ نفس تصور پر تو سمجھوتہ کر لیں، لیکن اس کے بعد اس سے جڑے ہوئے مضمرات ولوازم کو قبول نہ کریں۔ آپ کو قبول نہیں کرنا تو پہلے ہی مرحلے پر نفس تصور کو غیر اخلاقی قرار دے کر رَد کر دیں، لیکن نفس تصور کا قانونی جواز کسی بھی درجے میں قبول کرنے کے بعد اس کے لوازم کی نفی کرنا غیر منطقی بھی ہوگا اور عملاً اس جواز کی نفی کے بھی مترادف ہوگا جسے اصولاً قبول کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر ہم نے یہ قبول کر لیا کہ ایک انسان کا کسی بھی سماجی ضرورت کے تحت کسی دوسرے انسان کی ملکیت قرار پانا قانونی طور پر جائز ہے۔ یہ مانتے ہی کچھ قانونی اور عملی نتیجے خود بخود مرتب ہونا شروع ہو جائیں گے اور ہمیں وہ نتیجے جتنے بھی ناپسند ہوں، انھیں قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایسا شخص اپنے بہت سے ایسے معاشرتی حقوق کھو دے گا اور ان بہت سی آزادیوں سے محروم ہو جائے گا جو معاشرے کے آزاد افراد کو حاصل ہیں۔ اس کی حیثیت معاشرے کے ایک دوسرے درجے کے فرد کی ہوگی جو کسی بھی لحاظ سے اپنے مالک اور اس کے ہم مرتبہ افراد کی برابری کا خواب نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اپنی ذات پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ اس کا مالک اسے جب چاہے اور جس کے ہاتھ چاہے، بیچ سکتا ہے۔ وہ اپنے مالک کی رضامندی کے بغیر شادی بیاہ تو درکنار، کہیں سیر وتفریح کے لیے بھی نہیں جا سکتا۔ اس کی کوئی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ اسے دیا جائے گا یا وہ اپنی محنت سے کمائے گا، وہ اس کے مالک کی ملکیت ہوگا۔ اب یہ تمام چیزیں جتنی بھی ناخوش کن اور انسانی شرف ووقار کے منافی لگیں، ان کی نفی نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ یہ ’’ملکیت‘‘ کے تصور کے ساتھ لازم وملزوم ہیں۔ اگر ملکیت ہے تو یہ سب چیزیں بھی ہیں۔ اگر یہ لوازم قابل قبول نہیں تو اس کے لیے نفس ملکیت کی نفی اور عدم جواز مانے بغیر کوئی دوسرا راستہ موجو دنہیں۔
یہی معاملہ باندی کا ہے۔ اگر آپ نے ایک دفعہ اس کے ’’مملوک‘‘ ہونے کے تصور کو قبول کر لیا ہے تو آپ مجبور ہیں کہ اس ملکیت پر مرتب ہونے والے تمام قانونی نتائج کو قبول کریں۔ ملکیت کو مان لینے کے بعد اس کے لوازم ونتائج سے اس بنیاد پر چھٹکارا نہیں مل سکتا کہ وہ شرف انسانی کے تصور کو گراں گزارتے ہیں۔ مثلاً ملکیت کے بعد، مالک کا یہ حق ماننا ناگزیر ہے کہ وہ اس سے جسمانی استمتاع کرے۔ اگر آپ کو یہ برا لگتاہے تو آپ پہلے ملکیت کے تصور کی نفی کریں۔ ملکیت کے تصور کو مان کر حق استمتاع کو نہ ماننا (جیسا کہ ہمارے دور کے بعض مفکرین نے یہ تصوراتی اعجوبہ پیش کیا ہے) ایک داخلی تضاد کی حامل بات ہے۔ اسی پر باقی لوازم کو بھی قیاس کر لیں۔ مالک کو باندی سے حق استمتاع بر بنائے ملکیت حاصل ہے تو مقاربت سے بچے کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ بھی مالک کرے گا۔ باندی یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ بچہ پیدا کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ اسی طرح اگر ایک مالک کی ملکیت میں باندی کا نکاح کسی شخص سے کر دیا گیا تو اس نکاح کا برقرار رہنا بھی سر تا سر مالک کے اختیار پر منحصر ہے۔ وہ آج باندی کو کسی دوسرے شخص کے ہاتھ بیچنے کا فیصلہ کر لے تو نئے مالک کی ملکیت میں جاتے ہی اس کا نکاح شوہر سے فسخ ہو جائے گا، چاہے باندی اپنے شوہر کے ساتھ کتنی ہی خوش کیوں نہ ہو، کیونکہ نئے مالک نے بھی اسے استمتاع ہی کی غرض سے خریدا ہے اور اس کا حق باندی اور اس کے شوہر، دونوں سے مقدم ہے۔ یہ اور اس نوعیت کے دیگر بہت سے امور، جیسا کہ عرض کیا گیا، ملکیت کے تصور کے لازمی اور منطقی نتائج ہیں جن سے کوئی راہ فرار اختیار نہیں کی جا سکتی۔
اب آتے ہیں اصل سوال، یعنی باندی کو خریدتے ہوئے اس کی جسمانی جانچ پرکھ کی طرف۔ غور فرمائیے، اگر باندی کا ’’مملوک‘‘ ہونا درست ہے اور مالک کا اس سے جسمانی استمتاع کرنا ملکیت کا لازمی تقاضا اور گویا باندی کو خریدنے کا ایک بنیادی مقصد ہے تو بتائیے، کس اصول کے تحت خریدار کو منع کیا جا سکتا ہے کہ وہ خریدنے سے پہلے باندی کے ان جسمانی پہلووں کی تحقیق نہ کرے جو کہ اس کی غرض سے براہ راست متعلق ہیں؟ اگر یہ باندیوں کی عزت نفس کے منافی ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں تو کیا آج ایک، کل دوسر ے اور پرسوں تیسرے مالک کے ہاتھوں میں گردش کرنا اور باری باری ان سب کے تلذذ کا سامان بنتے رہنا عزت نفس اور شرف انسانی کے مطابق ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں، لیکن ہم نتائج کو قبول کرتے ہیں، اس لیے کہ حق ملکیت کو ماننا دراصل ان تمام ناگوار اور ناخوش کن نتائج کو بھی ماننا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس حد تک نکاح کے لیے عورت کا انتخاب کرتے ہوئے اس کا ظاہری جائزہ لیا جاتا ہے، اسی حد تک باندیوں کا بھی جائز ہونا چاہیے، اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن یہاں ہم بھول رہے ہیں کہ معاشرتی مقام اور احترام کے پہلو سے ہم آزاد عورت اور باندی کا فرق پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں۔ عورت کا انتخاب اس کی آزادانہ مرضی سے ایک معاہدے کے تحت ہوتا ہے، جبکہ باندی کی خریداری اس کی مرضی کے بغیر ایک ’’سامان‘‘ کے طور پر کی جاتی تھی۔
یہاں بات کی تفہیم کے لیے ایک نامناسب مثال دینا بھی شاید مناسب ہوگا۔ جدید مغربی معاشروں میں عورت کا یہ قانونی حق تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ جسم فروشی کرے۔ شرف انسانی کے لحاظ سے اس کا جو بھی درجہ متعین کیا جائے، اپنے اسباب کے تحت مغربی قانون اس کو ایک جائز قانونی حق قرار دیتا ہے۔ اب فرض کیجیے، کسی شخص کو جنسی تلذذ کے لیے کسی عورت کے ساتھ معاملہ کرنا ہے تو کیا عرف وقانون کی رو سے ’’خریدار‘‘ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ معاملے کی ضروریات کے لحاظ سے عورت کے جسمانی خصائص کا جائزہ لے؟ اس کے لیے مغربی قوانین میں عملاً کیا ضابطہ ہائے اخلاق وضع کیے گئے ہیں، مجھے نہیں معلوم (شاید انعام رانا اس پر روشنی ڈال سکیں)، لیکن خریدار کو اس حق کا حاصل ہونا کامن سینس کی بات ہے۔ باندی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ جسم فروشی کرنے والی عورت، مرد کو جنسی عمل کا اختیار بھی اپنی مرضی سے دیتی ہے اور اس سے پہلے جسمانی جائزہ لینے کا بھی، جبکہ باندی، مالک کا بستر گرم کرنے کے لیے بھی مجبور ہے اور ملکیت میں آنے سے پہلے خود کو جسمانی جائزہ کے لیے پیش کرنے پر بھی مجبور ہے۔
تاریخ کی کیسی ستم ظریفی ہے کہ باندی اپنی ’’مجبوریوں‘‘ پر مجبور ہے اور معاشرتی قانون (چاہے وہ اسلام کا ہو یا کسی اور مذہب کا) اس کی ان ’’مجبوریوں‘‘ کو قانونی جواز دینے پر مجبور۔
ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم واحکم

Thursday, 24 January 2013

کتے کی جبلت کیا ہے



’’کتے کی جبلت کیا ہے؟
حرص و آز، چلتے پھرتے اس کی ناک زمین سونگھنے ہی میں لگی رہتی ہے کہ شاید کہیں سے بوئے طعام آجائے۔ اسے پتھرماریں تب بھی اس کی توقع دور نہیں ہوتی کہ شاید یہ چیز جو پھینکی گئی ہے کوئی ہڈی یا روٹی کا ٹکڑا ہو۔
پیٹ کا بندہ تو ایک دفعہ لپک کر اس کو بھی دانتوں سے پکڑ ہی لیتا ہے۔ اس سے بے اتفاقی کیجئے تب بھی وہ لالچ کا مارا ، توقعات کی ایک دنیا دل میں لئے ، زبان نکالے ہانپتا کانپتا کھڑا ہی رہے گا۔
ساری دنیا کو وہ بس پیٹ ہی کی نگاہ سے دیکھتا ہے، کہیں کوئی بڑی سی لاش پڑی ہو، جو کئی کتوں کے کھانے کو کافی ہو، تو ایک کتا اس میں سے صرف اپنا حصہ لینے پر اکتفا نہ کرے گا بلکہ اسے صرف اپنے ہی لیے مخصوص رکھنا چاہے گا اور کسی دوسرے کتے کو اس کے پاس نہ بھٹکنے دے گا۔
اس شہوت شکم کے بعد اگر اس پر کوئی چیز غالب ہے تو وہ ہے شہوت فرج۔ اپنے سارے جسم میں صرف شرمگاہ ہی وہ چیز ہے جس سے وہ دلچسپی رکھتا ہے اور اس کو سونگھنے اور چاٹنے میں مشغول رہتا ہے۔
پس تشبیہ کا مدعا یہ ہے کہ دنیاپرست آدمی جب علم اور ایمان کی رسی توڑ کر بھاگتا ہے اور نفس کی اندھی خواہشات کے ہاتھ میںے اپنی باگیں دے دیتا ہے تو پھر کتے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہتا، ہمہ تن پیٹ اورہمہ تن شرمگاہ۔''
مولانا مودودی علیہ الرحمہ
(تفہیم القرآن صفحات: 101-102، جلد دوم)

Wednesday, 23 January 2013

نکاح مسیار

نکاح مسیار
----------
نکاح مسیار کے بارے وضاحت رہے کہ اس نکاح میں نکاح کے چاروں ارکان اورشرائط پوری ہوتی ہیں۔۱- نکاح مسیار میں لڑکی کے ولی کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ اس کے جواز کا فتوی دینے والے کہتے ہیں۔ ۲۔ دوسرا گواہان موجود ہوتے ہیں اور اس نکاح کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے۔ ۳۔ تیسرا نکاح میں لڑکی کے لیے با قاعدہ حق مہر موجود ہوتا ہے۔۴۔ اور چوتھی چیز یہ کہ ایجاب وقبول بھی ہوتا ہے اور یہ موقت نہیں ہوتا یعنی ہمیشہ کے لیے نکاح ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پھر نکاح مسیار اور عام نکاح میں کیا فرق ہے کہ اس بارے اتنا اختلاف ہو گیا۔ فرق یہ ہے کہ عام نکاح میں مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رہائش، خرچہ اور وقت دے جبکہ نکاح مسیار میں مرد شادی کے وقت یہ شرط لگاتا ہے کہ وہ بیوی کو رہائش نہیں دے گا، یا خرچہ نہیں دے گا، یا وقت نہیں دے گا، یا ان میں سے دو یا تین چیزوں کی ہی شرط لگا لے کہ وہ یہ نہ دے گا۔
علماء کے مابین اس پر تو اتفاق ہے کہ رہائش، خرچہ اور وقت عورت کے شرعی حقوق ہیں لیکن اس میں اختلاف ہو گیا کہ کیا عورت اپنے ان حقوق کو معاف کر سکتی ہے؟ یعنی مرد اگر عورت سے شادی کے موقع پر یہ کہے کہ میں ان حقوق کو ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا لہذا تم مجھے یہ حقوق معاف کر دو اور شادی کے موقع پر اس کا معاہدہ ہو جائے تو کیا اس طرح سے یہ حقوق معاف ہو جاتے ہیں یا پھر بھی باقی رہتے ہیں؟
نکاح مسیار کے بارے علماء اہل سنت کی تین رائے ہیں۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے لیکن ہو جاتا ہے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہی نہیں ہے۔ اس کی ایک صورت ہمارے معاشروں میں گھر جوائی کی بھی ہو سکتی ہے۔ یا شادی کے بعد لڑکی کا خرچہ اس کے والدین اٹھائیں، یا لڑکی کو گھر اس کے والدین بنا کر دیں وغیرہ۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ عملا ہمارے معاشروں میں ہو رہا ہے، اور ایک یہ ہے کہ کیا نکاح کے موقع پر مرد کی طرف سے اس کی شرط لگائی جا سکتی ہے؟
جن علماء نے اس کی اجازت دی ہے، ان میں سابق مفتی سعودی عرب شیخ بن باز، شیخ عبد العزیز آل الشیخ اور سابق مفتی مصر شیخ نصر فرید واصل وغیرہ ہیں۔ ان کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرائط کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے کہ جو نکاح کے موقع پر لگائی جائیں۔ اور یہ بھی کہ حضرت سودۃ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں چھوڑ دی تھی وغیرہ۔
جو علماء نکاح مسیار کو مکروہ کہتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ہو جاتا ہے تو ان میں ڈاکٹر وہبہ الزحیلی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور شیخ عبد اللہ بن منیع وغیرہ شامل ہیں۔ ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ اس نکاح میں شادی کی جو مصالح ہیں، وہ پوری نہیں ہوتیں لہذا مکروہ ہے اور حرام اس لیے نہیں کہتے ہیں کہ اس میں کچھ ایسا مفقود نہیں ہے جو نکاح کے ارکان اور شروط میں شامل ہو۔
اور جن علماء نے نکاح مسیار کو ناجائز کہا ہے تو ان میں علامہ البانی، ڈاکٹر علی قرۃ داغی اور ڈاکٹر سلیمان الاشقر وغیرہ شامل ہیں کہ ان کے نزدیک یہ وہ نکاح نہیں ہے کہ جسے اسلام نے متعارف کروایا یا رواج دیا ہے۔
نکاح متعہ اور نکاح مسیار میں فرق یہ ہے کہ متعہ ایک وقتی نکاح ہے جبکہ نکاح مسیار دائمی نکاح ہوتا ہے۔ نکاح متعہ میں وراثت جاری نہیں ہوتی جبکہ نکاح مسیار میں وارثت جاری ہوتی ہے۔ متعہ میں طلاق نہیں ہوتی کہ وقت ختم ہوتے ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے جبکہ نکاح مسیار میں طلاق ہوتی ہے۔ نکاح متعہ میں تعداد مقرر نہیں ہے یعنی ستر سے بھی ہو سکتا ہے جبکہ نکاح مسیار چار سے زائد سے نہیں ہو سکتا۔ متعہ میں لڑکی کے ولی اور گواہان کا ہونا ضروری نہیں ہے جبکہ نکاح مسیار میں ولی اور گواہاں کا ہونا ضروری ہے۔
نوٹ: بہر حال یہ علماء کا اختلاف ہے جو ہم نے اس بارے نقل کر دیا ہے، البتہ نکاح مسیار کو کسی طور بھی پسندیدہ امر نہیں کہا جا سکتا کہ رہائش، خرچہ اور وقت عورت کے حقوق ہیں کہ جنہیں مرد کو ادا کرنا ہی چاہیے، چاہے عورت انہیں چھوڑنے پر راضی ہی کیوں نہ ہو۔ واللہ اعلم۔