داڑھی رکھنے سے متعلق اہل علم میں مختلف آراء رہی ہیں
۔
کچھ کے نزدیک داڑھی رکھنا فرض یا واجب ہے
۔
کچھ کے نزدیک سنت موکدہ ہے
۔
کچھ کے نزدیک تمام انبیاء کی سنت ہے
۔
کچھ کے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و محبت کا اظہار ہے، لہذا مستحب ہے
۔
کچھ کے نزدیک یہ فقط قبائلی معاشرے کی روایت ہے
۔
ہر ایک گروہ قران، حدیث، تاریخ اور عقل سے اپنا استدلال پیش کرتا نظر آتا ہے۔ رائے جو بھی آپ کو قرین قیاس لگے، اس حقیقت کو جھٹلانا ناممکن ہے کہ تمام معلوم انبیاء، کم و بیش تمام صحابہ اکرام رض کے چہرے داڑھیوں سے مزین تھے۔ اس میں شک نہیں کہ دشمنان اسلام کی بھی ایک بڑی تعداد روایتی طور داڑھی رکھتی تھی مگر ان میں ایسی مثالیں بھی مل جاتی ہیں، جہاں فرد یا مخصوص علاقائی گروہ نے داڑھی مونڈھ رکھی تھی۔ پھر آج اگر کوئی داڑھی رکھتا ہے تو وہ ظاہر ہے نسبت رسول کو یاد کرکے رکھتا ہے۔ ابوجہل یا دیگر کی سنت اس کے پیش نظر نہیں ہوتی۔ گویا کم سے کم یہ اجر تو پکا ہے کہ امتی نے اپنے محبوب آقا کی ظاہری پیروی کی کوشش کی۔ مانا کہ باطنی یا اخلاقی پیروی اہم تر ہے مگر اسے بنیاد بناکر ظاہری پیروی کو معمولی گرداننا ہماری احقر سمجھ میں کوئی مناسب بات نہیں۔
۔
داڑھی کی مقدار کتنی ہو؟ یہ دوسرا سوال ہے۔ اس کا ایک سادہ جواب تو یہ ہے کہ مشت بھر ہو ، کیونکہ یہی سنت سے ثابت ہے. مگر سوال یہ ہے کہ کم از کم کا معیار کیا ہو؟ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ مونچھیں پست کرو اور داڑھی چھوڑ دو۔ مونچھوں کی پستی سے کچھ نے پوری مونچھوں کو کتر ڈالا اور کچھ نے مونڈھ کر بالکل ہی چکنا کردیا۔ مگر کیا مونچھوں کی پستی سے واقعی یہی دونوں صورتیں مراد ہیں؟ ہماری سمجھ کے مطابق ضروری نہیں۔ بلکہ ہونٹ سے اوپر کا حصہ بس اس قدر کترا ہو کہ پانی پیتے یا کھانا کھاتے صفائی کا اہتمام ہوسکے۔ اطراف میں مونچھیں جتنی بڑی ہوں، اجازت ہے۔ حضرت عمر رض کی مونچھیں صرف اوپر کی جانب سے پست تھیں، باقی اطراف میں خوب لمبی اور گھنی تھیں، جنہیں حالت جلال میں آپ تائو بھی دیتے تھے۔ ایسی ہی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔ حدیث کا دوسرا حصہ کہتا ہے کہ داڑھی کو چھوڑ دو یعنی بڑھنے دو۔ اس سے مراد ایک گروہ نے یہ لی کہ اپنی داڑھی کاٹنا ہی ترک کردیا اور یوں طویل داڑھی اگا لی۔ اس داڑھی کو رکھ کر نفیس لگنا اور گنجلک ہونے سے بچانا خاصہ کٹھن ہے۔ دوسرے گروہ نے حج کے موقع پر صحابی رض کے اس عمل کو دلیل بنایا جس کے مطابق انہوں نے داڑھی کو پوری مٹھی میں تھام کر بقیہ باہر داڑھی کے بالوں کو کتر ڈالا۔ ان کا نتیجہ یہ ہے کہ داڑھی چھوڑنے سے مراد اسے مشت بھر چھوڑنا ہے اور باقی پاکیزگی کیلئے کتر ڈالنا ہے۔ تیسرے گروہ نے کہا کہ اس سے فقط اتنا ثابت ہوتا ہے کہ مشت سے زیادہ داڑھی نہیں رکھنی چاہیئے۔ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے کم نہیں رکھی جاسکتی۔ گویا داڑھی چھوڑنے سے مراد یہ ہے کہ اتنے بال اگا لیئے جائیں، جنہیں دیکھ کر داڑھی کہا جاسکے۔ پھر بھلے وہ مشت بھر ہوں یا اس سے کم۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ برصغیر پاک و ہند سے باہر نکلتے ہیں تو آپ کو بڑے بڑے امام چھوٹی چھوٹی داڑھیاں سجائے نظر آتے ہیں۔
۔
اب تک دو باتیں ہم نے زکر کی۔ پہلی یہ کہ داڑھی رکھنے پر کیا معروف آراء ہیں؟ اور دوسری یہ کہ داڑھی کی مقدار کتنی ہو؟، اس پر کیا اختلاف موجود ہے؟ اب ایک تیسری بات یہ کہ داڑھی آخر ہوتی کیا ہے ؟ ایک گروہ کے مطابق داڑھی ان بالوں کا نام ہے جو ٹھوڑی اور جبڑے پر اگائے جاتے ہیں۔ دوسرے گروہ کے مطابق یہ ان بالوں کا نام ہے جو ٹھوڑی پر نکلتے ہیں۔ گویا جبڑے پر نکلے بال ان احباب کے نزدیک داڑھی کی شرط نہیں۔ لہذا یہ فرینچ گوٹی کو بھی داڑھی مانتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ دوسری رائے بہت کمزور اور ناقابل قبول ہے۔ گویا آپ اگر ہماری رائے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو "کم از کم" کے اعتبار سے اب تک کی گفتگو کا خلاصہ ہماری دانست میں کچھ یوں ہے کہ داڑھی رکھنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، امتی کا رکھنا نسبت کا اظہار ہے لہذا کم سے کم مستحب کے درجے میں ہے (گو اس سے زیادہ کا بھی امکان ہے)۔ داڑھی مشت بھر رکھنا کم از کم افضل ہے۔ داڑھی کی مقدار کم از کم ٹھوڑی اور جبڑے پر اتنے بالوں کا ہونا ہے، جنہیں دیکھنے والا داڑھی ہی سمجھے (چند دن کا بڑھا شیو اور داڑھی میں ہر کوئی باآسانی فرق کرلیتا ہے)
۔
====عظیم نامہ====
۔
(نوٹ: میں اسوقت جہاز میں بیٹھا یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ استنبول روانگی ہے، خیالات ذہن میں آئے تو لکھ ڈالے۔ سفر کے سبب کمنٹس میں جوابات دینا شائد ممکن نا ہوسکے۔ پیشگی معذرت)