مکہ کا ذکر سابقہ صحائف میں کیوں نہیں ملتا
سوال:
کعبہ یا مکہ کا ذکر سابقہ صحائف میں کیوں نہیں ملتا؟ عیسائی اور یہود کے یہاں اسے مقدس مقام کا درجہ کیوں نہیں دیا جاتا؟
.
جواب:
.
سب سے پہلے تو یہ جان لیجیئے کہ مکہ کا پرانا نام بکہ تھا. ٹھیک ویسے ہی جیسے مدینہ کا پرانا نام یثرب یا کراچی کا پرانا نام کولاچی ہوا کرتا تھا. گویا مکہ اور بکہ درحقیقت ایک ہی مقام کے دو نام ہیں. یہی وجہ ہے کہ دونوں نام پڑھنے سننے میں بھی ایک جیسے محسوس ہوتے ہیں. جب یہ بات سمجھ آگئی تو جان لیں کہ بائبل میں بکہ کا واشگاف الفاظ میں ذکر موجود ہے. غور سے "پی سالم (زبور ٨٤) کے ایک ایک لفظ کو دھیان سے پڑھیں:
.
"اے رب الافواج، اے میرے بادشاہ اور خدا، تیری قربان گاہوں کے پاس پرندے کو بھی گھر مل گیا، ابابیل کو بھی اپنے بچوں کو پالنے کا گھونسلا مل گیا ہے۔
.
مبارک ہیں وہ جو تیرے گھر میں بستے ہیں، وہ ہمیشہ ہی تیری ستائش کریں گے۔ (سِلاہ) مبارک ہیں وہ جو تجھ میں اپنی طاقت پاتے، جو دل سے تیری راہوں میں چلتے ہیں۔
.
وہ بکا کی خشک وادی میں سے گزرتے ہوئے اُسے شاداب جگہ بنا لیتے ہیں، اور بارشیں اُسے برکتوں سے ڈھانپ دیتی ہیں۔
.
وہ قدم بہ قدم تقویت پاتے ہوئے آگے بڑھتے، سب کوہِ صیون پر اللہ کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں۔
.
اے رب، اے لشکروں کے خدا، میری دعا سن! اے یعقوب کے خدا، دھیان دے! (سِلاہ)
اے اللہ، ہماری ڈھال پر کرم کی نگاہ ڈال۔ اپنے مسح کئے ہوئے خادم کے چہرے پر نظر کر۔
تیری بارگاہوں میں ایک دن کسی اَور جگہ پر ہزار دنوں سے بہتر ہے۔ مجھے اپنے خدا کے گھر کے دروازے پر حاضر رہنا بےدینوں کے گھروں میں بسنے سے کہیں زیادہ پسند ہے۔
.
کیونکہ رب خدا آفتاب اور ڈھال ہے، وہی ہمیں فضل اور عزت سے نوازتا ہے۔ جو دیانت داری سے چلیں اُنہیں وہ کسی بھی اچھی چیز سے محروم نہیں رکھتا۔
.
اے رب الافواج، مبارک ہے وہ جو تجھ پر بھروسا رکھتا ہے!"
.
احباب دل پر ہاتھ رکھ کر اور عقیدت سے بالاتر ہو کر بتایئے کہ کیا آپ کو مندرجہ بالا آیات پڑھ کر یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہاں تفصیل شہر مکہ کی بیان ہورہی ہے؟ اور اسے بکا یا بکہ پکارا جا رہا ہے؟ وہی پرندوں (ابابیل) کا ذکر، فوجوں کی بات، وہی مکہ کی خشک وادی کی شادابی کا ذکر، وہی وہاں خدا کے گھر کی بات، وہی مسح کیئے خادم یعنی باوضو کا ذکر وہی اس مقام پر حاضری کو ہزار دن سے بہتری کی بات. کم از کم ایک مسلم ذہن کو اس کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہتا.
.
مگر ہم نے یہ کہاں سے اخذ کرلیا کہ قران کے مطابق مکہ ہی بکہ تھا ؟ تو اس کا واضح جواب ہمیں قران حکیم خود اپنی سورہ آل عمران کی ٩٦ آیت میں کچھ یوں دے دیا ہے کہ
.
"اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو "بکہ" (مکہ) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت واﻻ ہے"
.
گویا مکہ کے بیان کیلئے قران مجید نے خود بکہ لفظ کو من و عن استعمال کرکے اس پر مہر صادق کردی. یہاں دھیان رہے کہ اس وقت کے یہود و عیسائی مخاطبین کیلئے سنہرا موقع تھا کہ اگر وہ اس قرانی دعوے کو جھوٹ سمجھتے تو آگے بڑھ کر اعتراض کرتے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوا. حالانکہ بہت سے مختلف اعتراضات اور الزامات جو اہل کتاب نزول وحی کے دوران اٹھاتے رہے وہ ہمارے پاس موجود ہیں. اس معاملے میں ان کا اعتراض یا رد پیش نا کرنا دراصل اسے تسلیم کرنے کے مترادف ہے .یہ بھی دیکھیئے کہ اس علاقے کی قدیم زبانوں میں ''بکّ'' شہر یا بستی کو کہتے تھے جیسے بعلبکّ یعنی بعل دیوتا کی بستی۔ ماہرین لسانیات کے بقول بعض لہجوں میں یہ لفظ''بغ'' بن گیا ہے، جیسے بغداد۔ اسی سے فارسی میں لفظ باغ وجود پذیر ہوا ہے۔ قرآن نے مکہ کو 'بکہ' اور 'ام القری' پکار کر اسی حقیقت کی یاددہانی کرائی ہے۔
.
بائبل کی "جینیسس (پیدائش)" میں درج چند اور آیات ملاحظہ کریں جس میں بی بی ہاجرہ کا اپنے بیٹے کے ساتھ قصہ بیان ہوا ہے اور اس کنوئیں کا ذکر ہوا جسے ہم مسلمان آج "زم زم کا کنواں" کہتے ہیں.
.
" اور جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو اُس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے نِیچے ڈالدیا ۔ اور آپ اُسکے مقابل ایک تیِر کے ٹپّے پر دُور جا بِیٹھی اور کہنے لگی کہ مَیں اِس لڑکے کا مرنا تو نہ دیکھوں ۔ سو وہ اُسکے مُقابل بَیٹھ گئی اور چلاّ چِلاّ کر رونے لگی۔ اور خُدا نے اُس لڑکے کی آواز سُنی اور خُدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجؔرہ کو پُکارا اور اُس سے کہا اَے ہاجرؔہ تجھ کو کیا ہُوا؟ مت ڈر کیونکہ خُدا نے اُس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اُسکی آواز سُن لی ہے اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیونکہ مَیں اُسکو ایک بڑی قوم بناؤنگا۔ پِھر خُدانے اُسکی آنکھیں کھو لیں اور اُس نے پانی کا ایک کُوآں دیکھا اور جا کر مشک کو پانی سے بھر لِیا اور لڑکے کو پِلایا۔"
.
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کعبہ یا مکہ کا سفر کئی سابقہ رسولوں نے تو کیا ہے مگر بحیثیت امت یہاں کا سفر (حج) صرف امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے. تحریر طوالت اختیار کرتی جارہی ہے. گو اس پر کافی کچھ لکھنا ممکن ہے. ہم یہ سمجھتے ہیں کہ درج بالا تفصیل پڑھنے کے بعد قارئین کی اکثریت کو یہ اطمینان حاصل ہوگیا ہوگا کہ وادی مکہ، آب زم زم، کعبہ کے حج وغیرہ کے بارے میں واضح اشارے بائبل میں آج بھی موجود ہیں. گو ظاہر ہے کہ اہل کتاب آج مکہ کو بکہ ماننے سے انکاری ہیں اور ان کے مختلف محققین مختلف مقامات کو بکا سے تعبیر کرتے ہیں. گو ان کا آپس میں کسی ایک مقام پر اتفاق نہیں ہے. اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر سب کا اتفاق نہیں ہے تو پھر اہل کتاب میں کچھ محقق ایسے کیوں نہ پیدا ہوئے جن کی غیر جانبدار تحقیق اس خاص موضوع پر انہیں قرانی بیان کے قریب لے آتی؟ یعنی وہ مکہ ہی کو بکہ تسلیم کرتے؟ اس کا جواب ہے کہ بالکل ایسے غیرمسلم محققین موجود ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ موجودہ مکہ دراصل پرانا بکہ ہے.
.
ایک نمائندہ مثال یہودی محقق "اوی لپکن" ہیں جن کی کتاب "مکہ کو لوٹ چلو" (ریٹرن ٹو مکہ) کے نام سے شائع ہوچکی ہے. سرورق پر انہوں نے کعبہ کی بناء غلاف والی تصویر لگا رکھی ہے. ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون سے نجات حاصل کی تو بنی اسرائیل کو ایک خاص سیاہ چوکور کعبہ کی شکل کا نشان تعویز کی صورت پیشانیوں پر پہنایا جو دراصل اس بات کی علامت تھا کہ ہم پیرامڈ ٹرائی اینگل سسٹم چھوڑ کر آزادی کے کیووب سسٹم میں داخل ہو رہے ہیں. آج تک ہم یہودی اسے مخصوص مقامات و اوقات میں پہنا کرتے ہیں (تصاویر انٹرنیٹ پر موجود ہیں). وہ اسی مخصوص شکل کے تعویز کا ذکر حضرت عیسیٰ الیہ السلام سے بھی بائبل کی آیت سے ثابت کرتے ہیں. ان کے بقول موسیٰ. ہارون، شعیب علیہ السلام اجمعین سب کعبہ کے پاس موجود تھے جو آج مکہ کہلاتا ہے. جیسا کہ بائبل میں اس مقام کو صحرائی بتایا گیا ہے تو اس سے مراد مکہ ہے. ان کے بقول جب موسیٰ علیہ السلام کو قتل کے الزام میں مصر سے جانا پڑا تو انہیں خوب معلوم تھا کہ وہ مکہ کے علاقے جا رہے ہیں جہاں وہ شعیب علیہ السلام کے ساتھ سالوں رہے. ان کے بقول اس دعوے کے ثبوت میں وہ بہت سے آثار قدیمہ پیش کرنے پر قادر ہیں.
.
وہ بائبل سے بیان کرتے ہیں کہ کیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا کہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے دیا جائے تاکہ وہ صحرا میں جا کر گول چکر کاٹیں. اسی کو بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ "حج" جس میں طواف کیا جاتا ہے اس کا مصری تلفظ "حگ" ہے اور بائبل کی اصل زبان عبرانی میں "حگ" کا ایک مطلب یہی طواف یعنی گول گھومنا ہے. یہ بھی ایک قابل غور بات ہے کہ کعبہ کی شکل کا وہ تعویز جو یہودی اپنی پیشانی یا بازو پر امام ضامن کیطرح باندھتے ہیں، اس میں وہ اہتمام کرتے ہیں کہ اسے طواف کعبہ ہی کے جیسے ٹھیک سات مرتبہ گھما کر باندھا جائے. ساتھ ہی مصنف یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ وہاں قربانی بھی دی جاتی ہے.
.
یہ سب پڑھ کر ممکن ہے کہ کوئی قاری اس یہودی مصنف کے بارے میں یہ گمان کرے کہ یہ یا تو مسلمانوں کے ہاتھ بکا ہوا ہے یا ان کا کوئی ہمدرد ہے. قطعی نہیں ! بلکہ "اوی لپکن" ایک کٹر اسلام دشمن ہے جو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے. وہ صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ میرے لوگ یہود و عیسائی ہیں اور اس کی خواہش فقط اتنی ہے کہ مسلمانوں سے مکہ چھین کر واپس حاصل کیا جائے کیونکہ اس پر ان کا نہیں یہود و نصاریٰ کا حق ہے. یہ مسلمانوں کو شیطان کا پیرو کہتا ہے اور اللہ کو وہ شیطان قرار دیتا ہے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ. ایک مسلم کیلئے اس کی یہ خباثت و جسارت اپنی جگہ قابل نفرت ہے مگر اس سے یہ سچائی نہیں بدلتی کہ اسکی بیان کردہ تحقیق نے ایک مختلف زاویئے سے اسلام کی حقانیت یا مکہ کی حقیقت کو ثابت کیا ہے. ہم مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد پاک یاد ہے جس میں آپ نے اہل کتاب سے فرمایا کہ
.
"ہم تم سے بھی زیادہ موسیٰ علیہ السلام پر دعویٰ رکھتے ہیں ....." (صحیح بخاری کتاب ٣ حدیث ٢٢٢)
.
====عظیم نامہ====
کعبہ یا مکہ کا ذکر سابقہ صحائف میں کیوں نہیں ملتا؟ عیسائی اور یہود کے یہاں اسے مقدس مقام کا درجہ کیوں نہیں دیا جاتا؟
.
جواب:
.
سب سے پہلے تو یہ جان لیجیئے کہ مکہ کا پرانا نام بکہ تھا. ٹھیک ویسے ہی جیسے مدینہ کا پرانا نام یثرب یا کراچی کا پرانا نام کولاچی ہوا کرتا تھا. گویا مکہ اور بکہ درحقیقت ایک ہی مقام کے دو نام ہیں. یہی وجہ ہے کہ دونوں نام پڑھنے سننے میں بھی ایک جیسے محسوس ہوتے ہیں. جب یہ بات سمجھ آگئی تو جان لیں کہ بائبل میں بکہ کا واشگاف الفاظ میں ذکر موجود ہے. غور سے "پی سالم (زبور ٨٤) کے ایک ایک لفظ کو دھیان سے پڑھیں:
.
"اے رب الافواج، اے میرے بادشاہ اور خدا، تیری قربان گاہوں کے پاس پرندے کو بھی گھر مل گیا، ابابیل کو بھی اپنے بچوں کو پالنے کا گھونسلا مل گیا ہے۔
.
مبارک ہیں وہ جو تیرے گھر میں بستے ہیں، وہ ہمیشہ ہی تیری ستائش کریں گے۔ (سِلاہ) مبارک ہیں وہ جو تجھ میں اپنی طاقت پاتے، جو دل سے تیری راہوں میں چلتے ہیں۔
.
وہ بکا کی خشک وادی میں سے گزرتے ہوئے اُسے شاداب جگہ بنا لیتے ہیں، اور بارشیں اُسے برکتوں سے ڈھانپ دیتی ہیں۔
.
وہ قدم بہ قدم تقویت پاتے ہوئے آگے بڑھتے، سب کوہِ صیون پر اللہ کے سامنے حاضر ہو جاتے ہیں۔
.
اے رب، اے لشکروں کے خدا، میری دعا سن! اے یعقوب کے خدا، دھیان دے! (سِلاہ)
اے اللہ، ہماری ڈھال پر کرم کی نگاہ ڈال۔ اپنے مسح کئے ہوئے خادم کے چہرے پر نظر کر۔
تیری بارگاہوں میں ایک دن کسی اَور جگہ پر ہزار دنوں سے بہتر ہے۔ مجھے اپنے خدا کے گھر کے دروازے پر حاضر رہنا بےدینوں کے گھروں میں بسنے سے کہیں زیادہ پسند ہے۔
.
کیونکہ رب خدا آفتاب اور ڈھال ہے، وہی ہمیں فضل اور عزت سے نوازتا ہے۔ جو دیانت داری سے چلیں اُنہیں وہ کسی بھی اچھی چیز سے محروم نہیں رکھتا۔
.
اے رب الافواج، مبارک ہے وہ جو تجھ پر بھروسا رکھتا ہے!"
.
احباب دل پر ہاتھ رکھ کر اور عقیدت سے بالاتر ہو کر بتایئے کہ کیا آپ کو مندرجہ بالا آیات پڑھ کر یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہاں تفصیل شہر مکہ کی بیان ہورہی ہے؟ اور اسے بکا یا بکہ پکارا جا رہا ہے؟ وہی پرندوں (ابابیل) کا ذکر، فوجوں کی بات، وہی مکہ کی خشک وادی کی شادابی کا ذکر، وہی وہاں خدا کے گھر کی بات، وہی مسح کیئے خادم یعنی باوضو کا ذکر وہی اس مقام پر حاضری کو ہزار دن سے بہتری کی بات. کم از کم ایک مسلم ذہن کو اس کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہتا.
.
مگر ہم نے یہ کہاں سے اخذ کرلیا کہ قران کے مطابق مکہ ہی بکہ تھا ؟ تو اس کا واضح جواب ہمیں قران حکیم خود اپنی سورہ آل عمران کی ٩٦ آیت میں کچھ یوں دے دیا ہے کہ
.
"اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو "بکہ" (مکہ) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت وہدایت واﻻ ہے"
.
گویا مکہ کے بیان کیلئے قران مجید نے خود بکہ لفظ کو من و عن استعمال کرکے اس پر مہر صادق کردی. یہاں دھیان رہے کہ اس وقت کے یہود و عیسائی مخاطبین کیلئے سنہرا موقع تھا کہ اگر وہ اس قرانی دعوے کو جھوٹ سمجھتے تو آگے بڑھ کر اعتراض کرتے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوا. حالانکہ بہت سے مختلف اعتراضات اور الزامات جو اہل کتاب نزول وحی کے دوران اٹھاتے رہے وہ ہمارے پاس موجود ہیں. اس معاملے میں ان کا اعتراض یا رد پیش نا کرنا دراصل اسے تسلیم کرنے کے مترادف ہے .یہ بھی دیکھیئے کہ اس علاقے کی قدیم زبانوں میں ''بکّ'' شہر یا بستی کو کہتے تھے جیسے بعلبکّ یعنی بعل دیوتا کی بستی۔ ماہرین لسانیات کے بقول بعض لہجوں میں یہ لفظ''بغ'' بن گیا ہے، جیسے بغداد۔ اسی سے فارسی میں لفظ باغ وجود پذیر ہوا ہے۔ قرآن نے مکہ کو 'بکہ' اور 'ام القری' پکار کر اسی حقیقت کی یاددہانی کرائی ہے۔
.
بائبل کی "جینیسس (پیدائش)" میں درج چند اور آیات ملاحظہ کریں جس میں بی بی ہاجرہ کا اپنے بیٹے کے ساتھ قصہ بیان ہوا ہے اور اس کنوئیں کا ذکر ہوا جسے ہم مسلمان آج "زم زم کا کنواں" کہتے ہیں.
.
" اور جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو اُس نے لڑکے کو ایک جھاڑی کے نِیچے ڈالدیا ۔ اور آپ اُسکے مقابل ایک تیِر کے ٹپّے پر دُور جا بِیٹھی اور کہنے لگی کہ مَیں اِس لڑکے کا مرنا تو نہ دیکھوں ۔ سو وہ اُسکے مُقابل بَیٹھ گئی اور چلاّ چِلاّ کر رونے لگی۔ اور خُدا نے اُس لڑکے کی آواز سُنی اور خُدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجؔرہ کو پُکارا اور اُس سے کہا اَے ہاجرؔہ تجھ کو کیا ہُوا؟ مت ڈر کیونکہ خُدا نے اُس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اُسکی آواز سُن لی ہے اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیونکہ مَیں اُسکو ایک بڑی قوم بناؤنگا۔ پِھر خُدانے اُسکی آنکھیں کھو لیں اور اُس نے پانی کا ایک کُوآں دیکھا اور جا کر مشک کو پانی سے بھر لِیا اور لڑکے کو پِلایا۔"
.
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کعبہ یا مکہ کا سفر کئی سابقہ رسولوں نے تو کیا ہے مگر بحیثیت امت یہاں کا سفر (حج) صرف امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے. تحریر طوالت اختیار کرتی جارہی ہے. گو اس پر کافی کچھ لکھنا ممکن ہے. ہم یہ سمجھتے ہیں کہ درج بالا تفصیل پڑھنے کے بعد قارئین کی اکثریت کو یہ اطمینان حاصل ہوگیا ہوگا کہ وادی مکہ، آب زم زم، کعبہ کے حج وغیرہ کے بارے میں واضح اشارے بائبل میں آج بھی موجود ہیں. گو ظاہر ہے کہ اہل کتاب آج مکہ کو بکہ ماننے سے انکاری ہیں اور ان کے مختلف محققین مختلف مقامات کو بکا سے تعبیر کرتے ہیں. گو ان کا آپس میں کسی ایک مقام پر اتفاق نہیں ہے. اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر سب کا اتفاق نہیں ہے تو پھر اہل کتاب میں کچھ محقق ایسے کیوں نہ پیدا ہوئے جن کی غیر جانبدار تحقیق اس خاص موضوع پر انہیں قرانی بیان کے قریب لے آتی؟ یعنی وہ مکہ ہی کو بکہ تسلیم کرتے؟ اس کا جواب ہے کہ بالکل ایسے غیرمسلم محققین موجود ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ موجودہ مکہ دراصل پرانا بکہ ہے.
.
ایک نمائندہ مثال یہودی محقق "اوی لپکن" ہیں جن کی کتاب "مکہ کو لوٹ چلو" (ریٹرن ٹو مکہ) کے نام سے شائع ہوچکی ہے. سرورق پر انہوں نے کعبہ کی بناء غلاف والی تصویر لگا رکھی ہے. ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون سے نجات حاصل کی تو بنی اسرائیل کو ایک خاص سیاہ چوکور کعبہ کی شکل کا نشان تعویز کی صورت پیشانیوں پر پہنایا جو دراصل اس بات کی علامت تھا کہ ہم پیرامڈ ٹرائی اینگل سسٹم چھوڑ کر آزادی کے کیووب سسٹم میں داخل ہو رہے ہیں. آج تک ہم یہودی اسے مخصوص مقامات و اوقات میں پہنا کرتے ہیں (تصاویر انٹرنیٹ پر موجود ہیں). وہ اسی مخصوص شکل کے تعویز کا ذکر حضرت عیسیٰ الیہ السلام سے بھی بائبل کی آیت سے ثابت کرتے ہیں. ان کے بقول موسیٰ. ہارون، شعیب علیہ السلام اجمعین سب کعبہ کے پاس موجود تھے جو آج مکہ کہلاتا ہے. جیسا کہ بائبل میں اس مقام کو صحرائی بتایا گیا ہے تو اس سے مراد مکہ ہے. ان کے بقول جب موسیٰ علیہ السلام کو قتل کے الزام میں مصر سے جانا پڑا تو انہیں خوب معلوم تھا کہ وہ مکہ کے علاقے جا رہے ہیں جہاں وہ شعیب علیہ السلام کے ساتھ سالوں رہے. ان کے بقول اس دعوے کے ثبوت میں وہ بہت سے آثار قدیمہ پیش کرنے پر قادر ہیں.
.
وہ بائبل سے بیان کرتے ہیں کہ کیسے موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا کہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے دیا جائے تاکہ وہ صحرا میں جا کر گول چکر کاٹیں. اسی کو بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ "حج" جس میں طواف کیا جاتا ہے اس کا مصری تلفظ "حگ" ہے اور بائبل کی اصل زبان عبرانی میں "حگ" کا ایک مطلب یہی طواف یعنی گول گھومنا ہے. یہ بھی ایک قابل غور بات ہے کہ کعبہ کی شکل کا وہ تعویز جو یہودی اپنی پیشانی یا بازو پر امام ضامن کیطرح باندھتے ہیں، اس میں وہ اہتمام کرتے ہیں کہ اسے طواف کعبہ ہی کے جیسے ٹھیک سات مرتبہ گھما کر باندھا جائے. ساتھ ہی مصنف یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ وہاں قربانی بھی دی جاتی ہے.
.
یہ سب پڑھ کر ممکن ہے کہ کوئی قاری اس یہودی مصنف کے بارے میں یہ گمان کرے کہ یہ یا تو مسلمانوں کے ہاتھ بکا ہوا ہے یا ان کا کوئی ہمدرد ہے. قطعی نہیں ! بلکہ "اوی لپکن" ایک کٹر اسلام دشمن ہے جو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے. وہ صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ میرے لوگ یہود و عیسائی ہیں اور اس کی خواہش فقط اتنی ہے کہ مسلمانوں سے مکہ چھین کر واپس حاصل کیا جائے کیونکہ اس پر ان کا نہیں یہود و نصاریٰ کا حق ہے. یہ مسلمانوں کو شیطان کا پیرو کہتا ہے اور اللہ کو وہ شیطان قرار دیتا ہے معاذ اللہ ثم معاذ اللہ. ایک مسلم کیلئے اس کی یہ خباثت و جسارت اپنی جگہ قابل نفرت ہے مگر اس سے یہ سچائی نہیں بدلتی کہ اسکی بیان کردہ تحقیق نے ایک مختلف زاویئے سے اسلام کی حقانیت یا مکہ کی حقیقت کو ثابت کیا ہے. ہم مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد پاک یاد ہے جس میں آپ نے اہل کتاب سے فرمایا کہ
.
"ہم تم سے بھی زیادہ موسیٰ علیہ السلام پر دعویٰ رکھتے ہیں ....." (صحیح بخاری کتاب ٣ حدیث ٢٢٢)
.
====عظیم نامہ====