Friday, 28 September 2018

سفر اپنا اپنا


سفر اپنا اپنا


Image may contain: ‎‎2 people, ‎including ‎عظیم الرحمٰن عثمانی‎‎‎, people smiling, beard and close-up‎
.
انگلینڈ سمیت تمام یورپ یا امریکہ کی سڑکوں پر موجود گھروں سے محروم مفلوک الحال غریبوں کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں ہے. ہر حساس دل ان کیلئے کسی نہ کسی درجے میں درد محسوس کرتا ہے. میں بذات خود متعدد بار ان کی مسلسل اذیت و تنہائی دیکھ کر غمزدہ ہوجاتا ہوں. مگر کچھ ماہ قبل میری نظر اپنے محلے میں سڑکوں پر بسے ایک ایسے انسان کے چہرے پر پڑی ، جس نے مجھے پوری طرح گرفت میں لے لیا. میں نہیں جانتا کہ وہ کون سی کشش تھی جو مجھے اس بوسیدہ حال کی جانب کھینچے جارہی تھی. سخت ترین مسائل کے باوجود بھی مجھے اس کا چہرہ عجیب سا سکون لئے نظر آیا. اسکی آنکھوں میں کرب و محرومی نہیں بلکہ ایک نادیدہ گہرائی تھی. میں نے نوٹ کیا کہ وہ کسی سے پیسے مانگتا نہیں ہے اور جو خود اسے کچھ دے دے اسے نہایت خوش دلی سے شکر کیساتھ قبول کرلیتا ہے. گنجلک داڑھی، رنگ گندمی، پرانے کپڑے اور کمر پر لدا ہوا بوریا بستر. مجھے وہ کینیا یا موریشئیس کا پیدائشی لگتا تھا. میں اس سے بات کرنا چاہتا تھا، اس کا حال پوچھنا چاہتا تھا مگر چاہ کر بھی نہیں کرپاتا. ہمیشہ رک جاتا. شائد میری انا ، میرا تکبر مجھے ایک سڑک چھاپ سے گفتگو کرنے سے روک رہا تھا (استغفرللہ) مگر اسکے باوجود میں اسے جب بھی دیکھتا تو بے چین ہوجاتا. میری بیوی میری اس بے چینی سے آگاہ تھی، میرا ایک دوست بھی میرے اس لگاؤ سے واقف تھا. میں نے ایک بار اسے کچھ پیسے دیئے مگر بات کرنے کی ہمت پھر بھی نہ جوڑ پایا. کیوں؟ میں نہیں جانتا. ایک بار ایسا بھی ہوا کہ میں نے اس کا پیچھا کیا اور اس کے اردگرد منڈلاتا رہا کہ شائد وہ مجھے سے کچھ کہے، کچھ مانگے اور مجھے گفتگو کرنے کا موقع مل جائے. مگر نہیں. وہ تو جیسے میری موجودگی سے مکمل طور پر غافل تھا. 
.
دن یونہی گزرتے گئے. یہاں تک کہ کوئی دس بارہ روز قبل میں آفس سے واپسی میں ، اپنے خیالات میں مگن گھر جارہا تھا، جب اچانک اس سے مڈبھیڑ ہوگئی. وہ فٹ پاتھ/ سڑک کے کنارے بیٹھا تھا اور میں اسے تب دیکھ پایا جب بلکل اس کے سر پر جاپہنچا. بناء سوچے سمجھے میرے منہ سے ہیلو نکلا. جس کا اس نے جواب دیا. یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے اس سے گفتگو کا آغاز کردیا. میں نے اس سے درخوست کی کہ کیا میں اس سے اس کے بارے میں پوچھ سکتا ہوں؟ جس کا جواب اس نے ہاں میں سر ہلا کر دیا. میں فٹ پاتھ پر ہی اس کے برابر آلتی پالتی مار کر براجمان ہوگیا. ابتداء ہی میں مجھ پر حیرت کا پہاڑ تب ٹوٹا جب اس نے بتایا کہ یہ مفلوک الحال زندگی اس کی مجبوری نہیں بلکہ اس کی پسند ہے. وہ اس حال میں اپنی مرضی سے ہے. وہ معرفت کا مسافر ہے اور خود کو کھوج رہا ہے. میں نے حیرت سے وجہ دریافت کی تو اس نے اپنا سفر بتایا. کیسے اس کے تعلقات اپنے باپ سے نہایت کشیدہ تھے؟ کیسے گھریلو تشدد کے سبب اس کی نفسیات اور شخصیت مسخ ہوتی چلی گئی؟ کیسے اسے اپنا گھر بار چھوڑ کر علیحدہ گھر میں منتقل ہونا پڑا؟ کیسے اس نے بہترین نوکریاں کیں؟ کیسے وہ ایک پیٹ کی بیماری میں مبتلا ہوا؟ کیسے سالہا سال وہ تنہا کمرے میں بند اپنا علاج کراتا رہا؟ - اس نے یہ کہہ کر مجھے حیرت کا ایک اور جھٹکا دیا کہ وہ مسلمان ہے اور دل سے اسلام کو درست مانتا ہے. اس نے بتایا کہ اس کا باپ مسلمان اور ماں بدھ مت تھی. اسے بدھ مت اور اسلام دونوں کے ٹھیکیداروں سے شدید نفرت ہوگئی. اسے مولوی کا وہ اسلام ذرا نہیں پسند آیا جو تکفیر اور تنگ نظری پر مبنی ہے. جو صرف ظاہر ہی میں الجھا ہوا ہے اور جو جنت پر کاپی رائٹ جماتا ہے. اس نے بتایا کہ اسی نفرت کے دوران اسے ترکی سے آئے ایک مشہور صوفی بزرگ شیخ ناظم الحقانی سے لندن میں ملاقات نصیب ہوئی. جہاں سے اس نے تصوف کی راہ کو اختیار کیا. مگر کچھ عرصے بعد وہ اسے بھی ترک کر گیا. 
.
پھر ایک روز اپنی شدید علالت کے دوران ہی اچانک جیسے قلب کھل گیا. اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کو کھوجے گا. میں کون ہوں؟ حق کیا ہے؟ حق کا راستہ کیا ہے؟ - یہ وہ تجربے سے جانے گا. اس نے گورنمنٹ سے ملنے والی مراعات کو لینے سے انکار کیا، گھر واپس کر دیا اور سڑک پر جا بسا. یہاں آکر معلوم ہوا کہ سڑک پر بھی سیاست و اجارہ داری ہے. خود کو مسلمان بتانا تو جیسے مصیبت کو دعوت دینا ہے. لہٰذا اس نے سڑک پر ایک علیحدہ شناخت اختیار کرلی اور گلی گلی نگر نگر جانے لگا. کم و بیش دو سال سے وہ سڑک پر ہے اور اسے یہاں خدا کی معرفت نصیب ہوگئی ہے. اس نے اپنے ساتھ ہوے والے روزمرہ کے وہ واقعات بیان کرنے شروع کیئے جن میں خدا نے اسے ہمیشہ مشکل سے بچا لیا. اسی دوران اس کے باپ کا انتقال ہوا، وہ اسکے جنازے میں شرکت کیلئے دوسرے شہر برمنگھم پہنچا تو باپ کی میت سامنے رکھی تھی. اس نے کہا کہ میں نے اس سے پہلے اپنے باپ کے چہرے پر کبھی ایسا سکون نہ دیکھا تھا. یوں لگا جیسے میرے دل سے نفرت، غصہ، شکایت - ہر منفی جذبہ رخصت ہوگیا ہو. میں خود بھی سکون اور خوشی سے نہال ہوگیا. سالوں بعد میرے کزنز مجھ سے ملے ، مجھے گلے لگایا، میری خیریت پوچھی. پھر واپس سڑکوں پر آگیا. اب اس نے مجھ سے میری زندگی پوچھی. معرفت کا جو میرا ٹوٹا پھوٹا سفر ہے، وہ میں نے اسے بیان کیا. اسے محبت سے سمجھایا کہ اسلام کا حقیقی پیغام کیا ہے؟ اسے رغبت دلائی کہ وہ نماز کو دوبارہ ادا کرنا شروع کرے. وہ میری گفتگو سے اتنا ہی خوش تھا جتنا شائد میں اسے سن کر. وہ کہنے لگا کہ آپ کو خدا ہی نے میرے پاس بھیجا ہے اور آپ کی باتوں میں میرے سوالات کے جوابات موجود ہیں. میں نے کہا کہ یہ ممکن ہے. خدا یونہی اسباب پیدا کرتا ہے. اردگرد موجود افراد و حالات سے آپ کیلئے رستہ کھول دیتا ہے. میں نے اسے بتایا کہ کس طرح میں مہینوں سے اس سے گفتگو کیلئے بے چین تھا اور کیسے میں اس کی جانب آج تک ایک غیر معمولی کشش محسوس کرتا رہا. اس نے خوشی سے کہا کہ میں یہ سمجھ سکتا ہوں. اگر آپ میرے پاس مبلغ بن کر آتے تو نہ میں کبھی آپ کی بات تسلیم کرتا نہ ہی اپنے دل کی آپ کو بتاتا. مگر آپ تبلیغ کیلئے نہیں آئے بلکہ صرف محبت لئے آئے. اس نے نماز کا ارادہ کیا اور ساتھ یہ کہا کہ وہ جانتا ہے کہ اب اسے سڑک چھوڑ کر دوبارہ زندگی میں لوٹنا ہے. جہاں وہ اپنی روزی کمائے اور اب تک کے سفر میں سیکھے اسباق سے ایک بہتر انسان بن کر جیئے.
.
میں نے گھڑی دیکھی تو دو گھنٹے فٹ پاتھ پر بیٹھے اسی گفتگو میں گزر چکے تھے. دوران گفتگو لوگ آتے رہے، کسی راہگیر نے سکے اچھالے، کسی نے مزاج پوچھا اور کسی نے چاکلیٹ دی. میں نے اس سے جانے کی اجازت مانگی. اسے ایک بڑا نوٹ مالی مدد کے طور پر دینا چاہا تو اس نے ہاتھ تھام کر منع کردیا. کہنے لگا کہ ہمیں اس پیاری ملاقات کو پیسوں سے داغدار نہیں کرنا چاہیئے اور جو اسے ملاقات میں حاصل ہوا ہے وہ کسی بھی مالی مدد سے بہت زیادہ ہے. یہی احساسات میرے بھی تھے. ہم نے ہاتھ ملایا، ایک تصویر کھینچی اور دلوں میں سکون و مسرت لئے جدا ہوگئے. 
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 26 September 2018

تربیت

تربیت 


تعلیم سے زیادہ ہماری قوم کا المیہ تربیت کا فقدان ہے۔ یہاں ڈگری یافتہ نام نہاد پڑھے لکھے بھی نظم و ضبط کو ویسے ہی پامال کرتے ہیں جیسے تعلیم سے نابلد افراد۔ گویا اکثریت دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا بناء تعلیم کے جاہل اور دوسرا تعلیم یافتہ پڑھا لکھا جاہل۔ سڑکوں پر کچرا پھینکنے سے لے کر ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانے تک اور گاہکوں کی قطار توڑنے سے لے کر مخاطب کو غلیظ گالیاں دینے تک دونوں طبقوں کا حال ایک برابر ہے۔ کالج و مدارس کے اساتذہ میں بھی ایک بڑی تعداد ایسی موجود ہے جو خود تربیت کرنا ہی نہیں جانتے۔ چنانچہ ہم لوگوں کوڈگری یافتہ تو بنارہے ہیں مگر انہیں تہذیب و اقدار سیکھانے سے قاصر ہیں۔
یہی حال ان والدین کا ہے جو اپنے بچوں کے سامنے نہ صرف جھوٹ بولتے ہیں بلکہ انہیں جھوٹ بولنا سیکھاتے ہیں۔ شہری ماحول میں تو اب بچے فحش ترین آئٹم سانگز گاتے پھرتے ہیں، ناچتے ہیں اور ماں باپ تالی بجاتے ہیں۔ دیہاتی ماحول میں بعض اوقات اولاد پر اتنا جبر کرتے ہیں کہ اسکی شخصیت و اعتماد مسخ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مانا کہ ریاستی سطح پر قوانین کا عدم اطلاق اس جہالت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مگر اسے وجہ بناکر تربیت کی بنیادی درسگاہوں یعنی گھر اور اسکول سے کیسے صرف نظر کیا جاسکتا ہے؟ ہم سب اپنے اردگرد موجود اس بے ہنگم ہجوم کا حصہ ہیں۔ ہم سب اس برپا لاقانونیت اور افراتفریح میں برابر کے مجرم ہیں۔ لازم ہے کہ ٹی وی و سوشل میڈیا سمیت ہر حاصل زرائع سے قوم کی تربیت کا اہتمام ہو۔ ضروری ہے کہ اب مسجد کے منبر کا ارتکاذ عبادات سے زیادہ معاملات پر ہو۔ اور اسکول و مدارس سے نکلنے والے فقط تعلیم یافتہ نہ ہوں بلکہ تربیت یافتہ بھی ہوں۔ ہم اگر دس ڈیم بھی بناڈالیں یا معجزاتی طور پر ملک کے تمام قرضے بھی اتار پھینکیں یا گوادر سے کراچی تک سڑکوں بلڈنگز کا جال بچھادیں۔ تب بھی ہم اس وقت تک ایک قوم نہیں کہلاسکتے جب تک ہم میں "سوک سینس" بیدار نہ ہوجائے۔
۔
====عظیم نامہ====

نور


نور 



"بھئی واہ سبحان اللہ .. کتنا نور ہے ان کے چہرے پر !"
.
یہ جملہ آپ سب نے متعدد بار مختلف شخصیات کے بارے میں سن رکھا ہوگا یا کہہ رکھا ہوگا. یہ چہرے پر نور ہوتا کیا ہے؟ اسکی کوئی حقیقت بھی ہے یا پھر یہ فقط ایک مفروضہ ایک اختراع ہے ؟ یہ بات تو مسلمہ ہے کہ بہت سے افراد اپنی مذہبی و نظریاتی وابستگی کو بھی ایسے تقدس بھرے جملوں کا روپ دے دیتے ہیں. چنانچہ انہیں اپنے مسلک سے وابستہ نمایاں مذہبی شخصیات کا چہرہ نور سے مزین نظر آنے لگتا ہے. مشاہدہ یہ بھی ہے کہ معتقدین اکثر اپنے مکتب کی اسی شخصیت کے چہرے کو نورانی کہتے ہیں جس کی رنگت سرخ سفید ہو یا قدرے صاف ہو. سیاہ فام یا گہرے گندمی چہروں کو نورانی کہنے کا رواج عموم میں نہیں ملتا. گو چند ایک استثنات ممکن ہیں. راقم کے نزدیک افراد کا اپنی من پسند شخصیات کے چہروں کے بارے میں ایسے جملے بولنا محض ان کی موجود سوچ و عقیدت کا عکس ہے. اس سے زیادہ کچھ نہیں. یہی وجہ ہے کہ دیگر اشخاص جنہیں اس مذہبی شخصیت سے عقیدت نہیں ہے، وہ ان کے چہرے میں کسی نور کو دیکھ بھی نہیں پاتے. سوال پھر وہی اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہم یہ مان لیں کہ کسی چہرے کا نورانی ہونا ممکن ہی نہیں؟ تو جناب ہماری دانست و تجربے میں اس کا بہرکیف امکان موجود ہے. گو چہرے پر نور سے مراد کیا ہے؟ پہلے اسے کھوجنا ضروری ہے. 
.
ہم سب کا چہرہ اکثر و بیشتر ہماری شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ غصیلے افراد کے چہرے پر ایک خاص طرح کی کرختگی اور شاطر لوگوں کی آنکھوں میں ایک مخصوص عیاری جھلکنے لگتی ہے. ایسے ہی حسد کی آگ میں جلتے رہنے والو کے چہروں پر عجیب سی تاریکی اور منکسر المزاج شخصیات کے چہروں پر نرمی واضح طور پر نظر آتی ہے. چہروں پر حقیقی نور جسے بلاتفریق مسلک محسوس کیا جاسکے، ہمارے نزدیک دو خواص کے اجماع کا نام ہے. پہلا ہے سکون اور دوسرا ہے معصومیت. گویا جس شخصیت کا شاکلہ سکون اور معصومیت کی مٹی سے گندھا ہو، اس کا چہرہ نور سے آراستہ ہوجاتا ہے. دھیان رہے کہ چہرے پر نور کسی پھوٹتی روشنی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ روحانی جاذبیت ہے جو دیکھنے والے کو ایک سکون کی حامل قدرے معصوم شخصیت میں محسوس ہوتی ہے. آپ میں سے اکثر اس بات کی گواہی دیں گے کہ کئی عام سے افراد کے جنازے جب پڑھائے گئے تو میت کا چہرہ نور سے بھرا ہوا نظر آیا. دراصل یہ نور اور کچھ نہیں بلکہ وہ سکون ہے جو مردے کے چہرے پر زندگی کی الجھنوں سے نجات کے بعد نظر آنے لگتا ہے. یہی معاملہ کئی بار میٹھی نیند میں غرق اشخاص کے چہروں پر بھی کمتر درجے میں نظر آتا ہے، وہ سوتے ہوئے زیادہ پرنور یعنی زیادہ پرسکون لگتے ہیں. وجہ وہی ہے کہ اس وقت وہ عارضی طور پر زندگی کی پیچیدگیوں یا جھنجھٹوں سے غافل ہوتے ہے. 
.
اسی طرح بچے چونکہ معصوم ہوتے ہیں لہٰذا ہم سب کو پرنور نظر آتے ہیں. پھر چاہے وہ گوری رنگت کا حامل انگریز بچہ ہو، گندمی پاکستانی بچہ ہو، زردی مائل جاپانی بچہ ہو یا پھر سیاہ فام افریقی بچہ - کوئی فرق نہیں پڑتا. سب ہی نور سے سجے دیکھائی دیتے ہیں. مزید آگے جائیں تو انسان کا بچہ ہی نہیں بلکہ کسی جانور کا بچہ بھی وہی نورانی مقناطیسیت لئے محسوس ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ بچہ بلی، کتے، بندر، سور، شیر، ہرن، بکری، - کسی کا بھی ہو، ہم سب کو پیارا لگتا ہے. چہرے کا یہ نور اس وقت اور بھی بچے کی شکل پر نظر آتا ہے جب وہ گہری نیند میں سو رہا ہو. مختصر یہ کہ سکون اور معصومیت وہ دو نمائندہ عوامل ہیں جن کی موجودگی شخصیت میں راسخ ہو تو چہرہ حقیقی معنوں میں نورانی ہوجاتا ہے. گو چہرے پر نور ہونا ایک عمدہ وصف ضرور ہے مگر نہ ہی یہ دین کی رو سے بلندی درجات کی علامت ہے اور نہ ہی اخروی نجات کا ضامن. 
.
====عظیم نامہ====

Monday, 17 September 2018

پرلطف نعمتیں


پرلطف نعمتیں


آپ سب نے وہ ویڈیوز ضرور دیکھ رکھی ہونگی، جن میں پیدائشی طور پر سماعت سے محروم بچوں کو پہلی بار ایک جدید آلہ کان سے لگا کر ماں کی آواز سنائی جاتی ہے۔ سنتے ہی وہ گود میں روتے بلکتے بچے پہلے حیرت اور پھر مسرت سے نہال ہوجاتے ہیں۔ بعض معصوم تو وجد میں آکر مسکراتے ہوئے گود میں مچھلی کی مانند مچلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح وہ ویڈیوز بھی ممکن ہے آپ نے دیکھ رکھی ہوں، جن میں پیدائشی طور پر بصارت یعنی دیکھنے سے محروم بچوں کو طاقتور چشمہ لگاکر جب پہلی بار دنیا دیکھنا نصیب ہوتا ہے تو وہ خوشی سے کبھی قہقہے لگاتے ہیں تو کبھی فرط مسرت سے پھوٹ پھوٹ کر رو دیتے ہیں۔ ان میں کچھ بچے تو اتنی چھوٹی عمر کے ہیں جن کے بارے میں گمان ہوتا ہے کہ شائد رونے کے سوا کچھ بھی نہ جانتے ہوں۔ مگر نہیں وہ بھی ۔۔۔ پہلی بار سننے یا دیکھنے کا تجربہ پاکر بے پناہ خوشی سے نہال ہوتے نظر آتے ہیں۔
۔
دیکھنا یا سننا کتنی بڑی انسانی ضرورت پوری کرتا ہے؟ اسوقت ہمیں اس سے بحث نہیں۔ ہم تو یہ سوچ کر گنگ ہیں کہ ہم سوچتے ہی نہیں، ہمارے پاس کتنی زبردست اور پرلطف نعمتیں ہیں؟ ان بچوں کے تاثرات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روزمرہ کا دیکھنا اور سننا کتنی لطف یعنی کتنی انجوائیمینٹ کی شے ہے؟ اور صرف یہی کیوں ؟ بلکہ ہر حاصل نعمت - جسے ہم حاصل ہونے کے سبب معمولی سمجھ بیٹھتے ہیں وہ فقط ہماری جسمانی ضرورت ہی پوری نہیں کرتی بلکہ ایک مخفی لطف و طمانیت بھی عطا کرتی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر کھانا منہ کے ذریعے معدے میں پہنچ جائے تو توانائی کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے مگر ہمارے رب نے ہمیں ساتھ ذائقہ بھی عطا کیا تاکہ ہم ضرورت پوری کرنے کیساتھ ساتھ اس نعمت سے لطف اندوز بھی ہوں۔ کیا ہو جو آپ کی زبان سے آج ذائقہ چھین لیا جائے؟ پھر آپ اس تمیز سے ہی قاصر ہونگے کہ منہ میں آیا نوالہ بریانی کا ہے یا نہاری کا؟ لیا گیا گھونٹ میٹھی لسی کا ہے یا کڑوی کافی کا؟ توانائی یعنی نیوڑریشن کی ضرورت تو اس کے بغیر بھی پوری ہوجائے گی مگر پھر زندگی کیسی پھیکی؟ کیسی بے رنگ؟ کیسی بور ہوگی؟ اللہ معافی۔
۔
====عظیم نامہ====

اوورسیز پاکستانی

اوورسیز پاکستانی


ایک بدنصیبی ہماری یہ بھی ہے کہ ہماری ایک بڑی تعداد دیار غیر میں بسے پاکستانیو کو محب وطن ماننے کو تیار نہیں۔ انکے نزدیک چونکہ فلاں شخص پاکستان سے باہر نوکری کرتا ہے اسلئے اسے ملک سے محبت نہیں ہوسکتی۔ میں خود انگلینڈ کا رہائشی ہوں اور مجھے ان گنت بار دوران گفتگو ایسے تلخ اور طنزیہ جملوں کا سامنا ہوتا رہا ہے، جب متکلم آپ کے موقف کو دلائل سے قبول یا رد کرنے کی بجائے طعنہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر اتنا ہی ملک سے پیار ہے تو کب واپس آرہے ہو پاکستان؟ جتنے تحقیری جملے ہم اوورسیز پاکستانیو پر کستے ہیں، شائد ہی کوئی دوسری قوم اپنے اوورسیز طبقے کیلئےاختیار کرتی ہو۔ دنیا کا کوئی ملک بسمیت انگلینڈ امریکہ وغیرہ کے ایسا نہیں ہے جس کے لاکھوں کروڑوں شہری اپنے ملک کی بجائے کسی دوسرے ملک میں نہ بستے ہوں تو کیا جب وہ اپنے آبائی ملک کی بہتری کیلئے بات کریں تو ان پر بھی طنز کے نشتر برسائے جاتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ انہیں اپنے آبائی ملک کا سفیر سمجھا جاتا ہے، جہاں وہ بسے ہیں اس ملک میں اپنے سفارتی تعلقات کی مضبوطی کیلئے ان سے رابطہ رکھا جاتا ہے ساتھ انہیں یہ ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ وہ اپنے آبائی ملک میں سرمایہ کاری کریں۔
۔
اوورسیز پاکستانی فکر معاش، اعلی تعلیم، صحت کی خرابی سمیت متعدد مختلف وجوہات کی بناء پر اپنے وطن سے باہر سکونت اختیار کیئے ہوئے ہیں مگر ان کے دل آج بھی اپنے ملک اور اپنی قوم کیلئے دھڑکتے ہیں۔ آج بھی جب ان کے سامنے ٹائمز میگزین لندن اور جنگ اخبار کراچی رکھا ہو تو انکے ہاتھ اپنے ملک کے حالات جاننے کیلئے اپنے اخبار کی جانب بڑھتے ہیں۔ آج بھی کرکٹ میچ ہو تو پہلی ہمدردی انکی پاکستان ہی کی جانب ہوتی ہے۔ آج بھی وہ تمام تر خطرات و خدشات کے باوجود دنیا کے دیگر محفوظ ممالک چھوڑ کر پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اب ایسے میں یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ انکے اپنے ملک سے اس تعلق کو تذلیل کا نشانہ بنائیں یا پھر انکی ویسی ہی قدر کریں جیسی قدر مہذب اقوام اپنی اوورسیز کمیونٹی کا کرتی ہیں۔
۔
====عظیم نامہ====

عالمی بساط


عالمی بساط

Image may contain: 9 people, people smiling
.
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں برپا ہونے والے کشیدہ حالات نے ایسی ملکی قیادتوں کو جنم دیا ہے جن کی مثال انکے اپنے اپنے ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی. سعودی شہزادے محمد بن سلیمان کی مثال لیجیئے جنہوں نے آتے ہی نہ صرف شاہی خاندان کے نمائندہ ناموں کو پابند سلاسل کردیا بلکہ آگے بڑھ کر بہت سی اسلامی تعلیمات کی اس سلفی تشریح کو بھی مسترد کردیا جس کا مبلغ سعودی عرب دنیا بھر میں بنا رہا ہے. امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے توقعات کے برعکس انتخاب جیت کر ایک دنیا کو حیران کردیا. امریکی پالیسیوں کا وہ متعصب چہرہ جو ہمیشہ حقوق انسانی یا اقوام متحدہ کے دلفریب نعروں کی نقاب میں پوشیدہ رہا تھا. ڈونلڈ نے اس نقاب کو الٹ کر کھلم کھلا اس نفرت بھرے ایجنڈے کو سامنے رکھ دیا ہے جس کا واحد مقصد امریکی سالمیت کے نام پر دنیا کو محکوم بنائے رکھنا ہے. یہی ماجرہ انڈیا میں شدت پسند ہندو رہنما نریندرا مودی کے انتخاب کی صورت میں ہوا. حکومتی سطح پر بہت سے اقدامات نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی ڈیموکریسی کا جھنڈا لہرانے والا بھارت دراصل مذہبی بنیادوں پر ایک 'ہندو دیش' کا خواہاں ہے. کینیڈا کے پرائم منسٹر جسٹن ٹروڈو سے کون واقف نہیں؟ کیا غیر مسلم اور کیا مسلم؟ سب ہی انکی صلح جو طبیعت کے مداح ہیں. کینیڈا عمومی طور پر اپنے ملک سے باہر ہونے والے کسی تنازع پر زیادہ تبصرہ نہیں کرتا مگر اس نفرت بھری دنیا میں کئی بار جسٹن نے امن اور انصاف کیلئے اپنی آواز بلند کی.
.
اسی طرح مسلم دنیا میں بلاشبہ سب سے زیادہ محبت پانے والا نام ترکی کے صدر طیب اردگان کا ہے. جنہوں نے نہ صرف ترکی کے بیرونی دشمنوں کو بھرپور جواب دیا بلکہ اپنے خلاف اٹھنے والی ملکی بغاوتوں کو بھی عوامی حمایت سے کچل ڈالا ہے. یہ واحد لیڈر ہیں جو ملکی سطح سے اٹھ کر پوری اسلامی دنیا کے اتحاد کی بات کررہے ہیں. پاکستان کے حالیہ انتخابات میں عمران خان کا منتخب ہوجانا بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے. ملکی سیاست کے تمام بڑے برجوں کو الٹ کر اقتدار تک پہنچنا اسی لئے ممکن ہوا کہ خان نے عوام کو تبدیلی کی امید دلائی ہے. مخالفین کے نزدیک خان تباہی جبکہ حامیوں کی جانب سے وہ خوشحالی و تبدیلی کی نوید ہے. عمران سے یہ امید کی جارہی ہے کہ نہ صرف وہ ملکی کرپشن کا خاتمہ کرے گا بلکہ دنیا کی سیاست میں بھی پاکستان کی جانب سے دوٹوک موقف اپنائے گا. روس کے صدر ولادیمر پیوٹن اپنے ملک میں بے مثال شہرت کے حامل رہے ہیں. دنیا کے سیاسی منظر نامے میں اگر امریکہ کسی ملک کا نام سن کر اقدام کرنے سے باز رہ پاتا ہے تو وہ روس ہی ہے اور اسکی بڑی وجہ بلاشبہ پیوٹن کی قیادت رہی ہے. ملائیشیا کی معیشت کو مستحکم کرنے میں جو مہاتیر محمد کا کردار رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں. ملائیشیا کی عوام انہیں اپنا ہیرو مانتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام نے حالیہ الیکشن میں انہیں دوبارہ منتخب کیا ہے اور یوں وہ ٩٢ سال کے معمر ترین سربراہ بن گئے ہیں. شمالی کوریا کے صدر 'کم جونگ ان' نے اپنے سخت بیانات اور پالیسیوں سے پوری دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے. امریکہ کو اسی کی بدمعاشی بھری زبان میں جواب دینا ان کا خاصہ ہے. کئی تجزیہ نگار ڈونلڈ ٹرمپ کو آدھا جنونی جبکہ 'کم جونگ-ان' کو پورا جنونی کہتے ہیں.
.
یہ وہ چند نام ہیں جو اس وقت اقتدار کی کرسیوں پر آپہنچے ہیں. ان میں سے کون خیر اور کون شر کا استعارہ ہے؟ یہ یہاں موضوع نہیں لیکن ایک بات ظاہر ہے کہ یہ سب عالمی سیاسی منظر نامے اور موجود نظریات کو بڑی حد تک بدل ڈالیں گے.
.
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ... لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی؟
.
====عظیم نامہ====

الحمدللہ


الحمدللہ


گہرا سانولا رنگ، مضبوط جسامت، ہاتھ میں لچک دار چھڑی، گھنی مونچھیں اور رعب دار آواز - یہ خدوخال میرے اسکول کے ایک استاد کے تھے جو خود بھی سندھی تھے اور ہمیں 'سندھی' ذبان ہی بطور سبق پڑھاتے تھے. میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ بہت شفیق تھے مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایمان داری سے ہمیں پڑھایا کرتے تھے. ایک روز کلاس میں آئے تو کہا چلو آج سبق سے ہٹ کر کچھ باتیں کرتے ہیں. کہنے لگے اللہ سائیں کو اپنا ایک بندہ بہت پسند ہے، وہ جسے بہت سی تکالیف ہوں ، جس کے پاس پیسہ نہ ہو یا جو بیمار ہو یا جسے کوئی دکھ لگا ہو ...... مگر جب کوئی دوسرا بندہ اس سے پوچھے کہ بابا چھا حال آہے؟ (بابا کیا حال ہے؟) تو وہ فوراً جواب دے کہ "الحمدللہ" ... سوچو مولا سائیں اپنے اس بندے سے کیسا خوش ہوگا؟ کہ اسے تکلیف تھی، درد تھا، پریشانی تھی .. مگر اس نے دوسرے بندے سے شکوہ نہ کیا بلکہ کہا "الحمدللہ"
.
یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پر مسکراہٹ مگر آنکھوں میں درد نمایاں تھا. ان کی اس بات کا دل و دماغ پر ایسا اثر ہوا کہ آج تک جب بھی کوئی اذیت گھیرتی ہے اور اندر ذرا سی بھی شکایت پیدا ہوتی ہے تو اچانک ان سندھی استاد کا چہرہ چشم تصور میں ابھر آتا ہے اور زبان سے بے ساختہ نکلتا ہے "الحمدللہ". اللہ پاک انہیں اس خوبصورت بات سیکھانے پر بہترین اور مسلسل اجر عطا فرمائیں آمین. کب کون سی بات سننے والے کے لاشعور میں گھر کر جائے؟ ہم نہیں جانتے. لہٰذا خیر کی بات خوبصورت انداز سے ضرور دوسروں کو پہنچائیں. خاص کر بچوں کو تو بہت ہی پیار اور حکمت سے ایسی خیر کی ترغیب دیتے رہنا چاہیئے. کیا معلوم کل کون سی بات ہمارے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہو؟
.
====عظیم نامہ====

دو خواہشات کا ٹکرائو


دو خواہشات کا ٹکرائو


ہر مرد اور ہر عورت اسمارٹ نظر آنا چاہتے ہیں۔ موٹاپا یا اپنا بھدا جسم کسے پسند ہے؟ بلکہ اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہو کہ فربہ افراد کی اکثریت اپنے موٹاپے سے شدید نفرت رکھتی ہے اور اس سے چھٹکارے کیلئے مختلف حیلے کرتی رہتی ہے۔ اس کا تو پھر بھی امکان ہے کہ کسی فرد کو مخالف جنس کا موٹا ہونا پسند ہو مگر اپنے لیئے موٹاپا اسے بھی پسند نہیں ہوگا۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ جو تیس پینتیس کی دہلیز پار کرچکے ہیں، اسی موٹاپے کا شکار ہیں؟ طرح طرح کی مشقیں، نت نئی ورزشیں اور یوگا سیکھانے والو کی بھرمار ہے مگر پھر بھی ۔۔۔ موٹاپا ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔ کیوں؟ 🤔 ۔۔۔ کہتے ہیں کہ ایک معروف بھاری بھرکم اداکارہ نے موٹاپا کم کرنے کیلئے گھڑسواری شروع کی ہے۔ اس سے وزن تو کم ہوا ہے مگر گھوڑے کا۔ ایک اور صاحب فراست بتا رہے تھے کہ بس دو ہی چیزیں مرتے دم تک ساتھ دیتی ہیں۔ پہلا آپ کا سایہ اور دوسرا موٹاپا۔
۔
مذاق برطرف مگر ہمارے نزدیک دبلا ہونے کی شدید خواہش رکھتے ہوئے بھی کسی کا موٹاپا کم نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب ایک ہی ہے۔ اور وہ سبب یہ کہ اس شخص میں کھانے پینے کی خواہش اسمارٹ بننے کی خواہش سے بہت زیادہ ہے۔ یہ دراصل دو خواہشات کا ٹکرائو ہے جو آپ کے اسمارٹ بننے نہ بننے کا فیصلہ کرتا ہے۔ جس تصادم میں آپ نے ایک کا انتخاب کرنا ہے اور دوسرے کی بڑی حد تک قربانی دینی ہے۔ گویا جس میں اسمارٹ ہونے کی خواہش زیادہ قوی ہوگئی وہ کھانے پینے کی قربانی دے ڈالے گا۔ جب کہ جو بریانی، حلیم، چاکلیٹ، ربڑی کا رسیا ہے اسے اپنی اسمارٹ بننے کی خواہش پر صبر کرنا پڑے گا۔ یہ بظاہر سادہ بات دراصل بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اگر مجھے یا آپ کو وزن کم کرنا ہے تو پہلے خود کو اس ذہن سازی سے گزارنا ہوگا۔ اسمارٹ بننے کی خواہش کو اتنا بھڑکانا ہوگا کہ کھانے پینے یعنی چٹخارے کی رغبت اس کے سامنے ماند پڑجائے۔ ورنہ آپ چاہ کر بھی وزن یا تو کم نہیں کر پائیں گے یا پھر کم کرکے واپس موٹے ہوتے چلے جائیں گے۔
۔
====عظیم نامہ====

مذہبی اصطلاحات

مذہبی اصطلاحات


غامدی صاحب کے افکار سے کسی کو لاکھ اختلاف ہو، ایک بات تو ہم سب کو ماننا ہوگی کہ غامدی صاحب ان مذہبی اصطلاحات کو عوام میں لے آئے ہیں جو کبھی صرف مخصوص علماء کی علمی محافل میں مستعمل ہوا کرتی تھیں. حد تو یہ ہے کہ عوام اب ان اصطلاحات کو مذہبی ہی نہیں بلکہ غیر مذہبی گفتگو میں بھی خوب استعمال کرتے ہیں. سمجھنے کیلئے یہ فرضی مثالیں دیکھیئے:
.
ایک خاتون اپنے شوہر سے دوران بحث کہتی ہیں: "میں نے تو آپ پر دلیل سے "اتمام حجت" کردیا ہے، باقی اب آپ کی مرضی"
.
ایک شوہر اپنی بات کے اختتام پر بولے "بیگم یہ میری "عاجزانہ" اور "طالبعلمانہ" رائے ہے"
.
ایک صاحب نے انٹرنیٹ پر اپنی سمجھ سے ملتی جلتی بات پڑھی تو کہا "مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میرا "متبادل بیانیہ" اتنا مقبول ہوگیا ہے!"
.
ایک تیرہ سالہ بچے سے اس کے والد نے پوچھا کہ تمہارے پاس اپنی بات کا کیا ثبوت ہے؟ تو وہ بولا "اسکی گواہی میرا "وجدان" اور میری "فطرت" دیتے ہیں"
.
ایک دوست دوسرے دوست کو سمجھا رہا تھا کہ "بھائی اس معاملے میں تو بحث کی گنجائش ہی نہیں ! یہ تو انسانیت میں "تواتر" سے چلی آرہی ہے."
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: بیان کردہ امثال حقیقی نہیں بلکہ فرضی ہیں جو بطور مزاح بات سمجھانے کیلئے بیان کی گئی ہیں)

اچھی اردو


اچھی اردو


ایک پرلے درجے کی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ مشکل ترین الفاظ کے استعمال کو اچھی اردو سے تعبیر کیا جائے۔ گویا لکھاری جملے میں ثقیل ترین الفاظ بناء موقع محل کا خیال کیئے اور حسن کلام کو مکمل نظر انداز کرکے شامل کرتا ہے۔ جسے قارئین کی ایک بڑی تعداد کچھ اردو زبان سے ناواقفیت کے سبب اور کچھ ادبی ذوق مفقود ہونے کے باعث خوب سراہتی نظر آتی ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ اردو سمیت کسی بھی زبان میں جب مضمون نگاری کی جاتی ہے تو بات کو موثر طور پر پہنچانے کیلئے کچھ ایسے ثقیل الفاظ شامل کیئے جاتے ہیں جو عام بول چال میں مستعمل نہیں ہوتے۔ مگر اس استعمال میں اگر جملے اپنا حسن کھو دیں یا پھر بیان کردہ مضمون اپنے معنی ہی گنوا بیٹھے تو یہ تحریر و مصنف کی ایس صریح ناکامی ہے جو احقر درجے میں بھی باعث توصیف نہیں۔ گویا اچھی اردو فقط ثقیل الفاظ کا انبار لگادینا نہیں ہے بلکہ مضمون کو خوبی و حسن کے ساتھ قاری یا سامع تک پہنچانا ہے۔
۔
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
۔

====عظیم نامہ====
۔
(نوٹ: راقم کو ہرگز اردو دان ہونے کی خوش فہمی نہیں ہے مگر اس خوبصورت زبان کے طالبعلم کی حیثیت سے یہ ہمارا احساس تھا جو درج کردیا ہے۔ یہ تحریر چند منٹوں کی کاوش ہے اور اس میں کچھ ثقیل الفاظ دانستہ طور پر داخل کیئے گئے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ کچھ قارئین کیلئے یہ الفاظ اجنبی ہوں مگر امید ہے کہ مضمون و مقصد وہ پھر بھی سمجھ جائیں گے۔ عجب نہیں کہ ساتھ ہی سیکھنے والو کو نئے الفاظ بھی میسر آجا
ئیں۔)

ملک کی بربادی کی وجہ یہ غریب ہیں

ملک کی بربادی کی وجہ یہ غریب ہیں


"عظیم بھائی ۔۔ ہمارے ملک کی بربادی کی وجہ یہ غریب ہیں"
۔

میں یہ سن کر چونک گیا۔ ہم اس وقت شہر کراچی کے ایک مہنگے ترین ریسٹورنٹ میں براجمان تھے۔ میرے سامنے بیٹھا دوست ایک کامیاب ترین کروڑ پتی بزنس مین تھا۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ نرم دلی سے کئی غریب گھرانوں کا کفیل بنا ہوا ہے، کئی بے سہاروں کا سہارا ہے اور کئی فلاحی کام اسی کے دم سے چل رہے ہیں۔ آج جب ملاقات ہوئی تو وہ بجھا بجھا تھا۔ وجہ پوچھی تو پھٹ پڑا۔ "عظیم بھائی ۔۔ ہمارے ملک کی بربادی کی وجہ یہ غریب ہیں"۔
۔
میں سٹپٹایا اور قدرے درشت لہجے میں اسے جھڑکتے ہوئے پوچھا کہ ایسا کیوں کہتے ہو؟ ، اب اس نے دکھی لہجے میں بتایا کہ اس نے شہر کے پوش علاقے میں ریسٹورنٹ کھولنے کیلئے ایک دکان آٹھ نو کروڑ میں خریدی مگر افتتاح ہوتے ہی دکان کے عین سامنے ایک شخص غیرقانونی طور پر ٹائر پنکچر کی دکان کھول کر بیٹھ گیا ہے۔ جس سے ریسٹورنٹ کی جاذبیت اپنے ممکنہ کسٹمرز کیلئے آدھی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس پنکچر والے کو اس نے کئی بار سمجھانا چاہا مگر اس کا جواب یہ ہے کہ میں نہیں ہٹوں گا، جو چاہے کرلو۔ اس کے اس اعتماد کی وجہ وہ رشوت ہے جو وہ ماہانہ پولیس والو کو دیتا ہے اور وہ بھتہ ہے جو وہ علاقے کے غنڈوں کو ادا کرتا ہے۔ اب ہمارا وہ دوست شدید پریشان تھا کہ اس غریب کے غیرقانونی قبضے سے وہ کیسے جان چھڑائے؟ اس نے بتایا کہ ماضی میں ایک بڑی دکان اس نے اسی لیئے چھوڑ دی تھی کہ اس کے سامنے گنے کے جوس والے آبیٹھے جن کی کسی بڑے بدمعاش سے سیٹنگ ہونے کے سبب وہ نجات حاصل نہیں کرپایا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر دوست بولا کہ یہ پیسہ میں نے دن رات محنت سے کمایا ہے۔ یہ کروڑوں میں نے حرام سے نہیں کمائے۔ آج جب اپنی انویسٹمنٹ کے ساتھ یہ زیادتی دیکھتا ہوں تو بہت دل کرتا ہے کہ ملک ہی ہی چھوڑ جاوں اور کسی مہذب جگہ اپنی جمع پونجی لگاوں۔ جہاں کم از کم غربت کے نام پر ہونے والی اس غنڈہ گردی سے محفوظ ہوسکوں۔
۔
میں اس کی یہ انوکھی پریشانی سن کر سوچ میں ڈوب گیا۔ میں اب اسکے جملے میں چیختی اسکی فرسٹریشن کو سمجھ پارہا تھا۔ واقعی میں نے آج تک اس زاویئے سے کبھی نہ سوچا تھا۔ میرے نزدیک تو غریب طبقہ ہر حال میں مظلوم اور امیر و متمول طبقہ ظلم کا استعارہ تھا۔ مانا کہ غریب کو کاوبار کا حق ہے مگر کسی امیر کے لیئے بھی یہ حق ہر ملک قبول کرتا ہے کہ اسکی جائز انویسٹمنٹ کو کسی غریب سمیت کوئی بھی غیرقانونی طور پر نقصان نہ پہنچاسکے۔ غریب کے حقوق کی پامالی کا تو ہم سب رونا روتے ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم غریب کو اسکی غربت کے سبب یہ اختیار دے دیں کہ وہ کسی امیر شہری کے حقوق کو پامال کرسکے؟ آج مجھ پر منکشف ہوا تھا کہ امیر و غریب کے درمیان تنازع میں ایک امکان یہ بھی ہے کہ امیر مظلوم ہو اور غریب ظالم۔ آج میں نے جانا تھا کہ کاروباری بھی اس شہر میں وہی زیادہ کامیاب ہے جو امیر ہونے کے ساتھ بدمعاشی بھی جانتا ہو۔
۔
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: وہ دوست رشوت اور بدمعاشوں کا سہارا نہیں چاہتا. مگر ان حالات میں خود کو مجبور پارہا ہے کہ وہ بھی غنڈوں اور کرپٹ پولیس والو کا سہارا لے)

کیا تعلیم واقعی انسان کو بزدل بنادیتی ہے؟


کیا تعلیم واقعی انسان کو بزدل بنادیتی ہے؟


سوچتا ہوں کہ کیا تعلیم واقعی انسان کو بزدل بنادیتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ تعلیم سے عاری افراد میں بہادری و جی داری کہیں زیادہ نظر آتی ہے؟ تعلیم یافتہ افراد بھی کرپشن سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہوتے ہیں مگر جرائم پیشہ افراد کے وہ گینگز جن میں جان جانے کا بھرپور اندیشہ ہو ان میں آپ کو جاہل افراد ہی نظر آتے ہیں۔ اگر گنتی کے چند پڑھے لکھے شامل بھی ہوں تو وہ منصوبہ ساز، لیڈر یا ٹیکنالوجی ایکسپرٹ بن کر پس پردہ بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر فوج کی مثال لیں تو زمانہ قدیم سے لے کر دور حاظر تک صف اول کے دستوں میں جو سپاہی گولوں اور گولیوں کا سب سے پہلے سامنا کرتے ہیں وہ جاہل یا کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں کچھ انہیں رنگروٹ بھی پکارتے ہیں۔ قدیم تاریخ انسانی میں بھی جن افواج نے حیرت انگیز جنگی فتوحات حاصل کی ان کی ایک بڑی تعداد جاہل یا کم تمدن یافتہ تھی۔ پھر وہ افغانستان کے تاتاری ہوں یا ہندوستان کے پنڈاری - سب ہی میں یہ قدر مشترک نظر آتی ہے۔ ہر ملک کی فوج میں سب سے بڑی تعداد ان دیہاتوں سے بھرتی ہوکر آتی ہے جہاں شرح خواندگی کم ہو۔ اسی طرح کسی بھی شہر کے پسماندہ و کم علم علاقوں کے افراد عمومی طور پر زیادہ غصیلے اور جان پر کھیل جانے والے ہوتے ہیں۔ جبکہ اسکے برعکس جو افراد پوش امیر علاقے میں بستے ہیں ان میں بزدلی یا نزاکت کا عنصر زیادہ چھلکتا ہے۔ ملک عزیز میں ان کو 'برگر بچے' کہہ کر لوگ دل لگی کیا کرتے ہیں۔ مالدار افراد میں بھی اگر ایک امیر ہونے کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ بھی ہو تو وہ اس دوسرے مالدار کی نسبت عموما زیادہ ڈرپوکی کا مظاہرہ کرتا ہے جو مال تو بہت رکھتا ہو مگر علوم حاظر سے مطلق جاہل ہو۔ (سمجھنے کیلئے قاری پہلے شخص کو کسی امیر اسٹاک مارکیٹ بروکر اور دوسرے کو کسی جابر وڈیرے کی صورت میں تصور کرسکتا ہے)
۔
اس بات کو سمجھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم میں ہر انسان اپنی نوجوانی میں زیادہ جوشیلا زیادہ بہادر ہوتا ہے۔ مگر جیسے جیسے علم، تجربہ اور عمر بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے یہ جوش درجہ بدرجہ ہوش میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ گویا جب علم و تجربہ عمر کیساتھ جہالت کو مٹانے لگتا ہے تو جوش اور جرات دونوں ہی کم ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ سب اسلئے ہے کہ شعور کی ترقی علم سے براہ راست منسلک ہے۔ جب انسان کو یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ اسکی جان کوئی ردی مال نہیں بلکہ نہایت قیمتی ہے، جب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اسکی صحت و سلامتی بہت اہم نعمت ہے اور جب اسے یہ ادراک ملتا ہے کہ انسان کو اس دار العمل میں ایک ہی موقع نصیب ہے تو پھر وہ ان تمام انمول چیزوں کیلئے نہایت محتاط رویہ اپناتا ہے اوراس کا خصوصی اہتمام رکھتا ہے کہ کسی کمتر مقصد کیلئے انہیں گنوا نہ بیٹھے۔ البتہ اگر اسے بعد از تحقیق کوئی برتر مقصد حاصل ہوجائے جیسے اخروی ابدی کامیابی یا ظلم کا خاتمہ یا اپنے گھر کا دفاع تو پھر وہ کسی جاہل سے بھی زیادہ شجاع اور جان کی پرواہ نہ کرنے والا ثابت ہوتا ہے۔ صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین کی جماعت اسی کی درخشاں مثال ہے۔
۔
====عظیم نامہ====
۔

(نوٹ: یہ تحریر راقم کا ایک احساس ہے جو عمومی مشاہدات پر مبنی ہے۔ استثنائی امثال بہرحال ہر دور میں پائی جاتی ہیں
)

تیزاب



میں الحمدللہ سخت ترین تنقید یا اختلاف کرتے ہوئے بھی گالی نہ دینے کا قائل ہوں. مگر جب میں تیزاب سے جھلسائے گئے ان چہروں کو دیکھتا ہوں تو خدا کی قسم دل کرتا ہے کہ ان خبیث مجرمین کو غلیظ ترین گالیاں دوں جنہوں نے یہ ظلم ڈھایا ہے. ان کے دانت توڑ کر انکے پیٹ میں اتار دوں، ان کی ایک ایک ہڈی چٹخا کر انہیں اپاہج کردوں، ان کی آنکھیں پھوڑ ڈالوں، ان کی کھال ان کے گوشت سے کھینچ نکالوں اور اسی جھلسا دینے والے تیزاب سے ان کے ہر حصے کو غسل دوں. یہ ایسا کریہہ جرم ہے جس کے سامنے قتل جیسا عمل بھی چھوٹا محسوس ہوتا ہے.











Image may contain: 5 people

کرارا جواب ملے گا !


کرارا جواب ملے گا !


میں زمانہ طالبعلمی میں کم و بیش دس برس ملکی سطح پر تقاریر کرتا رہا۔ بیشمار کو فن خطابت سیکھاتا رہا۔ جانتا ہوں کہ کب خطیب الفاظ کا جال بچھاتا ہے؟ اور کب مقرر جذباتیت سے سامعین کو گرفت میں لیتا ہے ؟ ۔۔ پوری سچائی سے کہتا ہوں کہ خان کی تقریر الفاظ و انداز کا ھیر پھیر نہیں تھی بلکہ اسکے دل کی آواز تھی۔ وہ کم از کم اپنے ارادے میں سچا ہے۔ البتہ اس ارادے پر کتنا فیصد عمل ممکن ہوسکے گا؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔ خان میں نے اس وقت بھی ووٹ تمہیں دیا تھا جب تم سارے ملک میں صرف ایک سیٹ جیتے تھے۔ میں نے اس وقت بھی تمہیں امید مانا تھا جب لوگ تمہیں اسلام دشمن، قادیانی، مسٹر یوٹرن، کوکین شاہ، میراثی، طالبان خان وغیرہ کے القاب دیتے تھے۔ اور میں آج بھی تمہیں ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھتا ہوں۔ میں اپنی طبیعت کی نرمی کے باوجود تم سے کسی نرمی کی امید نہیں رکھتا۔ میں مہذب کلامی کا مبلغ ہونے کے باوجود تمہارے لہجے کی کرختگی کو سراہتا ہوں۔ تم میٹھے بن کر دعوت دینے نہیں آئے ہو۔ تم کسی 'زیرک' سیاستدان کی مانند جوڑ توڑ کیلئے نہیں بنے ہو. تمھیں تو قصائی بن کر ان کرپٹ عناصر کے گلے پر چھری رکھنی ہے، تمہیں تو انہیں تکلیف دینی ہے، تمیں تو انہیں رلانا ہے، تمھیں تو ان سے لوٹا ہوا مال واپس لانا ہے. تمہارے مخالف چاہے تم پر کتنے ہی فقرے کسیں، تمیں اقتدار کا بھوکا قرار دیں .. میں ہمیشہ سے جانتا ہوں کہ اقتدار تمہاری منزل کبھی بھی نہیں تھی. بلکہ اقتدار کا حصول تو تمہاری منزل کی جانب آغاز تھا. یہاں تک جو تم شب و روز کی مسلسل جدوجہد، اذیت اور کردار کشی سے گزر کر پہنچے ہو یہ سب تو بس نقطہ آغاز تھا. نئے پاکستان کی اصل جنگ تو اب شروع ہوگی. گھمسان کا رن پڑنے والا ہے. جہاں تم روایتی سیاست کی طرح اپوزیشن سے دبے نہیں رہو گے بلکہ ہر تھپڑ کا جواب گھونسے سے دو گے. کرارا جواب ملے گا .. کرارا جواب ملے گا !
.
====عظیم نامہ====

.
(نوٹ: جو اسلوب سے ناواقف ہوں، انکے لئے عرض ہے کہ تھپڑ گھونسے کی مثال استعارہ ہے کہ 'کچھ لے کچھ دے' کی بجائے اپوزیشن کی کسی شرارت سے سختی سے نمٹا جائے گا)

اللہ اکبر

اللہ اکبر


احباب آپ سب کو میری جانب سے محبت بھری عید مبارک۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب واقف ہی ہونگے کہ مسلمانوں کو عید کے ان ایام میں بکثرت تکبیرات پڑھنے کا حکم ہے۔ یعنی مردوں کا بلند آواز سے اور خواتین کا دھیمے سے یہ پکارتے رہنا کہ "اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ لاالہ الاللہ ۔۔ اللہ اکبر ۔۔۔ اللہ اکبر ۔۔ وللہ الحمد۔ کبھی وجد کی سی حالت میں اور کبھی تفکر سے معمور ہوکر ان تکبیرات کا کہتے رہنا عبد کی زبان سے اپنے معبود کی بڑائی کا اعلان و اعتراف ہے۔ اللہ اکبر یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔ جب یہ بات الفاظ سے گزر کر قلب و ذہن میں جاگزین ہوتے ہیں تو پھر انسان کسی بھی معصیت کی کشش سے یہ سوچ کر بچ پاتا ہے کہ اللہ اکبر - اللہ سب سے بڑا ہے۔ وہ جب اس کائنات کے ناقابل یقین مظاہر اور ان میں پنہاں حکمت کا مشاہدہ کرتا ہے تو بے اختیار زبان حال سے پکار اٹھتا ہے اللہ اکبر - اللہ سب سے بڑا ہے۔
۔
پنج وقتہ فرض نمازیں ہوں یا پھر تہجد و قیام اللیل کی مانند نفل عبادات۔ سب میں ہر رکن سے قبل تکبیر کہی جاتی ہے۔ اگر کوئی رفع الیدین کا قائل ہو تو اور بھی زیادہ لیکن اگر نہ بھی ہو تب بھی نماز کی ابتداء سے لے کر رکوع میں جانے تک اور سجدہ ریز ہونے سے لے کر واپس حالت قیام میں لوٹنے تک ہر نمازی تکبیر یعنی اللہ اکبر پکارا کرتا ہے۔ یوں تو یہ نمازی کے ذوق و مزاج پر ہے کہ وہ اللہ اکبر - اللہ سب سے بڑا ہے ، کہتے ہوئے رب کی کبریائی کا کون سا منظر ذہن میں سجاتا ہے؟ وہ چاہے تو خدا بزرگ و برتر کی تخلیقات کو بھی سوچ سکتا ہے، وہ کلام اللہ کے حسن میں بھی کھو سکتا ہے اور وہ عرش عظیم کی ہیبت بھی محسوس کرسکتا ہے۔ مگر راقم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب جب دوران نماز یہ پکارتا ہے کہ اللہ اکبر - اللہ سب سے بڑا ہے تو سب سے پہلے یہ محسوس کرتا ہے کہ اللہ ان خیالات سے بھی بڑا ہے جو ٹھیک اسی وقت اسکےذہن میں وارد ہورہے ہوتے ہیں۔ اس کا یقینی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ذہن کی تختی پر موجود ہر وہ دنیاوی خیال جو ماسوائے اللہ ہو غائب ہوجاتا ہے اور رب کے سامنے حضوری کی کیفیت غالب آجاتی ہے۔ یوں دوران نماز ہر تکبیر پر ممکنہ تطہیر ہوتی رہتی ہے اور خشوع بڑھ جاتا ہے۔ آزمودہ ہے ، اب قارئین میں سے کوئی چاہے تو بلعموم کبھی بھی اور بلخصوص دوران نماز اس کا تجربہ کرسکتا ہے۔ ان شاء اللہ۔
۔
====عظیم نامہ====

مارکیٹ ریسرچ

مارکیٹ ریسرچ


والد صاحب ریٹائر ہوئے تو انہوں نے بڑی چاہ سے ایک سپرمارکیٹ کھول لی. انہوں نے اپنی اس دکان کو خوب سجایا. اس میں دواؤں سے لے کر کھلونوں تک اور بیوٹی پروڈکٹس سے لے کر آئسکریم تک سب ہی موجود تھا. کچھ ماہ کے بعد جب پہلی عید آئی تو ہم نے ارادہ کیا کہ دکان پر عیدکارڈز بھی رکھے جائیں. چانچہ میں اپنے والد کے ہمراہ ھول سیل مارکیٹ گیا اور خوب وقت لگا کر بہترین اور جاذب نظر عید کارڈز خرید لایا. ہم دونوں باپ بیٹے کو یہ کامل یقین تھا کہ ہم سے خوبصورت عید کارڈز اس علاقے میں موجود نہیں ہیں. لہٰذا ہم پرامید تھے کہ خوب فروخت ہوگی. مگر یہ دیکھ کر ہماری توقع پر اوس پڑگئی کہ دس روز گزرنے کے بعد صرف دو چار کارڈز ہی فروخت ہوسکے. اس کے برعکس ہماری مقابل دکانوں میں عید کارڈز خوب فروخت ہوئے. میں خفگی و حیرت کی حالت میں دیگر دکانوں کا جائزہ لینے نکلا تو یہ دیکھ کر مزید صدمہ ہوا کہ ان کے پاس جو کارڈز موجود تھے وہ ہماری سوچ کے مطابق کسی طرح بھی معیاری نہ تھے. کسی پر بڑا سا دل بنا ہوا تھا جس میں سے تیر آر پار تھا اور خون ٹپک رہا تھا. کسی میں ایک حسینہ کی تصویر تھی اور اس کے سر پر ایک کبوتر چونچ میں پھول دبایا اڑ رہا تھا. کسی پر ایسے سطحی اشعار لکھے ہوئے تھے جو اکثر پیار میں دھوکہ کھائے ہوئے ٹرک والے لکھ لیا کرتے ہیں. لیکن اس سب کے باوجود یہی کارڈز اس علاقے کی عوام میں خوب مقبول تھے اور خریدے جارہے تھے. اس دن مجھے احساس ہوا کہ کاروبار میں کبھی بیٹھ کر اندازہ نہ لگاؤ . بلکہ ہمیشہ مارکیٹ ریسرچ کرو اور دیکھو کہ تمہارے متوقع گاہک کس قسم کی پسند رکھتے ہیں؟ بہت امکان ہے کہ مارکیٹ پر تحقیق آپ کے اندازوں کو مکمل مسمار کردے.
.
====عظیم نامہ====

فیس بک کی رنگ برنگ دنیا


فیس بک کی رنگ برنگ دنیا


فیس بک کی اس رنگ برنگ دنیا میں کچھ مولانا حضرات نے اسلئے مقبولیت حاصل کی کہ وہ بہت خوبی سے دین کے دقیق موضوعات کو بیان کرنے پر قادر ہیں۔ کچھ دیگر مذہبی رجحان والو نے ہزاروں فالوورز کو اپنی جانب اسلئے متوجہ کرلیا کہ وہ ملحدین کی جانب سے دین پر اٹھائے گئے اعتراضات اور شبہات کو دلیل سے دور کردیتے ہیں۔ کچھ لکھاری اسلئے سراہے گئے کہ وہ سائنس و فلسفہ آسان طریق سے سمجھا دیا کرتے ہیں۔ کچھ لکھنے والے اپنے بہترین ادبی ذوق کے سبب پہچانے جانے لگے۔ کچھ طنز و مزاح لکھنے اور کچھ اعلیٰ شاعری کہنے میں اپنا نام کرگئے. کچھ ایسے بھی ہیں جو تاریخ انسانی کے مختلف واقعات بتاکر سینکڑوں قارئین کو اپنا مداح بناچکے ہیں۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔
۔
مگر پچھلے سال دو سال میں جو ملکی سیاست میں ہلچل رہی۔ شائد اس کے سبب یا پھر زیادہ مقبولیت کے حصول کی خاطر یہ مختلف فیلڈز میں مہارت رکھنے والے لکھاری دانستہ یا نادانستہ فقط سیاسی مبصر بن بیٹھے ہیں۔ مجھ سمیت ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن کی سیاسی بصیرت کسی گلی محلے کے کونے پر بیٹھے چچا میاں سے زیادہ نہیں ہے۔ مگر چونکہ یہ الفاظ سے کھیلنا جانتے ہیں اور سوشل میڈیا کی شکل میں انہیں ایک طاقتور پلیٹ فارم میسر ہے، اسلئے بہت بار ایک سطحی بات کو بھی ماہرانہ تجزیئے کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ جن شعبوں میں ان کی مہارت رہی ہے، جس میں انہوں نے زندگی گزاری ہے اور جن پر لکھنے کی وجہ سے ہزاروں فیس بک فالوورز ان سے منسلک ہوئے تھے۔ آج وہ ان شعبوں یا موضوعات پر خال خال ہی قلم اٹھاتے ہیں۔ ان کا اب سارا زور بس اسی سیاسی بکھیڑے کے بیان پر رہتا ہے۔ یوں ہم ان قیمتی مضامین سے آج محروم ہیں جو وہ کبھی لکھا کرتے تھے اور جنہیں پڑھ کر قاری کی غیرمحسوس تربیت ہوتی تھی۔ ضرورت ہے کہ ہم لکھاری اس غلط روش کا ادراک کریں اور سیاسی تبصروں سے کہیں زیادہ ان موضوعات پر بھی مضامین لکھیں جن کی تحقیق پر فی الواقع ہم نے ایک عمر لگائی ہے۔
۔
====عظیم نامہ====

عظیم

عظیم 


وہ ہم سے کہنے لگے کہ آپ کے ابا نے یہ سیاست کی ہے جو آپ کا نام "عظیم" رکھ دیا اور یوں آپ ان چند خوش نصیب شوہروں میں شامل ہوگئے جن کی بیگم انہیں "عظیم" کہنے پر مجبور ہیں۔
۔
ہم نے کہا کہ بھئی بات تو آپ کی درست ہے۔ اس ضمن میں ہم بھی ابا حضور کے معترف ہیں۔ مگر جو ہم ان کی جگہ ہوتے تو نام "سرتاج" رکھ دیتے۔ گویا سلام ہے سابق وزیر خارجہ "سرتاج عزیز" کے والد بزرگوار کی دوراندیشی کو۔ 😎
۔
====عظیم نامہ====

دو احمق


دو احمق 


ایک انگریزی مقولے کے مطابق جب آپ کسی احمق سے بحث کرتے ہیں تو جلد ہی آپ سمیت دو احمق ہوجاتے ہیں۔ پھر اس پر ستم یہ کہ پہلا احمق حماقت میں زیادہ تجربے کے سبب آپ سے جیت بھی جاتا ہے

توہین آمیز کارٹونوں پر ردعمل



توہین آمیز کارٹونوں پر ردعمل

۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

۔
اقبال نے کس خوبی سے ہمیں یہ حقیقت سمجھا دی ہے کہ ہمیشہ سے کمزور کو طاقتور نے کچلا ہے۔ پھر وہ انسان ہو یا عالم حیوانات - کوئی فرق نہیں پڑتا۔ survival of the fitest کل بھی جاری تھا، آج بھی جاری ہے اور ہمیشہ یونہی جاری رہے گا۔ طاقتور ساتھ میں انصاف پسند بھی ہو؟ ایسا تاریخ انسانی میں کم ہی ہوا ہے. لہٰذا طاقتور کو کوسنے دینے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اپنی کمزوری دور کی جائے. خود کو دانستہ کمزور رکھنا اور طاقتور بننے کے مواقع سے استفادہ نہ کرنا خودکشی کے مترادف اور ناقابل معافی جرم ہے۔ پھر فرد کے جرم کو تو پھر قدرت کبھی نظر انداز کردیتی ہے مگر اقوام کے جرائم کا بدلہ لازمی لیا جاتا ہے. جیسے اقبال ہی نے کہا:
.
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

.
پچاس سے زائد ممالک پر حکومت کے باوجود مسلم دنیا کی بین الاقوامی سطح پر مسلسل ذلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ جی۔8 ہو، جی-7 ہو، جی-5 ہو یا پھر اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم۔ ہماری مرضی تو دور ہماری رائے پوچھنا بھی اکثر گوارا نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں ہماری کیفیت شادی ہال میں رکھے اس ڈھول جیسی ہے جسے ہر آتا جاتا باراتی بجا جاتا ہے. یا پھر اس فٹبال کی مانند جو راستے میں پڑی ہے اور جسے ہر چھوٹا بڑا لات مار کر ادھر سے ادھر پھینکے دیتا ہے. ہالینڈ نے آزادی رائے کی دلفریب نقاب میں ایک بار پھر آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے توہین آمیز کارٹونوں کا پلید عمل دہرانا چاہا ہے. جو ہر امتی کیلئے دلی اذیت کا سبب ہے. ایک بار پھر عوام میں غم و غصہ ہے. کوئی مذمت کر رہا ہے، کوئی ریلی نکال رہا ہے، کوئی ایمبیسی بند کرنا چاہتا ہے اور کوئی ان کی درآمدات کے بائیکاٹ کا نعرہ بلند کررہا ہے. تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ آج ہم کمزور ہیں بلکہ بیغیرتی کے ساتھ ان ہی اقوام کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں. امداد کے نام پر ہم ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان سے بھیک مانگتے ہیں اور بھکاری کی عزت نفس کو کون دیکھتا ہے؟
.
اس دگرگوں صورتحال میں ہم یہی پھسپھسا سا احتجاج کرسکتے ہیں. کوسنے دے سکتے ہیں. کسی تازہ بیوہ کی مانند بددعائیں دے سکتے ہیں. راقم کے نزدیک اگر مسلمان فی الواقع ایسی ہرزہ سرائیوں پر روک لگانا چاہتے ہیں تو جب تک خلافت کی مانند مسلمانوں کا کوئی نظم اجتماعی تشکیل نہیں پاتا تب تک انہیں تین کام کرنے چاہیئے.
.
١. ہر اس فرد یا گروہ کو روکا جائے جو احتجاج کے نام پر املاک کو نقصان پہنچائے یا کسی غیر مسلم بے گناہ پر وار کرے یا اور کسی بھی قسم کی جہالت اختیار کرے. ایسا کوئی بھی جذباتی اقدام مزید تخریب کا سبب بنتا ہے.
.
٢. مسلم ممالک کی عوام اپنے اپنے ممالک کی حکومتوں پر مسلسل زور ڈالیں کہ وہ 'او-آئی-سی' کے پلیٹ فارم پر یکجا ہوکر ایسے غیر مسلم ممالک کی سرزنش کریں جو توہین آمیز خاکے بناتے ہیں. پھر چاہے وہ مشترکہ طور پر ان کی پروڈکٹس کا بائیکاٹ ہو یا دیگر تجارتی معاہدوں کا منقطع کرنا. ہر ممکن دباؤ ڈالا جائے. (اس وقت تو یہ حال ہے کہ مسلمان ممالک کی یہ تنظیم اپنے نام کی طرح ہر مشکل پر Oh I see کہہ کر خاموش ہوجاتی ہے)
.
٣. دنیا بھر کے علمی پلیٹ فارمز پر اس موضوع کو اٹھایا جائے اور فریڈم آف اسپیچ کے نام پر مغرب کی جانب سے اپنائی گئی منافقانہ پالیسی پر کڑی علمی تنقید کی جائے. جہاں ایک جانب ہولوکاسٹ سمیت دیگر موضوعات پر گفتگو جرم قرار پاتا ہے اور دوسری جانب اس پاکیزہ شخصیت کے اوپراوچھے حملے کیئے جاتے ہیں جو کروڑوں لوگوں کو اپنی اولاد، والدین اور جان سے زیادہ عزیز ہے. اس کوشش میں ان غیر مسلم مفکرین کو بھی ساتھ ملالیا جائے جو مسلمانوں کے موقف کو درست سمجھتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

اللہ تعالیٰ سارا وقت کیا کرتے ہیں؟


اللہ تعالیٰ سارا وقت کیا کرتے ہیں؟ 


سوال:
عظیم بھائی میرے چھوٹے سے بھتیجے نے مجھ سے پوچھ لیا کہ اللہ تعالیٰ سارا وقت کیا کرتے رھتے ھیں؟ میں نے اسے تو مختلف باتیں کرکے مطمئن کردیا مگر میں خود مطمئن نہیں برائے مہربانی مجھے مزید اس حوالے سے بتائیں.
.
جواب:
ہمارے پاس ظاہر ہے کہ رب کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں ہے کہ وہ صبح کیا کرتے ہیں، دن میں کیا کام انجام دیتے ہیں اور شام رات کو انکی کیا مصروفیات ہوتی ہیں؟ زمان اور مکان کی قیود میں جکڑے انسان میں یہ استعداد بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی محدود سمجھ سے لامحدود کا ادراک کرسکے. اسی طرح یہ فقط معبود کو شایاں ہے کہ وہ اپنے عبد کی نقل و حرکت پر مکمل نظر رکھے. مخلوق کی یہ بساط نہیں کہ وہ اپنے خالق کی مصروفیات کا احاطہ کرنے کا تقاضہ کرے. البتہ چند اشارے ایسے ضرور موجود ہیں جن سے ہم رب العزت کی 'کچھ' مصروفیات کے بارے میں جان سکتے ہیں. یہ اشارے ہمیں خدا کے واحد حتمی ریکارڈ یعنی قران حکیم سے حاصل ہوتے ہیں.
.
رب کریم نے اپنا تعارف 'رب زمین' کہہ کر نہیں کروایا بلکہ 'رب العالمین' کے طور پر دیا. گویا اللہ پاک صرف اس دنیا کے رب نہیں بلکہ دنیاؤں کے رب ہیں. اب دنیاؤں سے مراد کیا ہے؟ یہ صیغہ راز میں ہے اور اس پر متعدد اقوال موجود ہیں. کچھ کے نزدیک یہ اشارہ ہے کہ ہماری اس دنیا میں ہی مختلف مخلوقات کی دنیائیں آباد ہیں. جیسے عالم انسان، عالم حیوانات، عالم نباتات، عالم جمادات، عالم جنات وغیرہ. کچھ کے نزدیک یہ عالم امر اور عالم خلق کی نشاندہی ہے. کچھ کے نزدیک یہ متوازی دنیاؤں یعنی پیرالیل یونیورسز کی تھیوری کو تقویت دیتا ہے اور کچھ کے لئے یہ دیگر کہکشاؤں میں موجود سیاروں پر زندگی کا استعارہ ہے. ان میں سے کوئی ایک تشریح ٹھیک ہو یا تمام امکانات یکجا ہوکر ایک حقیقت کا حصہ ہوں. دونوں ہی حوالوں سے ان دنیاؤں کے نظم و نسق کو بطور رب چلانا اور پالنا اللہ پاک ہی کی شان ہے.
.
اسی طرح اللہ پاک نے اپنے صفاتی ناموں سے اپنا تعارف ہمیں دیا ہے. ان کی ہر ہر صفت جیسے المنتقم سے لے کر القابض تک ہر لمحے مختلف شان سے جلوہ گر ہے. مثال کے طور پر وہ الخالق ہیں اور ہر لمحے کائنات کو مختلف تخلیفی مراحل سے گزار رہے ہیں. جیسے اقبال نے کہا
.
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کُن فیکون
.
ایک اور بات جو رب ارض و سماء نے اپنے بندوں کو بتائی ہے وہ یہ کہ اس نے ہمیں بے یار و مددگار نہیں چھوڑا ہے بلکہ وہ ہماری دعاؤں کو سنتا اور اسے قبول کرتا ہے. لہٰذا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
.
"جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ۔" (٢:١٨٦)
.
یہ وہ چند اشارے ہیں جو راقم نے اپنی یادداشت سے درج کردیئے ہیں. ایسے ہی کئی اور اشارے کلام پاک سے ہمیں حاصل ہوسکتے ہیں. گو جسے ابتداء ہی میں عرض کیا کہ رب کریم کی مصروفیات کا احاطہ کسی طور ممکن نہیں اور نہ ہی ہماری ایسی مجال ہے.
.
====عظیم نامہ====

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی


بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی


ایک احساس، ایک سوچ، ایک دکھ نے مجھے ایک عرصے سے اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے. اب سوچتا ہوں کہ آپ سے آپ کی رائے جان لوں؟ شائد آپ بات سمجھنے میں میری مدد کرسکیں؟
.
وطن عزیز میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے لاتعداد واقعات اس سوال کو پیدا کرتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں؟ کیوں پاکستان میں مدارس سے لے کر اسکولوں تک اور شہروں سے لے کر دیہاتوں تک معصوم بچوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ میں خوب واقف ہوں کہ دنیا بھر میں ایسی بیمار مجرمانہ ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی شہوت کی تسکین کیلئے بچوں کو پامال کردیتے ہیں. مگر اعداد و شمار سے اب یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے وطن عزیز میں یہ غلاظت عموم سے کہیں زیادہ ہے. جیسے اسپین میں ہم جنس پرستی عروج پر ہے یا جس طرح پڑوسی ملک بھارت میں عورتوں کو ریپ کرنے کا تناسب بہت ہے ویسے ہی پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کا تناسب اکثر ممالک سے زیادہ نظر آتا ہے. کیوں ؟ وہ کیا عوامل ہیں جن سے اتنی بڑی تعداد کو ان معصوم فرشتوں کو پامال کرنے کا شوق ہوگیا ہے؟
.
دھیان رہے کہ فی الوقت ہمارے پیش نظر بچوں پر ہونے والا جسمانی تشدد نہیں ہے. وہ اپنے آپ میں ایک بڑا مسئلہ ہے. اس وقت فوکس صرف بچوں سے جنسی ہوس پوری کرنے والے وہ درندے ہیں جو ملک میں مذہبی، لبرل، امیر، غریب - ہر بھیس میں موجود ہیں. میں نے کراچی، لاہور، اسلام آباد، پنڈی، پشاور سمیت ملک کے بیشتر شہروں کو دیکھ رکھا ہے اور ان کے لوگوں سے ملتا رہا ہوں. میں شدید دکھ سے اعتراف کرتا ہوں کہ یہ خبیث وباء قریب قریب پاکستان کے ہر علاقے میں نظر آئی. کہیں کم، کہیں زیادہ اور کہیں بہت زیادہ. کیوں ؟ اگر کسی کے نزدیک وجہ جہالت ہے تو پھر ہر اس ملک میں یہ خباثت اتنی ہی ہونی چاہیئے تھی جہاں تعلیم کی شرح کم ہو. اگر کسی کے نزدیک وجہ معاشرے میں مذہبی پابندیاں ہیں تو پاکستان سے زیادہ مذہبی معاشروں میں یہ کریہہ عمل ہم سے کم کیسے ہے؟ اگر کسی کے نزدیک وجہ مغربی فحاشی کا عام ہونا ہے تو پھر مغرب خود کیوں اس گھٹیا پن سے ویسا متاثر نہیں جیسا ہمارا ملک ہے؟
.
آپ بتایئے .. آپ کیا کہتے ہیں ؟ بیماری کا علاج اسی وقت ممکن ہے جب اس کے محرکات کی نشاندہی ہو.
.
====عظیم نامہ====

نبوی ڈائٹ


نبوی ڈائٹ

.
١. سادہ ترین خوراک کھانا
٢. خوراک میں صحت بخش غذاؤں جیسے کھجور، دودھ، زیتون، شہد وغیرہ کا استعمال کرنا
٣. صرف اس وقت ہی کھانا جب خوب بھوک محسوس ہو اور اسوقت کھانا چھوڑ دینا جب بھوک کچھ باقی ہو
٤. کبھی چند نوالوں پر ہی اکتفاء کرنا اور کبھی معدے کو تین حصوں میں بانٹ کر ایک حصہ کھانا، دوسرا حصہ پانی پینا اور تیسرا حصہ خالی رہنے دینا
٥. ہر ہفتے کم از کم دو روز یعنی پیر اور جمعرات کا روزہ رکھنا. اس کے علاوہ بھی کثرت سے نفلی روزے رکھنا
٦. سال میں ماہ رمضان میں لگاتار تیس روزے رکھنا
٧. روزہ نہ ہو تو دن میں کبھی تو صرف ایک بار اور کبھی دو بار مختصر سا سادہ و صحت بخش میسر کھانا تناول کرنا
٨. چھوٹے لقمے بنا کر سکون سے چبا کر کھانا اور اطمینان سے کئی گھونٹ میں پانی پینا
٩. گوشت کھانے کو معمول نہ بنانا بلکہ کبھی کبھار گوشت تناول کرنا
١٠. میسر خوراک کو لوگوں کے ساتھ بانٹ کر کھانا
١١. روزمرہ کی ورزش کیلئے چلتے ہوئے سکون کے ساتھ نہایت تیز رفتار رکھنا
١٢. فٹ نس ایسی برقرار رکھنا کہ 'ماؤنٹین کلائمبنگ' یعنی پہاڑ کی چوٹی پر موجود غار حرا جاتے رہنا
.
یہ ہمارے محبوب و محسن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی کے ایک حصے کی مختصر جھلک ہے. دل پر ہاتھ رکھ کر کہیئے گا کہ کیا اگر ہم مسلمان اپر درج باتوں پر عمل کرلیں تو پھر کسی اور ڈائٹ پلان کی حاجت یا گنجائش باقی رہتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہم اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ ہماری زبان داڑھی و مسواک یا عمامہ و عطر ہی کو صرف سنت کیوں بیان کرتی ہے؟ حالانکہ سنت تو کم کھانا اور خود کو فٹ رکھنا بھی ہے؟ عام مسلمانوں میں خود میں اس کا مجرم ہوں کہ ایک فٹ جسم کی بجائے نہایت فربہ جسم رکھتا ہوں. ہر وہ مولوی بھی اس کا مجرم ہے جو داڑھی و عمامہ کی سنت کو تو اپناتا ہے مگر اپنے بے ڈول جسم یا بے حساب خوراک کو قابو کرنے کی کوشش نہیں کرتا.
.
نوجوانی میں جو ہیرو مجھے فٹ نس میں سب سے زیادہ آئیڈیل لگتا تھا، اس کا نام ہے 'جین کلاڈ وین ڈیم'. کچھ دنوں پہلے اس کا ایک ویڈیو انٹرویو دیکھنے کو ملا. جس میں جب اس سے اسکی فٹ نس کا راز پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ مسلمانوں کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈائٹ اپنا لو. افسوس کہ جو بات مجھ جیسے کوڑھ مغز مسلمان کو نہ سمجھ آئی، اسے ایک غیرمسلم نے سمجھ لیا. ویڈیو لنک پہلے کمنٹ میں موجود ہے.
.
====عظیم نامہ====

اصیل مرغ - شیرو


اصیل مرغ - شیرو

Image may contain: bird
.
مجھے ہمیشہ جانوروں سے ایک غیر معمولی انسیت رہی ہے. بچپن سے لے کر نوجوانی تک میں طرح طرح کے جانور پالتا آیا ہوں. انواع و اقسام کے طوطوں سے لے کر رنگ برنگی چڑیاؤں تک ، بلی سے لے کر خرگوش تک، مچھلیوں سے لے کر بکروں تک اور تیتر بٹیر سے لے کر مرغیوں تک. میں ہمیشہ جانوروں کو محبت سے پالتا رہا ہوں. یوں تو ہر جانور ہی دل سے قریب محسوس ہوا مگر جو جانور میرا پسندیدہ ہے وہ سندھی النسل اصیل مرغ کہلاتا ہے. اسکی شان ہی جدا لگی. اونچی نسل کے اس مرغ کو پالنا اپنے خواص کے لحاظ سے ایسا ہی ہے جیسے کوئی شاہین یا عقاب گھر میں پال لے. میرے اسی شوق و لگن کو دیکھتے ہوئے میرے ایک رشتہ دار جو زمین دار تھے، انہوں نے اندرون سندھ سے ایک بہت ہی عالی النسل اصیل مرغ کا ایک چوزہ مجھے لاکر دیا. ان کے بقول یہ ایک بڑے فاتح مرغ کی نسل سے تھا جس کا چوزہ حاصل کرنے کیلئےہر شوق رکھنے والا بیقرار ہوتا ہے. میں اس وقت شائد دس بارہ سال کا تھا اور اسے حاصل کرکے بہت خوش تھا. میں نے اسے بہت توجہ سے تنہا ہی رکھ کر پالنا شروع کیا. میں اسے بڑے لاڈ سے رکھتا، اسے مہنگی بہترین غذا کھلاتا اور اسے سنوارتا رہتا. نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ایک بہت خوبصورت اونچا اور جاندار اصیل مرغ بن گیا. میں نے اس کا نام 'شیرو' رکھا تھا، آج جب عمران کے کتے شیرو کا کوئی ذکر کرتا ہے تو میری یادداشت میں اپنا وہ مرغ 'شیرو' ابھر آتا ہے. مسئلہ تب ہوا جب میرے بے جا لاڈ پیار نے اسے بلکل 'ممی ڈیڈی' یعنی چھوئی موئی بنا دیا. زبردست جسامت رکھنے کے باوجود اگر اس کا سامنا کسی فارمی مرغ سے بھی ہو جائے تو وہ دم دبا کر بھاگ کھڑا ہوتا. یوں لگتا تھا جیسے وہ جوان ہونے کے باوجود بھی ابھی تک خود کو چوزہ ہی سمجھتا ہے. دھیان رہے کہ اصیل نسل کے مرغ نہایت لڑاکا اور جنگجو مشہور ہوتے ہیں. جو مر جاتے ہیں مگر مقابل کے سامنے ہار نہیں مانتے. پھر میرا یہ 'شیرو' تو اونچی فاتح نسل سے تھا. مگر میں نے اسے لاشعوری طور پر ایک ڈرپوک بزدل بنا ڈالا تھا.
.
ہم نے کسی اچھے دیسی باپ کی طرح ٹھانی کہ بھئی جوان ہوگیا ہے، شادی کردو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا. لہٰذا ایک اصیل نسل کی مرغی لے آئے اور ساتھ پنجرے میں چھوڑ دیا. مگر یہ کیا ؟ اس مرغی نے ہمارے وجیہہ مرغے کی ایسی پھینٹی لگائی کہ بیچارا بے حال ہوگیا. کچھ دن کی کوشش کے بعد کانوں کو ہاتھ لگائے اور مرغی جس سے لی تھی، اسے واپس کردی. اب پریشان تھا کہ اس کو کیسے ٹھیک کروں؟ اتفاق سے ہمارے پڑوسی کے پاس مرغیاں تھیں اور اس سے بھی بڑا اتفاق یہ کہ بناء مرغے کے تھیں. ہم نے ان سے اجازت لی اور ان کی چھت پر اپنا گبرو جوان ان کے ساتھ چھوڑ دیا. وہی ہوا جس کا ڈر تھا. چاروں پانچوں مرغیوں نے باری باری اور کبھی مل کر اسے ایسے پٹخ پٹخ کر مارا جیسے ریسلنگ میں ریسلرز تالی مار کے ایک مخنچو کو مارتے ہیں. عجیب منظر تھا، مرغا آگے آگے دوڑ رہا ہوتا اور مرغیاں اسے مارنے کیلئے اسکے پیچھے پیچھے. شرم سے ہماری گردن جھکی ہوئی تھی. ہمارا پڑوسی کبھی اسکی نامردی پر قہقہہ لگاتا تو کبھی حیرت زدہ رہ جاتا. اس نے ہمیں بہت گفت و شنید کے بعد قائل کیا کہ اسے ایک پوری رات مرغیوں کے ساتھ پنجرے میں بند کردو. سو فیصد صلح ہوجائے گی. ہم نے بات مان لی اور دل پر پتھر رکھ کر اسے پنجرے میں مقفل کردیا. صبح ہوتے ہی بھاگم بھاگ پڑوسی کی چھت پر دل میں امیدیں سجائے گیا تو دیکھا کہ مرغ کونے میں ادھڑے ہوئے دبکے سہمے بیٹھے ہیں. ساری رات کمبخت مرغیوں نے اس پر جسمانی اور شائد جنسی تشدد بھی کیا تھا. مجھے دیکھتے ہی بھاگم بھاگ پاس آگیا. مجھے لگا جیسے شکایت کررہا ہو کہ کیا ایسا ہوتا ہے اچھا مالک؟ میں نے شکستہ دل سے اسے اٹھایا اور واپس گھر لے آیا. میں نے خود کو سمجھا لیا کہ ہمارا یہ چہیتا بھلے دیکھنے میں چارمنگ پرنس لگتا ہو، حقیقت میں یہ پاپا کی پرنسس ہی کہلانے کے قابل ہے.
.
پھر ایک دن اچانک مجھے اپنے دور پرے کے جاننے والے کا خیال آیا جو اصیل مرغ پالنے اور ان کے مقابلے کروانے میں مقبول تھا. ظاہر ہے کہ میں مرغ سمیت کسی بھی جانور کو لڑانے کا قائل نہیں مگر میں اتنا ضرور چاہتا تھا کہ یہ نالائق مرغ کم از کم مرد تو بنے؟ ہم نے ڈھونڈھ کر ان صاحب کا نمبر تلاش کیا اور انہیں فون کھڑکا کر اپنا دکھڑا بیان کیا. انہوں نے کہا کہ فکر ہی نہیں، میں اسے بلکل ٹھیک کرسکتا ہوں. شرط اتنی ہے کہ اسے میرے گھر لے آؤ اور میں جو بھی کروں مجھے روکو نہیں. اب مصیبت یہ تھی کہ وہ صاحب ہمارے گھر سے کافی دور ، کراچی کے ایک نسبتاً غیر محفوظ علاقے 'لالو کھیت' میں رہتے تھے. ہم ابھی اتنے بڑے نہیں تھے کہ گھر سے اکیلے جانے کی اجازت مل سکے. لہٰذا والدہ کو منانے کا مشن شروع ہوا. پہلے ڈانٹ پڑی، پھر جھاڑ پڑی لیکن آخر میں ممتا کے ہاتھوں مجبور انہوں نے حامی بھر لی. دونوں ماں بیٹے رکشہ میں بیٹھ کر اور والد کو بتائے بغیر لالو کھیت ان دور پرے کے جاننے والے گھر میں جاپہنچے. ان صاحب نے گھر کے تنگ سے دالان کو ایک رکاوٹ کے ذریعے بند کیا اور مجھ سے لے کر شیرو کو اسکے بیچ میں چھوڑ دیا. اسکے بعد وہ اپنے دو لڑاکا نسل کے مرغ لے آئے جنہیں وہ مقابلوں میں لڑایا کرتے تھے. میں دیکھ کر گھبرایا کہ ہمارا مسٹنڈا تو مرغیوں کی تاب نہیں لا پاتا اور یہ صاحب اس پر اپنے دو دو جنگجو چھوڑنے لگے ہیں. میرا ایسا نہ کرنے کی التجا کو ان صاحب نے سنی ان سنی کردیا اور دونوں مرغوں کو ایک ادا سے اچھال کر ہمارے معصوم پر چھوڑ دیا. ان دونوں مرغوں کے تیور ہی الگ تھے. انہوں نے پر جھٹک کر شان سے اذان دی اور للکار کر ہمارے مرغ کی جانب بڑھے. میں دل تھامے بیچارے شیرو کی جانب دیکھ رہا تھا جو حیرتناک طور پر خوفزدہ نہیں لگ رہا تھا. بلکہ غور سے آنے والے مقابل مرغوں کی للکار سن رہا تھا. ان دونوں نے مرغوں نے لڑنے سے پہلے اپنے بالوں کو کھڑا کیا، جیسے پہلوان سامنے والے پہلوان سے انگلیاں پھنسا کر پہلے پنجوں سے زور لگاتا تھا، وار بعد میں کرتا ہے. شیرو صاحب نے بھی لامحالہ اپنے بالوں کو لڑنے کیلئے کھڑا کرلیا. میرے لئے یہ حیرت کا پہلا جھٹکا تھا. آج سے پہلے کبھی اسے اس انداز میں نہ دیکھا تھا. اچانک لڑائی شروع ہوئی. شیرو کو کوئی بیس سیکنڈ تو کچھ سمجھ نہ آیا اور دونوں مرغ اس پر چڑھ دوڑے. مگر پھر جیسے غیرت جاگ گئی ہو. شیرو نے پلٹ کر وار شروع کئے. وہ دونوں مرغوں سے زیادہ توانا اور پھرتیلا تھا. لڑتے ہوئے جب اچھلتا تو بہت اپر تک جاتا. جلد ہی دونوں ماہر مرغے بری طرح پٹنے لگے. میں حیرت زدہ کھڑا دیکھ رہا تھا. مجھ سے زیادہ حیران بلکہ غصے میں وہ صاحب تھے، جن کے پہلوان مرغے کسی سستے کرائے کے غنڈوں کی مانند پٹ رہے تھے. میں نے کئی بار لڑائی کو روکنا چاہا، مگر ان صاحب کو ضد سی ہوگئی کہ لڑنے دو. آخرکار جب لڑائی واضح طور پر ان مرغوں کی پٹائی میں بدل گئی تو میں نے زبردستی مرغا اٹھا لیا.
.
میں نے پیار و ترس سے جو شیرو کو دیکھا تو پہلی بار اسکی آنکھوں میں شدید غصہ نظر آیا. میرے ہاتھوں میں ہی اذان پر اذان دے رہا تھا، جیسے اپنی فتح کا اعلان کر رہا ہو. میں اس عجیب ترین روداد کے بعد گھر لوٹ آیا مگر اب شیرو وہ ڈرپوک شیرو نہیں تھا. اس نے سب سے پہلے ان مرغیوں کی کٹ لگائی جو اسے مارتی تھیں، پھر اس پاس جو بھی دیسی و فارمی مرغ اسے نظر آجاتا، یہ اس کی کٹائی لگانے پہنچ جاتا. زبردستی چھڑانا پڑتا. محلے سے شکایت آنے لگی کہ آپ اپنے مرغے کو بند کرکے رکھیں، وہ ہمارے مرغے کو مار کر ہماری مرغیاں اپنے ساتھ لے جاتا ہے. یہ حقیقت تھی کہ اب اس کے ساتھ دوسرے گھروں کی مرغیوں کا ایک پورا جھمگھٹا ہوتا تھا، جن پر وہ پورا حق جماکر ان کا خیال رکھتا. ایک تبدیلی یہ بھی آئی کہ پہلے وہ خود بخود اپنے پنجرے کے اندر چلا جاتا تھا، مگر اب وہ پنجرے کے اپر کسی چیل کی مانند بیٹھ کر کھلی ہوا میں رات بسر کرتا اور صبح گھر سے باہر چلا جاتا. یہ اور بات کہ مجھ سے ابھی بھی ویسے ہی لاڈ کرواتا، جس طرح پہلے کرواتا تھا. کافی عرصے بعد ایک روز وہ صبح ہی صبح آوارہ کتوں کے ایک غول کے حملے کا شکار ہوگیا. دیکھنے والے نے بتایا کہ وہ اپنے ساتھ کی مرغیوں کو بچانے کی کوشش میں مارا گیا. میرا صدمے سے رو رو کر برا حال تھا. گھر والے اور دوست سب تعزیت کرتے دلاسے دیتے. اسکی موت کے بعد کئی روز تک گھر پر مرغیاں آکر عجیب بھیانک آواز میں شور کرتیں. جیسے بین کررہی ہوں.
.
میں جانتا ہوں کہ یہ تحریر کچھ لوگوں کو شائد جھوٹ محسوس ہو مگر یقین کیجیئے کہ یہ بلکل سچ ہے. میں واقف ہوں کہ کچھ لوگ مجھ پر ہنسیں کہ عظیم نے یہ کیا بیکار مرغے مرغیوں کی باتیں شروع کردی ہیں؟ مگر میں خود اسے اپنی زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ گردانتا ہوں. ایسا واقعہ جس میں کئی سبق پوشیدہ ہیں.
.
====عظیم نامہ====

.
(نوٹ: تصویر اصل شیرو کی نہیں ہے، مگر وہ رنگ اور قد کاٹھ میں کچھ ایسا ہی سا تھا)

دوست



دوست

 دوست وہ نہیں جس کے ساتھ آپ معتبر بنے بیٹھیں رہیں. دوست تو وہ ہے کہ جس کا ساتھ تکلف سے پاک ہو. جو آپ کا مذاق اڑا سکتا ہو اور جسے اپنی ہنسی اڑاتے سن کر آپ تالی مار کر لوٹ پوٹ ہوسکتے ہوں. کسی مشکل یا پریشانی میں کام آنا تو دوستی کا فقط ایک وصف ہے. وگرنہ صرف حلقہ یاراں میں بیٹھ کر گپ شپ کرلینا بھی نہ صرف طبیعت کو فرحت بخشتا ہے بلکہ غیرمحسوس معلومات کا تبادلہ اسے زندگی کی کئی کٹھنائیوں سے محفوظ کردیتا ہے. سوچ کے بند دروازوں کو کھول دیتا ہے. یوں تو دوستوں کا ساتھ ہر مرد و زن کو درکار ہوتا ہے مگر بحیثیت مرد میں یہ جانتا ہوں کہ مردوں کیلئے تو بے تکلف دوستوں کا ہونا بیحد ضروری ہے. کچھ بیگمات اپنے شوہروں کو دوستوں کے ساتھ بیٹھنے سے آخری حد تک روکتی ہیں. صرف گھر کو وقت دو، فلاں فلاں گھریلو کام کرو، نوکری یا بزنس پر فوکس کرو، اپنے بچوں پر توجہ دو - یہ اور اس قسم کے ہزار مزید تقاضے سامنے رکھ کر وہ شوہر کو گھر سے آفس اور آفس سے گھر تک مقید کرکے رکھ دیتی ہیں. انہیں لگتا ہے کہ یہی صحیح طریق یا عقلمندی ہے مگر انہیں نہیں معلوم کہ ایسا کرکے وہ خود اپنے لئے گڑھا کھود بیٹھتی ہیں. ان کے شوہر بھی انکی ساس یا نند بن جاتے ہیں جو بات بے بات نقص نکالتے رہتے ہیں. گھر کی آرائش سے لے کر غیرضروری خاندانی معاملات تک وہ رائے زنی کرتے ہیں اور اگر ان کی نہ مانی جائے تو جھٹ پٹ روٹھ بھی جاتے ہیں. اپنے اردگرد موجود ایسے مرد حضرات کا جائزہ لیجیئے کہ جن کی دوڑ کام سے گھر تک محدود ہے اور جنکی زندگی دوستوں کی محافل سے خالی ہے. آپ دیکھیں گے کہ اگر سب نہیں تو ان میں سے نوے فیصد نفسیاتی ہوچکے ہیں اور گھر میں موجود عورت سے زیادہ عورت بنے بیٹھے ہیں.
.
====عظیم نامہ====