Wednesday, 27 June 2018

صدقے کا بکرا




صدقے کا بکرا

.
No automatic alt text available.
۔
'صدقہ' مادہ لفظ 'صدق' سے وجود پذیر ہوا ہے. جسکے معنی سچائی و اخلاص کے ہیں. اسی لفظ صدق سے صادق، صداقت، صدیق وغیرہ بھی تشکیل پائے ہیں. اسلامی لحاظ سے صدقہ وہ مال یا عمل ہے جو آپ صدق نیت و اخلاص سے فقط خوشنودی رب کیلئے انجام دیتے ہیں. اسکے سوا مخلوق سے اس صدقے کے بدلے کی آپ کے دل میں کوئی توقع نہیں ہوتی. آج کل یہ جملہ عام ہے کہ 'بھائی آج کل نیکی کا زمانہ نہیں رہا' - درحقیقت ایسا کہہ کر آپ یہ ثابت کررہے ہوتے ہیں کہ آپ کی کی گئی بظاہر نیکی صرف اللہ کیلئے نہیں تھی بلکہ آپ اسکا صلہ مخلوق سے چاہتے ہیں. یہ ملاوٹ نیکی اور صدقے دونوں کے سراسر منافی ہے. یہ حقیقت ہے کہ صدقہ کا ایک بہت بڑا مظہر آپ کا مال خرچ کرنا ہے مگر صدقہ فقط مال تک محدود نہیں. کسی کے زخموں پر تسلی کا مرہم رکھنا بھی صدقہ ہے، کسی کو اچھا مشورہ دینا بھی صدقہ ہے، کسی کی تعلیم و تربیت کرنا بھی صدقہ ہے اور کسی دکھی دل کو مسکراہٹ دینا بھی صدقہ ہے. ایک غلط فہمی برصغیر پاک و ہند کے بہت سے مسلمانوں کو یہ ہوگئی ہے کہ شائد صدقے کا بکرا ہی ہوتا ہے. ہر جگہ آپ کو اشتہار نظر آئیں گے کہ یہاں صدقے کا بکرا دستیاب ہے. یہ لکھا ہوا نہیں ملے گا کہ یہاں صدقے کی گائے، صدقے کا بیل، صدقے کا اونٹ وغیرہ دستیاب ہے. سارا زور صدقے کے بکرے پر ہی ہوگا. احادیث سے اشارہ ملتا ہے کہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے. لہٰذا مسلمان جب مصائب میں گھرتا ہے تو ہر صاحب نظر اسے صدقہ کرنے کی تلقین کرتا ہے. اب ماجرہ یہ ہے کہ اس صدقہ کرنے سے جو مراد عوام الناس کی بڑی تعداد لیتی ہے وہ کسی بکرے کو بلکہ کچھ کے نزدیک سیاہ بکرے کو چھری تلے لانا ہے اور پھر اسکے گوشت کو غرباء میں تقسیم کرنا ہے۔ بکرے کو ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا بلکل غلط نہیں ہے مگر فقط اسی کو صدقہ سمجھ کر دیگر صدقات کی صورت سے گریز کرنا درست نہیں۔ 
۔
حال ہی میں ایک صاحب علم نے اس ضمن میں بڑی اچھی توجہ یہ دلائی کہ جس مالیت سے بکرا خریدا جاتا ہے، اسی رقم سے سے کئی بار یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ کسی بیروزگار کی روزی کا اہتمام ہوسکے یا کسی بیمار و نادار کا علاج ہوسکے یا پھر کسی قرض تلے دبے غریب کا قرضہ اتر سکے۔ لیکن دینے والا ایسے کسی آپشن پر غور ہی نہیں کرتا کہ اس نے لامحالہ اپنے ذہن میں یہ بیٹھا لیا ہے کہ صدقے کا مطلب صدقے کا بکرا ہے۔ پھر اگر ضرورتمندوں کو گوشت ہی کھلانا خواہش ہے تو اسی پیسوں میں بعض اوقات پوری گائے میسر ہوجاتی ہے جس سے تین چار گنا زیادہ افراد مستفید ہوسکتے ہیں۔ مگر لاشعور کی وہی غلط سوچ خرچ کرنے والے کو اس سے مانع رکھتی ہے کہ صدقے کی گائے نہیں ہوتی بلکہ صدقے کا تو بکرا ہی ہوتا ہے۔ دھیان رہے کہ ہم قطعی یہ نہیں کہہ رہے کہ بکرا صدقہ کرنا ٹھیک نہیں یا ثواب نہیں بلکہ ہم اپنے قاری کو صرف اتنی توجہ دلارہے ہیں کہ صدقات کی دیگر صورتوں کو بھی ذہن میں ہونا چاہیئے۔ اسکے بعد جو حالات و اسباب کی مناسبت سے زیادہ معقول محسوس ہو اسے اختیار کرلیا جائے۔
۔
====عظیم نامہ====

کیا اسلام میں اونٹ کا پیشاب پینا جائز ہے


کیا اسلام میں اونٹ کا پیشاب پینا جائز ہے؟

.
(مضمون کی طوالت کیلئے پیشگی معذرت)
.No automatic alt text available.
.
یہ سوال ممکن ہے ہمارے ان قارئین کیلئے تو عجیب ہو جو اس مضمون پر موجود معروف حدیث سے ناواقف ہیں. مگر یہ سوال ان احباب کیلئے نیا نہیں ہے جو متعلقہ حدیث اور اس سے منسلک علمی مباحث سے واقفیت رکھتے ہیں. قبل اسکے کہ مضمون کی گہرائی میں اترا جائے، صحیح بخاری و مسلم کی متفقہ علیہ اس حدیث کو پڑھنا ضروری ہے. "حضرت قتادہؒ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ (عرینہ کے) کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے یہاں چلے جائیں، یعنی اونٹوں کے پاس اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جب وہ صحت یاب ہوگئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہانک لے گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کرنے کے لئے بھیجا۔ جب انہیں لایا گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی۔ (صحیح بخاری ۔ باب الدواء بابوال الابل)"
.
جان لیں کہ مذکورہ بالا حدیث اور اسی واقعہ سے متعلق دیگر کئی احادیث روایت کے اعتبار سے صحیح ہیں اور ان کی صحت میں محدثانہ اصولوں کے مطابق ضعف نہیں پایا جاتا. لہٰذا مسلمانوں کے علماء میں اس روایت یا واقعہ کے سچ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے. البتہ اسکی تشریح و تفسیر میں بہت سا اختلاف موجود رہا ہے، جس کا ہم اس مضمون میں ان شاء اللہ جائزہ لیں گے. یہ حقیقت ہے کہ درج بالا حدیث کو پڑھ کر اہل علم کے ایک طبقے نے اونٹ کے پیشاب کو جائز یا پاک مان لیا. مگر یہ بھی سچ ہے کہ جید علماء کے دوسرے طبقے نے اس سمجھ کو نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ اس پر علمی تنقید کرکے غلطی کو واضح بھی کردیا ہے. ہم اسی دوسری رائے کے علمبردار ہیں. یہ معاملہ عجیب ہے کہ کچھ احباب ایک طرف تو اس حدیث کو بنیاد بنا کر اونٹ کا پیشاب پینا درست سمجھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف اکثر ہندوؤں کے گائے موتر (پیشاب) پینے پر تحقیری جملے کس رہے ہوتے ہیں. یہ کیسا دہرا میعار ہے؟ جہاں اونٹ کا پیشاب پینا آپ کو بلکل معیوب نہ لگے مگر گائے کا پیشاب پیتے دیکھنا گھن کا سبب بن جائے؟ اونٹ کے پیشاب پینے کے قائلین اسکی افادیت کو بیان کرتی کچھ سائنسی تحقیقات بھی پیش کرتے ہیں اور ٹھیک اسی طرح ہندو دھرم کے حاملین گائے موتر پینے کے بیشمار فوائد سے متعلق سائنسی ریسرچز کا حوالہ دیتے ہیں. دلچسپ بات یہ ہے کہ اونٹ کے پیشاب پر شائع ہوئی 'سائنسی' تحقیقات اکثر عرب میں ہوا کرتی ہیں جبکہ گائے کے پیشاب پر پبش سائنسی ریسرچز اکثر انڈیا میں انجام پاتی ہیں. صاف ظاہر ہے کہ یہ نام کی تحقیقات دراصل اپنے پہلے سے قائم کردہ نتیجے کو صحیح ثابت کرنے کی سعی ہوا کرتی ہیں. یہ بلکل ممکن ہے کہ ان دونوں جانوروں کے پیشاب میں کچھ ایسے کیمکلز ہوں جو کسی درجے انسانی صحت میں معاون ہوسکیں. مگر پھر بات ان ہی جانوروں کے پیشاب تک نہیں رہے گی بلکہ دیگر جانوروں کے فضلہ، شراب، منشیات یا دیگر نجس و حرام اشیاء کے اجزاء اور کیمکل ساخت تک بھی جائے گی. جو اپنے حرام و نجس ہونے کے باوجود مختلف صورتوں میں انسانی صحت کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں یا ہوتے ہیں. چنانچہ ایسی کوئی دلیل پیش کرکے اونٹ کے پیشاب کے قصیدے پڑھنا کسی طور درست نہیں۔ یہ اور بات کہ نہ اونٹ کا پیشاب پینا قران حکیم میں درج ہے اور نہ ہی گائے کا پیشاب پینا ہندوؤں کے نمائندہ صحائف میں مذکور ہے.
.
اسلام کی تعلیمات جو سراسر طہارت و پاکیزگی پر مبنی ہیں، اس میں کسی جانور کے پیشاب کو پینے کا حکم ہونا اسلام کی عمومی تعلیمات و روح کے یکسر خلاف محسوس ہوتا ہے. پیشاب سے کسی بھی سلیم فطرت انسان کا کراہت اور گریز کرنا لازم ہے. دھیان رہے کہ جہاں کچھ فقہاء درج بالا حدیث کی تشریح میں اونٹ کے پیشاب کا پینا جائز مانتے ہیں، وہاں امام ابو حنیفہ رح، امام شافعی رح، امام ابو یوسف رح، امام سفیان ثوریؒ اور دیگر جبال فقہاء اونٹ کے پیشاب کو نجس ہی کہتے ہیں. چنانچہ احناف جو برصغیر پاک و ہند میں اکثریت میں ہیں، ان کے یہاں اس کا استعمال جائز نہیں. ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی بھی یہی رائے ہے (گو ان کی یہی رائے ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے. اسکے برعکس رائے بھی ان سے منسوب کی جاتی ہے). دیگر صریح نصوص احادیث مبارکہ میں ایسے موجود ہیں جن میں واضح طور پر پیشاب کو نجس بتایا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے. نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی انسان یا جانور کے پیشاب کی کسی درجے میں بھی تخصیص نہیں کی۔ جیسے ارشاد پاک ہے "پیشاب سے بچو کیونکہ عمومی طور پر قبر کا عذاب پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔" (مستدرک حاکم، ابن ماجہ، دار قطنی، صحیح ابن خزیمہ) اسی طرح دوسری دلیل مسند امام احمد میں مذکور ہے کہ دفن کے بعد میت کو قبر نے زور سے بھینچا اور دبایا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عذاب ان کا پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے تھا۔ گویا متعدد احادیث صحیحہ سے پیشاب کا بلا تفریق نجس و ناپاک ہونا ثابت ہوتا ہے. اس امر پر بھی غور کیجیئے کہ کئی طیب غذائیں ایسی ہیں جن کو شفاء کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو استعمال کی تلقین کی جیسے کھجور، شہد، کلونجی، دودھ وغیرہ. اسی طرح حجامہ جیسے طریق علاج کا ذکر صراحت سے ہم سب کیلئے موجود ہے. اسکے برعکس اونٹ کے پیشاب کی کوئی فضیلت یا عوام الناس کو اسکے استعمال کی کوئی ترغیب احادیث میں موجود نہیں ہے. بس یہی ایک مبہم سا واقعہ اس ضمن میں بیان ہوتا ہے. اب اس مقام پر ضروری ہے کہ ہم زیر گفتگو حدیث کے الفاظ و مضمون پر بات کریں اور ممکنہ زاویوں یا امکانات سے اس خبر احد کو سمجھنے کی کوشش کریں.
.
١. جس سخت تکلیف یا وبائی مرض میں اس قبیلے کے افراد مبتلا ہوئے تھے، کیا معلوم وہ اس نوعیت کا ہو جس کی کوئی طیب دوا موجود نہ ہو؟ اس طرح یہ لوگ مضطر کے حکم میں آگئے اور مضطر کے لئے نجس چیز کا استعمال جائز ہے۔ یعنی اگر کسی انسان کی جان خطرہ میں ہو تو اس کی جان بچانے کے لئے حرام چیز سے علاج کیا جاسکتا ہے. آج بھی اگر کسی جان لیوا بیماری کا کوئی طیب و حلال علاج میسر نہ ہو تو بطور علاج نجس و حرام اختیار کرنا جائز ہے.
.
٢. حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کسی خاص وبائی بیماری کے 'علاج' کیلئے تھا. اس بیماری کی درست تفصیل ہمیں حاصل نہیں. کچھ کے نزدیک وہ پیٹ پھولنے اور خارش کا مرض تھا. اب جب ہمیں اس مرض کا ہی درست ادراک نہیں جسکے لئے اونٹ کے پیشاب کو بطور دوا استعمال کی بات کی جاتی ہے تو پھر آج اس نجس و حرام کو کسی اور بیماری کیلئے استعمال کرنا خلاف عقل و شریعت ہے.
.
٣. جب اس پر بحث نہیں کہ یہ استعمال بیماری کے 'علاج' کے واسطے تھا تو پھر آج اسے سافٹ ڈرنک، شیمپو، صابن یا دیگر بیوٹی ٹریٹمنٹ کے طور پر بیچنا یا استعمال کرنا سمجھ سے بالاتر ہے.
.
٤. حدیث کے مضمون سے آخری درجے میں یہ بات واضح ہے کہ یہ مریض اندر سے منافق و فسادی تھے. لہٰذا شفاء یاب ہوتے ہی انہوں نے فساد یعنی قتل کیا اور ارتداد اختیار کرلیا. ایسے میں قوی تر امکان یہی ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنے حبیب محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کردیا ہو یا خاص ان ہی منافقین کیلئے پیشاب پینے کا حکم دیا ہو. ہم جانتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ وحی سے تائید حاصل رہتی تھی. اس امکان کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ اونٹ سمیت کسی بھی طرح کا پیشاب پینے کا حکم نہ اس واقعہ سے قبل کبھی بارگاہ رسالت سے صادر ہوا اور نہ ہی اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کو کوئی ایسی ترغیب ملی.
.
٥. اکابر علماء میں ایک رائے یہ بھی رہی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب پینے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ اس کے خارجی استعمال کا حکم دیا تھااور اصل عبارت یوں تھیں: اشربوا من البانہا واضمدوا من ابوالہا۔ اضمدوا کے معنی ہیں لیپ چڑھانا۔ کچھ اہل علم عربی لغت اور زبان کے قاعدے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ بعض اوقات جملے میں ایک بات کا عملی اطلاق بیان کرکے دوسری بات کا اطلاق یہ بھروسہ رکھتے ہوئے حذف کردیا جاتا ہے کہ سامع یا قاری اسے لازمی سمجھ لے گا. جیسے میں کہوں کہ 'وہاں کھانے کو لذیز پکوان ہیں اور مناظر' - اب سننے والا یہ بخوبی سمجھ لے گا کہ مناظر 'کھانے' کیلئے نہیں ہیں بلکہ دیکھنے کیلئے ہیں. اسی طرح زیر گفتگو حدیث میں جب الفاظ آئے " واﻣرھم ان ﯾﺷرﺑوا ﻣن اﻟﺑﺎﻧﮭﺎ وأﺑواﻟﮭﺎ" - "ان لوگوں کوانھوں نے کہا (وہاں جا کر ان اونٹنیوں کا)دودھ پی لیں اور پیشاب بھی۔" تو یہاں مراد پیشاب پینا نہیں بلکہ عرب میں رائج طریقہ علاج کے تحت اسے زخم پر لگانا ہے.
.
٦. صحیح بخاری میں ہی اس حدیث سے قبل حضرت ثابت ؒ سے مروی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث بھی مذکور ہے جس میں ان حضرات کا علاج صرف دودھ سے مذکور ہے، اس حدیث میں پیشاب کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں ہے.
.
٧. رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہمارا دین سیکھانے آئے اور اونٹ کا پیشاب بطور علاج پینا کسی طور بھی دین میں شامل نہیں. اس اصول کو سمجھنے کیلئے ایک صحیح ترین حدیث پڑھیئے: "ام المؤمنین عائشہ اورصحابی رسول انس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں فرمایا: ''یہ کیسی آوازیں ہیں؟'' صحابہ نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگ کجھوروں کی پیوندکاری کررہے ہیں ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگریہ لوگ ایسانہ کریں تو بہترہے'' تو اس سال لوگوں نے کجھورکی پیوندکاری نہیں کی، جس کی وجہ سے اس سال کجھورکی فصل اچھی نہ ہوئی،تو لوگوں نے اس کاتذکرہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جب تمہارے دنیا کا کوئی معاملہ ہو تو تم اسے جس طرح چاہو انجام دو لیکن اگرتمہارے دین کا معاملہ ہو تو میری طرف رجوع کرو''َّ[مسند أحمد: 41/ 401 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم]۔
.
یہ وہ چند ممکنہ زاویئے و امکانات ہیں جو اہل علم نے اس حدیث کی تشریح میں بیان کیئے ہیں، جنہیں ہم نے قرین قیاس پایا ہے اور جنہیں مدنظر رکھ کر ہم اسے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں. کچھ فقہاء جیسے امام مالک ؒ نے جو رائے اختیار کی ہے، اسکے مطابق جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب پاک ہے اور جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا اُن کا پیشاب ناپاک ہے۔ اس رائے کے استدلال میں وہ دو احادیث پیش کرتے ہیں. پہلی تو وہی جو اونٹ کے پیشاب کو بطور علاج استعمال کرنے سے متعلق ہے اور جس کی وضاحت اپر کی جاچکی ہے. جبکہ دوسری حدیث کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتے ہو۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ اگر ان کا پیشاب ناپاک ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت کیوں دیتے؟ یہ دلیل دیگر فقہاء کے سامنے خاصی کمزور ہے. اول تو ہلال جانور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب کو بھی اس حدیث کی بناء پر پاک و جائز کہنا سمجھ نہیں آتا. پھر اگر ایک لمحے کو اسے مان بھی لیں تو گوشت کھائے جانے والے جانوروں کے پائخانہ کو ناپاک اور ان کے پیشاب کو پاک قرار دینے کی وجہ سمجھ نہیں آتی. اب آجایئے اس دوسری حدیث پر جس میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو اسکے مکمل الفاظ یہ ہیں: صَلُّوا فِیْ مَرَابضِ الْغَنَمِ وَلَا تُصَلُّوا فِی اعْطَانِ الْاِبِل "بکریوں کے باڑہ میں نماز ادا کرلو لیکن اونٹوں کے باڑہ میں نماز ادا نہ کرو"۔اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ بکریوں کا پیشاب عموماً دور دور نہیں جاتا ہے لہذا بکریوں کے باڑے میں تو کسی پاک وصاف جگہ نماز پڑھ سکتے ہو لیکن اونٹ کا پیشاب دور دور تک بہتا ہے لہذا اونٹ کے باڑے میں پاک وصاف جگہ کا موجود ہونا دشوار ہے لہذا اونٹ کے باڑے میں نماز ادا نہ کرو۔ گویا اس حدیث سے امام ابو حنیفہ رح اور اس حوالے سے ان کے ہم خیال فقہاء کی رائے کا انکار ممکن نہیں.
.
ایک اور اشکال و اعتراض جو اس حدیث کی آخری سطر سے پیدا ہوتا ہے، وہ ان افراد کا تشدد آمیز قتل ہے (ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی۔) اس کا جواب ایک دوسری حدیث سے ملتا ہے جس کے مطابق ان مرتدین و منافقین نے اونٹوں کے چرواہے کو اسی تشدد و ظلم سے قتل کیا تھا اور اسکی آنکھوں میں سلائی پھیر دی تھی. لہٰذا انہیں بھی بطور سزا ایسی ہی موت دی گئی اور آنکھوں میں سلائی پھیری گئی.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: راقم دین کا ایک معمولی طالبعلم ہے لہٰذا درج کردہ مضمون میں غلطی کا امکان قوی ہے. گو جس رائے کو راقم نے بیان کیا ہے وہ جلیل القدر فقہاء بشمول امام ابو حنیفہ رح کی بھی ہے. جن دوسرے جلیل القدر فقہاء نے مقابل رائے اختیار کی ہے وہ سب بھی ہمارے اساتذہ اور سر کا تاج ہیں. گو اس مخصوص مسئلے میں ہم ان سے خود کو متفق نہیں پاتے)

Sunday, 17 June 2018

کردار ساز



کردار ساز

۔
میں کتنا کم عمر تھا؟ یہ تو اب یاد نہیں۔ ہاں مگر یہ یاد ہے کہ ڈھلتی شام کا وقت تھا اور میں نیکر پہنے گلی میں دوستوں کے ساتھ حسب معمول کرکٹ کھیلنے میں مگن تھا۔ اتنے میں بڑے بھائی نے آواز دے کر کہا کہ اندر آجائو، والد بلا رہے ہیں۔ میں سن کر حیران ہوا کہ اسطرح سے دوران کھیل والد کا بلانا خلاف معمول تھا۔ بہرکیف جلدی جلدی گھر میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر پریشانی سی ہوئی کہ سب گھر والے ڈرائنگ روم میں جمع ہیں۔ میں جانتا تھا کہ ہمارے گھر میں ڈرائنگ روم میں گفتگو اسی وقت ہوا کرتی تھی جب کوئی اہم معاملہ ہو۔ ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوا تو والد کے چہرے پر شفیق مسکراہٹ دیکھ کر جان میں جان آئی۔ وہ مجھے دیکھتے ہوئے مخاطب ہوئے ۔۔ "بھئی تم سے ایک مشورہ کرنا ہے" ۔۔ میں نے حیران سوالیہ نظروں سے انکی جانب دیکھا اور کہا "جی؟" ۔۔ وہ بولے "دراصل تمہارے سب سے بڑے بھائی کی شادی کیلئے تم سے پوچھنا تھا کہ اگر ہم فلاں جگہ رشتہ طے کریں تو کیسا رہے گا؟" ۔۔۔ یہ سن کر جہاں ایک حیرت کا جھٹکا لگا ۔۔ وہاں یہ سوچ کر خوشی سے سینہ چوڑا ہوگیا کہ میری رائے گھر میں اتنی زیادہ اہم ہے۔ میرے والد خوب جانتے تھے کہ انکے اس چھوٹی سی عمر کے بیٹے کا جواب کیا ہوگا؟ مگر مجھ سے میری رائے پوچھ کر انہوں نے مجھے وہ خوداعتمادی کا تحفہ دے دیا جو پھر ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔ 
۔
نوجوان ہوا تو فرقہ پرستوں کے یاتھوں ایک بار مذہبی منافرت کا اس شدت سے شکار ہوا کہ والد سے اسی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر گستاخی کی اور ان ہی پر تکفیر کرنے لگا۔ والد نے مسکرا کر میری سب نفرت انگیز گفتگو کو بغور سنا اور پھر شائستگی سے تمام باتوں کا ایسا مدلل جواب دیا کہ مجھ پر اپنی غلطی و حماقت واضح ہوگئی۔ جب بات ختم ہونے لگی اور میں قائل ہوگیا تو والد نے مجھے ٹوکا اور کہا کہ "تمہیں میری باتوں پر ہرگز اعتبار نہیں کرنا چاہیئے۔ کیا معلوم میں چرب زبان ہوں اور جھوٹ بول رہا ہوں؟ کل تم نے فلاں کو سنا تھا تو تم اس کو درست مان یٹھے۔ آج مجھے سنا تو میری باتوں پر ایمان لے آئے۔ کل کوئی مجھ سے زیادہ بولنے والا ملے گا تو تم اسکے بھی قائل ہوجائو گے" ۔۔ میں پریشان سا بیچارگی کی حالت میں انہیں تکنے لگا تو کہا کہ اگر واقعی تم حق تک رسائی چاہتے ہو تو پھر قران اور صحیح احادیث کو پڑھو، سمجھو، تحقیق کرو اور پھر کوئی نتیجہ اختیار کرو۔ والد چاہتے تو اس دن مجھے اپنا اندھا مقلد کرسکتے تھے۔ مگر انہوں نے مجھ میں تحقیق کا ایک ایسا بیج بو دیا جو بہت سال بعد برداشت اور تحقیق کا درخت بن کر نمودار ہوا۔
۔
آج جب میں جوانی کے آخری دور یا یوں کہیئے کہ ادھیڑ عمری کے اوائل دور میں داخل ہوا ہوں۔ تب والد سے مختلف سنجیدہ امور پر گفتگو کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا جب ان کی اور میری رائے مختلف تھی۔ لیکن انہیں جب قوی دلائل میسر آئے تو وہ جھٹ اپنی عمر بھر کی سمجھ کو ایک طرف رکھ کر قائل ہوگئے۔ رائے سے رجوع کرلیا۔ گویا آج بھی وہ زبان حال سے میری تربیت کررہے ہیں کہ عظیم کبھی اپنے نتائج میں ایسے ہٹ دھرم نہ ہوجانا کہ مخالف کی برتر دلیل کو بھی قبول نہ کرسکو۔ 
۔
دوستو ماں کا رشتہ تو انمول ہے ہی کہ اسکی کوئی نظیر نہیں۔ مگر باپ کا رشتہ بھی ایسا مقدس ہے جس کا مول ڈھونڈے سے بھی نہیں مل سکتا۔ باپ وہ ہستی ہے جو ساری زندگی اپنی ہڈیاں گھلا کر بچوں کی تربیت کرتا ہے مگر اکثر انہیں سمجھا نہیں پاتا کہ وہ انہیں کس قدر چاہتا ہے۔ باپ وہ کردار ساز ہے جو غیر محسوس انداز میں ہماری کردار سازی کرتا ہے۔ دنیا کے سرد و گرم سے کیسے ٹکرانا ہے؟ اس کا اعتماد و حوصلہ دیتا ہے۔
۔
====عظیم نامہ====

ہم برے ہیں .. مگر .. اسلام اچھا ہے


ہم برے ہیں .. مگر .. اسلام اچھا ہے



"ہم برے ہیں .. مگر .. اسلام اچھا ہے"
.
"داڑھی والے بداخلاق نہیں .. مگر .. کچھ بداخلاق لوگوں نے داڑھی رکھ لی ہے"
.
"دین امن کا درس دیتا ہے .. مگر .. دین کی غلط سمجھ والے فساد کرتے ہیں"
.
سوچتا ہوں کہ ہم کب تک ایسے جاذب فقروں کے پیچھے چھپتے رہیں گے؟ اپنی خامیوں، غلطیوں، گناہوں اور جرائم کو ان دیدہ ذیب جملوں سے جسٹیفائی کرتے رہیں گے؟ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے جوابات چاہے اپنی اصل میں کتنے ہی درست کیوں نہ ہوں؟ ان سے خود کو وقتی تسلی تو دی جاسکتی ہے مگر اسلام سے متنفر ہوجانے والو کو تشفی نہیں فراہم ہوسکتی. 
.
بائبل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایک قول منسوب ہے کہ 'درخت کی پہچان اسکے پھل سے ہوا کرتی ہے'. ہم بحیثیت مسلمان اسلام کا جو نمونہ دنیا کو پیش کرتے ہیں، اسی کو دیکھنے والا 'اسلام' کا حقیقی پھل تصور کرتا ہے. چانچہ کوئی حیرت نہیں کہ غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد اسلام کی حقیقی تعلیمات پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتی بلکہ اسلامی دنیا کے ممالک میں بدامنی اور مسلمانوں کی اخلاقی زبوں حالی کا مشاہدہ کرکے انہیں حق سے دور .. بہت دور تسلیم کرلیتی ہے. ہم مسلمان دہرے مجرم ہیں. اول دعوت دین پیش نہ کرنے کے اور دوم اپنے اعمال سے دین کی شکل مسخ کردینے کے. 
.
====عظیم نامہ====

کل ہو نہ ہو



کل ہو نہ ہو


.
وہ ایک ملنسار اور نڈر نوجوان لڑکی تھی. جسے لگتا تھا کہ اسے سب معلوم ہے، ساری دنیا جیسے اس کی چٹکیوں میں ہو. اسے پورا بھروسہ تھا کہ جیسے ہی اس کا اسکول ختم ہوگا، وہ یونیورسٹی میں من پسند ڈگری کیلئے داخلہ لے لے گی، بہترین نوکری یا بزنس کرے گی اور پھر جلد ہی اس کا شمار ایک کامیاب ترین جوان عورت کے طور پر ہونے لگے گا. اسی یقین اور خواب کے ساتھ حسب معمول وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی، خود کو آئینے میں سنوارا اور جاکر اپنے 'بنک بیڈ' (بستر) پر لیٹ کر آنکھیں موند لی. صبح بیدار ہوئی تو آنکھیں نیند سے بہت بوجھل تھیں مگر پھر بھی بستر چھوڑ کر کھڑی ہوگئی. ان ہی نیم بند آنکھوں میں حسب معمول آئینے کے سامنے پہنچی، آنکھیں بمشکل کھول کر جو آئینہ دیکھا تو مارے خوف کے تیزی سے پیچھے ہٹی. آئینے میں اس کا اپنا عکس نہیں تھا بلکہ سامنے سلوٹوں بھرا ایک بڑی عمر کی عورت کا عکس اسے گھور رہا تھا. گھبرا کر اس نے اپنے اردگرد غور کیا تو وہ اس کا کشادہ کمرہ نہیں تھا بلکہ یہ تو کوئی پرانا بوسیدہ سا فلیٹ کا تنگ کمرہ تھا. وہ اس خوفناک صدمے سے ابھی ابھر بھی نہ سکی تھی کہ اچانک کمرے میں ایک گیارہ سال کا لڑکا دوڑتا ہوا داخل ہوا اور اسکی جانب امی امی کہتا ہوا بڑھنے لگا. اس منظر کو دیکھ کر خوف و بوکھلاہٹ سے کانپتی ہوئی وہ چیخیں مارنے لگی اور زمین پر گرگئی. اسے ایمرجنسی میں اسپتال لے جایا گیا.
.
ڈاکٹروں نے اس کے دماغ کا چیک اپ کیا تو اکشاف ہوا کہ سخت معاشی حالات میں شدید اسٹریس اور ڈپریشن کے سبب اس عورت کا دماغ کچھ اس بری طرح متاثر ہوا کہ وہ اپنی سابقہ زندگی کے سترہ سال بھول گئی ہے. گویا اسکی یادداشت سے اب سترہ سال ایسے محو تھے جیسے کبھی وہ گزرے ہی نہ ہوں. لہٰذا اب اسے نہ اپنی شادی یاد تھی اور نہ ہی اپنا گیارہ سال کا بیٹا. وہ آج بھی ذہنی طور پر خود کو پندرہ سال کا سمجھ رہی تھی کیونکہ اس کی موجود یادیں پندرہ سال کی عمر تک ہی محیط تھیں. لیکن حقیقت اب کچھ اور ہی تھی. وہ خواب سب گم ہوگئے تھے اور ایک بھیانک زندگی سچ بن کر زبردستی اس پر سوار تھی. وہ تو سمجھتی تھی کہ چونتیس برس کی عمر میں یہ دنیا اسکے پیروں تلے ہوگی، شاندار گھر ہوگا، وجیہہ شوہر ہوگا اور پیسوں کی ریل پیل ہوگی. مگر یہ کیا ؟ وہ تو زندگی سے شکست خوردہ ایک ایسی عورت بن چکی تھی جو گورنمنٹ کے دیئے ہوئے ایک چھوٹے سے سیلن زدہ گھر میں مقیم تھی. 
.
یہ ایک سچی کہانی ہے جو انگلینڈ میں مقیم ایک عورت کے ساتھ پیش آئی. یادداشت کا جزوی طور پر موقوف ہوجانا جس سے مریض اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بلکل فراموش کربیٹھے ، ایک ایسی بیماری ہے جو ہر سال بہت سے افراد کو کو اپنا نشانہ بناتی ہے. میں نے اس عورت کے واقعے کو جب برطانوی اخبار میں سالوں قبل پڑھا تھا تو جیسے دل کو جھٹکا لگا تھا. اس کرب کو معلوم نہیں کیوں؟ میں نے اپنے سینے میں محسوس کیا. بلکہ اگر سچ بولوں تو اس وقت بھی کررہا ہوں. کیا ہو کہ اس لڑکی کی جگہ آپ ہوں؟ اور کل صبح جو آپ کی آنکھ کھلے تو آپ خود کو ستر برس کا ایک بوڑھا انسان پائیں؟ کیا کرسکیں گے ہم؟ کیا سوچیں گے ہم؟ کیسے جی سکیں گے؟ پچھتاووں کا سامنا کیسے کریں گے؟ ... کاش کہ ہم موجود زندگی سمیت ہر اس شے کی قدر کرنا سیکھ لیں جو ہمیں حاصل ہے. کیا معلوم کل ہو نہ ہو؟
.
====عظیم نامہ====

Monday, 4 June 2018

پاک چین دوستی - زندہ باد


پاک چین دوستی - وان سوئے - پاک چین دوستی - زندہ باد 


No automatic alt text available.
.
اس میں کوئی شائبہ نہیں ہے کہ قیام پاکسان سے لے کر آج تک، اگر گنتی کے چند ممالک پاکستان کے حقیقی دوست کہلائے جاسکتے ہیں تو ان میں سرفہرست نام چین کا ہے. ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ دوستی بھی اپنے مفادات پر بڑی حد تک منحصر رہی ہے. دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے ان گنت مفاد حاصل کیئے ہیں. چین کیلئے پاکستان کی دوستی اسلئے بھی اہم رہی ہے کہ وہ خطے میں بھارت کی اجارہ داری اور اسکی آڑ می امریکہ کا اثر و رسوخ قائم نہیں ہونے دینا چاہتا. ظاہر ہے ایسے میں پاکستان جیسا دوست اسکے لئے نعمت ہے. دوسری طرف پاکستان کیلئے تو یہ دوستی اور بھی اہم تر ہے. وجہ اس کے امریکہ، انڈیا، اسرائیل جیسے طاقتور دشمن ہیں جو اسکے وجود و استحکام کیلئے ہمیشہ خطرہ بنے رہے ہیں. ایسے میں چین جیسے مضبوط ملک کا ساتھ پاکستان کیلئے بن الاقوامی سطح پر انتہائی تقویت کا سبب رہا ہے. سیاسی سپورٹ سے لے کر معاشی امداد تک اور دفاعی آلات کی فروخت سے لے کر ٹیکنالوجی میں خودکفالت تک - چین ہمارا زبردست ساتھی بنا رہا ہے. ایسے میں اس ساتھ کو شکرگزاری سے نہ دیکھنا بلکہ مفاد پرستی کا طعنہ دیتے رہنا شائد درست روش نہیں. یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ چین ایک کمیونسٹ ملک ہے اور کمیونزم اپنی اصل میں مذہب مخالف رہا ہے. لہٰذا چین کے پاکستان سے تعلق کو وہاں مذہبی جبر و پابندی سے جوڑ کر دیکھنا ٹھیک نہیں. اس سے ہمارا ساتھ ایک 'اسٹریٹجک پارٹنر' کا ہے، چانچہ اس سے امید بھی 'اسٹریٹجک' فوائد سے متعلق ہی کی جاسکتی ہیں.
.
حال میں سی-پیک کے حوالے سے باسٹھ بلین ڈالرز کی خطیر سرمایہ کاری پاکستان میں کی گئی ہے. گوادر کی تعمیر میں بہت سال ایسے گزرے جب ہمارے پاکستانی حکمرانوں نے کرپشن کرکرکے اس پروجیکٹ کو التواء میں ڈال دیا. چینی سرمایہ کاری سے آئی مشینری کو زنگ لگ گیا مگر ہم نے ہفتوں کا کام سالوں میں انجام دیا. بلآخر پاکستانی فوج نے ذمہ داری لی اور چین سے ازسر نو معائدے کیئے. انڈیا اور امریکہ سے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے کہ گوادر سمیت اس سی-پیک پروجیکٹ کو سبوتاز کیا جاسکے مگر تاحال وہ اس میں ناکام رہے ہیں. بہت سے دانشوروں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ چین کی یہ سرمایہ کاری وہی صورت اختیار نہ کرلے جو آزاد ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کی تھی اور پاکستان چین کی کالونی بن کر نہ رہ جائے. اس کیلئے وہ چین کی ہانگ کانگ والی مثال بھی پیش کرتے ہیں اور موجودہ شرائط و ضوابط میں پاکستان کی لاچارگی بھی ظاہر کرتے ہیں. یہ واقعی پریشانی کے لائق ہے مگر اسکے لئے ہمیں اپنے فوجی و سیاسی حکمرانوں کو تفصیل پیش کرنے پر مجبور کرنا ہوگا. اسے بنیاد بناکر چین سے اور ان کے پاکستان میں موجود چینی اہلکاروں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا درست نہیں. ہم جانتے ہیں کہ حال ہی میں چینی اہلکاروں کی جانب سے طرح طرح کے ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں. جن میں بدمعاشی سے لے کر چوری تک شامل ہیں. ہمیں قانونی اداروں کو بناء تخصیص کاروائی کرنے کا پابند کرنا چاہیئے. لیکن جہاں کچھ چینیوں کا یہ رویہ قابل مذمت ہے وہاں ہم پاکستانیوں کا ان سے نفرت انگیز کھچاؤ سا رکھنا بھی اچھی بات نہیں. یہ ہمارا مشاہدہ رہا ہے کہ چینی اہلکاروں سے ہم بھی کچھ کھنچے ہوئے سے ہیں اور انہیں اس نظر سے دیکھ رہے ہیں جیسے وہ قبضہ کرنے آئے ہوں. بازار یا ائیرپورٹ پر میں نے ان چینیوں کو تنہا اجنبی بنے ہوئے دیکھا، جن سے مسکرا کر گپ شپ کرنا مفقود نظر آیا. اس نفرت سے فاصلے تو بڑھیں گے مگر صورتحال بہتر نہیں ہوگی. ضروری ہے کہ ہم چینیوں سمیت ہر غیرملکی کو محبت دیں، تب ہی سیاحت سے لے کر بین الاقوامی سرمایہ کاری میں پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوسکے گی. طعنے اور حقارت آمیز جملے کسنا گھٹیا بات ہے جیسے 'یہ سالے کتے اور سانپ کھانے والے چپٹے ہمیں سمجھائیں گے' .. (یہ اور بات کہ کتے اور گدھے کا گوشت کھانے میں تو اب ہم بھی خود کفیل ہیں)
.
====عظیم نامہ====