Tuesday, 29 May 2018

قادیانی اور ہم



قادیانی اور ہم 

.
قران حکیم کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ کفار و مشرکین کا رویہ دعوت دین کی جانب استکبار اور استہزاء کا ہوا کرتا تھا. گویا جب رسولوں کے مخاطبین پر بات آخری درجے میں واضح ہوجاتی اور ان کے پاس دلائل کی بنیاد پر نہ ماننے کی وجہ نہ ہوتی، تب وہ استہزاء کا رویہ اپنا لیتے. وہ دلیل کا نہ مطالبہ کرتے اور نہ ہی دلیل پیش کرتے. اب وہ کبھی رسولوں کو تحقیر آمیز نام دیتے، کبھی کردار کشی کرتے، کبھی قہقہوں یا ڈھول تاشوں سے بات کو دبا دیتے، کبھی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے، کبھی طنز و تشنیع کا سہارا لیتے، کبھی جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے، کبھی مذاق اڑاتے اور کبھی گالیاں دیتے. ظاہر ہے ان کا یہ رویہ احقر درجے میں بھی علمی یا اخلاقی نہ تھا. اس کے برعکس قران حکیم نے جو مکالمہ کا طریق سکھایا وہ سراسر دلائل و براہین کی بنیاد پر ہے. قران صرف اپنے مقدمے کے اثبات میں دلائل ہی نہیں دیتا بلکہ وہ اپنے مخاطبین سے دلائل پیش کرنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے. وہ کہتا ہے کہ تورات، انجیل یا کوئی اور ثبوت اپنی بات کے حق میں پیش کرو. وہ حکم دیتا ہے کہ خبردار لوگوں کے جھوٹے خداؤں تک کو گالی نہ دینا، وہ سمجھاتا ہے کہ پہلے متفق باتوں پر مجتمع ہونا پھر اختلافی بات پر آنا، وہ نصیحت کرتا ہے کہ انتہائی احسن انداز میں گفتگو کرنا اور اگر کوئی جہالت پر اتر آئے تو اسے سلام کہہ کر یعنی اسکے لئے سلامتی کی دعا کرکے اس سے الگ ہوجانا. یہ وہ مقام ہے جس پر قران اپنے ماننے والوں کو لے کر آتا ہے. گویا وہ ایک مہذب اور صحتمند مکالمہ کی فضاء کو ہموار کرتا ہے. گالیاں دینا، اپنے مخاطب کے پیش کردہ استدلال کو نہ سننا اور مخاطب کی تحقیر کرنا کسی صورت بھی ایک مومن کا طریق نہیں ہوسکتا. یہ انداز تو مشرکین مکہ یا کفار کا ہوا کرتا ہے. 
.
افسوس یہ ہے کہ آج ہم نے بھی دعوت دین کا نام لے کر یہی روش اپنا رکھی ہے. سوشل میڈیا پر دیگر مذاہب یا مخالف مسالک سے بلعموم اور قادیانیوں سے بلخصوص یہی استہزاء کا رویہ اپنایا جاتا ہے. بجائے اس کے کہ انہیں دلائل سے ان کی غلطی سمجھائی جائے، ہم ان کی تضحیک و تحقیر کو اسلام کی خدمت سمجھ بیٹھتے ہیں. ہم مسلمان اس کے قائل ہیں کہ غلام احمد قادیانی اپنے دعوے میں کاذب ہے مگر وہ دین جو جھوٹے خدا کو گالی دینے سے روک رہا ہے، وہ جھوٹے نبی کو گالی دینے کی کیسے اجازت دے سکتا ہے؟ پھر یہ یاد رکھیں کہ آپ جب اپنے مخالف مخاطب کو گالی دیتے ہیں یا اس کے لئے کسی قابل احترم ہستی کو گالی دیتے ہیں تو دراصل آپ خود اپنے ہاتھ سے ممکنہ دعوت کے دروازے پر کنڈی لگادیتے ہیں جو کیا معلوم ؟ کل بارگاہ الہی میں قابل گرفت ہو. جب آپ اپنے مخاطب کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں تو غصہ اور ضد میں آکر وہ اسے بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہوجاتا ہے ، جسے وہ مہذب مکالمے کے ذریعے مان سکتا تھا. ہم یہ جانتے ہیں کہ عیسائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ رسالت کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جھوٹا قرار دیتے ہیں تو کیا انہیں بھی یہ اختیار ہونا چاہیئے کہ اپنے ممالک میں ہمارے ساتھ وہی رویہ اختیار کریں جو مسلم جھوٹی نبوت کے قائل ایک قادیانی کے ساتھ اپناتا ہے؟ 
.
مگر افسوس ہمارا معاملہ تو آج یہ ہے کہ ہم انکی عبادت گاہوں کو نعرہ رسالت لگا کر مسمار کرتے ہیں اور خوشی سے پھول جاتے ہیں کہ دین کی خدمت انجام دی گئی ہے. ہماری روش یہ ہے کہ ہم اپنی دکانوں پر یہ لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ یہاں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع ہے. اگر ایسا کرکے کوئی سمجھتا ہے کہ قادیانیت کا فتنہ کمزور ہورہا ہے تو یہ پرلے درجے کی غلط فہمی ہے. قادیانیوں پر کسی بھی قسم کی پابندی یا اقدام حکومت کی جانب سے ہی ہونا چاہیئے. فرد اس کا مکلف نہیں کہ وہ جہاں قادیانی دیکھے اس پر چڑھ دوڑے. اصل بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر دوران بحث اپنے نفس کو موٹا کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کا فریضہ انجام پارہا ہے. ہماری نیت انہیں دین کا پیغام پہنچا کر واپس اسلام میں لانے کی ہونی چاہیئے، انہیں شکست دینے کی نہیں. لہٰذا انہیں صریح انداز میں غیر مسلم ہی سمجھیں، حکومتی سطح پر اس کا اہتمام کریں کہ ایک قادیانی خود کو مسلم نہیں بلکہ قادیانی یا احمدی کے نام سے ہی دستاویز میں ظاہر کرنے کا پابند ہو، مگر خدارا ان پر اپنی نفرت سے دعوت کے دروازے بند نہ کریں بلکہ اہل علم سے ان پر بناء تذلیل کیئے دلیل سے بات کی وضاحت کا اہتمام کریں. جس نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا وہ موت سے ہمکنار ہوکر اپنی شامت اعمال تک جاپہنچا. آج کئی نسلوں بعد پیدا ہونے والا قادیانی ویسے ہی موروثی طور پر قادیانی ہے جیسے ایک ہندو کے گھر میں پیدا ہونے والا ہندو. جس طرح اور جس انداز میں ایک ہندو، سکھ یا عیسائی ہماری دعوت کا مستحق ہے ویسے ہی مستحق ہماری دانست میں ایک قادیانی بھی ہے. 
.
====عظیم نامہ====

.
(نوٹ: ہم واقف ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسا حساس موضوع ہے جو قارئین میں سے کچھ کو ہمارے خلاف بھی مشتعل کرسکتا ہے اور شائد ہم پر تکفیر کا سبب بھی بن سکتا ہے. اسکے باوجود یہ تحریر اس امید کے ساتھ لکھ دی ہے کہ کیا معلوم کچھ اذہان ایسے بھی ہوں جو ہماری اس بات کو سمجھیں اور اپنے رویئے پر نظر ثانی کریں؟)

تکبر


تکبر


ہمارے ایک دوست دین بیزار اور دنیا میں بہت زیادہ مگن رہا کرتے تھے۔ انہیں اپنی دولت، کامیابی اور مرتبے پر تکبر تھا۔ جو ان کی گفتگو سے عیاں ہوتا رہتا تھا۔ ان کے اسی تکبر سے ان کا تمام حلقہ احباب خفاء تھا مگر انکی پوزیشن کے سامنے کسی کی ہمت نہ تھی۔ پھر ہوا کچھ یوں کہ حالات نے پلٹا کھایا اور مسلسل آفتوں نے ان کے گھر کا رخ کرلیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا دبدبہ ملیامیٹ ہوگیا۔ زندگی جو الٹ پلٹ ہوئی تو ان صاحب کو دین سے جڑنے کی چاہ پیدا ہوئی اور وہ شب و روز قران و حدیث کے مطالعہ میں غرق ہوگئے۔ میرے لئے انکے خیرخواہ کی حیثیت سے یہ تبدیلی بڑی خوش آئند تھی۔ بھلا اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی تھی کہ ایک متکبر دین بیزار شخص تائب ہو اور دین کو پڑھنے سمجھنے میں لگ جائے؟ 
۔
خیر جناب ایک عرصہ گزر گیا۔ اس دوران ہمارا رابطہ بھی مصروفیت کے سبب ان سے ممکن نہ ہوسکا۔ زمانے بعد اچانک ملاقات ہوئی تو خیر و عافیت کے بعد ان کا مزاج پوچھا۔ یہ جان کر صدمہ ہوا کہ انہیں اب اپنی دنیا کا تکبر تو شائد نہ تھا مگر انکی گفتگو سے دینی علمیت کا تکبر ضرور عیاں ہورہا تھا۔ وہ دیگر اہل علم کو چھوٹا بتا کر مجھ پر یہ ثابت کررہے تھے کہ کیسے ان کے پائے کا کوئی صاحب علم موجود نہیں؟ میں اس اچانک ملاقات میں چاہ کر بھی کچھ کہہ نہ پایا لیکن میرا دل اس دوران چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ بھائی تکبر سے بچو کہ یہ بڑے ترین جرائم میں سرفہرست ہے۔ اس تکبر میں سب سے غلیظ تر تکبر اپنی علمیت کا ہے اور شیطان کا سب سے کاری وار احساس پارسائی ہے۔ اگر علم نے تمہاری ذات میں اتر کر عجز و انکساری پیدا نہیں کی تو شائد وہ علم ہے ہی نہیں فقط معلومات ہے۔
۔
====عظیم نامہ====

بول ٹی وی




بول ٹی وی

Image may contain: 7 people, including Ansar Ul Haq and Faizullah Khan, people smiling, beard and text

پچھلے دنوں بول ٹی وی پر ہونے والا واقعہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے. مجھ سے اس واقعہ پر ان گنت قارئین رائے طلب کرچکے ہیں. اسلئے سوچا کہ غیر متعصب ہوکر دیانتداری سے جو مجھے محسوس ہوا وہ لکھ دوں. مگر مجھے لگتا ہے کہ کسی بھی تجزیئے سے قبل اس واقعہ میں ملوث مختلف کرداروں پر اپنا مختصر تاثر بیان کردینا بہتر ہے. یہی تاثر اس سجائے ہوئے ڈرامے کے محرکات بیان کردے گا.
.
بول ٹی وی 
=======
.
یہ ایک ایسا چینل ہے جو نہایت زور و شور سے انقلاب برپا کرنے کا دعویٰ کرکے میڈیا کی دنیا میں وارد ہوا اور جس نے نمائندہ ٹی وی چینلز کے نمائندہ چہروں کو زبردست پیکیج آفر کرکے اپنے ساتھ کر لیا. مگر پھر ابتداء ہی سے ایسی مشکلات میں گھرا کہ اب تک نکل نہیں پایا. اس سے منسلک بہت سے لوگ اسے چھوڑ گئے اور کئی کو متعدد ماہ کی تنخواہ تاخیر سے ملی یا نہیں ملی. ایسی صورتحال میں اس چینل کو ایسے پروگرامز اور اینکرز کی اشد ضرورت ہے جو اسے دوبارہ صف اول میں لا سکیں. عامر لیاقت کو دوبارہ موقع مل جانا ہمارے نزدیک اسی مقصد کے تحت ہے. پھر وہ اخلاقیات سے عاری پروگرام "ایسا نہیں چلے گا" ہو یا پھر آج اسلام کی آڑ میں "رمضان میں بول" جیسے مذہبی پروگرام ہوں. اصل مقصد اسی ٹی- آر - پی کا حصول ہے جسکی بول چینل کو آج اشد ضرورت ہے اور جسے حاصل کرنے کیلئے عامر میڈیا میں معروف ہیں.
.
عامر لیاقت 
=======
.
عامر لیاقت باتوں کا بادشاہ ہے. میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب میڈیا پر وہ نظر بھی نہیں آئے تھے. ہم دونوں ہی فن خطابت سے منسلک رہے ہیں. گو عمر میں زیادہ ہونے کے سبب وہ میرے سینئر رہے. بحیثیت مقرر عامر لیاقت ایک بہت بڑا نام تھا جس نے 'تک بندی' اور 'منظر نگاری' کے ذریعے فن خطابت کو چار چاند لگائے. جب میں نے فن خطابت میں قدم رکھا تب عامر اس فن سے رخصت ہورہے تھے. مجھے بھی اس فن میں اچھا خاصہ نام حاصل ہوا اور ملکی سطح پر میں نے قریب قریب تمام نمائندہ اعزاز جیتے. جن دنوں عامر جیو ٹی وی پر 'عالم آن لائن' کی میزبانی کر رہے تھے. ان دنوں مجھے سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر اسٹوڈنٹ افیئرز آفس میں 'نائن زیرو' کی جانب سے رابطہ کیا گیا اور پیشکش ہوئی کہ چونکہ عامر کو ٹکٹ دے کر الیکشن میں متحدہ کی جانب سے کھڑا کیا جارہا ہے اسلئے تنظیم چاہتی ہے کہ "عالم آن لائن" کی میزبانی اب سے میں کروں. ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑی آفر تھی مگر میری طبیعت نے کبھی کسی سیاسی تنظیم کو اس لائق نہیں پایا کہ اس کا باقاعدہ فعال حصہ بن سکوں. لہٰذا اس بار بھی میں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں گریجویشن کے فوری بعد ماسٹرز کیلئے انگلینڈ جا رہا ہوں اور ہوا بھی ایسا ہی. میں انگلینڈ آگیا اور عامر لیاقت نے دونوں ذمہ داریاں بخوبی نبھائی. 'عالم آن لائن' کے ذریعے اس نے نہ صرف شہرت کا آسمان چھولیا بلکہ اسے لامحالہ ایک مذہبی اسکالر بھی تسلیم کیا جانے لگا. حقیقت میں عامر ایک 'انٹر ٹینر' ہے جس کا واحد مقصد اپنا پروگرام اور نام بیچنا ہے. پھر وہ مذہبی پروگرام ہو یا پھر گیم شو .. کوئی فرق نہیں پڑتا. عامر لیاقت کا مذہبی رجحان بریلوی مکتب فکر اور اہل تشیع افراد کے اردگرد گھومتا ہے. لہٰذا غیرجانبداری یا مفاہمت کا چاہے کتنا ہی دعویٰ ہو؟ مقدمہ وہ یہی پیش کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا. 
.
مولانا کوکب اکاڑوی
=============
.
مولانا کوکب کی دلفریب مسکراہٹ نے مجھے سب سے پہلے متاثر کیا تھا جو بعد میں ایک فریب نظر ثابت ہوا. غالباً ٢٠٠١ میں جیو ٹی وی پر ایک مذہبی پروگرام آیا کرتا تھا. زمانہ طالبعلمی میں مجھے تین دیگر طالبعلموں کے ساتھ ان کی پروگرام ریکارڈنگ میں ڈیفنس کراچی کے ایک بنگلے میں بھیجا گیا، جہاں ہم نے مولانا کے سامنے بیٹھ کر ان سے سوالات پوچھنے تھے. مایوسی اسوقت ہوئی جب سوالات پہلے سے ہی فکس کر دیئے گئے. گویا ہم نے پوچھنے کی اور مولانا نے بتانے کی ایکٹنگ کرنی تھی. خیر ہم نے اسے پروگرام مینجمنٹ کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کیا. دوسری حیرانی اسوقت ہوئی جب مولانا کو خوب 'کیمرہ کونشئس' پایا. میک اپ سے لے کر کیمرہ پوزیشن تک میں وہ ایک ماہر محسوس ہوئے. میک اپ کی ٹچنگ وہ بتا بتا کر کروا رہے تھے. پروگرام سے قبل یا پروگرام کے بعد جب ان سے مصافحہ ہوا تو خلاف توقع ہمارے ساتھ موجود یونیورسٹی کے آفیسر نے میرا تعارف بحیثیت اچھے مقرر و طالبعلم کے مولانا کو دیا. ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں دیوبند کے اکابر علماء کے خاندان سے ہوں. یہ سنتے ہی مولانا کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ 'الحمدللہ میں دیوبندی نہیں ہوں.' اس وقت بھی ایک زہر آلود مسکراہٹ ان کے چہرے پر چسپاں تھی. کئی اور ایسے مواقع دیگر حاضرین نے محسوس کیئے جو مذہبی منافرت کا اشارہ دیتے تھے. میرے قلب و ذہن سے اسی دن ان کا نام اتر گیا. گو بہت سے بریلوی علماء ایسے ہیں جنہیں آج بھی پورے ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں اور دل سے بحیثیت اہل علم انہیں قبول کرتا ہوں. 
.
مولانا اسحٰق عالم 
===========
.
اسحٰق بھائی سے واقفیت فیس بک کے ذریعے ہی ہوئی. سالوں سے ان سے تعلق برقرار ہے. سوشل میڈیا پر ان کا نام ہو یا ان کے دیگر بھائیوں کا نام جیسے فاروقی صاحب یا فرنود عالم بھائی - یہ سب میرے لئے قابل عزت ہیں. اسحٰق بھائی سے واحد طویل نشست ان کے گھر پر ہوئی تھی. جہاں بہت سی باتوں پر تبادلہ خیال ہوا. وہ مجھے ایک صلح جو اور روایت پسند دیوبندی حنفی عالم محسوس ہوئے. 
.
مفتی حنیف قریشی 
============
.
یہ بلاشبہ ایک زہین اور تیز بریلوی عالم دین ہیں جو اپنا مقدمہ تاریخی و فقہی حوالوں سے پیش کرنا بخوبی جانتے ہیں. البتہ ان کی ساری تگ و دو کسی اچھے مسلک پرست عالم کی طرح اپنے مسلک کو درست ثابت کرنے میں ہوتی ہے. اس حوالے سے ان کا مناظرانہ مزاج ناظرین سے ڈھکا چھپا نہیں. یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ شائد مولانا کوکب اکاڑوی بحیثیت اپنے مکتب فکر کے بڑے ہونے کی حیثیت سے کسی حد تک مفتی حنیف قریشی کا پروگرام میں مزاج بناتے ہیں. 
.
قاری خلیل الرحمن جاوید 
===============
.
قاری خلیل ایک کھرے اہل حدیث عالم محسوس ہوئے. آپ سے تعارف اس سے قبل نصیب نہیں تھا مگر ان دنوں میں بہت سے کلپس میں ان کی گفتگو سننے کو ملی جس سے ان کا قران اور صحیح حدیث کے نصوص پر مبنی طرز استدلال بہت خوب محسوس ہوا. البتہ ان کے لہجے کی کاٹ اور کچھ غیر محتاط الفاظ پروگرام میں گاہے بگاہے ایسے آتے رہے جن سے بریلوی اور شیعہ مکتب فکر کی سمجھ کو سختی سے جھٹلایا گیا. گویا وہ یوں بات نہیں کرتے تھے کہ اس حوالے سے اہل حدیث کی رائے یہ ہے. بلکہ آگے بڑھ کر وہ دوسرے مکاتب کی رائے کے بارے میں یہ بھی کہہ جاتے تھے کہ یہ بلکل غلط ہے. ان کا یہ انداز راقم نے اس آخری پروگرام سے بہت قبل محسوس کرلیا تھا اور اس ضمن میں ممکنہ تصادم بھی متوقع تھا. پروگرام میں اپنی رائے کو مقدم رکھنے کیلئے عامر لیاقت نے کئی بار کوشش کی مگر اس دوران قاری خلیل اپنی دو ٹوک رائے دے کر کسی بھی دوسرے شریک سے زیادہ شہرت پانے لگے. بلاخر وہ ہوا جس کا ڈر تھا. انہیں جس انداز میں کارنر کیا گیا اسے سمجھنے کیلئے آئین اسٹائن ہونا ضروری نہیں. 
.
علامہ شبیر حسن 
===========
.
آپ میڈیا پر اہل تشیع کی جانب سے ان گنت بار مدعو کئے جاچکے ہیں. انہیں بلانے کا ایک بڑا مقصد شائد یہی ہوتا ہے کہ یہ انتہائی صلح جو اور بناء کسی اختلاف میں پڑے اپنی مسلکی رائے بیان کرنے میں طاق ہیں. یہ اپنی بات اس انداز میں پیش کرتے ہیں، جس سے شیعہ نقطہ نظر بریلوی سنی نقطہ نظر کی موافقت کرتا ہوا محسوس ہو. 
.
ڈاکٹر ذاکر نائیک 
==========
.
ڈاکٹر ذاکر کے قد اور نام سے کون واقف نہیں؟ غیر مسلموں کو دعوت دینے کی ضمن میں جو خدمات آپ کی ہیں اس کی مثال حال یا ماضی میں ملنا مشکل ہے. میں خود انگلینڈ میں سالہا سال دعوت کے شعبے سے منسلک رہا ہوں اور دیانتداری سے کہتا ہوں کہ ساری دنیا میں دعوتی سرگرمیوں کو جو قوت ڈاکٹر ذاکر اور شیخ دیدات کی بدولت حاصل ہوئی ہے وہ بے مثال ہے. چاہے وہ ان کا طرز استدلال ہو، ان کی فراہم کردہ ٹریننگ ہو یا پھر دعوتی کتب. ایک زمانہ اس وقت ان سے استفادہ کررہا ہے اور شائد صدیوں کرتا رہے گا. کتنے ہی غیرمسلموں سے میں خود مل چکا ہوں جو اسلام لے آئے یا اسلام کے قریب آگئے کیونکہ انہوں نے ڈاکٹر ذاکر کی تقاریر سن لی تھیں. ڈاکٹر ذاکر صاحب سے جو غلطی ہوئی وہ یہ کہ انہیں بحیثیت داعی خود کو محدود رکھنا چاہیئے تھا. تاریخ اسلام کے واقعات کو موضوع بنانا یا فقہی باریکیوں میں الجھنا ان کے مرتبے کی بات نہ تھی. اس کیلئے پہلے ہی لاکھوں موجود تھے/ہیں. یہ دعوت دین کے علاوہ تاریخی واقعات ہی کو موضوع بنانے کا نتیجہ ہے کہ ان سے جلنے والو کو موقع حاصل ہوا کہ وہ ان کی کسی غلط سمجھ یا بات کو پکڑ کر ان کے تمام کام کو زیرو بتانے لگیں. اس بات سے قطع نظر کہ کیا درست کیا نہیں؟ یزید والی بحث انکے کرنے کی تھی ہی نہیں. البتہ جو فرقہ باز مولوی آج اسے بنیاد بنا کر ڈاکٹر ذاکر کو کافر بنانے پر تلے ہوئے ہیں. اگر انہیں ان ہی کے اکابر کے کفر بھرے جملے سنائے جائیں تو فوری تاویل کرنے لگیں گے. جو کل مرحوم جنید جمشید کی آنسو بھری توبہ کو بھی سن کر اسے قتل کرنے کے درپے تھے وہ آج عامر لیاقت کی توبہ کو فوری سینے سے لگانے کو تیار ہیں. دھیان رہے کہ یہی منافرت بقیہ مسالک میں بھی یونہی موجود ہے پھر وہ اہل حدیث ہوں، دیوبندی ہوں یا بریلوی. 
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 22 May 2018

آپ یا تو


آپ یا تو


سوال:
ہم جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں تو لفظ "آپ" کا استعمال کرتے ہیں. اس کے برعکس ہم جب اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں تو لفظ "تو" سے بھی مخاطب ہو جاتے ہیں. کیا یہ صریح گناہ نہیں؟
.
جواب:
ہر زبان اور معاشرے کی اپنی حدود و قیود ہوا کرتی ہیں. یہ ہماری صوابدید پر ہے کہ ہم بحیثیت مسلم انہیں ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ اور اسکے رسول کیلئے جس طرز تخاطب کو زیادہ مناسب پائیں، اسے اختیار کریں. آپ کا درج کردہ اشکال دراصل برصغیر پاک و ہند کے مزاج اور زبان اردو سے متعلق ہے. اسکی جو ممکنہ توجیح ہم پیش کرسکتے ہیں وہ یہ کہ اللہ پاک نے اپنی کتاب قران حکیم میں ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ انکے محبوب پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاملہ انتہائی ادب و احترام کیساتھ کریں. اس ضمن میں بے احتیاطی انسان کے تمام اعمال کو اکارت کرسکتی ہے. لہٰذا اس احتیاط کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اردو بولنے والے جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کریں تو انہیں "آپ" سے مخاطب کریں. سورہ الحجرات کی دوسری آیت ملاحظہ ہو:
.
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیؐ کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو"
.
اس کے برعکس بندے کا اپنے پروردگار سے تعلق بہت الگ ہے. اس تعلق میں بیک وقت خشیت و احترام بھی ہے اور دوستی و بےتکلفی بھی. وہ اپنے خالق سے شب و روز مخاطب ہوتا ہے. اسکے سامنے اپنا حال دل، اپنی حاجات رکھتا ہے. گویا ایک عبد کبھی تو رب ارض وسماء کی ہیبت سے ایسا لرزاں ہوتا ہے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں اور دھڑکن رک سی جاتی ہے. جبکہ کبھی اپنے بنانے والے سے بندہ خود کو اتنا نزدیک پاتا ہے کہ لاڈ اور مان سے ضد یا فرمائش کرنے لگتا ہے. اسی بے تکلفی میں کسی قریبی دوست کی مانند اسے "تو" کہہ کر مخاطب کرلیتا ہے. ہمارے نزدیک اگر جذبہ اسی قربت و تعلق کا ہو تو پھر "تو" کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ان شاء اللہ یہ ادب کے منافی قرار پائے گا. اللہ پاک اپنے نیک بندوں کو اپنا دوست قرار دیتے ہیں. پھر چاہے وہ خلیل اللہ یعنی اللہ کے دوست ابراہیم علیہ السلام ہوں یا پھر سچے مومنین، جنہیں اولیاء قرار دیا جاتا ہے. سورہ البقرہ کی ٢٥٧ آیت ملاحظہ ہو.
.
"ایمان ﻻنے والوں کا ولی (کارساز) اللہ تعالیٰ خود ہے، وه انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں۔ وه انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے"
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: ایک توجیحح اس سوال کی اہل علم یہ بھی دیا کرتے ہیں کہ چونکہ "آپ" جمع کا صیغہ ہے اسلئے خدائے واحد کیلئے "تو" کا استعمال کیا جاتا ہے. گو راقم کو جو دلیل زیادہ قوی محسوس ہوتی ہے وہ پوسٹ/ تحریر میں بیان کردی گئی ہے. اردو زبان میں "آپ" واحد کیلئے بھی مستعمل ہے، خاص کر جب مخاطب کو عزت دینا مقصود ہو)

Monday, 14 May 2018

شائد میری ہی ناک خراب ہو



شائد میری ہی ناک خراب ہو؟


.
ملکی سیاست پر میرا قلم بہت ہی کم چل پاتا ہے. حالانکہ میں خوب واقف ہوں کہ پاکستانی قارئین کی سب سے زیادہ دلچسپی حالات حاضرہ اور سیاسی تجزیوں میں ہی ہوا کرتی ہے. مجھے تو یہ سیاسی منظرنامہ اتنا تعفن زدہ محسوس ہوتا ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے. کہتے ہیں غلاظت صاف کرنے کیلئے غلاظت میں اترنا پڑتا ہے؟ مگر یہاں تو جو اترتا نظر آتا ہے وہ بھی صفائی کی بجائے اسی غلاظت میں کسی مست ہاتھی کی مانند لوٹنے پوٹنے لگتا ہے. وہ محبان ملت جو ہمیشہ محبت کی بات کرتے ہیں، جب سیاست کا معاملہ ہو تو نفرت بانٹنے لگتے ہیں. ان کا قلم صرف آگ اور بغض اگلتا ہے. وہ اہل علم جو خود کو غیر متعصب کہلوانا پسند کرتے ہیں، اپنے من پسند سیاسی لیڈروں کے ملک مخالف بیانات، کرپشن اور غلط پالیسیوں کا ہر ممکن دفاع کرنے لگتے ہیں. اور وہ صاحبان دانش جو قومی شعور بیدار کرنے کے دعویدار ہیں، اپنے موقف پر اتنے متشدد ہوجاتے ہیں کہ مخالف کی اچھی سے اچھی بات کی بھی تائید کرنے سے قاصر رہتے ہیں. مانتا ہوں کہ کسی بھی خیرخواہ کیلئے سیاست سے مکمل دوری ممکن نہیں مگر غلاظت صاف کرنے کی بجائے خود اس میں لتھڑ جانا بھی تو ٹھیک نہیں ہے. پھر جب چاروں اطراف خود سے زیادہ عقلمند افراد کو اس سے چپکا لپٹا دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا معلوم سڑاند ہو ہی نہیں؟ بلکہ شائد میری ہی ناک خراب ہو؟
.
====عظیم نامہ====

Saturday, 12 May 2018

یقین، تشکیک اور ایمان


یقین، تشکیک اور ایمان 



.
یقین وہ کیفیت ہے جب انسان کسی بات کی صداقت پر آخری درجے میں مطمئن ہو. اسے اس حقیقت کا ایسا براہ راست ادراک حاصل ہو یا فطرت کے نہاں خانوں میں ایسی گواہی موجود ہو کہ پھر نہ کسی دلیل کی حاجت رہے نہ ممکنہ تفکر کی. مثال کے طور پر میرے لئے یہ صداقت کہ "میں" ہوں اور آپ سے مخاطب ہوں یا آپ کیلئے یہ حقیقت کہ "آپ" ہیں اور آپ اس تحریر کو سوشل میڈیا پر پڑھ رہے ہیں. 
.
تشکیک یا شک دراصل یقین کے منافی کیفیت کا نام ہے. جب کسی شے کی حقیقت و صداقت پر آپ کو عقلی و قلبی اطمینان نہ باقی رہے تو یہ کیفیت شک کہلاتی ہے. یہ ممکن ہے کہ کسی شے یا دعوے پر آپ کو شک تو ہو مگر وہ شک ایسا قوی نہ ہو جو آپ کو اسے مکمل جھٹلانے یا نہ ماننے پر مجبور کرسکے. لیکن ساتھ ہی اس شک کی موجودگی آپ کو یقین کی منزل پر بھی نہ پہنچنے دے. 
.
ایمان وہ کیفیت ہے جو براہ راست تجربے کا نتیجہ تو نہیں ہوتی. البتہ تفکر و تدبر سے ایسے قرائن و براہین پالیتی ہے جو کسی شے یا دعوے کی صداقت پر آپ کو مطمئن کرسکے. 
.
کسی دعوے پر 'یقین' اسی وقت کرنا درست ہے جب فی الواقع آپ کے ذہن و قلب اسکی صداقت پر آخری درجے میں راضی ہوں. ساتھ ہی یہ یقین اندھا نہ ہو بلکہ اسکی براہ راست گواہی آپ کے باطن یا پھر خارج سے آپ کو حاصل ہوتی ہو. بہت سے افراد مختلف دعووں پر زبردستی 'یقین' کر بیٹھتے ہیں جو پھر کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی سیاست و طاقت کے نام پر فساد کا باعث بنتے ہیں. 'تشکیک' کا ہوجانا ایک فطری و عقلی رویہ ہے. بلکہ یہ کہنا بھی شائد غلط نہ ہو کہ انسانی شعور کے ارتقاء میں تشکیک کو کلیدی حیثیت حاصل ہے. انسان کسی بھی بات کی صحت کا اسی وقت تعین کرسکتا ہے جب وہ اسے جانچے اور جانچنے کیلئے لازم ہے کہ وہ سوال اٹھائے اور تشکیک کے مراحل سے گزرے. البتہ جس طرح کسی بھی شے کی زیادتی مضر ہوا کرتی ہے ویسے ہی تشکیک کو عمدہ ترین صفت سمجھ کر شک کی کیفیت سے نہ نکلنے کی ٹھان لینا بھی صحتمند رویہ نہیں. یہ افسوسناک امر ہے کہ کچھ جدید فلسفیانہ اذہان نے شک کرنے اور شکوک پھیلانے کو ہی علمی رویہ سمجھ لیا ہے. نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنے اس عقلی سفر میں وہ سکون سے عاری ہی رہتے ہیں اور اسی غلط فہمی میں مرجاتے ہیں کہ شائد یہی ذہانت کی معراج ہے.
.
اسکے برعکس اعتدال پر مبنی ایک وہ رویہ ہے جو دین ہمیں عطا کرتا ہے. دین ان تینوں رویوں کو ان کے صحیح مقام و محل پر رکھتا ہے. وہ جہاں ہمیں کچھ آفاقی و روحانی حقیقتوں پر ہمیں یقین کرنا سیکھاتا ہے. وہاں ہمارے اردگرد موجود بیشمار خود ساختہ فلسفوں پر 'تشکیک' سے انکار یعنی 'لا' تک کا سفر کرواتا ہے. تفکر و تدبر کے نام پر الہامی حقائق پر سوال کرنے کی حوصلہ افزائی کررتا ہے. اسی طرح بقیہ حقیقتوں پر دلائل و براہین سے گزار کر اپنے مخاطب کو 'ایمان' رکھنے کی تلقین کرتا ہے. دھیان رہے کہ ایمان بن دیکھے تو ہوسکتا ہے بن سمجھے نہیں. ہم میں سے اکثر ایمان کو یقین کے مماثل سمجھ لیتے ہیں حالانکہ ان دونوں میں ایک باریک مگر بنیادی فرق ہے. ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے. جیسے سورہ النساء میں آتا ہے "..اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں تو وه آیتیں ان کے ایمان کو اور زیاده کردیتی ہیں.." گویا ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کئی احادیث سے ظاہر ہے کہ کم بھی ہوجاتا ہے.اسکے برعکس یقین منجمد ہوتا ہے. وہ گھٹتا بڑھتا نہیں ہے. گو اسکے اپنے تین درجات ہیں جن کا بیان اختصار کے سبب کرنا مناسب نہیں. (علم الیقین،عین الیقین اور حق الیقین)
.
"اور جب ان سے کہا گیا جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا "کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟" خبردار! حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں، مگر یہ جانتے نہیں ہیں" - سورہ البقرہ ١٣
.
====عظیم نامہ====

Thursday, 10 May 2018

آپ کو میں پسند نہیں

آپ کو میں پسند نہیں


مجھ سے کئی خواتین و مرد یہ کہتے رہے ہیں کہ عظیم مجھے آپ بہت پسند ہیں. میں عموماً ان کا شکریہ ادا کرکے خاموش ہوجاتا ہوں مگر آج انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو میں پسند نہیں ہوں. بلکہ آپ کو میرا وہ امیج یا تصوراتی خاکہ پسند ہے جو اس فیس بک کی تحریروں کے ذریعے آپ تک منتقل ہوا ہے. میں حقیقت میں کیسا ہوں؟ میرا مزاج، میرا اخلاق، میرے عادات و اطوار کیسے ہیں؟ یہ آپ قطعی نہیں جانتے. مجھے فی الواقع جاننے کا دعویٰ یا تو میرے بیوی بچے کرسکتے ہیں یا پھر وہ عزیز و اقارب جو مجھ سے قریب رہے ہوں. مجھ سمیت دیگر جتنے لکھاریوں کو آپ پڑھتے ہیں یا فیس بک کے ذریعے جانتے ہیں، اگر ان کی بیگمات سے ان کا اخلاق پوچھا جائے تب معلوم ہو کہ عمل کی دنیا میں ان کا کردار کیسا ہے؟ اس فیس بک کی دنیا سے دھوکہ نہ کھائیں. بہت ممکن ہے کہ آپ کا شوہر، بھائی، بیوی یا بہن مجھ جیسے نام نہاد دانشور سے ہزار گنا بہتر انسان ہوں. لہٰذا سراب کو بہشت سمجھنے کی بجائے جو حاصل ہے اسکی قدر کیجیئے. 
.
====عظیم نامہ====

حسن کیا ہے؟

حسن کیا ہے؟

.
ایسا کیوں ہے کہ کم و بیش ہر زبان کے بولنے والے افراد شاعری کرتے ہیں اور شاعری کو پسند کرتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک ہی بات جب نثر میں بیان ہو تو ویسی اثر انگیزی نہیں رکھتی جیسی کسی شعر یا نظم کا پیرہن پہن کر لگتی ہے؟ کیوں کسی غزل کے اشعار سن کر ہماری طبیعت مسکرا اٹھتی ہے؟ اور کیوں ہم حمد و نعت سے لے کر قوالی و موسیقی تک شاعری کے مداح بن جاتے ہیں؟ ہمیں محبت کے لطیف جذبات کا اظہار کرنا ہو، ہمیں جدائی کا رنج و کرب بیاں کرنا ہو، ہمیں کسی کے حسن کے قصیدے پڑھنے ہوں، ہمیں انقلاب برپا کرنا ہو .. غرض مقصد و جذبہ کوئی بھی ہو، ہم کیوں شاعری ہی کو کہنا اور سننا پسند کرتے ہیں؟ ایسا کون سا حسن ہے جو شاعری میں پنہاں ہوتا ہے اور جس سے ہماری روح جھوم جھوم جاتی ہے؟ غور کیجیئے تو شاعری کا اصل حسن اس کے ' توازن ' میں ہے. مانا کہ دوسرے لوازم جیسے الفاظ کا انتخاب اور پیغام اپنی جگہ اہم ہیں مگر یہ سب تو نثر یا تقریر سے بھی منتقل ہوسکتے تھے. دراصل یہ توازن ہی ہے جو شاعری کو وہ جاذب حسن عطا کردیتا ہے جو اپنے مخاطب کی عقل و سماعت کو جکڑ لے اور اسے اپنا بنالے.
.
اسی تمہید کو سامنے رکھ کر جب سوچتا ہوں کہ حسن کیا ہے؟ تو جواب ملتا ہے کہ حسن توازن ہے. گویا کسی شے کا متوازن ہونا اس کے حسین ہونے کی دلیل ہے. کسی خاتون کی آنکھوں میں توازن نہ ہو تو یہ اس کا بھینگا پن یعنی نقص کہلاتا ہے، کسی مرد کے دانت آگے پیچھے ہوں یعنی توازن سے خالی ہوں تو اس کا حسن ماند پڑ جاتا ہے. یہ کائنات ہمیں حسین لگتی ہے اور اسکی اصل وجہ اس کا بہترین نظم یعنی توازن ہے. اسی توازن کا بیان قران حکیم میں بارہا کیا گیا جیسے سورہ الرحمٰن میں ارشاد ہوا وَالسَّماءَ رَفَعَها وَوَضَعَ الميزانَ - اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نے میزان (توازن رکھنے والی) رکھی. یہی توازن کسی نہ کسی درجے میں ایک شاعر کی شاعری میں، ایک لکھاری کی نثر میں، ایک گائیک کی گائیکی میں، ایک مصور کی تصویر میں، ایک معمار کی تعمیر میں، ایک مقرر کی تقریر میں، ایک رقاص کے رقص میں اور ایک عابد کی عبادت میں حسن بن کر ظاہر ہوتا ہے. اگر جسم میں توازن نہ ہو تو پیروں پر کھڑا تک ہونا ناممکن، اگر خوراک میں توازن نہ ہو تو صحت کا برقرار رکھنا ناممکن، اگر خوراک کے اجزاء جیسے نمک و چینی وغیرہ میں توازن نہ ہو تو لذت برقرار رکھنا ناممکن اور اگر شمس و قمر جیسے فطری مظاہر میں توازن نہ ہو تو کائنات کا قائم رہنا ناممکن. گو چار سو توازن ہی ہے جو ہمیں حسن و بقاء کی داستان رقم کرتا نظر آرہا ہے. یہی توازن انسانی شخصیت میں جلوہ گر ہو تو اسے حسین بنا دیتا ہے. متوازن مزاج شخصیت ہی جاذب کہلا سکتی ہے. گویا مزاح، سنجیدگی، غضب، حلم اور ایسی دیگر انسانی صفات جس قدر شخصیت میں توازن سے موجود ہونگی، اسی قدر وہ شخصیت کا حسن بن کر نمایاں ہوسکیں گی.
.
====عظیم نامہ====

Monday, 7 May 2018

آنکھوں دیکھی



آنکھوں دیکھی

Image may contain: 1 person, text
.
"آنکھوں دیکھی" ایک ایسی کہانی ہے جو روایتی فلموں سے خاصہ ہٹ کر ہے اور جو اپنے ناظر کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے. گو اس فلم نے بہترین کہانی اور اداکاری پر کئی ایوارڈ جیتے ہیں مگر اسکے باجود ہمیں یقین ہے کہ عوام کی اکثریت نے پانچ سال قبل ریلیز ہونے والی اس مووی کو نہیں دیکھا ہوگا. وجہ وہی ہے کہ یہ کوئی ناچ گانے پر مبنی محبت و انتقام وغیرہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ انسانی سوچ کے سنجیدہ زاویوں کو نمایاں کرتی ہے. لہٰذا اسے سمجھنے اور سراہنے کیلئے مخصوص ذوق کا حامل ہونا ضروری ہے. یہ درحقیقت ایک ایسے سوچنے والے ادھیڑ عمرانسان کی روداد ہے جو ایک نچلے متوسط گھر کا سربراہ ہے. کچھ ایسے حالات و واقعات پیش آتے ہیں، جن کے سبب یہ صاحب ٹھان لیتے ہیں کہ کسی کے کہے سنے کو اب سچ تسلیم نہیں کریں گے بلکہ فقط اپنی 'آنکھوں دیکھی' ہی کو سچ مانیں گے. ان کا یہ فیصلہ آسان ثابت نہیں ہوتا اور چاروں طرف سے ان کی مخالفت ہونے لگتی ہے. دوست احباب مذاق اڑاتے ہیں. بیگم بچے فقرے کستے ہیں. نوکری چلی جاتی ہے. بھائی گھر چھوڑ جاتا ہے مگر یہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہتے ہیں. انہیں پنڈت کوئی پرساد پیش کرے تو چکھ کراسے قلاقند مٹھائی کہتے ہیں مگر پرساد نہیں مانتے. انہیں کوئی بتائے کہ من موہن سنگھ ملک کے سربراہ ہیں تو اسے نہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ رد. بلکہ کہتے ہیں کہ "ہونگے". گویا یہ ان کی نظر میں فقط ایک امکان ہے. شیر دھاڑتا ہے یا منمناتا ہے، اس کا فیصلہ اسوقت تک نہیں کرتے جب تک چڑیا گھر میں شیر کو دھاڑتا نہیں سن لیتے. انہیں جہاں دیدہ کہلانے سے زیادہ وہ کنویں کا مینڈک بننا زیادہ پسند ہے جو کم از کم اپنے کنویں سے اچھی طرح واقف ہو.
.
آہستہ آہستہ ان کے اردگرد لوگوں کا حلقہ بڑھنے لگتا ہے. وہ لوگ جو کل تک انہیں پاگل جھکی کہہ رہے تھے اب ان کے سچے پکے معتقد مرید بن جاتے ہیں. یہ سب بھی اسی فلسفے کو اپناتے ہیں کہ وہی ماننا ہے جو 'آنکھوں دیکھی' سے ثابت ہو. کچھ عرصے کیلئے یہ حضرت بلکل خاموش بھی ہوجاتے ہیں تاکہ حکمت کے راز مزید منکشف ہوں. خود ساختہ گونگا بن کر یہ اپنا پیغام سڑکوں پر بینرز اٹھا اٹھا کر پیش کرتے ہیں. ایک شاگرد ایسا بھی شامل ہوتا ہے جو مسلسل فلسفیانہ گفتگو بناء رکے کرتا ہے. گویا اسے بولنے کی بیماری سی ہوگئی ہوتی ہے. یہ اسے ہفتوں تک پورے انہماک سے سنتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اسکے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اور وہ بلاخر خاموش ہوجاتا ہے. یہ صاحب اپنے شاگردوں کو بار بار تلقین کرتے ہیں کہ میرا سچ تمہارے سچ سے الگ ہوگا. اپنا سچ خود تلاش کرو.مگر یہ مرید اندھے مقلد بن کر اپنے مرشد یعنی ان صاحب کا سچ ہی اپنا سچ بنا بیٹھتے ہیں. جو ان کیلئے دل آزاری کا سبب بنتا ہے. ان صاحب کا یہ انہونا و اچھوتا سفر انہیں کس حد تک لے جاتا ہے؟ یہ اپنے آپ میں ایک داستان ہے. راقم کا سچ یقیناً ان صاحب کے سچ سے بلکل جدا ہے مگر اسکے باوجود انسانی سوچ و فکر کیا کیا گل کھلاتی ہے؟ اس حوالے سے ہمیں یہ کہانی خوب لگی.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: فلم کا لنک خود گوگل سے ڈھونڈھ لیجیئے. ایک لنک ہم پہلے کمنٹ میں درج کیئے دیتے ہیں)

دو موجودات


دو موجودات



دین کی رو سے صرف دو موجودات ایسے ہیں جنہیں دیکھتے رہنا بھی ثواب کا باعث ہے. پہلا 'بیت اللہ' اور دوسرا اپنے 'والدین'. لوگ کسی بزرگ کی دعا کیلئے دن رات جتن کرتے ہیں مگر اکثر ویسی کوشش اپنے والدین کی دعا کے حصول کیلئے نہیں کرتے. حالانکہ یہ باپ کی دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور یہ ماں کی دعا ہے جو عرش ہلادیتی ہے. 
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: تحقیق سے راقم پر منکشف ہوا ہے کہ کعبہ اور والدین کو دیکھنے پر ثواب کا بیان جن احادیث یا آثار میں ہوا ہے وہ صحیح اسناد سے ثابت نہیں. گو دونوں موجودات کی جانب محبت کی نظر کرنا دین کے مجموعی تاثر سے مستحب عمل محسوس ہوتا ہے. لہٰذا اس نوٹ کو پوسٹ میں اب کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد داخل کیا جارہا ہے)

یادوں کے جھروکے سے


یادوں کے جھروکے سے ..



.
زندگی میں بعض ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو بظاہر معمولی ہونے کے بعد بھی آپ کی یادداشت کا مستقل حصہ بن جاتے ہیں اور ساتھ ہی چپکے سے آپ کو زندگی کا کوئی قیمتی سبق بھی پڑھا جاتے ہیں. ایسی ہی دو یادیں درج ذیل ہیں.
.
پہلا واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ایک انگریز میرے ساتھ آفس میں کام کرتا تھا. یہ ہنس مکھ سا ملنسار انسان معلوم ہوتا. کئی بار اس سے سامنا ہوا مگر مسکراہٹ کے تبادلے کے سوا کوئی بات نہ ہوسکی. پھر ایک روز موقع آیا تو ہم نے اسے صبح بخیر (گڈ مورننگ) کہنے کے بعد دوسروں کی طرح حسب روایت دریافت کیا کہ کیا حال چال ہیں؟ اب ہمیں پوری توقع تھی کہ اس کا بھی جواب ویسا ہی رسمی ہوگا جیسے کوئی عام انگریز کچھ یوں دیتا ہے کہ 'میں ٹھیک ہوں، تم کیسے ہو؟' یا پھر مسلمان الحمدللہ کا رسمی و لفظی اضافہ کرکے یہی جملہ دہرا کر اپنا مذہبی فریضہ پورا کردیتا ہے. مگر ایسا نہ ہوا. جب میں نے اس سے پوچھا کہ 'کیا حال چال ہیں؟' تو اس نے غور سے میرا سوال سنا، ایک لمحہ توقف کیا. جیسے سوچ رہا ہو اور پھر پوری مسرت کے ساتھ بولا کہ "عظیم میں بلکل ٹھیک ہوں بلکہ میں بہت زیادہ خوش ہوں. مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں اتنا خوش نصیب کیسے ہوں؟ اور کیسے ہر چیز بہترین چل رہی ہے." میں اس کے اس غیر متوقع جواب پر چونکا اور سٹپٹا کر اسے دیکھنے لگا. اس کے چہرے پر خوشی اور سکون تھا. لہجے میں دیانت اور الفاظ میں سچائی. دوستو میں خود الحمدللہ ایک پرسکون اور خوش انسان ہوں مگر یقین کیجیئے کہ اس انگریز دوست کی بات نے دل پر کچھ ایسا مثبت اثر ڈالا کہ دل خوشی سے لبریز ہوکر مسکراہٹ میں ڈھل گیا. سیکھ یہ ملی کہ شکرگزاری اگر سچی ہو تو رسمی الفاظ کا لبادہ نہیں اوڑھتی بلکہ اسکی بات اور شکرگزاری تو دل سے نکلتی ہے اور دل پر اثر کرجاتی ہے.
.
دوسرا واقعہ کچھ ایسے ہوا کہ ابتداء میں جب پاکستان سے لندن آیا تو ایک نہایت مہنگے علاقے کے ایک معروف پاکستانی ریسٹورنٹ میں نوکری ملی. اس کے مالک ایک نہایت کامیاب پاکستانی کاروباری تھے. جن کی اس ریسٹورنٹ کے علاوہ بھی بہت ساری پراپرٹی اور بزنس جیسے ہوٹلز یا گھر وغیرہ تھے. میں اس ریسٹورنٹ میں کبھی بیرا بن کر گاہکوں کی خدمت کرتا اور کبھی ان کے جھوٹے برتن صاف کرتا. کبھی خانساماں کا ہاتھ بٹا کر کھانا پکانے میں مدد دیتا اور کبھی کیشیئر کی ذمہ داری سنبھال لیتا. یہ شروع شروع کے دن تھے اور شروع کے دنوں میں پاکستان سے آئے متوسط پڑھے لکھے افراد کو ایسے کام کرنا طبیعت پر گراں گزرتا ہے. میرے ساتھ بھی یہ معاملہ تھا مگر خود کو سمجھا بجھا کر پوری جانفشانی سے میں ہر محنت کا کام کررہا تھا. مگر پھر ایک دن ریسٹورنٹ کے مالک نے مجھے پونچھا (موپ) لگانے کو کہا. یوں لگا کہ جیسے کسی نے عزت نفس پر چھرا گھونپا ہو. بڑی مشکل سے خود کو راضی کیا اور ریسٹورنٹ میں پونچھا لگانے لگا. اب باس نے کہا کہ ذرا ریسٹورنٹ کے باہر سامنے بھی پونچھا لگا دو. یہ بات تو جیسے طبیعت پر بجلی کی مانند گری. اتنے مصروف علاقے میں لوگوں کے سامنے پونچھا لگانا مجھے اپنے لئے شدید ذلت محسوس ہوئی. بے اختیار آنکھوں میں آنسو امڈ آئے. میری اس کیفیت کو شائد ریسٹورنٹ کے مالک بھانپ گئے. انہوں نے فوری کہا کہ عظیم پونچھا چھوڑو تم جاکر کیش کاونٹر سنبھالو. اس کے بعد انہوں نے میرے ہاتھ سے پونچھا لیا اور ریسٹورنٹ کے باہر کی جگہ پر لوگوں کے بیچ پونچھا لگانے لگے. میں حیرت ذدہ سا انہیں دیکھنے لگا کہ ایک ارب پتی انسان پونچھا لگانے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتا؟ اور میں خود کو اتنا لارڈ گورنر سمجھتا ہوں کہ مجھے یہ کام کرنا ذلت محسوس ہوا؟ اس کے بعد میں نے ایسے متعدد واقعات دیکھے جب کامیاب ترین انسانوں نے کسی ایسے کام کو کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کی. جنہیں ہم پاکستان میں یہ کہہ کر نہیں کرتے کہ میں کیا کوئی بھنگی چمار ہوں؟ اس واقعہ سے سیکھ ملی کہ کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا اور کسی جائز کام کے کرنے میں کوئی شرم نہیں ہونی چاہیئے. 
.
====عظیم نامہ====

مسکراتی یادیں



مسکراتی یادیں 



.
ہر انسان کی زندگی میں ایسے کئی غیر متوقع واقعات پیش آتے ہیں جو وقتی طور پر اسے حیران بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی باقی زندگی کیلئے مسکراہٹ کا سامان بھی بن جاتے ہیں. ایسے ہی چند واقعات راقم کی زندگی سے درج ذیل ہیں.
.
میری ایک سابقہ نوکری میں ایک انڈین سکھ کام کرتا تھا. یہ بندہ انگلینڈ ہی کا پیدائشی تھا اور اپنی بہترین انگریزی کی وجہ سے ہم سب میں ممتاز نظر آتا تھا. انگریزی الفاظ کا ذخیرہ، چناؤ اور لہجے کی روانی ایسی عمدہ تھی کہ مجھ سمیت اکثر کو رشک محسوس ہوتا. ہم دونوں میں اکثر انگریزی میں گفتگو ہوتی رہتی. ایک دن 'اسٹاف لاکرز روم' میں وہ اپنے لاکر کو کھول رہا تھا. مجھے دیکھ کراس نے پہلی بار انگریزی کی بجائے پنجابی میں گفتگو کرنا چاہی تو کچھ یوں بولا .. "عظیم پائی .. میں پہے لاکر وچ رکھ ریا سی .. پر پائی اتھے تے کیڑی آندی اے کیڑی !" .. (میں پیسے لاکر میں رکھ رہا تھا مگر یہاں تو کیڑے ہوگئے ہیں) ... ایک تو اس نے سالوں بعد پہلی بار انگریزی کی بجائے مجھ سے اچانک پنجابی میں بات کی اور پھر یہ جملہ بھی ایسے ٹھیٹھ پینڈو لہجے میں بولا کہ مجھے چپ سی لگ گئی. ایسا نہیں ہے کہ مجھے پنجابی پسند نہیں ہو لیکن اس مہذب ترین انگریزی لہجے والے دوست نے پنجابی بولتے ہوئے کچھ ایسا انداز اختیار کیا کہ پہلے وقتی صدمہ سا لگا اور اس کے بعد یہ روداد زندگی بھر کی ایک مسکراتی یاد بن گئی. 
.
انگلینڈ میں ماسٹرز کرنے کے دوران میں ایک معروف 'فیشن ریٹیل فرم' میں ملازم تھا. ایک روز ایک انگریز عورت گاہک بن کر شاپنگ کر رہی تھی. اس کا سات آٹھ سال کا بیٹا نہایت بگڑا ہوا ضدی بچہ تھا. جس نے مصنوعی رونا چیخ چیخ کر پورا اسٹور سر پر اٹھا رکھا تھا. بچے کی ماں اپنے بگڑے لاڈلے کے سامنے بلکل مجبور بنی گھوم رہی تھی. میرے ساتھ ہی میرا انگریز مینجر بھی موجود تھا. جب کسی صورت اس بچے کا رونا نہ رکا تو وہ ماں کی نظر سے بچ کر اس بچے کے پاس گیا. مینجر کے چہرے پر بچے کیلئے شفقت اور مسکراہٹ تھی. وہ اس کے بلکل سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا. مجھے لگا کہ اب وہ بچے کو لاڈ پیار سے بہلائے گا. مگر اس نے بچے کو تھپڑ کا اشارہ دیکھا کر کرختگی سے کہا ... 
"Should I give you a better reason to cry about ! ??"
(یعنی .. کیا میں تمہیں رونے کی کوئی بہتر وجہ دوں؟)
یہ ضدی بچہ سہم کر اچانک چپ ہوگیا اور پھر باقی وقت چپ ہی رہا. لیکن سچ بات یہ ہے کہ اپنے مینجر کا یہ اوتار دیکھ کر خود میں بھی دنگ رہ گیا. اب بھی اسکی بات یاد آتی ہے تو بے اختیار مسکرا دیتا ہوں.
.
اسی طرح ایک اسٹور میں ملازمت کے دوران جب میں گاہکوں کی خریداری کو اسکین کرکے انکے حوالے کر رہا تھا تو ایک انگریز یہودی گاہک میرے پاس آیا. اس کے بالوں کی لمبی لٹیں، گھنی داڑھی اور مخصوص لمبا سیاہ کوٹ اس کے مذہبی ہونے کی نشاندہی کررہا تھا. میں نے حسب معمول اسے ہیلو کہا تو جواب میں اس نے مجھے جھک کر آداب کیا اور نہایت خوبصورت اردو میں میرا حال چال پوچھنے لگا. اس غیر متوقع افتاد سے میں کچھ لمحوں کے لئے سٹپٹایا مگر پھر مسرور ہوکر اس سے گفتگو کرنے لگا. یہ انگریز یہودی اردو ادب کا دلدارہ تھا اور بہت سالوں سے اردو سیکھ رہا تھا. اپنی گفتگو میں اس کا لہجہ بلا کا شائستہ تھا. وہ فراوانی سے نہ صرف نہایت ثقیل الفاظ استعمال کررہا تھا بلکہ غالب و اقبال کے اشعار بھی اسکی زبان پر رواں تھے. ظاہر ہے کہ میں اس بیس پچیس منٹ کی گفتگو میں اردو پر اسکی مہارت سے مرعوب ہو گیا تھا. اس کے خریدے ہوئے سامان کو اسکین کرتے کرتے آخر میں ایک دوائی (میڈیسن) بھی سامنے آئی. میں نے کچھ مروت میں اور کچھ بات آگے بڑھانے کو اس سے پوچھا کہ سب خیریت تو ہے محترم؟ یہ دوائی کیسی ہے؟ .. اس اردو کے ماہر نے ایک ہنکارا بھرا اور گرن ہلا کر کہا کہ "عظیم یہ پیٹ کے درد کیلئے ہے، دراصل مجھے کالی ٹٹیاں لگی ہوئی ہیں." مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا اور بوکھلا کر منہ سے نکلا "جی ! کیا لگی ہوئی ہیں؟" .. انہوں نے پھر اظہار تاسف سے کہا کہ روز کالی ٹٹی آرہی ہے. میرے ذہن میں سجا اس کی اردو دانی کا محل جیسے تاش کے پتوں کی مانند پل میں مسمار ہوگیا. کہاں وہ غالب و میر کی سی اردو اور کہاں کالی ٹٹی جیسے الفاظ سے اپنی بات کا اظہار؟ شائد میرے اس دوست کو ابھی اور کئی سال اردو کا ماہر بننے کیلئے درکار تھے. اب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو ہنسنے پر مجبور ہوجاتا ہوں.
.
====عظیم نامہ====