Sunday, 29 April 2018

ساحل پر کھڑا جہاز


ساحل پر کھڑا جہاز


ساحل پر کھڑا جہاز محفوظ اور پرسکون ہوتا ہے۔ مگر اسے اسلئے نہیں بنایا گیا۔ اسکا مقصد تو تلاطم انگیز لہروں کو چیر کر منزل ڈھونڈھنا ہے۔ انسان کا مقصد بھی بلند ہے۔ لہروں کے سنگ سنگ تو سب ہی تیر لیتےہیں، اصل انسان وہ ہے جو حالات کی سنگدل لہروں کو چیر کر اپنا رستہ بناتا ہے۔ 
۔
====عظیم نامہ====

روٹین


روٹین


زندگی روٹین میں ہو تو اکثر یکسانیت کا شکار ہوجاتی ہے اور پھر انسان شکایت کرنے لگتا ہے کہ یہ کیسی بورنگ زندگی ہے؟ حالانکہ زندگی کا نارمل روٹین میں رہنا ہی بہت بڑی نعمت ہے۔ گو دیگر نعمتوں کی طرح اس نعمت کی اہمیت کا اندازہ بھی اکثر اس کے کھو جانے پر ہوتا ہے۔ جب کوئی رشتہ ٹوٹ جائے یا کوئی عزیز دنیا چھوڑ جائے یا کوئی جان لیوا بیماری ہمیں جکڑ لے یا پھر اپنی جان سے پیاری اولاد معذور ہوجائے۔ تب احساس ہوتا ہے کہ وہ روٹین زندگی جسے ہم بورنگ کہہ کر منہ بسور رہے تھے، وہ اصل میں کتنی بڑی نعمت تھی؟ دانائی اسی میں ہے کہ ہم اپنی حاصل نارمل روٹین زندگی کی قدر کرتے ہوئے اسے مزید بہتر بنائیں اور رب کا اس بیش بہا نعمت پر مسلسل شکر ادا کرتے رہیں۔ الحمدللہ۔
۔
====عظیم نامہ====

محبت ظاہر سے یا باطن سے


محبت ظاہر سے یا باطن سے؟




 

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مرد و زن میں ایک دوسرے کیلئے غیر معمولی کشش موجود ہے. یہی کشش اکثرمحبت کے جذبے میں ڈھل جاتی ہے اور پھر اسی محبت کو نبھانے کے نام پر بندہ مر بھی سکتا ہے اور مار بھی سکتا ہے. مگر سوال یہ ہے کہ ایک مرد کا کسی عورت سے محبت کرنا یا ایک عورت کا کسی مرد سے محبت میں مبتلا ہوجانا کیا ظاہری یعنی جسمانی کشش کے سبب ہے؟ یا پھر وہ ایک دوسرے کی شخصیت یا روح سے پیار کرتے ہیں؟ محبت میں گرفتار افراد یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں محبوب کے جسم سے نہیں بلکہ اسکی روح سے محبت ہے. مگر کیا یہ واقعی مکمل سچ ہے؟ اگر ہاں تو پھر یہ پہلی نظر میں محبوب کے حسن پر فدا ہوکر مریض محبت کہلانا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ محبت کے ان دعویداروں کو اپنے اپنے محبوب کی شان میں شاعری کہتے یا پڑھتے ملاحظہ کیجیئے تو منکشف ہوگا کہ سارا زور حسن پرستی پر ہے. مرد اپنی محبوبہ کی آنکھیں جھیل جیسی، چال ہرنی جیسی، سراپا حور جیسا، چہرہ گلاب کی پنکھڑی جیسا بیان کرکے آہیں بھرتا ہے اور عورت اپنے محبوب میں شیر جیسی وجاہت اور لمبے چوڑے قد کی متمنی ہوتی ہے. اسے اپنے خوابوں کے شہزادے کا انتظار ہوتا ہے جو حسن اور دولت دونوں سے مالامال ہو. خوابوں کا موچی کسی لڑکی کو نہیں چاہیئے. 
.
معاشرے میں ایسے کیسز بھی گاہے بگاہے نظر آتے ہیں جب کوئی حسینہ کسی معمولی صورت مرد سے محبت کرکے اس سے نکاح کرلیتی ہے یا پھر کوئی وجیہہ مرد کسی کم شکل لڑکی پر اپنا دل ہار بیٹھتا ہے. ان کیسز کو دیکھ کر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان کا یہ لگاؤ ظاہر پر منحصر نہیں مگر ذرا قریب سے جائزہ لیجیئے تو چاہے دنیا کی رائے مختلف ہو مگر وہ ایک دوسرے کو خوبصورت پاتے ہیں. گویا فرق فقط اتنا ہے کہ ان کا اپنے محبوب سے متعلق زاویہ حسن ، دنیا کے عمومی زاویہ حسن سے ذرا ہٹ کرہوتا ہے. جیسے لوک داستان لیلیٰ مجنوں میں کہتے ہیں کہ لیلیٰ نہایت کم شکل لڑکی تھی مگر مجنوں کو وہ حسن کی دیوی معلوم ہوتی تھی. دھیان رہے کہ بات ان جوڑوں کی ہورہی ہے جن کا نکاح محبت کے نتیجے میں ہو. ورنہ یہ تو بہرحال ممکن ہے کہ بناء محبت کسی اور فائدے کو مدنظر رکھ کر کوئی شادی کے بندھن میں بندھ جائے. آپ سنتے ہیں کہ ایک لڑکی کو کسی لڑکے سے یا ایک لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے. ذرا تصور کیجیئے کہ اب اگر اس محبت کے ہوجانے سے پہلے ہی اس لڑکے یا لڑکی میں سے کسی ایک کا چہرہ بری طرح جھلس جاتا ہے تو پھر کتنا امکان تھا کہ یہ محبت کی ابتداء پھر بھی ان دونوں میں ہوپاتی؟ مجھے امید ہے کہ آپ میں سے اکثر کا دیانتدارانہ جواب یہی ہوگا کہ ایسی صورت میں ہمدردی تو ممکن ہوتی مگر شائد محبت میں نچھاور ہونا ممکن نہ ہوتا.
.
تو کیا انسان واقعی اتنا خودغرض ہے کہ محبت جیسے پاکیزہ احساس کو نبھانے کیلئے اسے ظاہری جسمانی حسن کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ؟ راقم کا جواب اس سوال پر نفی میں ہے. باوجود اس تمام استدلال کے جو ہم نے اپر پیش کیا، یہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک بار جو محبت ہو جائے تو پھر ظاہر سے کہیں زیادہ باطن اور محبوب کی شخصیت ترجیح بن جاتی ہے. محبت اگر سچی ہو تو اس کے ہوجانے کے بعد اگر محبوب اپنا ظاہری حسن حادثاتی طور پر کھو بھی بیٹھے تب بھی محبت کے دل سے اس کی قدر کم نہیں ہوتی. وہ اسکے لئے خود کو قربان کرنے سے بھی نہیں چوکتا. گویا محبت کی ابتداء اگر ہمیشہ نہیں تو اکثر ظاہری حسن سے ہی متعلق ہوتی ہے مگر ایک بار جو محبت ہوگئی تو پھر یہ ظاہر کی محتاج نہیں رہتی. 
.
====عظیم نامہ====

.
(نوٹ: پوسٹ میں عشق حقیقی کو موضوع نہیں بنایا گیا کہ اسکے قرائن و شان جداگانہ ہے. یہاں فقط اس محبت کا ذکر ہے جو انسان میں اپنی مخالف جنس سے پیدا ہوتی ہے اور نکاح کی صورت زندگی بھر کا ساتھ چاہتی ہے)

Monday, 23 April 2018

مغالطے


مغالطے 



پاکستان میں بیرون ممالک سے متعلق بہت سے مغالطے عام ہیں. ان ہی میں سے چند دلچسپ مغالطے درج ذیل ہیں 
.
مغالطہ : جو پاکستان میں گاڑی چلا سکتا ہے، وہ دنیا میں ہر جگہ گاڑی چلا سکتا ہے !
.
حقیقت : اصل میں جو پاکستان میں گاڑی چلاتا رہا ہو، اسے اکثر مغربی ممالک میں لائیسنس کا امتحان پاس کرنا مشکل ہوجاتا ہے. وجہ ڈرائیونگ کی بری عادتیں اور ٹریفک قوانین کی پاسداری نہ کرنا ہیں. جس کی وجہ سے مغرب میں اسے ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنا کسی فریش سیکھے ہوئے ڈرائیور سے زیادہ کٹھن ثابت ہوتا ہے. اکثر وہ افراد جو ساری عمر پاکستان میں ڈرائیونگ کرتے رہے ہوں، انگلینڈ یا دیگر مغربی ممالک میں بار بار فیل ہوتے ہیں. جبکہ نئے سیکھنے والے ڈرائیورز کی امتحان میں کامیابی کا تناسب کہیں زیادہ ہے. 
.
مغالطہ : گورے ہماری گندمی رنگت کے دیوانے ہیں. اسی لئے وہ خود اپنی جلد کو بھی دھوپ میں جلاتے رہتے ہیں !
.
حقیقت : ایسا نہیں ہے. وہ اپنی رنگت کو گہرا یا سنہرا ضرور کرتے ہیں مگر ہماری رنگت انکی اکثریت کو اپنی رنگت سے بہتر نہیں لگتی. سیاہ فام افراد کو اکثر ان کی رنگت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے ھپ ھاپ اسٹائل کی وجہ سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے مگر ہم دیسیوں کے بھولے پن بلکہ بونگے پن کا کئی بار مذاق بنتا ہے. اسی طرح انگریزی بولنے کا انڈین انداز ساری دنیا میں ہنسی کا سبب بنتا رہتا ہے. 
.
مغالطہ : ہم انگلینڈ امریکہ جا کر اسلام پھیلائیں گے !
.
حقیقت : یہ درست ہے کہ کچھ مسلمان فی الواقع اسلام کے فروغ کا سبب بنتے ہیں مگر ایک خاصی تعداد ایسی بھی ہے جو پاکستان انڈیا سے جب یورپ امریکہ وغیرہ میں بستی ہے تو دیگر فسلفوں کے طوفان کے سامنے اپنا اسلام بھی کھو بیٹھتی ہے. ان میں سے کئی ملحد، کئی عیسائی اور کئی منکرین حدیث میں شامل ہوجاتے ہیں. 
.
====عظیم نامہ====

کہنے لگے



کہنے لگے صرف ننانوے فیصد مردوں کی وجہ سے باقی تمام شریف مرد بدنام ہیں
ہم نے کہا اور اس باقی ایک فیصد میں دنیا کی ہر خاتون کے والد، بھائی، بیٹے اور شوہر شامل ہیں۔

سیاسی استحکام - ایک تجزیہ


سیاسی استحکام - ایک تجزیہ 



.
کبھی سوچا کہ پاکستان سمیت قریب تمام مسلم ممالک میں سیاسی صورتحال اتنی ابتر کیوں ہے؟ .. بھئی پاکستان کے بارے میں تو ہم مختلف طرح کی دانشوری بگھار لیتے ہیں کہ مثلاً کراچی کی گلی کے کنارے پر بیٹھے کوئی چچا میاں پان تھوکتے ہوئے کہیں گے کہ ایسا کرپٹ سیاستدانوں کی وجہ سے ہوا یا پھر پشاور میں کوئی خان صاحب منہ میں نسوار دباتے ہوئے فرمائیں گے کہ ایسا وڈیرہ شاہی نظام کے سبب ہوا یا پھر پنجاب میں کوئی پہلوان انکل اپنی توند سہلاتے ہوئے کہیں گے کہ دراصل فوجی قوتوں نے ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہ دیا وغیرہ. مگر قبلہ اس مخمصے کا کیا کریں ؟ کہ ساری دنیا میں پھیلے مسلم ممالک ہماری ہی طرح سیاسی بحران کا شکار رہے ہیں.گنتی کے دو چار مسلم ممالک جہاں صورتحال نسبتاً بہتر ہے، وہاں بھی ہر کچھ سال میں غیر یقینی صورتحال بن جاتی ہے جو پورے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے. 
.
کبھی سوچا کہ انگلینڈ، امریکہ جیسے ممالک میں مارشل لاء کا خطرہ کیوں نہیں ہوتا؟ وہاں کوئی جرنیل مسائل ختم کرنے یا کرپشن روکنے کا نام لے کر حکومت کا تختہ کیوں نہیں الٹ دیتا؟ .... اچھا چلیں اتنا نہ سوچیں ، بس یہ فرض کرلیں کہ انگلینڈ میں اس کی اپنی فوج حکومت پر قابض ہوجاتی ہے. بتایئے کہ اس پر عوامی ردعمل کیا ہوگا؟ .. کچھ اندازہ ہے؟ .. میں بتاتا ہوں. اول تو ایسا ہونا اگر ناممکن نہیں تو بہت بہت کم امکان رکھتا ہے. مگر اگر کسی بہت بڑی وجہ سے ایسا ہوجاتا ہے تو ساری عوام سڑکوں پر ہوگی اور فوج اگر فوری ضرورت پوری ہوتے ہی واپس نہ گئی تو اسکے شدید خلاف ہوجائے گی. اس وقت تک انہیں شانت کرنا مممکن نہیں ہوسکتا جب تک جمہوری حکومت دوبارہ بحال نہ ہوجائے. 
.
اسکے بلکل برعکس وہ رویہ ہے جو مسلم ممالک میں بلعموم اور پاکستان میں بلخصوص نظر آتا ہے. یہاں تو ڈکٹیٹر مشرف کے آنے پر بھی مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں اور مشرف کے جانے پر بھی دھمال ڈالے جاتے ہیں. مغربی دنیا اور اسلامی دنیا کے رویوں میں موجود اس عجیب تضاد پر آپ حیران و پریشان نہیں ہوتے؟ المیہ یہ ہے کہ ہماری اکثریت اس فرق کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی بلکہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ کر کبھی فوج کے آجانے کو خوشحالی کی نوید مانتی ہے اور کبھی کرپٹ سیاسی قیادت میں ہی اپنا نجات دہندہ ڈھونڈھتی دلفریب نعرے لگاتی ہے کہ 'جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے'. مگر سیاسی و فوجی چہرے بدلتے رہتے ہیں اور خوشحالی و استحکام کی تمنا لئے نسل بعد از نسل ختم ہوتی رہتی ہیں. ایک گروہ یہ پکارتا رہتا ہے کہ 'بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہرحال بہتر ہے' اور دوسرا گروہ تنک کر کہتا ہے کہ 'میاں کون سی جمہوریت؟ یہاں آمریت کی بدترین شکل کا نام ہی جمہوریت ہے'. بس یہ اکھاڑا سجا رہتا ہے اور استحصال شکلیں بدل کر اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے. 
.
مغرب کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا موجودہ نظام ایک زبردست انقلاب بلکہ بغاوت کے نتیجے میں تشکیل پایا ہے. یہ بغاوت اس مذہبی اور سامراجی قوتوں کے خلاف تھی جس نے انہیں دیوار سے لگا دیا تھا. یہ بغاوت اتنی شدید تھی کہ مذہب سے نفرت اور الحاد سے رغبت ان کا وطیرہ بن گئی. بادشاہت کا خاتمہ کردیا گیا. انہوں نے بحیثیت قوم مذہبی عقائد کو پہلے جزوی اور پھر مکمل ترک کردیا. مگر عقائد کا ہونا انسان کی انفرادی اور اجتماعی مجبوری ہے. اگر کوئی عقائد کا ایک ہار اپنے گلے سے اتارے گا تو جلد ہی عقائد کا ایک خود تیار کردہ طوق اپنے گلے میں سجا لے گا. مغرب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا. اس نے چرچ کے خود ساختہ عقائد سے جب جان چھڑائی تو ساتھ ہی نئے عقائد اپنے لئے منتخب بھی کرلئے. آپ مانیں نہ مانیں مگر جمہوریت، سیکولرزم، لبرٹی، لبرلزم اب مغرب کے عقائد ہیں. ان کی مخالفت پر وہ اتنا ہی سیخ پا ہوتے ہیں جتنا کوئی مذہبی اپنے مذہبی عقائد کی مخالفت پر. یہی وجہ ہے کہ ان کیلئے فوج کا جمہوری حکومت کو گرانا ایسا ہی سنگین جرم ہے جیسے مثال کے طور پر مسلمانوں کیلئے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم. کسی مسلمان ملک کی عوام کیلئے چونکہ یہ جمہوری یا لبرل یا سیکولر نظریات ان کے عقائد جیسے نہیں ہیں اور نہ ہی کبھی ہوسکتے ہیں. اسلئے ان میں مغربی عوام کی طرح اس ضمن میں شدت نہیں پائی جاتی. وہ تو ان نظریات کو فقط یہ سوچ کر گلے لگائے بیٹھے ہیں کہ جیسے ان نظریات کے اچھے ثمرات مغرب کو ملے ہیں ویسے ہی شائد ہم بھی حاصل کرپائیں گے. مگر عقائد کا یہ بنیادی فرق اس خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیتا. ہمارے لبرل طبقے کی طبیعت ناگفتہ پر یہ بات کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے مگر سچ یہی ہے کہ مغربی نظام کا جو فارمولا مغربی الحاد زدہ اقوام کے استحکام کا سبب بنا ہے. وہ فارمولا مسلم ممالک میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گا. دھیان رہے کہ ہم یہاں یہ دعویٰ نہیں کررہے کہ مغربی نظام برا یا اچھا ہے بلکہ فقط اتنا کہہ رہے ہیں کہ یہ نظام مسلم اذہان رکھنے والے ممالک میں کارگر نہیں ہوسکتا. آپ اپنے دس نمبر کے پیر کو سات نمبر کے جوتے میں فٹ کرنا چاہیں گے تو پیر الگ زخمی ہوگا اور جوتا الگ ادھڑ جائے گا. مسلمانوں کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنا نظام اسلامی بنیادوں پر ہی ترتیب دیں. مغربی عقائد اپنائیں گے تو یونہی منافق بنے رہیں گے. ہمارے عقائد اسلامی ہیں لہٰذا کارگر و دیرپا نظام کے سوتے بھی اسلامی عقائد ہی سے پھوٹ سکتے ہیں. ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں اس نظام کے نعرے مارنے والے بھی جو لوگ ملے ان کی اکثریت میں نری جذباتیت کے سوا عملی میدان کیلئے کچھ خاص نہ تھا. مگر اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہوسکتا کہ کوشش و امید ترک کردی جائے. جیسا عرض کیا کہ دیرپا نظام مسلمانوں کیلئے وہی ہوگا جو اپنی توثیق و تائید اسلام سے پیش کرے ورنہ تاش کے پتوں کا محل تو بن سکتا ہے مضبوط قلعہ نہیں. اقبال یہی بات ہمیں کچھ ان الفاظ میں سمجھا گئے تھے.
.
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر 
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: ہم جانتے ہیں کہ یہ حساس موضوع ہے جس کی مخالفت ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں. یہ فقط راقم کی ناقص رائے ہے، جس میں غلطی کا پورا امکان ہے اور جسے آپ جزوی و کلی رد کرسکتے ہیں)