Wednesday, 31 January 2018

مراکش کی مختصر روداد

مراکش کی مختصر روداد
================
.
الحمدللہ کچھ ماہ قبل میں نے مراکش کا سات دنوں پر مشتمل سفر کیا. جس نے مجھے اتنی خوبصورت یادیں دی ہیں جو ان شاء اللہ تاحیات ساتھ رہیں گی. سچ یہ ہے کہ مراکش جانے سے قبل میں یہ سوچ کر پریشان تھا کہ اس شہر میں شائد ایسا کچھ خاص نہیں جس کیلئے وہاں جایا جائے. نہ سمندر، نہ ہریالی، نہ اونچی فلک شگاف بلڈنگز. مگر اب سوچتا ہوں کہ میری وہ سوچ کتنی حماقت بھری تھی؟ مراکش تو ایسا جادو ہے جو آپ کو مسحور کرنے کی پوری سکت رکھتا ہے. میں نے اور میری فیملی نے اس ٹرپ کو حد سے زیادہ پرلطف پایا. براعظم افریقہ کے اس شہر مراکش کی وہ کیا بات تھی جس نے مجھے مسحور کردیا ؟ یا جو ہر آنے والے کو اس شہر سے لگاؤ عطا کرتی ہے؟ ... بہت سوچا کہ آخر وہ کیا بات ہے جسے میں محسوس کررہا ہوں مگر الفاظ کی پوشاک نہیں پہنا پارہا؟ اور پھر جو سمجھ آیا اسے ایک سطر میں لکھے دیتا ہوں ... "مراکش جاکر یوں لگا جیسے کسی نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے آج سے ہزار سال پیچھے کھڑا کردیا ہو" ... میرے سامنے ایک پرانی تہذیب تھی اور مزیدار بات یہ کہ یہ تہذیب کسی میوزیم کا حصہ نہیں بلکہ جیتی جاگتی سانس لیتی زندہ ہے. مجھے احساس ہوا کہ لوگ بناء ٹیکنالوجی بھی خوش رہ سکتے ہیں. نہ کسی کو انٹرنیٹ کی فکر، نہ اسمارٹ فون کا نشہ، نہ ٹی وی سیٹلائٹ کی پرواہ --- کیسی جگہ ہے یہ ؟ جہاں لوگ ایک دوسرے سے مل کر خوش ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کرنا انہیں سوشل میڈیا سے زیادہ عزیز ہے. ایسا نہیں ہے کہ مراکش میں یہ سب ٹیکنالوجی موجود نہیں. سب موجود ہے مگر اس شہر کا مزاج یہ ٹیکنالوجی قطعی نہیں ہے. یہ تو سادہ مزاج زندہ دل لوگوں کی نگری ہے. جہاں لوگ ماضی کی پرچھائیوں یا مستقبل کے اندیشوں میں نہیں بلکہ 'آج' اور 'ابھی' میں جیتے ہیں.
.
مراکش ائیرپورٹ پر جو پہلا تاثر مجھے اور میری بیوی کو ملا وہ یہ کہ سب کتنے خوش مزاج اور مسکراتے ہوئے ہیں. غالب ترین اکثریت میں لوگ دبلے پتلے مگر مظبوط اجسام رکھتے ہیں. اس شہر کے لوگوں نے پاکستان یا عرب ممالک سے متعلق میرا وہ عذر بھی پاش پاش کردیا کہ گرم موسم کے ممالک میں لوگ گرم مزاج ہوا کرتے ہیں. اگر یہ سچ ہے تو پھر اس گرم ترین شہر کے لوگ اتنے شائستہ اور مسکراہٹ سے بھرپور کیسے ہیں؟ مراکش کو سرخ شہر یعنی 'ریڈ سٹی' بھی کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں گھروں سمیت تمام عمارتیں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جو دیکھنے والو کو خوب لبھاتی ہیں. مراکش میں دو طرح کے حویلی نما طرز تعمیر پر گھر ہوتے ہیں. پہلا 'ریاض' کہلاتا ہے اور دوسرا 'دار' کے نام سے جانا جاتا ہے. ریاض کے معنی باغ کے ہیں اور دار کے معنی گھر کے ہیں. یہ دونوں ملتے جلتے طرز تعمیر ہیں جہاں ایک وسیع دالان کے گرد کشادہ کمرے موجود ہوتے ہیں. ایک حسین سجائی ہوئی چھت ہوتی ہے. باغ یا پودے ہوتے ہیں اور بیچ میں ایک تالاب اور فوارہ لگا ہوتا ہے. 'ریاض' حجم کے اعتبار سے عموما 'دار' سے بڑا ہوتا ہے. میں چونکہ مراکش کی اصل روح سے آشنا ہونے کی خواہش رکھتا تھا اسلئے میں نے کسی ہوٹل یا ریزورٹ کی بجائے، ایک نہایت حسین 'ریاض' میں اور مراکش کے مصروف ترین علاقے 'مدینہ' میں کمرہ حاصل کرلیا. خوبصورت طرز تعمیر، صاف ستھرے کشادہ کمرے، لکڑی کے دیو قامت دروازے، بل کھاتی سیڑھیاں، سوئمنگ کیلئے تالاب، دلکش فوارہ، کینو کے چھوٹے چھوٹے درخت، پیاری سی چھت اور اس چھت پر بچھے کنگ سائز بستر. یہ اس 'ریاض' کے کچھ خواص تھے. ناشتے میں پراٹھوں سے لے کر مکھن تک ، پھلوں سے لے کر دہی تک اور اورنج جوس سے لے کر جام تک ہمیں ہر شے تازہ اور 'اورگینک' دی جاتی. جسے وہاں موجود باورچی خاتون پیش کرتی. مجھے سب سے زیادہ اس ریاض کی چھت پسند تھی لہٰذا ایک رات تو میں چھت پر ہی تاروں بھرے آسمان کو دیکھتے ہوئے سو گیا. گو آدھی رات میں سردی سے آنکھ کھلی تو سمجھ آیا کہ صحرائی سردی کہتے کسے ہیں؟
.
ہماری رہائش سے کوئی پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر مراکش کی سب سے حسین مارکیٹ 'جامع الفناء' موجود تھی. یہ کوئی شاپنگ مال نہیں ہے بلکہ روشنیوں سے نہایا ہوا ٹھیلوں اور اسٹالوں کا بازار ہے جو رات گئے تک کھلا رہتا ہے. جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے مجمعے لگے ہوئے ہیں. کوئی دیسی مٹھائیاں بیچ رہا ہے، کوئی کپڑوں کی صدا لگا رہا ہے، کوئی حسین قمقمے سجائے کھڑا ہے، کوئی رقص کر رہا ہے، کوئی تماشا دیکھا رہا ہے، کوئی فوک گانے سنا رہا ہے، کوئی سانپوں کے کرتب کررہا ہے، کوئی شرطیں لگا رہا ہے، کوئی پتنگ اڑا رہا ہے، کوئی جانور بیچ رہا ہے اور کوئی اپنے ریسٹورنٹ بلا رہا ہے. سب مسکرا رہے ہیں، سب خوش لگتے ہیں. مجھے احساس ہوا کہ جہاں سیاحت سے اس شہر کو فائدہ ہورہا ہے وہاں ایک نقصان شائد یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل ان ہی میلوں ٹھیلوں میں الجھ کر تعلیم سے دور ہورہی ہے.  'جامع الفناء' اپنی شدید بارگینگ کی وجہ سے بھی مقبول ہے. یہاں ایک ہی شے ایک فرد کو اگر ہزار روپے میں ملی ہے تو ممکن ہے دوسرے کو دس ہزار میں ملے. یہاں وہی کامیاب ہے جو بارگیننگ کا بادشاہ ہے. میں نے صدر کراچی میں بہت بارگیننگ  دیکھی اور کی ہے مگر یقین کریں مراکش بارگیننگ میں بہت شدید ہے. مراکش نوسربازی کیلئے بھی سیاحوں میں بدنام ہے مگر سچ پوچھیئے تو ہمارا تجربہ اس کے برخلاف رہا اور کسی نے دھوکہ دہی یا بدتمیزی نہیں کی. اسی بازار میں ایک ترتیب سے ریسٹورنٹ کھلے ہوئے ہیں. مجھے دیکھ کر وہ نعرے لگاتے 'سینس بری'، 'ٹیسکو'، لیڈل' ... (یہ انگلینڈ کی معروف سپر مارکیٹس کے نام ہیں) - گویا ان میں سے اکثر پہچان گئے کہ میں انگلینڈ سے آیا ہوں. کچھ پوچھتے ..'پاکستانی؟' .. میں ہاں میں سر ہلاتا تو نعرہ مارتے 'پاکستان زندہ باد' .. کچھ مجھے انڈین سمجھ کر بولی وڈ کے ایکٹروں کے نام سے بلاتے. ایک ریسٹورینٹ کو میں نے ہاں کردی. جیسے ہی ہاں کہا تو وہاں موجود انتظامیہ کے افراد خوشی سے ناچنے لگے. مجھے بھی پکڑ کر ساتھ لے آئے اور مجھے بھی چارو ناچار ان کے ساتھ کچھ ہلنا پڑا. چاروں طرف 'باربی کیو' کا خوشبو دار دھواں تھا اور وہ گلوکارہ شکیرہ کا معروف گانا گا رہے تھے. "زا مینا مینا .. اے اے .. وکا وکا اے ئے .. زا مینا مینا زانگ لائیوا .. دس ٹائم فار افریقہ" .. کھانا مزیدار تھا. مراکش کی سب سے مقبول ڈش 'تجین' کہلاتی ہے جو گوشت اور سبزی دونوں سے بنتی ہے. مقامی افراد اس ڈش کے اتنے دیوانے ہیں کہ تصویر کھینچتے ہوئے بھی 'چیز' نہیں کہتے بلکہ 'تجین' کہتے ہیں. کھانے کے دوران ایک سات آٹھ سال کی چھوٹی سی پیاری سی مقامی بچی میرے پاس آئی اور ہاتھ تھام کر پورے حق سے کہا کہ میں بھی کھاؤں گی. میں نے کہا آجاؤ تو جلدی سے میرے برابر میں لگ کر بیٹھ گئی جیسے میری ہی سگی بیٹی ہو. اسی طرح دیگر موقعوں پر اسی پورے حق سے ایک بچے نے ہم سے آئسکریم اور ایک نے پانی لیا. جب تک ہم مراکش میں رہے بار بار مارکیٹ 'جامع الفناء' آتے رہے.
.
جامع الكتبية - مراکش کی سب سے بڑی اور تاریخی مسجد ہے. اس کا نہایت اونچا مخصوص مینار، بڑے بڑے فانوس اور بہترین طرز تعمیر سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے. میں نے اس مسجد میں کچھ وقت گزارا اور شائد عصر کی نماز ادا کی. کوئی پچاس ساٹھ سال قبل ایک فرانسیسی مصور 'جیکوئس مجوریل' مراکش کے حسن سے متاثر ہوکر یہاں آبسا تھا. اس نے کوئی چالیس سال کی محنت و لگن سے ایک باغ تیار کیا ہے جسے 'مجوریل گارڈن' کہا جاتا ہے اور جو اپنی مثال آپ ہے. خوبصورتی سے لگے حسین پھول، پیڑ، پودے، تالاب، دلفریب خوشبو، رنگ برنگی مچھلیاں اور بیچ میں گہرے نیلے اور دیگر دلفریب رنگوں سے سجا اسٹوڈیو آنے والو کو اپنا مداح کرلیتا ہے. خواتین کیلئے یہ باغ اس لئے بھی دلچسپی کا سبب ہے کہ یہاں تصاویر بہت اچھی آتی ہیں. مراکش میں دو محلات تاریخی طور پر سب سے نمایاں رہے ہیں. 'بہائیہ پیلس' اور 'البدیع پیلس'. شروع شروع میں مجھے یہ روایتی شان والے محل نہ لگے بلکہ کسی شاندار حویلی کی مانند محسوس ہوئے. مگر جیسے جیسے محل کے در کھلتے گئے، اسکی شاہانہ شان نکھر کر سامنے آنے لگی. بادشاہی نقش و نگار سے مزید چھتیں اور دیواریں، خوبصورت پتھروں سے بنا فرش، قد آور آئینے اور مہکتے ہوئے باغات ان محلوں کو چار چاند لگا دیتے ہیں. مراکش شہر میں ١٩١٧ میں کھدائی کے دوران ایک زمین دوز قبرستان دریافت ہوا. جس میں ایسی ہی شاندار قبور ہیں جیسی پاکستان میں 'مکلی' کے قبرستان میں نظر آتی ہیں. سعدی سلطنت کی ساٹھ قبریں یہاں موجود ہیں جن میں سلطان احمد بن منصور بھی مدفون ہے. سیاح قبروں کے ساتھ تصاویر بنا رہے تھے جو میری طبیعت نے گوارا نہیں کیا لہٰذا کسی تصویر کے بناء فاتحہ پڑھ کر باہر آگیا. ساتھ ہی ایک پرانی اور پروقار مسجد تھی جس سے اذان بلند ہوئی. میں جماعت کیلئے مسجد کے اندر چلا آیا. وضو کیلئے دیکھا تو وضو خانہ نہیں تھا بلکہ صحن  کے بیچوں بیچ ایک حوض نما جگہ تھی جس کے گرد بیٹھ کر سب وضو کررہے تھے. میں بھی سلام کرکے بیٹھ گیا لیکن چونکہ اس طرح وضو کی عادت نہ تھی تو دونوں ہاتھ استعمال کر رہا تھا. بیٹھے افراد آپس میں گفتگو کرنے لگے. مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے صحیح طریقہ سیکھانا چاہیئے. سب نے بہت ہی محبت سے بات کی اور پھر ایک بزرگ مجھے اپنے ساتھ مسجد کے اندر لے گئے، جہاں ان کے ساتھ میں نے نماز ادا کی. ایک بات جو نوٹ کی وہ یہ کہ امام کی جائے نماز مقتدیوں کی نسبت تھوڑی سی ترچھی تھی جو فقہی رو سے جائز ہے.
.
ایک روز ہم نے 'کواڈ بایکنگ' کا فیصلہ کیا. یہ ایک بہت ہی مزیدار تفریح ثابت ہوئی. جس میں کوئی تین گھنٹے سے زیادہ ہم نے صحرائی گھاٹیوں میں 'کواڈ بایکنگ' کی. میں چونکہ ہمیشہ سے بائکنگ پسند کرتا آیا ہوں لہٰذا نہ صرف مجھے خوب مزہ آیا بلکہ سارے گروپ میں سب سے آگے میں ہی رہا. ان ہی بایکوں کو دوڑاتے ہوئے ہم ایک گاؤں پہنچے جہاں ایک مقامی کچے گھر میں ہم نے چائے نوش کی. یہاں سے واپسی پر ہم ایک نخلستان گئے جہاں تاحد نظر کھجوروں کے درخت اور ریت تھی. ہمی گہرے نیلے رنگ کا روایتی جبہ پہنایا گیا اور ایک مخصوص پگڑی باندھی گئی. اس کے بعد ہم نے سفید اور بھورے اونٹوں پر کوئی گھنٹہ ڈیڑھ سواری کی اور اس نخلستان نما جگہ میں گھومتے رہے. میں اونٹنی پر سوار تھا اور اس کا بچہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا. اسے کبھی شرارت سوجھتی تو اپنے چہرے سے میرے پیر گدگدانے لگتا. اسی طرح ایک دوسرے روز ہم نے مراکش کے پہاڑی سلسلے کو دیکھنے کا ارادہ کیا، جسے اطلس ماؤنٹین کہا جاتا ہے. اسی سلسلے کے ایک حسین پہاڑ پر ہم پہنچے جس کا نام  'اوریکا پہاڑ' ہے. خوبصورت دلفریب وادیوں میں گھرا یہ پہاڑ اور اس وادی میں بسے پہاڑی لوگ مثالی محسوس ہوتے ہیں. خوبصورت پگڈنڈیوں سے گزر کر ہم پہاڑ پر پہنچے اور قدرتی مگر قدرے پرخطر رستے سے اپنے گائیڈ کے ساتھ اپر چڑھنے لگے. کتنے ہی شفاف جھرنے پہاڑوں کا سینہ چیر کر بہہ رہے تھے.  ایک اونچی آبشار بھی بیچ میں آئی جس کے ٹھنڈے یخ پانی کے نیچے کچھ دیر  میں کھڑا رہا. جگہ جگہ کولڈ ڈرنکس مل رہی تھیں، مقامی لوگوں نے پتھروں اور آبشار کے ٹھنڈے پانی سے فریج بنا رکھے تھے جس میں ڈرنکس اور جوس رکھے ہوئے تھے. چھوٹی چوٹی دکانیں تھیں جہاں قدرتی خوبصورت رنگ برنگے پتھروں سے تراشے مجسمے بک رہے تھے. ایک پتھر ایسا بھی تھا جسے گیلا کرو تو وہ ہر بار ایک نیا رنگ بدل لیتا تھا. ایک بہتے جھرنے کے بیچ ہماری ٹیبل لگا دی گئی اور کھانا پیش کیا گیا. گویا ہم ننگے پیر آدھے پاؤں بہتے پانی میں ڈبوئے بیٹھے تھے اور کھانا کھا رہے تھے. ایسے میں دو مقامی گلوکار آگئے اور کچھ مقامی گانے سنانے لگے. ظاہر ہے سمجھ تو ایک لفظ نہ آیا مگر پھر بھی ان کی خوش کن آواز سے لطف اندوز ہوئے. پہاڑوں پر خوبانی کے درخت موجود تھے جس سے توڑ توڑ کر خوب شہد سے میٹھی خوبانیاں کھائیں. نیت نہ بھری تو ایک چھوٹی بالٹی بھر کر اپنے ساتھ لے گئے. ایک دوسرے پہاڑ کی بلندی پر ہمیں ایک ایسی جگہ جانے کا موقع ملا جہاں 'آرگن' کا تیل بنایا جاتا ہے. یہ ایک ایسی جڑی بوٹی ہے جو مراکش میں خاص درختوں سے ملتی ہے. مراکش کے لوگ آرگن کے تیل کو بے تحاشہ اہمیت دیتے ہیں اور اسے اپنے ملک کی سوغات بتا کر فخر محسوس کرتے ہیں. شیمپو سے لے کر صابن تک، کھانا پکانے سے لے کر چیزیں صاف کرنے تک، پرفیوم سے لے کر ادویات تک ہر ہر شے میں آرگن کا استعمال عام ہے. ہم اس جگہ پر تھے جو آرگن سے پروڈکٹس بنانے میں ماہر تھی. انہوں نے ایک جناتی سائز کی چکی دیکھائی جس میں وہ آرگن پیستے تھے. بہت سی عورتیں آرگن سے چیزیں تیار کررہی تھیں. ہم نے بھی پرفیوم لیا اور واپسی کی راہ لی.
.
اطلس پہاڑوں میں بسنے والی پہاڑی تہذیب تین سے چار ہزار سال پرانی ہے. انہیں 'بربر' کہا جاتا ہے. ان تک اسلام کیسے پہنچا؟ اس کے بارے میں متفرق آراء ہیں مگر ایک مقبول تر رائے یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب فتوحات ہوئیں اور مسلم فوجیں یہاں پہنچیں تو 'بربر' قوم نے جنگجو ہونے کے باوجود یہ اندازہ کر لیا کہ مسلمانوں کو شکست نہیں دی جاسکتی لہٰذا شکست خوردہ نہ کہلانے کیلئے انہوں نے بحیثیت اجتماعی اسلام قبول کرلیا. میں ایک 'بربر' کے گھر گیا جو آج بھی اسی چار ہزار سال پرانی تہذیب کا شاہکار ہے. باورچی خانے سے لے کر کپڑے دھونے تک اور نہانے سے لے کر سبزیاں اگانے تک سب دیکھا اور سمجھا. پورے مراکش میں جگہ جگہ 'بربر' تہذیب کی چیزیں ملتی ہیں جیسے مٹی کی کٹوری سے لپ اسٹک وغیرہ، جسے پاکستانی میں 'مسی' بھی کہتے ہیں. ان دنوں ایک ایسا شخص میرا دوست بھی بن گیا جس کے والد بربر اور والدہ عرب تھیں. میں نے اس سے پوچھا کہ میں تم لوگوں کو کیا سمجھوں؟ تم لوگ شکل سے عربی لگتے ہو لیکن عرب نہیں ہو. رہتے افریقہ میں مگر افریقی لگتے نہیں ہو. بربر تہذیب رکھتے ہو مگر سب بربر نہیں ہو. وہ ہنسا اور اس نے سمجھایا کہ تم ہمیں صرف 'موروکن' کہو. کیونکہ یہاں کی نسل میں بربر، عرب اور افریقی سب ایسے مل گئے ہیں کہ اب ان کی جداگانہ شناخت صرف موروکن ہوسکتی ہے. اپنے 'ریاض' پر میری ایک نیوزی لینڈ سے آئےلڑکے لڑکیوں کے گروپ سے گپ شپ ہوئی جو ایک مہینے سے مراکش میں کوہ پیمائی کررہے تھے. آخری روز میں نے ایک دوسرے شہر جانے کا فیصلہ کیا. جس کا نام 'ای سویرا' تھا اور جہاں ایک حسین سمندر ہمارا منتظر تھا. وہاں کا مقامی بازار بھی تہذیب کا نمونہ تھا. مقامی مچھلی بازار گیا تو ایسی ایسی مچھلیاں بک رہی تھیں جنہیں میں نے ڈسکوری چینل پر بھی کبھی نہ دیکھا تھا. ایک جگہ بیشمار سفید بگلے موجود تھے جن کے ساتھ سب تصاویر کھنچواتے رہے. غرض یوں ہمارا مختصر مگر انتہائی یادگار سفر اپنے حسین اختتام کو پہنچا. ساری دنیا سے لوگ مراکش گھومنے آتے ہیں مگر معلوم نہیں کیوں؟ پاکستانیوں میں سے بہت کم وہاں جاتے ہیں. ہمارا مشورہ ہے کہ اگر آپ مراکش گھومنے جاسکتے ہیں تو ضرور جایئے کہ یہ شہر منفرد بھی ہے اور تاریخی بھی.
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 30 January 2018

جنت میں ملنے والی نعمت


جنت میں ملنے والی نعمت



سورہ واقعہ کی ٢٥ آیت میں جنتیوں کو ملنے والی نعمتوں کا بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے "لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا - وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ" --
.
گویا جنت میں داخل ہونے والے افراد وہ سلیم المزاج ہوں گے جن کی طبیعت پر اس دنیا میں بیہودہ بات کہنا یا گالی گلوچ کرنا تو دور کی بات، اسے سننا بھی شدید گراں گزرتا ہوگا. لہٰذا روز جزاء جب رب کریم انہیں جنت میں داخل کریں گے تو دیگر نعمتوں کے ساتھ انہیں یہ نعمت بھی عطا ہوگی کہ اب ان کی سماعت ایسی کوئی بات نہ سنے گی جو بیہودگی پر مشتمل ہو یا گالی گلوچ میں شمار ہوتی ہو.
.
کیا یہ ان احباب کیلئے سوچنے کا مقام نہیں جو زبان کے چٹخارے کیلئے دوستوں میں ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں اور واٹس ایپ، فیس بک وغیرہ پر بیہودہ لطائف پھیلاتے ہیں ؟ 
.
====عظیم نامہ====

موت سے بھی بھیانک 

موت سے بھی بھیانک
==============
.
امریکہ ہو یا پھر یورپ کا کوئی بھی ملک ہو، آپ کو سڑکوں پر بیشمار مفلوک الحال افراد اذیت کی تصویر بنے نظر آئیں گے . بال بکھرے ہوئے، جسم سے بدبو کے بھبھکے اٹھتے ہوئے، چہرے پر کئی طرح کے زخم، دانتوں میں کیڑے پڑے ہوئے، موٹا گندہ سا لباس پہنے ہر آتے جاتے سے بھیک مانگنا اور رات میں سڑک کے کسی کونے کھدرے میں شدید سردی میں سوجانا. انہیں مغرب میں 'ہوم لیس' یعنی بے گھر افراد کے نام سے پکارا جاتا ہے. ان کی اکثریت وہ ہے جو کسی حادثے یا صدمے کے سبب اپنی زندگی کا مقصد کھو بیٹھے ہیں. کسی کا محبوب اسے دغا دے گیا، کسی کی اولاد حادثے میں مر گئی، کسی کو اپنے احساس جرم نے جکڑ لیا، کچھ شراب کے عادی ہوگئے، کچھ منشیات کے، کچھ دونوں کے اور کچھ بناء کسی لت کے یونہی حسرت و یاس میں ڈوبے ہوئے ہیں. دوست، عزیز، گھر والے سب ان سے منہ موڑ چکے ہیں. آتے جاتے لوگ انہیں دھتکارتے ہیں، ان سے گھن محسوس کرتے ہیں. جیسے یہ انسان نہیں بلکہ زمین پر بکھری غلاظت ہوں. جون ایلیاء کا ایک جملہ کسی اور کے لئے سچ ہو نہ ہو، ان کی حالت کا عکاس ضرور محسوس ہوتا ہے "تمہارے ہونے کی اب محض ایک ہی دلیل رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ تم جگہ گھیرتے ہو۔" ان کی زندگی رنگ اور مقصدیت دونوں ہی سے خالی ہے. یہ بس سانس لیتے ہیں اس لئے جی رہے ہیں. ورنہ حقیقت میں تو یہ اپنی ہی لاش اپنے کاندھوں پر لادے ہوئے ہیں. ان کی ویران آنکھوں میں چھپے کرب کو کوئی مہذب انسان کیوں محسوس کرے؟ ہم مہذب انسانوں  کے نفس کی تسکین کے لئے تو شائد یہی بہت ہے کہ ان بیکار لوگوں کی جانب چند سکے اچھال دیں  یا اپنا بچا ہوا سینڈوچ انہیں دان کرکے اپنی نیکی پر مسرور رہیں. کسی شریف آدمی کو کیا پڑی ہے کہ وہ یہ جانے کہ ایسا کیا ہوا؟ جو ایک ہنستا مسکراتا انسان اجڑ گیا. ایسا ویران ہوا جیسے کبھی آباد ہی نہ تھا؟ کوئی کیوں ان میں سے کسی کا ہاتھ تھامے ؟ گلے لگائے ! نہیں نہیں ... ہم کسی نشئی، کسی ہیروینچی، کسی پلید جسم کو کیونکر توقیر دیں گے؟ ..... حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں. 😢
.
وہ انگریز نوجوان میری ٹیم میں کام کرتا تھا. اکیس بائیس برس کا خوبرو اور کھلنڈرا سا لڑکا .. جسے بات بے بات ہنسی آتی رہتی تھی. ایک روز ... نوکری سے نکال دیا گیا کیونکہ کسی دوست نے اسے منشیات لا کر دے دی تھیں جنہیں پیتا ہوا وہ پکڑا گیا. وہ چلا گیا اور پھر سالوں نہ نظر آیا. لیکن اس دن جب میں سردی میں سکڑتا گھر کی جانب تیز قدم بڑھا رہا تھا تو کسی نے فریاد کی کہ 'کیا آپ مجھے پلیز ایک پاؤنڈ دے سکتے ہیں؟' .. پلٹ کر دیکھا تو دل کو گھونسا لگا کہ وہی حسین نوجوان اب کسی مرجھائے ہوئے پھول کی مانند بھیک مانگ رہا تھا. اسکی ناک سے خون رس رہا تھا. وہ مجھے نہیں پہچانا مگر میری روح کو چھلنی کرگیا. کیوں ہمیں ان سسکتے ہوئے لوگوں کی فکر نہیں؟ کیا ایک اچھی زندگی پر اور رب العزت پر معاذ اللہ میرا یا آپ کا یا متمول افراد کا کاپی رائٹ ہے؟ کیا یہ اللہ کے بندے نہیں؟ کیا یہ بیمار نہیں؟ کیا یہ میری توجہ، میری محبت، میری مدد کے انتہائی مستحق نہیں؟ یا پھر میں نمازیں پڑھ کر یا  چندے دے کر یا چیریٹی کر کے یا دعوت دین دے کر مطمئن رہوں؟ .. آپ احباب کا نہیں معلوم مگر میرا ضمیر مجھے کوس رہا ہے. پاکستان یا انڈیا میں تو ان مظلوموں کے حالات اور بھی خستہ ہیں. اکثر لوگ صرف انہیں دھتکارتے ہیں، کام نہ کرنے کا طعنہ دیتے ہیں، ان کا مزاق اڑتے ہیں. ان کے علاج یا انہیں اس لت سے نکالنے کا بہت ہی کم لوگ سوچتے ہیں. ضروری ہے کہ میں اور آپ ان کیلئے جو ممکن ہو کریں. اور کچھ نہیں تو کم از کم انہیں کسی عزت دار انسان جیسی  عزت و محبت ضرور دیں. لوگ بحث کرتے ہیں کہ سزائے موت ایک ظالمانہ سزا ہے جسے ختم کردینا چاہیئے. میں سوچتا ہوں کہ پھانسی پر جھول کر ایک بار مر جانے والا انسان اس انسان سے کتنا زیادہ خوش قسمت ہے جو پل پل ہزار موتیں مر رہا ہے؟ جو کسی بند جیل کی تنگ کوٹھری میں عمر قید بھگت رہا ہے یا جو اس کھلی فضاء میں بھی گھٹ گھٹ کر سانس لے رہا ہے.
.
کوئی فریاد ترے دل میں دبی ہو جیسے
تو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے
.
جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے
جان باقی ہے مگر سانس رکی ہو جیسے
.
====عظیم نامہ====

Wednesday, 24 January 2018

دین سے منسلک اہل علم


دین سے منسلک اہل علم



دین سے منسلک اہل علم کی عزت کیجیئے 
دین سے منسلک اہل ایمان سے مستفید ہوں 
مگر کبھی بھی ... مذہبیوں کو مذہب کی تصویر نہ سمجھیئے 
اور اگر آپ نے کہیں ایسا سمجھنے کی حماقت کی تو بہت امکان ہے کہ کل مذہب کے بھیس میں چھپا کوئی گھٹیا انسان آپ کو دین ہی سے متنفر کردے. آپ کو ایمان سے ہی دور کردے. 
دین کا پیغام سو فیصد سچ ہے، حق ہے، خیر ہے .. مگر بظاہر اس مذہب کا علمبردار نظر آنے والا عالم، صوفی یا مجھ جیسا خودساختہ داعی فی الواقع اپنے کردار میں دین کا عکس ہو ؟ یہ قطعی ضروری نہیں 
.
پوری مذہب کی تاریخ شاہد ہے کہ جہاں ہر دور میں کچھ علماء حق موجود ہوتے ہیں وہاں علماء و مشائخ کا چوغہ پہن کر افراد کا ایک گروہ مافیا کی صورت مذہب کے پردے میں عام لوگوں کا فکری، جنسی اور مالی استحصال کیا کرتا ہے. رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں علماء حق کو انبیاء کا وارث بتایا وہاں ان علماء سو کا بھی تذکرہ کیا جنہیں آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سب سے بدترین قرار دیا
۔
سابقہ امت مسلمہ بنی اسرائیل کی جانب سے علماء و شیوخ کی اندھی پیروی کرنے کو قران حکیم نے شرک سے تعبیر کیا. لہٰذا ارشاد ہے کہ اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهًا وَاحِدًا لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبہ: ٣١) 
''انہوں نے اپنے علماء اور شیوخ کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ انکو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں''۔
.
عدی بن حاتم (طائی)سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو (سورہ توبہ کی) مندرجہ بالا آیت (٣١) پڑھتے سنا ''انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے'' (عدی کہتے ہیں) تو میں نے کہا: ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے۔ آپؐ نے فرمایا: جب وہ خدا کے حلال ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے تو تم اس کو حرام نہیں ٹھہراتے اور جب وہ خدا کے حرام کردہ کو حلال کر لیتے ہیں تو تم ان کوحلال نہیں ٹھہراتے؟ میں نے کہا: یہ تو ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو پھر یہی تو ان کی عبادت ہے''
.
لہذا میرے عزیز ۔۔۔ کسی مذہبی ٹھیکیدار، گروہ، فرقے، مدرسے یا فرد کے غلیظ عمل کو دین و مذہب کی حقانیت و پیغام سے ہرگز خلط ملط نہ ہونے دو۔ تم پر فرض ہے کہ اگر صلاحیت و مواقع رکھتے ہو تو دین کا مقدمہ کتاب الہی اور مستحکم سنت سے جانو۔ کسی فرد یا گروہ کو اس کا معیار بلکل نہ بننے دو۔
۔
====عظیم نامہ====
۔
(نوٹ: اس تحریر کے اصل مخاطب وہ ہیں۔ جن سے میری مخاطبت رہی ہے۔ جن میں اہل مدرسہ بھی شامل ہیں اور جو کسی مدرسے یا مولوی کی جانب سے ہوئی زیادتی یا غلط فعل کو بنیاد بناکر دین اسلام سے ہی متنفر ہوچلے ہیں)

اپنا اپنا امتحان ہے یارو


اپنا اپنا امتحان ہے یارو


اس لڑکی کے رشتے نہیں آتے ۔۔
اس لڑکے کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔
اس مرد کی طلاق ہوگئی ۔۔
وہ عورت بیوہ ہوگئی ۔۔
اس جوڑے کے اولاد نہیں ہے ۔۔
اس جوڑے کی اولاد جسمانی معذور ہے ۔۔
اس جوڑے کی اولاد ذہنی توازن سے محروم ہے ۔۔
اس جوڑے کی اولاد بھری جوانی میں مرگئی ۔۔
اس جوڑے کی اولاد والدین کی شدید نافرمان نکلی ۔۔
۔
سب کا اپنا اپنا امتحان ہے یارو ۔۔ سب کا اپنا اپنا چیلنج ۔۔
جو تمہیں درپیش ہے وہی غنیمت ہے ۔۔
اس میں صبر و شکر سے سرخرو ہو ۔۔
جو دوسرے کو درپیش ہے وہ تمہیں درپیش ہوتا تو سوچو کیا ہوتا؟
لہذا حرص اور شکوہ چھوڑ دو ۔۔ راضی بارضا رہنا سیکھ لو ۔۔ تمہارا رب کسی پر اتنا ہی بوجھ ڈالتا ہے جتنا وہ سہہ سکے ۔۔ اگر تمہارا امتحان بڑا ہے تو سرخروئی پر تمہارا اجر بھی اتنا ہی بڑا ہوگا ۔۔
۔
====عظیم نامہ====

Sunday, 21 January 2018

تیری پہچان یہی ہے



تیری پہچان یہی ہے


جو ظاہر ہے وہ باطن میں نہیں اور جو باطن ہے وہ ظاہر میں نہیں. مگر میرا رب بیک وقت الظاہر بھی ہے اور الباطن بھی ..
.
جو سب سے پہلے آتا ہے وہ سب سے آخر کیسے آسکتا ہے؟ مگر میرا رب بیک وقت الاول بھی ہے اور الآخر بھی ..
.
جو رحمدل ہے وہ قہر کہاں ڈھاتا ہے؟ مگر میرا رب بیک وقت الرحمٰن بھی ہے اور القہّار بھی ..
.
جو معاف کرتا ہے وہ انتقام تو نہیں لیتا مگر میرا رب بیک وقت العفو بھی ہے اور المنتقم بھی .. 
.
لہٰذا عظیم ! اپنے خالق کو مخلوق پر قیاس نہ کر .. بلکہ اعتراف کرلے کہ ..
.
تو دل میں تو آتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں، تیری پہچان یہی ہے 
.
====عظیم نامہ====

Saturday, 20 January 2018

مسلمانوں کی کچھ نمائندہ فکری تحریکیں


مسلمانوں کی کچھ نمائندہ فکری تحریکیں

.
صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین کی جماعت جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت یافتہ تھی وہاں نہایت سادہ طبیعت بھی تھی. ان پر جب ایک بار کفر اور ایمان واضح ہوگیا تو انہوں نے منطقی مباحث یا فلسفیانہ استدلال میں وقت نہیں لگایا بلکہ ہر اس بات پر عمل کی کوشش میں لگے رہے جو ان کی اخروی نجات کا سبب بن سکتی تھی. ان کا یہ سادہ مزاج اس صحرائی عرب کی ثقافت بھی تھا جو قران حکیم کے اولین مخاطب تھے. البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے جب فتوحات کا سلسلہ بڑھا اور اسلام کا پیغام غیرمعمولی رفتار سے آدھی دنیا پر چھانے لگا تو مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو نئے چیلنجز درپیش ہوئے. رومن اور گریک فلسفہ اپنا اپنا منفرد ڈھانچہ اور نہایت بلیغ انداز رکھتا تھا. اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج کوئی ڈیڑھ دو ہزار سال بعد بھی ہماری درس گاہیں ان فلسفیوں جیسے فیثاغورث، سقراط، افلاطون، ارسطو وغیرہ کی تعلیمات پر ڈاکٹریٹ کرتے ہیں. آپ اندازہ کرسکتے ہیں؟ کہ جب ان فلاسفاء کی تعلیمات ان سادہ اذہان عربوں اور دیگر مسلمانوں تک پہنچی ہوں گی تو کیسے کیسے سوالات و موضوعات نے جنم لیا ہوگا؟ اس پر طرہ یہ کہ عیسائی مذہبی جماعتوں نے اسی فلسفے کے ذریعے اپنا مقدمہ تیار کررکھا تھا اور اسی کے ذریعے وہ اسلامی تعلیمات کی بنیادوں پر بڑی مہارت سے ذک پہنچانے میں کوشاں تھے. دور خلافت میں جب حکومتی سطح پر سائنس اور فلسفے کی بیشمار کتب کا عربی ترجمہ کیا گیا تو جہاں اس سے تحقیق و علم میں مسلمان آگے آئے وہاں ان فلسفوں کے ذریعے وہ وہ سوال اٹھائے جانے لگے جو پہلے کبھی پیدا ہی نہ ہوئے تھے. فلسفہ جبر و قدر، مسئلہ نقل و عقل، صفات خداوندی عین ذات ہیں یا نہیں، عالم امثال، کائنات محدود یا لامحدود، خدا محدود یا لامحدود، موجود شر میں خدائی انصاف اور اسی طرح دیگر سوالات مسلم اذہان کو متاثر کرنے لگے. کچھ مسلم اہل علم ان گریک اور رومن فلسفوں سے اس درجے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اگر مکمل نہیں تو اس کا بیشتر حصہ اختیار کرلیا. نئی اصطلاحات پیش کی گئی مگر ان کے پیچھے فلسفہ ارسطو یا افلاطون ہی کا ہوا کرتا. گو کچھ فلسفیانہ نتائج ان کے ذاتی بھی تھے۔ ان مسلم اہل علم کو تاریخ میں مسلم فلاسفاء پکارا جاتا ہے. الکندی، الفاربی، ابو سینا وغیرہ اسی سوچ کے نمائندہ ہیں. اسی المیئے کا ذکر علامہ اقبال نے بھی اپنے الہ آباد کے خطبات کے ابتدائیہ میں کیا ہے. 

.
ایسے میں ضرورت تھی کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں جو عقلی و علمی سطح پر ان جدید فلسفوں کا جواب دے سکیں. اسی مقصد کو لے کر دوسری صدی حجرہ میں ایک نیا گروہ سامنے آیا جنہیں تاریخ میں 'معتزلہ' کے نام سے جانا جاتا ہے. 'حسن بصری رح' کی بصرہ ہی کی علمی نشست میں ان سے ان کے ایک شاگرد 'واصل ابن عطا' نے اختلاف کیا. اس کے بقول گناہ کبیرہ کا مرتکب شخص نہ حالت ایمان میں رہتا ہے اور نہ حالت کفر میں. اس اختلاف کی بناء پر وہ نشست چھوڑ گیا جس پر حسن بصری رح نے فرمایا کہ واصل نے خود کو ہم سے الگ کرلیا. اسی بنیاد پر واصل اور اس کے نئے گروہ کو معتزلہ پکارا گیا. معتزلہ لفظ اعتزال سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں خود کو الگ کرلینا. دھیان رہے کہ معتزلہ خود کو معتزلہ نہیں کہتے تھے بلکہ وہ خود کو 'اهل التوحيد و العدل' کے لقب سے موسوم کرتے تھے. یہیں سے صحیح معنوں میں علم الکلام یا مسلم متکلمین کا آغاز ہوا. متکلم اور فلسفی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فسلفی آخری ہدف متعین نہیں کرتا بلکہ عقل کے گھوڑے دوڑانے سے جو بھی نتیجہ اسے قرین قیاس لگے اسے اختیار کرلیتا ہے. جبکہ متکلم بنیادی اہداف وحی کی روشنی میں پہلے سے متعین کئے ہوتا ہے اور وہ عقل یا فکری استدلال سے اس متعین شدہ ہدف کا دفاع پیش کرتا ہے. معتزلہ کی یہ تحریک واصل ابن عطا کے علاوہ بھی بہت سے اہل علم سے تقویت پاتی رہی جن میں میں 'عامر ابن عبید' اور 'ابوالحدید الالطاف' شہر بصرہ میں جبکہ 'بشر ابن المتعمر' شہر بغداد میں سرفہرست ہیں. معتزلہ نے نہ صرف غیرمسلم فلسفے کا موثر ترین جواب دیا بلکہ ان سیاسی سوالات کے بھی جواب دیئے جو اس وقت عوام کی دل کی آواز تھے. معتزلہ ریشنلسٹ یعنی عقل پسند تھے اور ان کے کئی عقائد و نتائج اس عقل پسندی کو وحی و سنت پر فوقیت دیتے محسوس ہوتے تھے. معتزلہ کی اس تحریک نے کئی سرد و گرم دیکھیے مگر مجموعی اعتبار سے ان کی مقبولیت بڑھتی گئی. یہاں تک کہ خلیفہ مامون کی خلافت میں انہیں سرکاری فکر کا درجہ حاصل ہوگیا. عباسی دور میں ایک عقیدہ معتزلہ کا یہ بھی اپنایا گیا کہ قران حکیم 'مخلوق' ہے. ساتھ ہی یہ اعلان ہوا کہ جو اس سرکاری فکر کو نہیں مانے گا اسے سخت ترین سزا دی جائے گی. ایسے میں اکثر اہل علم خاموش ہوگئے مگر امام احمد بن حنبل رح نے پوری قوت سے تن تنہا حق کی صدا بلند کی اور قران حکیم کو مخلوق ماننے سے انکار کردیا. وہ جانتے تھے کہ قران کو مخلوق ماننا دراصل اسے ناقص منوانا ہے جو مستقبل میں تباہ کن ثابت ہوگا. اس کی پاداش میں انہیں زندان میں ڈالا گیا، کوڑے لگائے گئے مگر وہ اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے. معتزلہ کے زیر اثر اس استبداد نے عوام و خاص میں ان سے دوری پیدا کردی. 
.
بصرہ میں معتزلہ فکر ہی کے ایک علمی گھرانے میں ایک ذہین بچے نے آنکھ کھولی. جن کا نام 'ابو الحسن علي ابن إسماعيل اﻷشعري' رکھا گیا. آپ مشہور صحابی 'ابو موسیٰ الاشعری رض' کی نسل سے تھے. ابوالحسن الاشعری چالیس برس کی عمر تک معتزلہ فکر سے ہی وابستہ رہے. قوی امکان ہے کہ ابتداء ہی سے آپ کو معتزلہ کی فکر سے علمی اختلاف ہونے لگے تھے. مگر پھر آپ نے چالیس سال کی عمر میں دوران رمضان تین بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت کی جس میں آپ کو کہا گیا کہ طریق رسول یعنی احادیث و سنت کی حمایت کرو. اس تجربے کا اثر یہ ہوا کہ آپ نے معتزلہ کی فکر سے جدائی اختیار کی اور پورے زور و شور سے معتزلہ کا علمی رد پیش کیا. آپ نہ صرف معتزلہ فکر میں موجود خامیوں سے باخوبی آگاہ تھے بلکہ دیگر موجود عقائد پر بھی آپ کی گہری نظر تھی. لہٰذا جہاں آپ نے معتزلہ کی عقل پسندی اور علم الکلام کا پردہ چاک کیا، وہاں امام احمد بن حنبل رح کے حامیان کی اس سوچ کو بھی چیلنج کیا جو عقل و کلام کے استعمال کے مکمل مخالف محسوس ہونے لگے تھے. اسی طرح خارجیوں کی اس سمجھ کو انہوں نے غلط قرار دیا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے. ابوالحسن الاشعری کی اس برپا تحریک سے بعد میں بہت سے اہل علم جڑتے چلے گئے. جن کی بڑی تعداد شافعی تھی. اسی دور میں ثمرقند کے گاؤں ماترید میں ایک اور صاحب علم نے مقبولیت حاصل کی جن کا نام 'أبو منصور ماتریدی' تھا. آپ ابو ایوب الانصاری رض کی نسل سے تھے. آپ سے جڑنے والے علماء کی اکثریت حنفی مکتب سے منسلک تھی. آپ نے بھی معتزلہ فکر کا بھرپور علمی رد پیش کیا جیسے معتزلہ کی اسماء و صفات الہی کی سمجھ کو آپ نے غلط ثابت کیا. 'أبو منصور ماتریدی' اور 'ابوالحسن الاشعری' دونوں ہی کی فکر معتزلہ کی بیخ کنی کرتی تھی اور دونوں ہی قران کے ساتھ سنت کو بھی سینے سے لگانے والے تھے. ان دونوں صاحبان علم کی تعلیمات میں بھی کچھ ایک دوسرے سے اختلافات موجود تھے مگر ان کی نوعیت سنجیدہ نا تھی. لہٰذا جلد ہی ان دونوں بزرگان کی فکر نے مل کر سنی فکر کی نمائندگی شروع کردی. جسے آج تک 'جماعت اہل السنہ' کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے. دیوبندی بریلوی سب خود کو جماعت اہل السنہ ہی کہتے ہیں. خود کو عقائد میں اشعری اور ماتریدی کہہ کر پکارتے ہیں. یہاں 'امام ابو حامد غزالی' کا ذکر لازمی ہے جو بعد کے ادوار میں جماعت اہل السنہ یا اشعری فکر کے نمائندہ بن کر ابھرے. آپ ایک زمانے تک فلسفے کے عالم رہے اور اسی طرز استدلال سے وہ مختلف فلسفوں پر جیسے امامیہ، اسماعیلیہ وغیرہ پر نقد کرتے رہے. پھر اہل تصوف سے جڑ کر ان کی فکر میں انقلاب آیا اور انہوں نے علم فلسفہ ہی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا. آپ کی مقبول ترین تصنیف اس ضمن میں 'تہافت الفلسفہ' کے نام سے موجود ہے. اس کتاب نے علمی حلقوں میں ہلچل مچا دی اور فلسفے کے استعمال پرجیسے روک سی پیدا کردی. یہاں تک کہ ایک دوسرے بڑے صاحب علم مسلم فلسفی 'ابن رشد' نے اس کتاب کا بھرپور رد 'تہافت التہافت' کے نام سے پیش کیا. جس نے کسی حد تک علم فلسفہ کا دفاع کیا. دین کے سنجیدہ طالبعلموں کیلئے یہ دونوں کتب آج بھی حصول علم کا بہترین ذریعہ ہیں.
.
اس کے ساتھ ساتھ سنیوں یعنی جماعت اہل السنہ ہی میں ایک اور فکر بھی برقرار رہی جو قران حکیم کے ظاہری معنوں ہی کو درست ماننے پر اصرار کرتے ہیں اور کسی اصطلاحی یا مخفی معنی کے ہونے کا انکار کرتے ہیں. اس گروہ کو 'ظاہری' کہا گیا. اسی اپروچ پر قائم گروہوں کو آج سلفی، اہل حدیث وغیرہ بھی کہہ دیا جاتا ہے. گو درحقیقت آج موجود اہل حدیث یا سلفی فکر کے نتائج کچھ حوالوں سے اور کمتر درجے میں اصل 'ظاہری' سوچ سے مختلف ہیں. جیسے سلفی/اہل حدیث اصول الفقہ میں 'قیاس' کے قائل ہیں جبکہ ظاہری قائل نہیں ہیں. گو کہ ان کے اکثر عقائد میں بڑی حد تک مماثلت ہے اور یہ سب محدثین ہی کی جماعت سے نکلے ہیں. ظاہری سمجھ کے علمبردار علماء میں امام داؤد ظاہری، حافظ ابن حزم وغیرہ شامل ہیں. جبکہ سلفی/ اہل حدیث فکر کے لئے امام ابن تیمیہ، حافظ ابن القیم، شیخ ناصر الدین البانی، عبدالعزیز ابن باز وغیرہ شامل ہیں. کچھ محققین سلفی اور اہل حدیث فکر کو مماثل سمجھتے ہیں جبکہ کچھ کہ نزدیک ان میں بھی کچھ معمولی اختلافات موجود ہیں.
.

اس سب کے ساتھ ساتھ اہل السنہ کے علاوہ بھی مسلم تاریخ میں ایک بہت بڑا اختلاف واقع ہوا اور ارتقاء پاتا رہا. حضرت علی رض کی وفات کے بعد مسمانوں کا ایک گروہ ایسا پیدا ہوا جو خود کو 'شیعان علی' یعنی علی کے چاہنے والے کہہ کر پکارتا تھا اور جنہیں آج شیعہ یا اہل تشیع کہا جاتا ہے. ان کا حقیقی اختلاف سیاسی نوعیت کا تھا. ان کے نزدیک خلافت کے جائز حقدار امام علی رض تھے. وقت کے ساتھ ساتھ یہ اختلاف صرف سیاسی نہ رہا بلکہ فکری جدائی کا بھی سبب بننے لگا. جس طرح سنی مسلمان ابتداء میں گریک و رومن فلسفے سے متاثر ہوئے تھے. ویسے ہی مسلمانوں کا یہ گروہ فارس یعنی موجودہ ایران کی تہذیب و فلسفے سے متاثر ہوا. سنی مسلمانوں کے مرکزی دھارے سے ان کے کئی فکری اختلافات واقع ہوئے جن میں سرفہرست امامت کا تصور ہے. ان مسلسل مباحث، مکالموں، فکری اختلاف، فسلفوں، علم الکلام وغیرہ نے دین کے بہت سے طالبعلموں کو ظاہری منطق میں الجھا دیا تھا. لہٰذا یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ احکام کی روحانیت کو واپس لایا جائے. یہاں سے تصوف کا آغاز ہوا. یہ تحریک اپنے مقصد کے لحاظ سے ایک عمدہ کاوش تھی اور اگر فقط تذکیر نفس تک محدود رہتی تو کوئی معترض نہ ہوتا مگر تصوف نے اپنا پورا فکری ڈسپلن عقائد سمیت پیش کیا. دیگر علمی تحریکوں کی طرح یہ بھی بیرونی فلسفوں سے محفوظ نہ رہی. ارسطو، افلاطون، فیثاغورث کے صدیوں پہلے پیش کردہ تصورات کی بھرپور جھلک تصوف کے نام پر پیش کردہ کئی نظریات میں نظر آتی ہے. علم تصوف کے اوائل آثار دور تابعین کے فوری بعد نظر آتے ہیں مگر علمی منظم سطح پر اسے شائد سب سے پہلے 'شیخ ابن العربی' نے پیش کیا. ان سے ایک نمایاں بڑا اختلاف 'شیخ احمد سرہندی عرف مجدد الف ثانی' نے وحدت الوجود کے مقابل وحدت الشہود کا نظریہ پیش کرکے کیا۔ بعد میں 'شاہ ولی اللہ محدث دھلوی' نے ان دونوں نظریات میں تطبیق کی کوشش کی۔ جسے اہل علم کے ایک حلقے نے قبول اور دوسرے نے رد کردیا۔ اہل تصوف میں بھی بہت سے افراد ایک اور تحریک سے متاثر ہوئے جسے 'باطنیہ' کہا جاتا تھا. باطنیہ دراصل اسماعیلی عقائد کے بہت قریب تھے۔ اور عام طور پر تاریخ میں فرقہ اسماعیلی، آغا خانی، رافضی اور خوجا کے لیے باطنیہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہ قران حکیم کے معروف الفاظ کے بھی باطنی معنی پیش کرتے. ان کا دعویٰ تھا کہ قرآن شریف کی آیتوں کے ظاہری معنی کچھ اور ہیں اور اصلی باطنی کچھ اور. گویا جس طرح 'ظاہری' فکر کے مبلغ قران کے ظاہری معنوں ہی کو قبول کرنے پر مصر تھے. وہاں 'باطنیہ' تحریک سے متاثر یہ اہل تصوف قران حکیم کے معروف سادہ معنوں کا بھی باطنی ترجمہ کرنے لگے. جیسے لفظ 'جبال' کا سادہ و معروف معنی پہاڑ ہے مگر باطنیہ سے منسلک افراد لفظ جبال کوپہاڑ کی بجائے اولیاء اللہ سے تعبیر کرتے. ان کے بقول یہ وہ غوث و ابدال ہیں جو رب کی جانب سے زمین کی مختلف ذمہ داریوں پرجبال کی مانند مامور ہیں اور توازن قائم رکھتے ہیں. باقی تفصیل سے ہم دانستہ اجتناب کررہے ہیں کہ یہ موضوع اپنے آپ میں طوالت کا متقاضی ہے. .
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: یہ مضمون اس وقت ناقص ہے اور ایک 'رف ڈرافٹ' کی صورت میں پیش کیا گیا ہے. ان کے علاوہ بھی بہت سے فلسفے مسلم تاریخ کا حصہ ہیں. مستقبل قریب میں راقم اسکی تصحیح اور اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے. فی الوقت اسے موجود نقائص کے ساتھ قبول کیجیئے)

Tuesday, 16 January 2018

عوام کی عدالت میں



عوام کی عدالت میں


۔
فن خطابت کے بہت سے روپ ہیں جن میں تقریر اور مباحثہ کی اصناف سرفہرست ہیں. پھر تقریر اور مباحثے کی مزید کئی اقسام ہیں، جن کی باریکیوں کو ایک ماہر مقرر یا خطیب سمجھتا ہے. اسی طرح فن خطابت پر مبنی ایک صورت ایسی بھی ہے جس میں 'فرضی عدالت' سجائی جاتی ہے، جہاں عدالت کا اسٹیج سجا کر وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی پیش کردہ مقدمے کی تائید یا مخالفت میں دلائل سے جنگ کرتے ہیں. آخر میں جج جس وکیل یا مقرر کے حق میں فیصلہ دیتا ہے، اسے فاتح تصور کیا جاتا ہے. اسی طرح کی ایک عوامی فرضی عدالت کا 'نیو کراچی' میں اہتمام کیا گیا. جس میں وکیل صفائی کے کردار کیلئے مجھ سے رابطہ کیا گیا. یہ پروگرام ایک چیرٹی آراگنایزشن کی جانب سے عوامی شعور میں اضافے کیلئے ترتیب دیا جارہا تھا. وکیل استغاثہ کا کردار میرا قریبی دوست اور نامور مقرر نبھا رہا تھا. میرے لئے یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا جو بعد میں آخری بھی ثابت ہوا. پروگرام کا بنیادی ڈھانچہ تو طے شدہ تھا مگر دونوں وکلاء (مقررین) کیا استدلال پیش کریں گے؟ اور آخری نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ طے شدہ نہیں تھا. قسمت کی کرنی کچھ یوں ہوئی کہ جس روز پروگرام تھا، اس دن مجھے بخار نے گھیر لیا، گلا ایسا جکڑا کہ بولنے میں تکلیف ہونے لگی. میں نے انتظامیہ کو اپنی حالت بتائی اور چاہا کہ وہ میری جگہ کسی اور کو لے آئیں. ظاہر ہے پورا پروگرام خراب ہوتا نظر آنے لگا. اتنے کم وقت میں کوئی دوست مقرر راضی نہ ہوا لہٰذا مجبوراً مجھ ہی کو جانا پڑا. والدہ نے تھرماس میں نیم گرم نمکین پانی اور ڈسپرین ساتھ دے دی جس سے غرارے کرنے سے میری آواز نکلنے لگتی تھی. پروگرام کا انعقاد کسی آڈیٹوریم کی بجائے کھلے میدان میں کیا گیا تھا اور پنڈال بجا طور پر کسی سیاسی جلسے کا سا منظر پیش کررہا تھا. سامعین کی اکثریت غریب و متوسط عوام کی تھی جو اسے تماشا سمجھ کر غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کررہے تھے. عدالت کا پورا منظر سجایا گیا تھا. پیچھے قائد اعظم کی قدآور تصویر آویزاں تھی، بیچ میں میز پر ایک جانب ٹائپ رائٹر پر لکھا جارہا تھا اور دوسری جانب اردلی آواز لگانے کیلئے متعین تھا. وسط میں بھاری بھرکم جج صاحب عدالتی کوٹ پہنے براجمان تھے. ایک طرف کٹہرا تھا جہاں ایک نوجوان مجرم/ ملزم کھڑا تھا اور دوسری طرف دوسرا کٹہرا تھا جس میں اسی ملزم کے بوڑھے والدین موجود تھے. 
۔
مقدمہ بڑا عجیب تھا کہ ایک قتل کے مجرم کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے لیکن اس نے عدالت میں اب یہ اپیل درج کردی ہے کہ مجھے قاتل بنانے کے ذمہ دار میرے اپنے والدین ہیں لہذا انہیں بھی سزا دی جائے۔ جج نے بھاری آواز میں کہا کاروائی شروع کی جائے۔ میرے دوست یعنی وکیل استغاثہ نے پورے زور و شور سے ملزم کا مقدمہ پیش کیا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح والدین نے اس لڑکے کو آٹھویں جماعت کے بعد اسکول سے اٹھا لیا۔ کس طرح باپ نے بیٹے کو تربیت کیلئے وقت نہ دیا اور کس طرح یہ لڑکا آوارہ صحبت میں پڑ کر بلآخر ایک قاتل بن بیٹھا۔ بہت ہی احسن انداز میں استغاثہ نے اپنا مقدمہ قائم کردیا۔ اب میری یعنی وکیل صفائی کی باری تھی۔ میں وکیل کا بہروپ بھرے چپکے چپکے ڈسپرین کے غرارے کرکے اپنا گلا صاف کررہا تھا۔ میں نے استغاثہ کے دلائل کا تیاپانچہ کرنا شروع کیا اور بتایا کہ کیسے اس لڑکے کے مجبور والدین نے اپنی مفلسی کے باوجود اسے اسکول میں داخل کیا۔ کیسے اس کا باپ بنیادی ضروریات کیلئے دن رات مزدوری کرکے اپنی چمڑی جلاتا رہا۔ کیسے اس کی ماں نے لوگوں کے برتن مانجھ مانجھ کر بیٹے کی خواہشیں پوری کی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ کیسےاس لڑکے نے عیاشی و سرکشی کا رویہ اپنایا جبکہ اسی کے دوسرے بہن بھائیوں نے ان ہی حالات میں اپنی ذمہ داری نبھائی۔ وکیل استغاثہ بھی بھرپور دلائل سے میری کاٹ کررہا تھا۔ خوب گھمسان کی جنگ تھی اور فی الواقع یہ طے کرنا مشکل تھا کہ کون زیادہ درست ہے؟ دونوں جانب سے ثبوت پیش کیئے گئے۔ متعلقہ لوگوں سے جرح کی گئی۔ گرما گرمی ہوئی۔ عوام تالیوں سیٹیوں سے ساتھ دے رہی تھی۔ 
۔
ظاہر ہے کہ یہ حقیقی عدالت نہیں تھی جہاں بات صرف دلائل و ثبوت تک محدود رہے۔ یہ تو عوام کے سامنے فرضی عدالت تھی لہذا لفاظی، جوش بیان، مزاح، تک بندی، شاعری سب کا تڑکا ضروری تھا۔ چنانچہ دونوں وکلاء ایک دوسرے پر جملے بھی چپکا رہے تھے اور نری لفاظی بھی جھاڑ رہے تھے۔ جیسے میں نے کچھ تک بندی یا گردان اس طرح کی جس میں جملوں کا اختتام 'آن' پر ہوتا تھا۔ الفاظ تو اب راقم کو یاد نہیں مگر جیسے 'یہ مقدمہ ظلم کا نشان بن جاتا ہے، یوں مجرم قتل کا سامان بن جاتا ہے اور جھوٹ اپنی حد سے گزرے تو وکیل استغاثہ کا بیان بن جاتا ہے'۔ میری یہ جملے بازی مجمع نے خوب انجوائے کی تو وکیل استغاثہ نے اس کا ترکی با ترکی کچھ یوں جواب دیا ۔۔۔ 'انسان اپنے درجے سے گرے تو حیوان بن جاتا ہے، حیوان اپنے درجے سے گرے تو شیطان بن جاتا ہے مگر جب شیطان بھی اپنی حد سے نکل جائے تو وہ فاضل وکیل عظیم الرحمن بن جاتا ہے' ۔۔۔۔ ان جملوں پر عوام نے خوب شور مچایا تو میں نے آبجیکشن کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ 'جج صاحب وکیل استغاثہ کی سوچ ملاحظہ کیجیئے کہ مجھ پر نقد کرتے یہ بھی نہ سوچا کہ جس کو یہ ملعون شیطان سے جوڑ رہے ہیں اس نام میں ان کے رب کا نام دو بار آتا ہے ۔۔ ایک عظیم کی صورت میں تو دوسرا الرحمن کی صورت میں' ۔۔۔۔ اس بے ساختہ جواب نے عوام کی توپوں کا رخ مقابل کی جانب کردیا۔ اس گرما گرم ماحول میں بھی اس کراری تکرار پر ہم دونوں وکیل ہنسی نہ روک پائے۔ آخر میں جج نے فیصلہ سنایا۔ والدین کے خلاف مقدمہ خارج کرکے انہیں باعزت رہا کردیا گیا جبکہ شواہد دیکھتے ہوئے مجرم کی سزا برقرار رکھی گئی۔ 
۔
یہ تجربہ جہاں نہایت یادگار ثابت ہوا وہاں اس کی عوامی شعور کے ضمن میں افادیت بھی محسوس ہوئی۔ یہ فی الواقع ایک صحتمند طریق لگا جس سے عوام میں شعور ارتقاء پاسکتا ہے۔ انگلینڈ میں عام شہریوں کو جیوری یعنی ججمنٹ کرنے کیلئے عدالت بلالیتی ہے جہاں کوئی ہفتہ بھر انہیں حقیقی جرائم کے مقدمات کی سنوائی اور فیصلوں کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ اس تجربے سے ان کی سوچ کو جو نئے زاویئے حاصل ہوتے ہیں وہ انہیں ایک بہتر شہری اور ایک بہتر انسان بنادیتے ہیں۔ 
۔
====عظیم نامہ====

Sunday, 14 January 2018

کچھ یادگار ھوٹنگ



کچھ یادگار ھوٹنگ


۔
تقریری مقابلوں میں مقرر کو جہاں اعتماد، دلائل، حسن بیان، منظر نگاری، رد دلیل وغیرہ کا سہارا لینا ہوتا ہے۔ وہاں اس کا سامنا حاظرین کی سفاک ھوٹنگ یعنی جملے کسنے سے بھی ہوتا ہے۔ ایسی ہی چند ھوٹنگ کی یاد آپ کی حسن سماعت کی نظر کررہا ہوں۔
۔
پاکستان ایئر فورس رسالپور اکیڈمی کے زیر اہتمام سالانہ تقریری مقابلے کو بجا طور پر پاکستان کا نمایاں ترین مقابلہ سمجھا جاتا ہے۔ راقم نے بطور مقرر تین سال لگاتار اس میں شرکت و کامیابی حاصل کی ہے۔ ایئر فورس کے کیڈٹس صرف پیشہ وارانہ مہارت ہی کا شاہکار نہیں بلکہ تفریح، حاضر جوابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ تقریری مقابلے میں انتظامیہ کی جانب سے ھوٹنگ یعنی جملے کسنا ممنوع ہوتا ہے۔ مگر وہ کیڈٹس ہی کیا جو کوئی رستہ ڈھونڈ نہ نکالیں؟ لہذا کیڈٹس کا ھوٹنگ کیلئے طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ آڈیٹویم کی پچھلی نشستوں پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ دوران تقریر جب مقرر کی نظر ان کی جانب جاتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اچانک ایک کیڈٹ کھڑا ہوکر اپنی گود میں کسی بچے کو فرضی طور پر جھولا دے رہا ہے۔ پھر ایک جھٹکے سے وہ گود کے اس فرضی بچے کو ہوا میں اچھال کر اپر دیکھنے لگتا ہے۔ کچھ اور کیڈٹ بھی کھڑے ہوکر تشویش سے دیکھتے ہیں اور اس فرضی بچے کو کیچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیچ چھوٹ جاتا ہے اور یہ سب کیڈٹ بناء آواز نکالے رونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں اور مقرر کی طرف دہایاں دیتے ہوئے ماتم کرنے لگتے ہیں۔ یہ ساری واردات نہایت خاموشی سے منظم ترین انداز میں ہوتی ہے۔ بڑے بڑے مقرر اس اچھوتی ھوٹنگ کو دیکھ کر اور کنفیوز ہوکر تقریر بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح اچانک ایک پوری لائن کیڈٹ کی کھڑی ہوکر بناء آواز مارچ کرتی ہوئی پیچھے آجاتی ہے اور پیچھے والی لائن آگے آجاتی ہے۔ یہ ایسا عجیب منظر ہوتا ہے جس کے اثر کو الفاظ میں ڈھالنا شائد ممکن نہیں۔ 
۔
ایک اور یاد 'جنگ اخبار' کے زیراہتمام مباحثے کی ہے جو شیریٹن ہوٹل کراچی میں ہوا تھا۔ اس میں بہترین ھوٹنگ کرنے والے کو پرائز دینے کا اعلان کردیا گیا تھا۔ لہذا ہر سامع بہترین جملے کسنے میں مشغول تھا۔ ایسے میں مہمان خصوصی کو اسٹیج پر بلایا گیاجو ایک نجی ایئر لائن کے مالک بھی تھے۔ ان کا سر بالوں سے بلکل بے نیاز تھا۔ گویا عامیانہ الفاظ میں وہ رچ کے ٹکلو تھے۔ اسٹیج کے پیچھے اور اپر دیوقامت آئینے نصب تھے۔ ساتھ ہی اسٹیج پر سرچ لائٹ کیساتھ باقی سب لائٹیں ہلکی روشنی دے رہی تھیں۔ اب جب یہ مہمان خصوصی اسٹیج پر تشریف لائے تو سارے آئینوں میں ان کا گنجا ٹکلو سر پوری آب و تاب سے چمکتا دمکتا نظر آیا۔ اچانک خاموشی میں پیچھے سے ایک آواز گونجی ۔۔ "ارے جیسے چاند نکل آیا !" ۔۔ پورے ھال میں یہ سنتے ہی ایک گھمسان کا قہقہہ پڑا۔ سب لوٹ پوٹ ہوگئے۔ جس لڑکے نے جملہ کسا تھا اسے انعام دیا گیا حالانکہ یہ ھوٹنگ کسی مقرر کی بجائے بیچارے مہمان خصوصی پر تھی۔
۔
اسی طرح غالبا بحریہ یونیورسٹی یا ڈی ایچ اے کالج کا کوئی تقریری مقابلہ ہورہا تھا۔ میرے برابر میں ایک لڑکی مقررہ آکر بیٹھ گئی۔ یہ لڑکی ایک معروف ٹی وی ماڈل بھی تھی۔ جس کا نام ہم دانستہ نہیں درج کررہے۔ ان دنوں اس کا ایک اشتہار ٹی وی پر مقبول ہورہا تھا جس میں وہ یہ جملہ کہتی تھی ۔۔ "میں حیران رہ گئی" ۔۔ یہ لڑکی اپنی تقریر کے بارے میں کافی پرامید تھی اور مجھے اپنے پوائنٹس بتا کر مشورہ لے رہی تھی۔ مجھے بھرپور امید تھی کہ وہ ایک بہترین تقریر کرنے جارہی ہے۔ کچھ دیر بعد اس ماڈل مقررہ کا نام پکارا گیا۔ آڈیئنس اسے پہچان گئی اور سب نے یک زبان ہوکر نعرہ مارا ۔۔ "میں حیران رہ گئی" ۔۔ تقریر کرتے ہوئے وہ بولی ۔۔ صدر عالی وقار ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ میرا آج کا موضوع ہے ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ میں یہ بتانا چاہتی ہوں ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ آج ملک کے حالات دیکھ کر ۔۔ آڈیئنس پکاری "میں حیران رہ گئی" ۔۔ غرض اس لڑکی کی تقریر کو سب آڈیئنس نے مل کر دوبھر کردیا اور اسے اسٹیج سے سوری کہہ کر اترنا پڑا۔ ججز تک اپنی ہنسی نہیں روک پارہے تھے۔ یہ لڑکی واپس آکر میرے برابر بیٹھ گئی۔ نہ وہ کچھ کہہ رہی تھی نہ مجھ میں پوچھنے کی ہمت تھی۔ کچھ دیر بعد بالآخر میں نے دبی آواز میں ہمدردی سے پوچھا "تم ٹھیک ہو؟" ۔۔۔ اس نے ناراض نظروں سے مجھے دیکھا اور ہاتھ ہلا کر کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "میں حیران رہ گئی !!" 
۔
====عظیم نامہ====

میرے بچے .. میرے نونہال


میرے بچے .. میرے نونہال 




.
یہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھرمار بہت بعد میں ہوئی ہے. سب سے پہلے پی ٹی وی کے ساتھ جو پہلا نمایاں پرائیویٹ چینل لانچ ہوا تھا اس کا نام 'این ٹی ایم' تھا اور جو شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک کا حصہ سمجھا جاتا ہے. ہماری انجینیرنگ کے دور میں اسی چینل کے زیر اہتمام ایک بہت بڑے تقریری مقابلے کا انعقاد کیا گیا. یہ مقابلہ کراچی کی معروف درسگاہ 'ڈاؤ میڈیکل کالج' میں منعقد ہوا. اپنی یونیورسٹی کی جانب سے مجھے اس میں شرکت کیلئے بھیجا گیا. یہ مقابلہ سب مقررین کیلئے اسلئے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کہ اسے ٹی وی پر آنا تھا اور اس زمانے میں دو ٹی وی چینلز کی موجودگی میں ٹی وی پر آجانا بڑی بات تھی. ہم جب مقابلے میں شرکت کی نیت سے نکلے تو ہماری یونیورسٹی کلاس کے دوستوں کا گروپ ساتھ چلنے پر مصر ہوگیا. ان کیلئے ایک تو دوست کی تقریر تھی، پھر ٹی وی پر آنا تھا اور سب سے بڑھ کر اس کالج میں آنکھیں سیکنا تھا جہاں لڑکیوں کی بھرمار تھی. ایسے میں کون کافر جانے کو تیار نہ ہوتا؟ لہٰذا ہمارے ساتھ ہمارے قریبی دوستوں کا ایک گروپ بھی بطور سامعین جاپہنچا. آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. نشستیں بھری ہوئی، لڑکے لڑکیاں زمین اور سیڑھیوں تک بیٹھے ہوئے تھے. جنہیں وہاں بھی جگہ نہ ملی وہ کھڑے یا لٹکے ہوئے تھے. گویا دیکھ کر بندہ خدا عبرت لے کہ روز آخر کیسا نفسا نفسی کا عالم ہوگا؟ اسٹیج کے برابر میں ایک ریکارڈنگ روم قائم تھا. ہمارا دیگر شرکاء کی طرح ہلکا پھلکا میک اپ بھی کردیا گیا. مقابلے کا آغاز ہوا تو دو اعلانات یکے بعد دیگرے سامنے آئے. پہلا اعلان ججز کی جانب سے تھا کہ وہ لفاظی یا فقط جوش خطابت دیکھانے والے مقررین کو انعامات کی فہرست سے خارج کردیں گے اور صرف ان مقررین کو پہلا دوسرا تیسرا انعام دیں گے جو خالص دلائل و منطق سے اپنی بات پیش کرے. دوسرا اعلان انتظامیہ کی جانب سے ہوا کہ بہترین ہوٹنگ کرنے والے کو بھی ایک پرائز دیا جائے گا. یہ دونوں اعلانات مجھے آغاز ہی میں ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوئے. سامعین دلائل سے مزین سنجیدہ تقاریر اسی وقت سماعت کرتے ہیں جب انہیں نظم و ضبط میں باندھا جائے. یہاں تو ہوٹنگ کی کھلی چھٹی دے کر پروگرام کی قبر کھود دی گئی تھی. 
.
جو ڈر تھا وہی ہوا. ہوٹنگ یعنی جملے بازی جلد ہی ہاولنگ یعنی ہلڑ بازی میں تبدیل ہوگئی. کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی. ایک کے بعد دوسرا مقرر اسٹیج پر جاتا اور سامعین کے ہاتھوں رسوا ہوکر نیچے اتر آتا. مجھ سمیت سب مقررین اپنا حشر سوچ کر ہیبت طاری تھی. بلآخر اسی ہنگامے میں میرا نمبر قریب آپہنچا. میرے ساتھ آئے دو دوستوں نے مجھے بازو سے تھام کر منع کیا اور کہا کہ ایسے میں اپر جانا اپنی عزت لٹوانے کے مترادف ہے. باقی دوست بھی مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے چشم تصور سے میری عصمت دری کا منظر ان کے سامنے ہو. میں نے ایک لمحہ سوچا اور پھر ڈرتے دل کے ساتھ اپر جانے کا فیصلہ کرلیا. اعلان ہوا کہ ... 'اب آئیں گے سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے مقرر عظیم الرحمٰن !' ... لفظ 'انجینیرنگ' سنتے ہی 'میڈیکل' کالج کے ان طلباء و طالبات میں روایتی مسابقت کے سبب مزید بجلی آگئی. جب میں اسٹیج کی جانب بڑھنے لگا تو سامنے والی دو قطاروں میں بیٹھی لڑکیوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اپر کیا اور جھوم جھوم کر گانے لگی .... "ہوگا دنیا میں تو بے مثال ... میرے بچے میرے نونہال !" ..... پورا ھال مجھ پر ہنس رہا تھا، سوائے ان چند دوستوں کے جو مجھ پر ترس بھری نگاہ رکھے ہوئے تھے. ہم اندر سے تو شدید لرزہ براندام تھے مگر چہرے پر ایک پر اعتماد مسکراہٹ سجائے ہوٹنگ کرنے والو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اسٹیج پر جا پہنچے. ٹانگیں کانپ رہی تھیں مگر بڑے اعتماد سے مائیک درست کیا، سانس اندر کھینچی اور بولنے کے لئے جیسے ہی زور لگانا چاہا تو..... تو سامنے ریکارڈنگ روم سے ایک بندہ بھاگتا ہوا باہر آیا اور بولا "بھائی کچھ ٹیکنکل فالٹ کی وجہ سے آپ کا اسٹیج پر آنا اور اعلان ریکارڈ نہیں ہو پایا، آپ پلیز دوبارہ نیچے آجائیں. آپ کا پھر سے نام بلایا جائے گا" ... اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ سامعین نے میرا کیا حال کیا ہوگا؟ میں من ہی من ریکارڈنگ والے کو کوستا ہوا واپس اپنی نشست پر آبیٹھا. دوبارہ اعلان ہوا ... 'اب آئیں گے سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے مقرر عظیم الرحمٰن !' ... آڈینس تو مانو انتظار میں تھی .. ہر طرف صدا تھی .. "ہوگا دنیا میں تو بے مثال ... میرے بچے میرے نونہال !" ..... اسی عالم میں ہم مسکراتے ہوئے دوبارہ اسٹیج پر جاپہنچے. لیکن اس دوران میں نے اپنے آپ میں ایک فیصلہ کرلیا تھا. 
.
فیصلہ یہ تھا کہ میں دلائل سے مزین تیار شدہ تقریر نہیں کروں گا بلکہ خالص 'تک بندی' سے بھرپور جوشیلی تقریر کروں گا. پھر بھلے وہ موضوع سے کم مناسبت رکھتی ہو یا ججز کے اعلان و معیار کے برخلاف ہو. یہ سوچ کر میں نے مائیک تھاما مگر دانستہ خاموش مسکراہٹ کے ساتھ سامنے سامعین کو بے نیازی سے دیکھتا رہا. سات منٹ کی تقریر میں سات سیکنڈ بھی اہم ہوتے ہیں. مگر میں نے کوئی آدھا منٹ ایک لفظ نہ بولا. بلکہ مزے سے مائیک کو انگلی سے بھی کھٹکھٹاتا رہا. اس تیس سیکنڈ میں سامنے لوگوں نے چیخ چیخ کر اپنے گلے پھاڑ لئے مگر میں مسکراتا ہوا خاموش رہا. تیس سیکنڈ تک جب میں نہ بولا تو اچانک لوگوں کا شور تھما اور انہوں نے حیرت سے اسٹیج کی طرف دیکھا کہ یہ ناہنجار بولتا کیوں نہیں؟ .. جیسے ہی یہ خاموش لمحہ مجھے ملا میں نے بھاری آواز میں آغاز کیا ... 'کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے' ... لوگوں کو محسوس ہوا کہ وہ بیوقوف بن گئے ہیں تو ایک کھسیانی سے ہنسی ہنسے. ایسے میں ایک لڑکا جو سب سے زیادہ ہوٹنگ کررہا تھا اور مجمع کا منظور نظر تھا، میں نے اس کی جانب اشارہ کرکے بات کا آغاز کیا ... 'تم بتاؤ اے پاکستانی' ...اس کے بعد میں نے پرجوش گفتگو شروع کی، اس لڑکے نے جب میری نظروں کو اپنے اندر اترتے محسوس کیا تو آنکھیں چرانے لگا اور خاموش ہوگیا. میرا ماننا رہا ہے کہ ہوٹنگ کرنے والا مجمع خاموش مجمع سے کہیں بہتر ہوا کرتا ہے، وجہ یہ کہ وہ زندہ ہوتا ہے، اس میں انرجی ہوتی ہے. جیسے دریا غلط جانب بہہ رہا ہو تو تباہی لاتا ہے مگر اگر کسی طور آپ اس دریا کا دھارا صحیح جانب موڑ دیں تو وہ اسی زور و شور سے سیرابی کا بھی بھرپور کام انجام دیتا ہے. کچھ ایسا ہی اس مجمع کے ساتھ ہوا. میں ان کی ہوٹنگ انرجی کو اپنی پذیرائی میں موڑنے پر کامیاب ہوگیا تھا. اب عالم یہ تھا کہ ہاتھ اٹھاتا تو تالیاں گونجتی، ہاتھ گراتا تو تالیاں رک جاتی. وقت ختم ہونے کی گھنٹی بجی تو لوگوں نے گھنٹی روک دی. کوئی زور سے چلایا ...' اسے بولنے دو .. اسے نہیں روکو' ... اس پر طرہ یہ کہ گھنٹی بجنے پر ہم نے برجستہ کچھ یوں شعر پڑھا. 
.
چشم ساقی کی عنایات پر پابندی ہے 
ان دنوں وقت پر، حالات پر پابندی ہے 
درد اٹھتا ہے، لہو بن کر چھلکنے کیلئے 
یہ 'گھنٹی' بجا کر کہتے ہیں جذبات پر پابندی ہے 
یہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی. جب اسٹیج سے اترا تو لوگوں کے جھرمٹ میں تھا. میری طویل قامت جسامت نے انہیں مجھے کاندھے پر اٹھانے سے روکے رکھا مگر آڈینس کی اس غیر معمولی پذیرائی نے ججز پر اتنا پریشر ڈالا کہ میری دلائل سے خالی تقریر پر بھی انہیں مجھے دوسرا انعام دینا پڑا. اس پر بھی لوگ غصہ تھے کہ پہلا کیوں نہ دیا؟ پہلا انعام میرے ایک دوست کو ملا جس نے فلسفیانہ استدلال سے مزین تقریر تو کی تھی مگر آڈینس میں سنا اسے کسی نے نہ تھا. افسوس کہ اس مقابلے کے کچھ ماہ بعد ہی شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک بند کردیا گیا اور میری یہ یادگار تقریر کبھی آن ائیر نہ ہوسکی.
.
====عظیم نامہ====

Friday, 12 January 2018

نوجوانی کی مستی اور پاگل پن


نوجوانی کی مستی اور پاگل پن


.
زمانہ طالبعلمی میں ہمارا اولین شوق فن خطابت ہوا کرتا تھا. اس کے لئے ملک بھر میں منعقد مقابلوں میں شرکت ہوتی تھی. پشاور یونیورسٹی میں ایسے ہی ایک مقابلے میں شرکت کے بعد این-ای-ڈی یونیورسٹی کراچی اور سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کراچی کے مقررین نے کچھ اور دوستوں کے ساتھ مل کر مری جانے کا فیصلہ کیا. یہ نوجوانی کے دن تھے اور ہم سب کی عمریں انیس سے بائیس برس کے لگ بھگ تھیں. دل و دماغ پر صرف تفریح اور مستی سوار تھی. چند روز کے اس تفریحی سفر میں جی بھر کر تفریح کی. ایک بس کے ذریعے مری کی جانب نکلےتو پوری بس پٹھان بھائیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی. سب کو الگ الگ نشست ملی. پھر جگہ اسقدر تنگ تھی کہ بیٹھنا دوبھر ہورہا تھا. اچانک ایک دوست نے کچھ بولے بناء دیگر دوستوں کو آنکھ ماری اور نفسیاتی مریض کی سے ایکٹنگ کرنے لگا. وہ کبھی جھرجھری لیتا تو کبھی امیتابھ بچن کی آواز میں ہندی فلم کا کوئی غصیلا ڈائیلاگ دہرانے لگتا. باقی دوست اسے سہارا دینے کی ایکٹنگ کرنے لگے. سادہ مزاج پٹھان بھائی فوری ادھر ادھر ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پیچھے کی تمام نشستیں خالی ہوگئیں. اب سب دوست آرام سے ایک ساتھ براجمان ہوئے اور اسی ایکٹنگ کو برقرار رکھتے ہوئے پورا سفر مزے سے کیا.
.
مری پہنچے تو منفی دس ڈگری میں پورا علاقہ برف سے ڈھکا ہوا تھا. ایک چھوٹا سا سستا ترین کمرہ لے کر سب کے سب اس میں ٹھنس گئے. اندر ہیٹر تک نہ تھا لہٰذا سب نے جیکٹ مفلر لپیٹ رکھا تھا. باہر دکانوں میں جھانکنے نکلے تو کچھ دوستوں کو پھر مستی سوجھی. ایک اور دوست نے گونگے کا سوانگ بھرا اور مختلف گاہکوں سے جان بوجھ کر ٹکرا جاتا. جب وہ گاہک غصے سے کوئی جملہ بولتا تو وہ گونگے کی سی آوازیں نکال کر شکایت کرنے لگتا، رونے لگتا. باقی دوست اجنبی بن کر اسے دلاسہ دیتے تو دیکھتے ہی دیکھتے تمام گاہک اور دکان والے اس نقلی گونگے کے حق میں ہوجاتے. ایسا کر کے فری گفٹ بھی اس گونگے کو ملے اور زبردست ڈسکاونٹ بھی. دوست یار ایک اور تفریح یہ بھی کرتے کہ باہر کسی بھی اجنبی کو دیکھتے ہوئے اس کے سامنے آکر ٹھٹھک کر رک جاتے، پھر خوشی سے زور کا نعرہ مارتے ہوئے اس اجنبی شخص کے گلے لگ جاتے ... 'ارے بھائی آپ یہاں !!' .. باقی دوست بھی اس سے ایسے ملنے لگتے جیسے شناسائی ہو ... یہ بہت سے افراد کے ساتھ کیا تو معلوم ہوا کہ اکثر افراد انتہائی کنفیوز ہوکر پہچان لینے کی ایکٹنگ کرنے لگتے ہیں. لوگوں کی حرکتیں اور 'کنفیوز ری ایکشن' خوب لطف دیتا. ہمارا ہی ایک اور دوست جس نے ہمیں لیٹ جوائن کیا تھا، کہنے لگا کہ اب وہ سامنے والے اجنبی کے ساتھ یہی حرکت کرنے لگا ہے لہٰذا ہم سب اس کا ساتھ دیں. ہم سب نے سامنے سامنے حامی بھر لی مگر اسے سبق سیکھانے کیلئے اس کا ساتھ نہ دیا بلکہ اس اجنبی کو اپنے ساتھ ملا لیا. دوست اس اجنبی کے سامنے پورے اعتماد سے گیا، ٹھٹھک کر رکا اور خوشی سے چلایا .. 'ارے بھائی آپ یہاں !!' .. یہ کہہ کر اس نے ہماری جانب دیکھا تو ہم سب لاتعلق ہوگئے. وہ اجنبی شخص بھی کوئی تفریح انسان تھا اور ہم سے ملا ہوا تھا، بات سمجھ گیا لہٰذا جیسے ہی دوست نے کہا .. 'ارے بھائی آپ یہاں !!' .. تو وہ اجنبی جواب میں اور زیادہ زور سے خوش ہوکر چلایا .. 'ارے میرا دوست فتو بواسیر !' .. اور یہ کہہ کر دوست کو گلے لگا لیا. اب اس دوست کی شکل دیکھنے والی تھی اور ہم سب کا ہنس ہنس کر برا حال. آج تک اسے دوست یار 'فتو بواسیر' ہی کہہ کر چھیڑتے ہیں.
.
مری کی مال روڈ ایک نہایت مصروف جگہ ہے جہاں لوگوں کا اژدھام ہوتا ہے. ہم اس کے سب سے مصروف مقام پر پہنچے تو اب کوئی بڑی مستی کرنے کی ٹھانی. دوستوں کے اس گروپ میں دو بہترین اردو مقرر شامل تھے. ایک خود راقم یعنی میں اور دوسرا ایک دوست دانش. سر جوڑ کر پلان کیا گیا اور سب دوست چاروں طرف پھیل کر مختلف چیزوں میں مصروف نظر آنے کی ایکٹنگ کرنے لگے. میں اور دانش اس مصروف مقام کے عین وسط میں پہنچے اور ڈرامہ شروع کردیا. دانش نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک شعلہ بیاں تقریر شروع کردی. جسے میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنجیدگی سے سننے لگا. جیسے ہی اس نے بات ختم کی تو میں نے اس کا جواب ایک اور شعلہ بیاں تقریر سے دیا. اب میں سنجیدگی سے بول رہا تھا اور وہ سنجیدگی سے سن رہا تھا. مثال کے طور پر دانش نے ابتداء کی کہ ... "عظیم اس ملک کی تباہی کا ذمہ دار ایک کھیل ہے جو ہم سب کھیل رہے ہیں اور وہ کھیل کچھ یوں ہے کہ آؤ کھیلیں دشمن دشمن، آؤ کھیلیں دشمن دشمن، آنکھ پر پٹی سامنے دشمن، صوبہ صوبہ دشمن دشمن، فرقہ فرقہ دشمن دشمن، بھائی بھائی دشمن دشمن، آؤ کھیلیں دشمن دشمن، آؤ کھیلیں دشمن دشمن" ......... میں نے سنجیدگی سے یہ سن کر تائید میں سر ہلایا اور جواب دیا .. "دانش تم ٹھیک کہتے ہو مگر اگر ہم دین کو تھام لیں، اگر ہم برداشت کو فروغ دیں تو پھر یہی دشمن دوست بھی بن سکتے ہیں، کھیل پھر کچھ یوں ہوگا کہ آؤ کھیلیں دوست دوست، آؤ کھیلیں دوست دوست، آنکھ کھلی تو سامنے دوست، صوبہ صوبہ دوست دوست، فرقہ فرقہ دوست دوست، بھائی بھائی دوست دوست، آؤ کھیلیں دوست دوست، آؤ کھیلیں دوست دوست"
.
ہم دونوں یہ جملے بازی پوری خطیبانہ مہارت سے اونچی آواز میں کررہے تھے اور دونوں کے چہروں پر پہاڑ جیسی سنجیدگی تھی. لوگ ہماری جانب تیزی سے متوجہ ہونے لگے. ابتداء میں اکثر ہنس رہے تھے، کوئی پاگل کہہ رہا تھا، کوئی جملے کس رہا تھا. پھر آھستہ آھستہ لوگ متاثر ہونے لگے. تعداد بڑھنے لگی. ہمارے دوست اس ہجوم میں ہر طرف موجود تھے، دائیں جانب ایک دوست بولا "کیا زبردست انداز ہے" .. بائیں جانب ایک دوست بولا "باتیں تو سچ کہہ رہے ہیں" .. سامنے سے ایک دوست نے واہ واہ کی صدا بلند کی .. پیچھے سے ایک دوست نے تالی بجائی .. لوگ ہاں میں ہاں ملانے لگے. زیادہ وقت نہ لگا کہ پورا مجمع انہماک سے ہمیں سننے لگا اور ہر طرف تالیاں بجنے لگی. لوگ دکانوں اور چھتوں پر آگئے. ہم سب خوب لطف لے رہے تھے مگر اب وہ ہوا جو ہمارے پلان میں شامل نہ تھا، .... پولیس آگئی! .... ایک انسپکٹر میری جانب آیا اور درشتگی سے بولا .. ' اوئے یہ کیا لگا رکھا ہے تم لوگوں نے، پورا ٹریفک جام کردیا، چلو تھانے!'.. یہ سن کر ہم سب کے ہوش اڑے. میں سوچ ہی رہا تھا کہ انسپکٹر کو کیا جواب دوں؟ کہ ہمارا ایک دوست ہنستا ہوا مجمعے سے نکل کر آیا اور انسپکٹر کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر نہایت کانفیڈینس سے بولا .. 'سر غصہ نہ ہوں .. یہ مشہور رئیلیٹی پروگرام "کیسا" کی لائیو شوٹنگ ہے اور ہم اس کی اجازت بھی حکام سے لے چکے ہیں. وہ دیکھیئے اپر ہمارا کیمرہ مین موجود ہے، پلیز ہاتھ ہلا دیں' ... جس طرف اشارہ کیا گیا وہاں ہمارا ایک اور دوست ذرا اونچائی پر کچھ گرم شالوں کا گولا تھامے کھڑا تھا. اس نے وہاں سے انسپکڑ اور مجمع کو ہاتھ ہلادیا. یہ دیکھ کر سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سینکڑوں افراد کا یہ مجمع ہمارے فرضی کیمرہ مین کی جانب ہاتھ ہلانے لگا. باقی جتنے دن ہم مری میں رہے، مقامی لوگ ہماری آؤ بھگت کرتے رہے اور پوچھتے رہے کہ پروگرام کب آن ائیر ہوگا؟ ایسے ہی معلوم نہیں کتنی کاروائیاں اس ٹرپ میں ہم سے سرزد ہوئیں.
.
آج جب ان واقعات کو زمانہ بیت چکا ہے تو سوچ کر حیرت ہوتی ہے. بے اختیار مسکرانے بھی لگتا ہوں. ہماری بہت سی حرکتیں اخلاقی طور پر یقیناً ٹھیک نہیں تھیں. جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، بیوقوف بنانا - انہیں دینی یا اخلاقی لحاظ سے کون درست کہے گا؟ آپ احباب بھی مجھ سے یا میرے دوستوں پر ان واقعات کے حوالے سے خفاء ہوسکتے ہیں. مگر نوجوانی کی اس مستی میں ہم دوست وہ وہ چیزیں کرگئے جس کی جرأت آج ہم دوستوں میں سے کسی ایک کے پاس بھی نہیں. اس پاگل پن سے یادوں کا ایک ایسا ذخیرہ بنا ہے جو عمر بھر ہمیں مسکراہٹیں دیتا رہے گا.
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 9 January 2018

خبردار ! ٹھرک لاعلاج ہے


خبردار ! ٹھرک لاعلاج ہے 



.
خوب جان لیں کہ مرد فطرتاً کنوارہ ہے اور اگر اسے ذرا بھٹکنے کا موقع مل جائے تو آوارہ بھی ہے. کوئی حاجی صاحب اگر ٹوپی لگا کر اور تسبیح تھام کر اس مخفی مردانہ رغبت کی اپنے اندر ہونے کی نفی کرتے ہیں تو ہمارے نزدیک یا تو انہیں میڈیکل چیک اپ کی ضرورت ہے یا پھر وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور اگر کوئی خاتون یہ سوچتی ہیں کہ میرے شوہر یا میرے والد یا میرے بھائی یا میرے بہنوئی ایسے نہیں ہیں تو وہ ایک سراب میں جی رہی ہیں. حقیقت یہ ہے کہ مخالف جنس کیلئے ایک فزیکلی فٹ مرد کا دل ضرور بچوں کی طرح مچلتا ہے. گویا دل تو بچہ ہے جی !
.
کس کو پتہ تھا؟ پہلو میں رکھا .. دل ایسا پاجی بھی ہوگا 
ہم تو ہمیشہ، سمجھتے تھے کوئی .. ہم جیسا حاجی ہی ہوگا 
.
فرق فقط اتنا ہے کہ ایک مہذب انسان تہذیب نفس کے سبب اپنی نفسانی خواہشات کو لگام دیئے رکھتا ہے. جب کے دوسرا انسان اپنی نفسی و جنسی خواہش میں ایسا بے لگام ہوتا ہے کہ کچھ وقت بعد لاعلاج ہوجاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ بوڑھے مردوں میں بھی آپ کو ایسے ایسے ٹھرکی ملتے ہیں کہ آدمی سر پیٹ لے. 
.
کچھ خواتین یہ غلط فہمی بھی پال لیتی ہیں کہ 'کیونکہ' وہ بہت حسین ہیں اسلئے انکے لئے مردوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے. حالانکہ مرد کی عورت سے رغبت کا یہ عالم ہے کہ اس کے لئے وہ اکثر کسی خاص سراپے کا محتاج نہیں ہوتا. گویا خاتون موٹی ہوں، دبلی ہوں، گوری ہوں، کالی ہوں، حسینہ ہوں، عام صورت ہوں. غرض جو بھی حال ہو مردوں کا ایک جم غفیر ان کا پرستار بن جائے گا. یہ اور بات کہ ان میں شاذ ہی کوئی ایسا نکلے جو فی الواقع نکاح کا متمنی ہو. اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ گھر پر رشتے آنے کی لائن کبھی نہیں لگے گی مگر کالج، یونیورسٹی، محلے، فیس بک ہر جگہ مرد آگے پیچھے گھوم رہے ہوں گے. جیسے سب سے بڑی حور پری یہی ہیں. اصولاً تو جب باہر ہزاروں مرد مداح بنے ہوئے ہیں تو کم از کم آٹھ دس تو رشتے ہر وقت آئیں؟ ظاہر ہے کہ اکثر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا. عقلمند عورت وہ ہے جو غیر مردوں کی اس پذیرائی سے مسرور ہوکر اٹھلاتی نہ پھرے بلکہ اپنی قابلیت اور شخصیت کو مضبوط بنانے پر دھیان دے. تاکہ کل جب رشتے کی بات ہو تو کوئی سینسبل انسان اس سے نکاح کا متمنی ہو.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: یہ ایک ہلکی پھلکی 'غیر مذہبی' تحریر ہے لہٰذا درخوست ہے کہ اسے اسی طرح دیکھا یا پڑھا جائے)

Monday, 8 January 2018

عابی مکھنوی بھائی کی پوسٹ پر میرا کمنٹ



عابی مکھنوی بھائی کی پوسٹ پر میرا کمنٹ


۔
ویسے تو لکھنا لکھانا تقریباً چھوڑ ہی دیا ہے ۔ بھلا ہو فیس بُک کا کہ ہر روز گزشتہ چھ سات سال میں لکھا کہا گیا روزانہ سامنے رکھ دیتی ہے۔ کچھ مناسب لگا تو کاپی پیسٹ کیا اور یہ جا وہ جا !!!
کچھ تازہ نہ لکھنے کا محرک یہ بنا کہ قلم سے جلی کٹی اور مایوس کُن باتوں کے سوا کچھ برآمد ہی نہیں ہو رہا تھا جبکہ مخلوق خدا اُمید اور آسرے کی متلاشی ہے ۔ ایسے میں خاموشی بھی ثواب کا کام لگا ۔
لہذا خاموشی سادھ لی ہے ۔ کوئی مسخرانہ سوچ وارد ہوتے ہی ایک آدھ جملے میں نذر کر دیتا ہوں کہ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بھی صدقہ ہے۔
میں نہیں جانتا کہ اس کیفیت کو کیا کہتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے بے حسی ہو !! خود غرضی ہو !! یا محض تھکاوٹ . دائمی ہے یا عارضی !! رب جانے !!
کچھ مہینوں سے سب اچھا لگنے لگا ہے ۔ بد ترین بُرا بھی معمول جیسا !! ہو سکتا ہے اس کیفیت کو ہار یعنی شکست کہتے ہوں ۔
ایک عرصہ کشتی کھیلی ہے ۔ ہم دیکھنے والوں کے لیے کشتی لڑتے تھے اور انہی کے لیے جیت کر بھی دِکھاتے تھے ۔
شاید کوئی تماشائی اس قابل نہیں بچا کہ جسے میچ جیت کر دکھانے کی لگن بیدار ہو ۔ میدان اُجڑا پڑا ہے اور اکھاڑا آباد ہے ۔ کوئی پاگل ہی ایسے میں کرتب دِکھا سکتا ہے ذی ہوش نہیں ۔
تو ہو جائے پھر ایک ایک لطیفہ :) میں تو روز ہی پوسٹ کرتا ہوں :) آپ بھی سُنائیے نا کُچھ !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
السلام علیکم عابی بھائی

بارہا اظہار کرچکا ہوں کہ آپ کو فقط شاعر کہنا یا سمجھنا میں قطعی طور پر غلط قرار دیتا ہوں۔ آپ نے بہت سیکھ لیا، کہہ لیا، سوچ لیا ۔۔۔ اب واقعی وقت ہے جب یہ تھکا ماندہ مگر سکون سے مزین مسافر رک کر اپنے ماضی کا طائرانہ جائزہ لے، یادوں کی کرچیاں سمیٹے اور بناء کسی تصنع و بناوٹ کے اپنے اس سفر کی روداد لکھ ڈالے۔ ایسا سفر نامہ جس میں دوسروں سے زیادہ اپنے متعلق سچ بولا گیا ہو۔ اپنی توصیف کی بجائے اس جرات سے اپنی کردار کشی کی ہو کہ ممتاز مفتی بھی مرعوب ہوجائیں۔ آپ کو اب کتاب لکھنی چاہیئے مگر صرف شاعری کی نہیں بلکہ اپنے تجربات کے نثری اظہار کی۔ جون ایلیاء سے ہزار نظریاتی اختلافات سہی مگر وہ ایک سوچنے والے ذہن کے مالک تھے۔ ان کی شاعری کی پذیرائی ہونا اپنی جگہ ایک حقیقت مگر جو کام ان کا نثری مجموعہ 'فرنود' کرگیا ہے وہ ان کی تمام کاوش کا حاصل ہے۔ ہمیں آپ کی کتاب کا انتظار ہے عابی بھائی۔
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عظیم الرحمن عثمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان



ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان

Image may contain: 1 person, suit
.
پاکستان کی اسٹریٹجک لوکیشن ایسی ہے کہ دنیا میں طاقت کے توازن کو قابو میں کرنے کیلئے اسے ساتھ لے کر چلنا لازمی ہے. یہی وجہ ہے کہ امریکہ، انگلینڈ وغیرہ کے اخبارات میں پاکستان کا ذکر اچھے برے انداز سے کسی نہ کسی بہانے ہوتا ہی رہتا ہے، حالانکہ بہت سے ممالک دنیا کے منظر نامے میں ایسے گمنام ہیں کہ وہاں ہوئے بڑے واقعات بھی ان اخبارات میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتے. پاکستان کا جغرافیہ ایسا ہے کہ اگر کسی وقت تجارتی راستہ محفوظ ہو جائے تو وہ ترقی جسے حاصل کرنے میں دوسرے ممالک کو پچاس پچپن سال لگے ہیں، وہی ترقی یہ پانچ سے دس سال میں حاصل کرسکتا ہے. پاکستان کی سرزمین لوہے، کوئلے، نمک سمیت معدنیات و دیگر وسائل سے بھی بھرپور ہے اور امکان ہے کہ اگر صحیح طور پر کھدائی یا تحقیق کی جائے تو توقع سے کہیں زیادہ خزائن برآمد ہونگے. اسی طرح دنیا واقف ہے کہ پاکستان ایک نہایت مظبوط فوج اور صف اول کی انٹلیجنس ایجنسی کا مالک ہے. میزائل ٹیکنولوجی، ٹینک، آبدوز، جہاز سمیت ہر دفاعی ساز و سامان نہ صرف خود بنارہا ہے بلکہ دیگر ممالک کو بیچ بھی رہا ہے.
.
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ کو جن دو ممالک سے حقیقی معنوں میں سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے ، وہ ہیں روس اور چائنا. لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے روس اور چین دونوں کے ساتھ مل کر اپنا کیمپ امریکہ سے الگ کرلیا ہے. سی پیک اسی کا حصہ ہے. افغانستان میں روس اپنی شکست کا ذمہ دار بجا طور پر پاکستان کو مانتا آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے پاکستان سے اپنی فوجی ہزیمت کے بعد کبھی مثبت تعلقات نہیں رکھے. یہ پہلی بار ہے کہ روس نے ماضی بھلا کر پاکستان سے ہاتھ ملا لیا ہے، اس کا ایک اور بڑا ثبوت حال ہی میں کی جانے والی روسی اور پاکستانی فوج کی پاکستان کی سرزمین پر مشترکہ مشقیں ہیں. روس کے اس اقدام نے انڈیا کا جس درجے میں دل توڑا ہے، اس کا اندازہ انڈین چینلز کے تجزیاتی پروگرامز دیکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے. زرداری کے دور حکومت میں امریکہ اور انڈیا گوادر پروجیکٹ کو التواع میں ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تھے مگر پچھلے سالوں میں پاکستان آرمی نے براہ راست چین کو گوادر کی تعمیر اور تعمیر کی یقین دہانی کرائی ہے. جس کے بعد اب اس پروجیکٹ کو سیاسی دباؤ سے روکنا ممکن نہیں رہا ہے. پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ابھی بھی التواع کا شکار ہے مگر اب ایران کی جانب سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے اشارے دوبارہ مل رہے ہیں.
.
اگر یہ منصوبہ بنا تو چائنا اور ایران کو جو فائدہ ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے مگر پاکستان کی بھی انرجی کی تمام ضروریات مکمل ہوسکیں گی. گوادر پورٹ کو چلانے کیلئے جب آغاز میں مختلف ممالک نے ٹینڈرز پیش کیئے تھے تو پاکستان نے دبئی پورٹ ورلڈ کو قبول کیا تھا مگر انڈیا نے دباؤ ڈال کر اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا. اب چین نے اپنی ہی 'چائنیز اوور سیز پورٹ اتھارٹی' کو گوادر کی ذمہ داری سونپ دی ہے جسے چھیالیس بلین ڈالرز کی خطیر رقم سے کھڑا کیاجارہا ہے. لہٰذا انڈیا یا امریکہ اب اسے روکنے سے قاصر ہیں. گوادر پاکستان کی گہرے گرم پانی کی پہلی پورٹ ہوگا جو دنیا میں گنتی کے چند ممالک کو حاصل ہے اور جسے چائنا کو 2009 تک ٹھیکے پر سونپ دیا گیا ہے، اسکے بعد یہ پاکستان نیول بیس میں تبدیل کردینے کا امکان ہے. دھیان رہے کہ کراچی پورٹ گہرے پانی کی پورٹ نہیں ہے. گہرے پانی کی پورٹ میں جہاز کو پانی میں کھڑے رہتے ہوئے آف لوڈ کیا جاسکتا ہے، جس سے وقت و سرمایہ دونوں محفوظ ہوتے ہیں. گوادر کے ذریعے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ اسکے بارے میں عالمی سطح پر بہت سی قیاس آرائیاں موجود ہیں. مگر جو بات حتمی ہے وہ یہ کہ چائنا سمیت کئی دیوقامت تجارتی حجم والے ممالک گوادر کو تیل سمیت دیگر اشیاء کیلئے تجارتی روٹ کے طور پر استعمال کریں گے جس سے پاکستان کو کروڑوں ڈالرز کی مستقل کمائی حاصل ہوگی، لاکھوں نوکریاں اور کاروباری سرگرمیاں پیدا ہونگی. یہ خدشہ اپنی جانب موجود ہے کہ کل گوادر چین کو گروی ہی نہ رکھنا پڑ جائے. دانشور یا ذہن ساز افراد زیادہ سے زیادہ توجہ دلاسکتے ہیں مگر اس ضمن میں ہمیں اپنی فوجی و سیاسی قیادت کی فراست پر بھروسہ رکھنا ہوگا.
.
اب چونکہ امریکہ اور انڈیا یہ جان چکے ہیں کہ اس سی پیک کو روکنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اب ان کا لائحہ عمل یہ ہے کہ پاکستان کے حالات جو پہلے ہی خستہ ہیں، انہیں آخری حد تک خراب کردیا جائے. انڈیا اب اپنے آقا امریکہ کے آشیرباد سے پانچ طریقوں سے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے. پہلا طریقہ یہ کہ پاکستان کو اسکی ہندوستانی سرحد پر حالت جنگ یعنی ریڈ الرٹ میں کسی نہ کسی بہانے سے رکھا جائے تاکہ فوج کی توانائی ملک کے اندر دیگر سرگرمیوں میں اچھی طرح استعمال نہ ہوسکیں. دوسرا طریقہ انڈیا کا وہ خواب ہے کہ امریکہ کی طرح وہ بھی پاکستان میں سرجیکل اسٹرایکس کرسکیں، اس طریقے کو عملی جامہ پہنانے کی ہمت تو یہ نہ کرسکے البتہ اسی سرجیکل حملے کا ایک جھوٹا ڈرامہ رچا کر انڈیا پوری دنیا میں لطیفہ بن گیا. تیسرا طریقہ امداد اور انٹلیجنس کے ذریعے پاکستان مخالف جماعتوں کو ملک کے اندر مدد پہنچانا ہے. بلوچ لبریشن آرمی سمیت دیگر تنظیموں کو اس وقت انڈیا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور ان کے لیڈر انڈیا میں بیٹھ کر بھی آپریٹ کررہے ہیں. امریکی سی آئی اے کا ریمنڈ ڈیوس ہو یا بلوچستان میں انڈین راء کا پکڑا جانے والا کلبھوشن یادو. سب کا مشن پاکستان کی 'پراکسی وار' کے ذریعے تباہی ہے. چوتھا طریقہ افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کا فروغ ہے. انڈیا اس وقت افغانستان میں جتنا مظبوط ہے، اس کا آدھا مظبوط بھی وہ تاریخی طور پر کبھی نہیں رہا. پھر پاکستان نے اپنی حماقتوں کے سبب بھی اپنے افغان بھائیوں کو اپنا دشمن بنالیا ہے. حامد کرزئی جیسے سکہ بند امریکی چمچے اسوقت طاقت میں ہیں جو پاکستان کے قبائلی علاقوں کی نفسیات سے بھی خوب واقف ہیں لہٰذا پاکستان کو مسلسل اس محاذ پر ہزیمت کا سامنا ہے. پاکستان کی جانب سے حال ہی میں افغان بارڈر کو سیل کرنا اسی کے تدارک کی پاکستانی کوشش ہے. پانچواں طریقہ جو اپنایا گیا ہے اسے 'فورتھ جنریشن وار' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جس میں دفاعی اداروں اور عوام کے مابین نفرت و دوری پیدا کی جاتی ہے. اس کے لئے سوشل میڈیا سمیت حقوق نسواں یا انسانی اداروں کی آڑ لے کر امریکہ اور انڈیا ان افراد کو فنڈ کررہا ہے جو عوام میں نفرت، غصہ اور مایوسی کو ہوا دے سکیں. افسوس یہ بھی ہے کہ بناء معاوضہ لئے بھی ایسے لوگ بکثرت دستیاب ہیں جو پاکستان کے خلاف دن رات زہر افشانی کرنے کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں. ایک امکان یہ بھی ہے کہ ابھی حالیہ طور پر جن سوشل میڈیا پر متحرک افراد کو گرفتار یا غائب کیا گیا ہے ان کا شمار اسی فورتھ جنریشن وار کے متعلقین میں ہو. گو یہ فقط ایک امکان ہے.
.
اسکے علاوہ بھی مذہبی منافرت کے فروغ اور ثقافتی یلغار سمیت کئی ایسے زاویئے ہیں جن پر دشمن پوری تندہی سے کام کر رہا ہے. گویا اس وقت پاکستان کو جتنے محاذوں کا سامنا ہے اس کا تصور بھی دیگر ممالک نہیں کرپاتے. یقینی طور پر ابتداء میں ہم نے وہ اقدام نہیں کیئے جو کرنے تھے اور جس سے دشمن کو اپنے پاؤں کسی حد تک جمانے کا موقع حاصل ہوا مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ اب ہم کھل کر لڑرہے ہیں. قوم اب دشمن کو پہچان پارہی ہے. وزیرستان سے لے کر کراچی تک کیئے گئے آپریشن اگر مکمل نہیں تو بڑی حد تک دشمن کو کمزور کرنے میں کامیاب رہے ہیں. کسی بم دھماکے سے یہ نتیجہ نکالنا کہ آپریشن ناکام رہے، ایک نہایت غلط اپروچ ہے. یہ ایک طویل جنگ ہے جو ہم بہت سے محاذوں پر ایک ساتھ لڑ رہے ہیں لیکن کامیابی ان شاء اللہ پاکستان کی قسمت ہے.
.
ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ ٹویٹ اور اس ٹویٹ پر انڈین میڈیا کا واویلہ یہ ثابت کررہا ہے کہ روس، چین اور پاکستان کا اتحادی بلاک امریکہ اور انڈیا دونوں کے سر پر واقعی بلاک بن کر گرا ہے.
.
====عظیم نامہ====

ایک شیخ

ایک شیخ


کہتے ہیں کہ ایک شیخ اپنے طالبعلموں کو قران حکیم کی تعلیم دے رہے تھے. وہاں سے ایک الحاد زدہ شخص کا گزر ہوا. اس نے شیخ کو استہزائی انداز میں مخاطب کرکے جملہ کسا .... "شیخ ! تم سب کتنے احمق ہو ! دنیا والے سائنس پڑھ کر چاند پر پہنچ گئے اور تم لوگ ابھی تک قران و حدیث میں لگے ہوئے ہو" ....
.
شیخ مسکرا کر متوجہ ہوئے اور جواب دیا .... "اس میں کیا حیرت کی بات ہے؟ وہ مخلوق ہیں اور ایک مخلوق سے دوسری مخلوق تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ایک عمدہ کوشش ہے. ہم مخلوق ہیں اور اپنے خالق تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ایک بہترین کوشش ہے. دونوں گروہ اپنی اپنی جگہ کچھ نہ کچھ خیر ضرور حاصل کررہے ہیں. لیکن تم واقعی احمق ہو جس نے نہ سائنس پڑھ کر ان کے ساتھ مخلوقات کی حقیقت کو پانے کی سعی کی اور نہ ہی ہمارے ساتھ قران و سنت سمجھ کر خالق کو پانے کی کوشش کی. تم دونوں ہی حوالوں سے احمق ہو." ....
.
====عظیم نامہ====

(ایک انگریزی بیان کا تاثر)

نماز میں خشوع کا دوسرا درجہ

نماز میں خشوع کا دوسرا درجہ


خشوع کا اونچا درجہ تو یہی ہے کہ دوران نماز، عابد حضوری کے احساس سے سرشار ہو اور اس کا ارتکاز مکمل طور پر تلاوت و مفہوم پر قائم رہے۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے جھنجھٹوں میں پھنسے ہم لوگوں کی نماز طرح طرح کے خیالات سے نبردآزما رہتی ہے۔ ایسے میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دوران نماز دین و رب سے متعلق خیالات کا آنا معصیت و گناہ کے خیالات کے مماثل نہیں ہے۔ گویا ہمارے نزدیک ذہن کا خیالات میں بھٹکنا ایک جیسا نہیں۔ ایک بھٹکنا محبوب یعنی قرب خدا سے دوری کا استعارہ ہے اور دوسرا بھٹکنا اپنے محبوب کی گلی میں بھٹکنا ہے۔ کسی عارف نے سچ کہا ہے کہ نماز میں آپ کا ذہن وہاں ہی رہتا ہے جہاں نماز سے باہر رہتا ہے۔ اگر آپ کی روزمرہ کی مصروفیات میں دین کو ترجیح حاصل ہے تو خیالات کی آمد بھی دین سے متعلق رہے گی مگر اگر اس کے برعکس آپ کی زندگی گناہ و معصیت یا حصول مادیت کے گرد گھومتی ہے تو دوران نماز بھی خیالات اسی سے وابستہ ہونگے۔ نیک خیالات نماز یا دین سے آپ کو کبھی دور نہیں لے جائیں گے۔ جبکہ گناہ سے آلودہ خیالات نہ صرف خشوع کو دور کردیں گے بلکہ جلد ہی نماز و دین کی پابندی سے بھی آپ کو محروم کردیں گے۔
۔
====عظیم نامہ====

آپ کیا پریکٹس کرتے آئے ہیں


آپ کیا پریکٹس کرتے آئے ہیں


انگریزی کا ایک مقبول مقولہ ہے کہ 'پریکٹس میکس دی مین پرفیکٹ'. یعنی کسی کام کا بار بار کرنا یا دہرانا آپ کو اس کام کا ماہر بنا دیتا ہے. 
.
اسی طرح کنگ فو کی فیلڈ میں ایک چینی کہاوت ہے کہ 'مجھے ان ایک لاکھ داؤ سے خطرہ نہیں ہے جو تم نے ایک بار پریکٹس کئے ہیں. مجھے تو اس ایک داؤ سے خوف ہے جو تم نے ایک لاکھ بار پریکٹس کئے ہیں'
.
ایک اور مشہور مقولہ یہ بھی ہے کہ 'ہم پہلے اپنی عادات بناتے ہیں اور پھر وہ عادات ہمیں بناتی ہیں' - گویا پہلے ہم کسی کام کو بار بار کر کے اس کی عادت ڈال لیتے ہیں مگر پھر وہی عادت ہماری مستقل صفت بن کر ہماری شخصیت کا تعارف بن جاتی ہے.
.
یہ تمام اور اس جیسے اور بہت سے اقوال و کہاوتیں دراصل ایک ہی حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں اور وہ یہ کہ کسی بھی کام کی بار بار پریکٹس آپ کو اس خاص کام کا ماہر بنادیتی ہے. اب سوال صرف اتنا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں آج تک کیا پریکٹس کرتے رہے ہیں؟
.
اگر آپ شکایت پریکٹس کرتے آئے ہیں تو کچھ ہی عرصے میں آپ اس میں ایسے ایکسپرٹ ہوجائیں گے کہ جلد ہی لوگوں سے، معاشرے سے، رشتوں سے اور خدا سے آپ کو طرح طرح کی شکایات ہونے لگیں گی 
.
اگر آپ تنقید پریکٹس کرتے آئے ہیں تو یقین جانیئے کہ جلد ہی آپ تنقید کے اتنے بڑے ماہر بن جائیں گے کہ مثبت سے مثبت ترین بات میں بھی تنقیدی پہلو ڈونڈھ نکالیں گے 
.
اگر آپ سکون پریکٹس کرتے آئے ہیں تو بہت جلد آپ سخت سے سخت حالات میں بھی سکون کا پیغام بنے نظر آئیں گے. 
.
سوال بہرحال یہی ہے کہ آپ کیا پریکٹس کرتے آئے ہیں؟
.
====عظیم نامہ====