Thursday, 28 December 2017

کہت کبیر


کہت کبیر


کبیر داس دنیا بھر کے نمائندہ تاریخی اسپرچولسٹ شخصیات میں شمار کیئے جاتے ہیں. ان کے افکار میں بیک وقت ہندو دھرم اور دین اسلام دونوں کی تعلیمات کی تائید بھی جھلکتی ہے اور انکار بھی نظر آتا ہے. گو آپ کی پرورش ایک مسلم گھرانے میں ہوئی مگر ان کی اصل مذہبی شناخت کے بارے میں اتنا زیادہ ابہام ہے کہ کسی حتمی فیصلے تک پہنچنا مشکل ہے. البتہ اس کا اعتراف ہر محقق و طالبعلم کرے گا کہ آپ کی سوچ اور شاعری نے روحانیت کے سالکین کو ہمیشہ اپنی جانب مائل کیا ہے. ہم یہاں اپنے قارئین کیلئے ان کی ایک طویل نظم کے کچھ چنیدہ اشعار درج کررہے ہیں. اس امید کے ساتھ کہ قاری تعصب سے بالاتر ہو کر ان میں سے خیر کشید لے گا.
.
=======
کہت کبیر
=======
.
بُرا جو دیکھن میں چلا ، بُرا نہ مِلیا کوئے
جو مَن کھوجا اپنا ، تو مُجھ سے بُرا نہ کوئے
.
کبیرا کھڑا بازار میں، مانگے سب کی خیر
نہ کَہو سے دوستی ، نہ کَہو سے بَیر
.
سائیں اتنا دیجئے جا مَیں کُٹمب سمائے
میں بھی بھوکا نہ رہوں سادھو نہ بھوکا جائے
.
مایا مَری نہ من مَرا ، مَر مَر گئے شریر
آشنا ترشِنا نہ مَری ، کہہ گئے داس کبیر
.
دُکھ میں سِمرن سَب کریں سُکھ میں کرے نہ کوئے
جو سُکھ میں سِمرن کرے تو دُکھ کہاں سے ہوئے ؟
.
جیسے تِل میں تیل ہے ، جِیوں چَکمک میں آگ
تیرا سائیں تُجھ میں ہے ، تُو جاگ سکے تو جاگ
.
دھیرے رے مَنا ، دھیرے سب کچھ ہوئے
مالی سینچے سو گھڑا ، رُت آئے پھل ہوئے
.
ماٹی کہے کُمہار سے ، تُو کیا روندھے موئے ؟
اِک دِن ایسا ہو وے گا ، میں روندھوں گی توئے
.
مالا پھیرتے جگ بَھیا ، پھرا نہ من کا پھیر
مالا کا منکا چھوڑ دے ، مَن کا منکا پھیر
.
جب تُو آیا جَگت میں ، لوگ ہنسے ، تُو روئے
ایسی کرنی نہ کری ، پیچھے ہنسے سب کوئے
.
چِنتا ایسی دیکھنی ، کاٹ کلیجہ کھائے
وَید بِچارا کیا کرے ، کہاں تک دوا لگائے
.
میرا مُجھ میں کُچھ نہیں ، جو کُچھ ہے سو تیرا
تیرا تُجھ کو سونپ دیں ، کیا لاگے ہے میرا ؟
.
حد حد جائے ہر کوئی ، اَن حد جائے نہ کوئے
حد اَن حد کے بیچ میں ، پڑا کبیرا سوئے
.
کلام: بھگت کبیر داس
.
انتخاب: عظیم الرحمٰن عثمانی

نبی کیلئے جنت کا ہونا عدل کے خلاف یا نہیں


نبی کیلئے جنت کا ہونا عدل کے خلاف یا نہیں




سوال:نبوت کسبی نہیں وھبی ہے ۔ یعنی انبیاء طے شُدہ ہوتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے معصیت سے محفوظ ۔ جبکہ اُمتی امتحان میں ہوتا ہے ۔ یہ کیسا عدل ہے؟

جواب:
تاخیر کیلئے معزرت. جی آپ نے درست کہا کہ نبوت کسبی نہیں وھبی ہے. گویا انسان اپنے عمل و ریاضت سے شہید، صدیق، صالح کا درجہ حاصل کرسکتا ہے مگر نبی کا درجہ عمل نہیں خالص عطا ہے. سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ رب کریم چاہے تو کسی مخلوق کو بذریعہ امتحان اپنی جنت میں داخل کرے اور چاہے تو کسی مخلوق جیسے ملائکہ کو بناء امتحان جنت میں داخلہ دے دے. یہ خالص اللہ پاک کا ہی ڈومین ہے. اسی طرح جب اللہ رب العزت کسی انسان کو نبوت پر فائز فرماتے ہیں تو اس سے یہ بات تو ضرور لازم ہوجاتی ہے کا وہ شخص اب معصیت سے محفوظ رکھا جائے گا. مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ آزمائش سے نہ گزرے گا بلکہ اسے تو اسی کے لوگوں میں جھوٹا، سحر ذدہ اور پاگل جیسے القاب دے کر رسوا کیا جاتا ہے. سچ تو یہ ہے کہ نبی کو اتنی سخت ترین نفسیاتی و جسمانی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے جس کے خود پر تصور سے بھی روح کانپ جائے. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یتیمی ہو، یوسف علیہ السلام کو بچپن میں غلام بنا  دینا ہو، موسیٰ علیہ السلام کو شیرخواری میں دریا برد کرنا ہو، ابراہیم علیہ السلام کے والد کا انہیں سنگسار کردینے کی دھمکی دینا ہو، یعقوب علیہ السلام کی اذیت ہو، اسمعیل علیہ السلام کا خود ذبح ہونے کیلئے چھری کے نیچے لیٹنا ہو، ایوب علیہ السلام کا بیماری میں مبتلا ہوکر اپنے پیاروں کی دھتکار سننا ہو، نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سال کی شب و روز مشقت ہو، یونس علیہ السلام کی ایک خطا پر مچھلی کے پیٹ میں اپنی چمڑی گلانا ہو. یہ اور بہت بہت کچھ جسے انبیاء کو سہنا پڑتا ہے اسے سوچ کر بھی کپکپی طاری ہوتی ہے. دوسری جانب ایک امتی کیلئے جنتی ہونا اور جنت میں اونچے ترین درجات، یہاں تک کے نبیوں کی رفاقت حاصل کرنا نسبتاً نہایت آسان نظر آتا ہے. گویا یہ دیکھنے کا زاویہ ہے. آپ کہتے ہیں کہ یہ کیسا عدل ہے کہ امتی امتحان میں ہوتا ہے اور نبی کا جنتی ہونا طے ہے؟ کوئی دوسرا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کیسا عدل ہے کہ امتی صرف توبہ کے ساتھ فرائض بھی پورے کرلے تو جنت کے باغات میں داخل ہوسکتا ہے اور نبی کو اتنے خوفناک و ہولناک آزمائشوں سے گزر کر یہی جنت کے باغات حاصل ہوتے ہیں. حقیقت یہ ہے کہ ہمارا رب سب سے بڑا عادل ہے، اس کا کوئی عمل عدل کا کمتر درجے میں بھی منافی نہیں. وہ بہتر جانتا ہے کہ کن کن صلاحیتوں یا موقعوں کے ملنے کے بعد کتنی کتنی آزمائش عدل کیلئے ضروری ہے؟
.
====عظیم نامہ====

Friday, 22 December 2017

دہرا عذاب


دہرا عذاب 


Image may contain: 1 person
.
ہم مشاہدہ رکھتے ہیں کہ موت کے ایام میں ہر جانور ایک سخت تکلیف کا سامنا کرتا ہے. اس کے اندرونی و بیرونی اعضاء ایک ایک کرکے ناکارہ ہونے لگتے ہیں تو اس پر ایک ایسا عذاب گزرتا ہے جسے اس سے پہلے اس نے کبھی نہ بھگتا تھا. کسی جانور کو اس تکلیف دہ عمل سے گزرتا دیکھنا، فطری طور پر انسان کو رنجیدہ کردیتا ہے. وہ اس کی چیخوں اور اذیت کو اپنی سابقہ جمسانی تکالیف یاد کرکے کسی حد تک سمجھ پاتا ہے. مگر انسان کی اپنی موت کا معاملہ ذرا الگ ہے. 
.
سوچتا ہوں کہ موت کے وقت انسان دہری اذیت سے گزرتا ہے. جہاں اس کا جسمانی وجود شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے، وہاں اس کا نفسیاتی شاکلہ بھی ایک ناقابل بیان کرب سے گزرتا ہے. گویا اسے اس جسمانی اذیت کا تو سامنا ہوتا ہی ہے جو دیگر حیوانات کو پیش آتی ہے. مگر ساتھ ہی چونکہ وہ اپنی شخصیت میں عقلی اور جذباتی دونوں پہلو رکھتا ہے، لہٰذا اسے حالت مرگ میں ایک نفسیاتی دوزخ کا بھی سامنا ہوتا ہے. اسے اپنی زندگی کا اختتام سوچ کر دہشت طاری ہونے لگتی ہے، اپنی اولاد و دیگر گھر والو کی ذمہ داریاں یاد کرکے اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، مہلت ختم ہوئی اور حیات بعد الموت کسی بھی لمحہ شروع ہونی ہے .. یہ سوچ اسے ہلکان کررہی ہوتی ہے. اس کی یادداشت اسے تمام ادھوری خواہشات اور نامکمل تمناؤں کی حسرت انگیز تصویر دیکھاتی ہے. غرض اکثر صورتوں میں اس کا یہ نفسیاتی کرب اسکی جسمانی اذیت سے زیادہ خوفناک ہوتا ہے. اس دہرے عذاب سے شائد چھوٹی عمر کے اطفال (بچے) کسی درجے محفوظ رہتے ہیں. ان کی عقل، جذبات، احساسات چونکہ ابھی پوری طرح تشکیل نہیں ہو پائے ہوتے لہٰذا ان پر بھی حیوانات کی مانند فقط جبلت غالب ہوتی ہے. آسان الفاظ میں بچے بالخصوص نومولود اسی یکطرفہ تکلیف سے گزرتے ہیں جس سے حیوانات بیماری یا موت کے وقت دوچار ہوتے ہیں اور اس دہری اذیت سے بچ جاتے ہیں جس سے ایک عاقل انسان کو گزرنا پڑتا ہے. شائد یہی خالص جبلت و فطرت کا ہونا ہے جس کی وجہ سے بچے اور جانور تکالیف، دکھوں یا رنجشوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں. 
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: یہاں ایک فرضی اور عمومی موت کی مثال لی گئی ہے اور امکانات پر غیر مذہبی طرز فکر سے سوچا گیا ہے. لہٰذا یہاں نہ تو ہر طرح کی اموات جیسے حادثاتی موت یا قتل وغیرہ کا تجزیہ کیا گیا ہے اور نہ ہی موضوع یہ ہے کہ مومن اور کافر کے مابین حالت نزاع میں کیا نفسیاتی فرق ہوتا ہے؟)

Wednesday, 20 December 2017

ہم سب قاتل ہیں


ہم سب قاتل ہیں

.
Image result for fish eat fish
سوچتا ہوں کہ کیا ہم سب قاتل ہیں؟ یوں لگتا ہے جیسے کائنات کی تمام تر موجودات اپنی بقاء کیلئے دیگر موجودات کو فنا کرنے پر مجبور ہیں. گویا ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے. ہم انسانوں کی غالب اکثریت ایسی شدید گوشت خور ہے کہ جس کیلئے وہ روزانہ کروڑوں اربوں پرندوں، چوپایوں اور دیگر حیوانات کو ذبح کر ڈالتی ہے. کون سا سا سلیم الفطرت دل ایسا ہے جو کسی جانور کو اذیت سے تڑپتے دیکھ کر اور اسکی گردن سے خون کے فوارے پھوٹتے دیکھ کر رنج محسوس نہ کرے؟ مگر پھر بھی ہم اپنے جینے کیلئے ان کی جان تلف کرتے ہیں اور صرف زبان کے چٹخارے کیلئے بھی انہیں قتل کر ڈالتے ہیں. کچھ انسانوں نے اس خونریزی کو حیوانات پر ظلم جانا اور صرف سبزی خور ہونے کا ارادہ کرلیا. بیشک حرمت جان کے پیش نظر ان کا یہ جذبہ قابل احترام ہے مگر یہ سائنسی حقیقت اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ پودے پیڑ وغیرہ بھی زندگی رکھتے ہیں، جان رکھتے ہیں اور تکلیف محسوس کرتے ہیں. قاتل ہم ویسے بھی تھے قاتل ہم ایسے بھی ہیں. حقوق حیوانات کی تنظیمیں جو حیوانات کو کھانے سے روکتی ہیں اور نباتات کے کھانے پر اصرار کرتی ہیں. وہ بھی اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتی کہ اگر کوئی فرق پڑا تو فقط اتنا پڑا کہ حیوانات کا تڑپنا، خون کا نکلنا اور چیخیں مارنا ہم مشاہدہ کرپاتے ہیں. جب کے نباتات کی تڑپ اور چیخ ہم اپنی محدودیت کے سبب مشاہدہ نہیں کرپاتے. پھر یہی تنظیمیں جو حیوانات کے قتل کو انسانیت سوز قرار دیتی ہیں، وہ حشرات الارض کے حقوق کیلئے کوئی تحریک نہیں چلایا کرتی. ان حشرات کو پیروں سے ہی نہیں کچلا جاتا بلکہ مختلف کھانوں میں اقوام استعمال کرتی ہیں. اتنا ہی نہیں بلکہ نیشنل ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرام 'ریلیٹی شوز' کے نام پر چلتے ہیں جس میں شرکاء ان حشرات کو زندہ چبا جاتے ہیں. کوئی کچھ نہیں کہتا بلکہ اس ہمت پر داد دی جاتی ہے.
.
کچھ سمندری مخلوقات بھی حقوق کی دوڑ میں مچھلیوں یا مگرمچھوں سے کمتر ہیں لہٰذا انہیں بھی مہذب ممالک تک کے پوش ریسٹورینٹز میں زندہ کھا لیا جاتا ہے اور کسی تنظیم برائے حقوق کے دل میں درد نہیں ہوتا. سچ تو یہ ہے کہ ہم سب قاتل ہیں اور قاتل بنے رہنے پر مجبور ہیں. اس پوسٹ کو پڑھنے کے دوران جتنی بار آپ نے سانس لی ہے، اس میں لاتعداد جراثیم آپ کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. کتنے ہی حشرات آپ میں سے کئی کے بوجھ تلے مارے گئے ہیں. یہ سب مخلوقات 'زندگی' رکھتی ہیں، خوراک لیتی ہیں، جوانی و بڑھاپے سے گزرتی ہیں. نا جانے ہمیں یہ حق کس نے دیا کہ ہم ایک مخلوق کی جان کو دوسری مخلوق کی جان پر مقدم قرار دے دیں؟ شائد ہم نے برہمن، راجپوت، دلت اچھوت جیسی تقسیم و تفریق یہاں بھی کر رکھی ہے. یہی زندگی کا دائرہ ہے عزیزان من. یہاں زندگی اور موت ایک دوسرے کا مسلسل ایسے پیچھا کررہی ہے جیسے دن اور رات ایک دوسرے کا کیا کرتے ہیں. موت و حیات کا یہ کھیل یونہی جاری رہے گا جب تک ایک دوسری دنیا کا قیام نہ ہو جہاں موت کا خاتمہ کرکے اس مسلسل جاری دائرے کو بنانے والا خود اسے توڑ ڈالے.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: اس تحریر کو راقم کی ایک غیر مذہبی خودکلامی پر محمول کیا جائے. مذہبی نقطہ نظر سے اسے نہ پیش کیا گیا ہے اور نہ اس نظر سے قاری کو اسے دیکھنا چاہیئے)

Monday, 18 December 2017

نہیں ... معزرت





نہیں ... معزرت !


.
سوال: کیا آپ اپنی وال پر فلاں چیرٹی یا فلاں مدرسے یا فلاں احتجاج کا اشتہار شائع کردیں گے؟
.
جواب: نہیں معزرت. آپ کا مقصد بہت عمدہ ہے. میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں مگر مجھے باقائدگی سے ایک سے بڑھ کر ایک اچھے مقصد کے پیغام ملتے رہتے ہیں. میں ان سب کو اگر اپنی وال پر شائع کرتا رہوں تو اسے قارئین پسند نہیں کریں گے. 
.
سوال: فلاں فلاں واقعہ ہوا ہے. اس پر آپ تحریر لکھیں !
.
جواب: نہیں معزرت. میں فرمائشی تحریریں نہ لکھتا ہوں اور نہ نہ لکھ پاتا ہوں. میں فقط وہی لکھتا ہوں جس میں اس وقت میرا ذہن مصروف فکر ہو اور جسے میں ذاتی طور پر حق مانتا ہوں.
.
سوال: کیا آپ فلاں موضوع پر مجھے تقریر لکھ دیں گے؟
.
جواب نہیں معزرت. ممکن ہے کہ میری فیس بک پر موجودگی سے آپ کو لگے کہ اس بندے کے پاس بہت وقت ہے. مگر سچ یہ ہے کہ میں کسی عام نوکری پیشہ انسان کی طرح صبح سے شام تک جاب کرتا ہوں. پھر ایک عدد گھر بیگم اور بیٹی کے ساتھ سنبھالتا ہوں. یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اسکول کالج کیلئے تقریر لکھ لکھ کر دوں 
.
سوال: کیا آپ فلاں پوسٹ پر سوالات کے جوابات دیں گے؟
.
جواب: نہیں معزرت . میرے پاس اپنی وال بھگتانا ہی بھاری پڑتا ہے. لہٰذا دیگر وال پر جا کر علامہ بننا میرے لئے ممکن نہیں. آپ اپنا سوال ان باکس کر دیں. مجھے جب وقت ملے گا تو دیکھ کر رپلائی کردوں گا 
.
سوال: کیا آپ میری فلاں تحریر اپنی وال پر شائع کردیں گے تاکہ زیادہ لوگوں تک بات پہنچے؟
. 
جواب: نہیں معزرت. ہر کسی کی وال اس کے اپنے خیالات و پسند کی عکاس ہوتی ہے. لہٰذا یہ فیصلہ ہر شخص کی انفرادی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیئے کہ وہ کیا شیئر کرے؟ میرا اپنا مزاج یہ ہے کہ میں صرف اپنی تحریریں ہی وال پر شائع کرتا ہوں. شاذ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی دوسری تحریر مجھے اپنے خیالات کی اتنی بہترین عکاس محسوس ہو کہ میں اسے بھی وال کی زینت بنادوں.
.
====عظیم نامہ====

Sunday, 17 December 2017

گنہگاروں کی اقسام


گنہگاروں کی اقسام



کوئی شخص کتنے ہی بڑے گناہ کا مرتکب کیوں نہ ہورہا ہو۔ عمومی سطح پر دو ہی صورتیں ممکن ہے۔ پہلی یہ کہ اپنی سمجھ میں وہ اس گناہ کو گناہ سمجھتا ہی نہیں۔ گویا اس گناہ کے گناہ ہونے کا شعور ہی نہیں رکھتا۔ دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ وہ اسے گناہ سمجھتا ہے اور ارتکاب کے باوجود دل میں اس پر نادم ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں یہ شخص آپ کی نفرت یا غصہ نہیں بلکہ ہمدردی کا مستحق ہے۔ اگر کوئی کسی غلط عمل کو گناہ سمجھ ہی نہیں رہا تو اس کو فکری غلطی لگ گئی ہے۔ لازم ہے کہ آپ محبت اور دلیل سے اس کی غلطی کو واضح کرتے رہیں۔ جب تک نہیں سمجھتا تب تک آپ کے دل میں ہمدردی ہو کہ میرا یہ بھائی یا بہن فلاں بات کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کسی گناہ جیسے شراب یا جوا یا زنا میں مبتلا ہے مگر بحیثیت مسلم اسے گناہ مانتا ہے لیکن دل میں پشیمانی کے باوجود اسے چھوڑنے میں ناکام ہورہا ہے تو یہ شخص تو آپ کیلئے اور بھی زیادہ قابل محبت ہے۔ کیا معلوم کل کب اس کی یہی پشیمانی سچی توبہ میں تبدیل ہوجائے اور وہ مجھ سے یا آپ سے بہتر انسان بن جائے؟۔ ایسی ان گنت مثالیں موجود ہیں جس میں ایک شدید گنہگار کچھ سالوں بعد پکا سچا مومن بن گیا اور ایک بظاہر عابد انسان کچھ سالوں میں فاسق و فاجر کہلانے لگا۔ 
۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا مزاج ہمیشہ گنہگار کیلئے محبت و خیرخواہی کا ہونا چاہیئے۔ یہی حقیقی دعوتی مزاج ہے جسکے ہم سب مکلف ہیں۔ نفرت صرف گناہ سے ہے گنہگار سے نہیں۔ اور کون ہے جو گنہگار نہیں ہے یا بڑا گنہگار نہیں ہے؟ یہ رب العزت کا احسان ہے کہ اس نے میرے اور آپ کے کریہہ گناہوں کی پردہ پوشی کررکھی ہے۔ لہذا کسی کا گناہ دیکھیں تو محبت و حکمت سے اس سے معاملہ کریں، طعن و تشنیع نہ کریں۔ کیا معلوم کہ کل ہم میں سے کسی کا پردہ فاش ہو تو نظر ملانے کے بھی قابل نہ رہیں؟ ہم اکثر دعوت کی آڑ میں اپنے نفس کو فربہ کررہے ہوتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ امر بلمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام پارہا ہے۔ 
۔
ہاں گنہگاروں کی ایک تیسری قسم بھی ہے اور وہ یہ کہ کوئی بدنصیب جانتے بوجھتے گناہ کا ارتکاب کرتا رہے اور دل میں کوئی ندامت کا شائبہ بھی نہ رکھے۔ ایسے لوگ تعداد میں کم ہیں اور یہی وہ ہیں جو اپنے جرم کی سنگینی کے سبب کبھی کافر، کبھی منافق اور کبھی متکبر قرار پاتے ہیں۔ ایسے متکبرین کا کبر اور کھلا ظلم لوگوں کو ان سے نفرت پر مجبور کردیتا ہے۔ فرعون، نمرود، ھامان سب اسی کی مثال ہیں۔ مگر قربان جایئے اپنے رب کی رحمت پر کہ وہ جب موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ فرعون کو محبت و نرمی سے دعوت دینا۔ ملاحظہ ہو "تم دونوں اس سے نرم بات کہنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کر لے یا اس میں خشیت پیدا ہو جائے۔" ( طه:20 - آيت:44 )۔ کبھی سوچا کہ رب نے ایسا کیوں کہا؟ جب کے وہ اپنے علم سے جانتے تھے کہ فرعون کبھی بات کو سمجھنے والا نہیں؟ صرف اسلئے کہ مجھے اور آپ کو یہ تبلیغ ہو کہ اگر دعوت وقت کے فرعون کو بھی دینی ہو تو نرمی و محبت پیش نظر رہے۔
۔
====عظیم نامہ====

Thursday, 14 December 2017

کیا غیرمسلم جنت میں جاسکتا ہے


کیا غیرمسلم جنت میں جاسکتا ہے

.

بحیثت قران حکیم کے طالبعلم جس بات کے ہم قائل ہیں وہ یہ ہے کہ کم از کم تین چنیدہ اور بنیادی حقائق ایسے ہیں جن کا شعور ہماری فطرت میں پیوست یعنی ودیعت کردیا گیا ہے. ان حقائق کے ضمن میں ہر صاحب عقل شخص سے اسکے اپنے حالات و مواقع کے مطابق جواب دہی ضرور ہوگی. اس کے علاوہ جو دیگر حقائق و اعمال ہیں  جیسے ملائکہ پر ایمان، رسالت پر ایمان، شرعی احکام و عبادات کی ادائیگی وغیرہ. ان کی جوابدہی پیغام پہنچنے اور واضح ہونے سے مشروط ہے. وجہ وہی کہ ان سب کا شعور ہمیں داخل سے نہیں خارج کی معلومات سے حاصل ہوتا ہے. جب کے ان تین بنیادی حقائق کا شعور ہمیں باطن ہی سے مل جاتا ہے. یہ تین حقائق کون سے ہیں؟ ان کا بیان کم از کم دو مقامات پر کم و بیش ایک سے الفاظ میں کیا گیا ہے. سورہ البقرہ کی آیات ٦١ سے ٦٣ ملاحظہ کیجیئے:
.
"جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو اللہ (یعنی ایک خدا) اور روز قیامت (یعنی اعمال کی جزا و سزا) پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے"
.
گویا اہل ایمان کے ساتھ تمام دیگر موجود مذاہب کے حاملین کو ایک قطار میں کھڑا کر کے کہا جارہا ہے کہ جو درج ذیل تین باتوں پر ایمان لائے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا، اسے روز قیامت نہ کوئی خوف ہوگا نہ ہی کوئی غم. یہ وہ تین عقائد ہیں جو اسلام کا پیغام نہ پہنچنے کے باوجود ہر انسان کو ماننے ہونگے. چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا طبقہ فکر سے ہو
.
١. ایک خدا پر ایمان
٢. سزا و جزا پر ایمان
٣. نیک عمل
.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بناء اسلام کا پیغام پہنچے ان تین باتوں پر ایمان و عمل کا تقاضہ کیا زیادتی نہیں؟ تو ہرگز زیادتی نہیں ہے. وجہ وہی جو ہم نے ابتداء ہی میں بیان کی کہ ان تینوں باتوں کا احساس و شعور ہماری فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے. گویا ان تینوں باتوں کو ماننے اور عمل کرنے کیلئے آپ تک کسی مذہب، شریعت، کتاب یا رسول کا پہنچنا نہ پہنچنا ضروری نہیں. کتاب اللہ اس ضمن میں فقط آپ کو یاد دہانی (ذکر) کرواتی ہے اور یاددہانی اسی بات کی کروائی جاتی ہے جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے  آپ پہلے سے جانتے ہوں. ان تینوں باتوں کا ایک مختصر سا جائزہ لے لیتے ہیں کہ کس طرح یہ ہماری فطرت میں پیوست ہیں؟ اگر نہیں، پھر تو یہ ایسا ہے کہ ایک شخص کو پیاس نہ لگی ہو اور آپ زبردستی اسے پانی پلانے لگیں. ایسے میں اسکا جسم پانی اگل دیگا کیونکہ اس میں طلب ہی نہیں ہے.
.
١. ایک خدا پر ایمان
--------------------
.
سب سے پہلی شرط اللہ پر ایمان یعنی ایک خدا پر ایمان. جائزہ لیجیئے کہ کیا انسان میں واقعی ایک خالق کی پیاس ہے ؟ کیا اسکی فطرت اپنا پروردگار طلب کرتی ہے؟ تاریخ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ انسان نے ہر دور میں اور ہر علاقے میں ایک برتر ہستی کے تصور کو تسلیم کیا ہے. ایک ثابت شدا چیز کو ثابت نہیں کیا جاتا بلکہ اسکے رد کرنے والے سے استدلال طلب کیا جاتا ہے. انسانیت کی عدالت نے تاریخی اعتبار سے خدا کے وجود میں پیش کیۓ جانے والے مقدمے کو قبول کیا ہے، اب آپ لاکھ ان ثبوت و دلائل کا انکار کریں، اس تاریخی سچ کو بدلنے کی آپکی حیثیت نہیں ہے. یہ دعویٰ انسانیت نے ہر دور میں اجتمائی حثییت سے قبول کیا ہے،  اب اگر کچھ سر پھرے اٹھتے ہیں اور انسانیت کے اس متفقہ فیصلے کو رد کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جاۓ گا کہ استدلال پیش کریں . یہ بلکل ایسا ہی ہے جیسے انسان یہ خوب جانتا ہے کہ ممتا کا جذبہ ماں میں الہامی طور پر ودیعت شدہ ہے ، اسکا اظہار مختلف ماحول میں مختلف طریق سے ہوسکتا ہے مگر اس جذبے کا فطری ہونا سب کو قبول ہے. اسی طرح ایک خالق کا تصور ہمیشہ ہر ماحول میں انسانیت کا مشترکہ اثاثہ رہا ہے، اسے کبھی اللہ، کبھی خدا، کبھی گاڈ، کبھی پرماتما اور کبھی آسمانی باپ کہہ کر پکارا گیا. حد تو یہ ہے کہ آج کا جدید ذہن جسے خدا کے تصور سے بھی الرجی ہے، وہ بھی آج 'سپریم انٹیلجنس' یا ' کولیکٹیو کانشئیس نیس' جیسی دلفریب اصطلاحات ایجاد کرکے اسی کی توجیہہ پیش کرتا نظر آتا ہے. نام جو بھی دیں مگر ایک برتر ہستی کے تصور کو انسانیت نے ہمیشہ آگے بڑھ کر قبول کیا.  "کہہ دو کہ اسے اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو،سارے اچھے نام اسی کے ہیں"(بنی اسرائیل:۱۱۰:۱۷). تصور خدا کی کونپل فطرت کی گود میں پروان چڑھتی ہے یہ اندر سے باہر کا سفر کرتی ہے. یہی وجہ ہے کہ ایک بچہ  چاہے وہ امریکہ میں  پیدا ہوا ہو یا پاکستان میں ، چین سے تعلق رکھتا ہوں یا افریقہ کے زولو قبیلے سے .. وہ اپنے والدین سے بچپن میں یہ سوال ضرور کرتا ہے کہ  مجھے کس نے بنایا ؟ یا میں کہاں سے آیا؟  . آپ اسے کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں  درخت سے توڑ لیا یا ایک فرشتہ ہمیں دے گیا یا  مارکیٹ سے خرید لیا. آپ اس بچے کو مطمئن کرنے کیلئے جو بھی جواب دیں، مگر اس کا یہ معصوم سوال اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ خدا کے وجود کی طلب انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے . انسانی رویوں پر کی جانے والی بہت سی تحقیقات ، جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق بھی شامل ہے ، وہ سب یہی بتاتی ہیں کہ انسان میں فطری و جبلی طور پر ایسے داعیات موجود ہیں جو اسے ایک خدا پر ایمان رکھنے پر آمادہ کرتے ہیں. تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ سخت ترین ملحد بھی انتہائی مشکل حالت میں بے اختیار ایک برتر ہستی کو پکار اٹھتا ہے. گویا انسان الہامی پیغام نہ پہنچنے پریا الہامی پیغام نہ واضح ہونے پر مذہب کا انکار تو کر سکتا ہے مگر خدا کے وجود کا نہیں. قران حکیم کے بیان کے مطابق اس جسدی وجود کے حصول سے قبل ہم سب انسانوں کی ارواح یا نفوس  نے اللہ کے رب ہونے کی گواہی دی ہے. اس مکالمے کا احساس ہماری جسمانی یاداشت سے ضرور محو کردیا گیا ہے مگر ہماری روح اور فطرت آج بھی پکار پکار کر ہمیں ہمارا جواب یاد دلا رہی ہے. سورہ الاعراف کی ١٧٢ آیت ملاحظہ ہو:
.
"اور اے نبی(ص)، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا "کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟" انہوں نے کہا "ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں" یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ "ہم تو اس بات سے بے خبر تھے،"
.
٢. سزا و جزا پر ایمان
-----------------------
.
دوسری شرط بعد از موت خدا کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس ہے. یہ تقاضہ بھی انسان کے اندر موجود ہے کہ اچھائی کا بدلہ اچھا اور برائی کا بدلہ برا نکلتا ہے. انسان زمانہ طفلی سے یہ چاہتا ہے کہ اس کی اچھائی یا کامیابی کو سراہا جائے اور کوئی زیادتی کرے تو اسے سزا دی جائے. اسی کو مدنظر رکھ کر والدین سے لے کر اساتذہ تک انعام کی لالچ اور سزا کا خوف کو بطور آزمودہ طریق استعمال کرتے ہیں.  یہی تقاضہ ہے جس کی بنیاد پر انسان عدالت سے لے کر پولیس تک کے نظام قائم کرتا ہے. جیل سمیت دیگر سزاؤں کا نفاز کرتا ہے.
.
اس دنیا میں مکمل انصاف کا تصور بھی ناممکن ہے. یہاں تو مشاہدہ یہ ہے کہ ظالم طاقت و اقتدار کے نشے میں چور رہتا ہے اور مظلوم، استبداد کی چکی میں پستا ہی جاتا ہے. یہاں اکثر حرام کھانے والا عیاشیوں کا مزہ لوٹتا ہے اور محنت کش پر زندگی کی بنیادی ضروریات بھی تنگ ہو جاتی ہیں. کتنے ہی مجرم، فسادی اور قاتل کسی عدالت کی پکڑ میں نہیں آتے. ایک مثال لیں، اگر ایک بوڑھا شخص کسی نوجوان کو قتل کردیتا ہے اور مان لیں کہ وہ پکڑا بھی جاتا ہے. عدالت اسے اسکی جرم کی بنیاد پر سزاۓ موت بھی نافز کردیتی ہے. اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ انصاف ہے ؟ کہنے کو تو قاتل کو قتل کے بدلے میں قتل کردیا گیا ؟ مگر کیا یہی انصاف کی مکمل صورت ہے ؟ قاتل تو ایک بوڑھا شخص تھا ، جو اپنی زندگی گزار چکا تھا. جبکہ مقتول ایک نوجوان تھا ، اسکی پوری زندگی اسکے سامنے تھی. ممکن ہے کہ اسکی اچانک موت سے اسکی بیوی بے گھر ہوجاۓ ، اسکے یتیم بچے باپ کا سایہ نہ ہونے سے آوارگی اختیار کرلیں. کیا یہی حقیقی انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں. یہی وہ صورتحال ہے جو انسان میں یہ فطری و عقلی تقاضہ پیدا کرتی ہے کہ کوئی ایسی دنیا و عدالت برپا ہو جہاں انصاف اپنے اکمل ترین درجے میں حاصل ہو. جہاں بد کو اسکی بدی کا اور نیک کو اسکی نیکی کا پورا پورا بدلہ مل سکے. دین اسی عدالت کی خبر روز حساب کے نام سے دیتا ہے اور اسی دنیا کی بشارت جنت و دوزخ سے دیتا ہے. اب کوئی اسے جنت جہنم کہے، نرگ سورگ پکارے، ھیون ھیل کا نام دے، مواکشا، نروان یا پھر پنر جنم سے اس کی توجیہہ کرے. سب درحقیقت اسی 'جواب دہی کے احساس' یعنی 'سینس آف اکاونٹیبلیٹی' کے روپ ہیں. 
.
انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ مجموعی اعتبار سے کبھی بھی ناممکن کا تقاضہ نہیں کرتا. یعنی وہ یہ دعا ہرکز نہیں کرتا کہ اسکے دو کی جگہ چار ہاتھ نکل آئیں، وہ یہ تمنا نہیں رکھتا کہ کاش ! دو اور دو چار نہ ہوتے بلکے پانچ ہوتے. مگر کیا یہ عجب نہیں ہے؟ کہ یہی انسان فطری طور پر تمنا رکھتا ہے کہ اسے موت نہ پکڑے، وہ ہمیشہ کی زندگی جئے . اسے بیماری نہ ستائے ، وہ ہمیشہ صحت سے بھرپور رہے. اس پر بڑھاپا نہ سوار ہو، وہ ہمیشہ جوانی کے شباب میں رہے. یہ تقاضے اس لیے ہماری فطرت میں موجود ہیں کہ بھلے اس دنیا میں ان کی تعبیر ناممکن محسوس ہو لیکن ایک اور دنیا ایسی ضرور سجائی جائے گی جہاں ان فطری تقاضوں کی تکمیل ہوگی. دین اسی دنیا کی بشارت دیتا ہے
.
سورہ الاحزاب کی ان ٧١ سے ٧٣ آیات پر غور کیجیئے
.
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
.
"ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے"
.
لفظ امانت کے بارے میں اہل علم اختلاف کرتے ہیں مگر معنی جو بھی اخذ کیئے جائیں، اتنا ظاہر ہے کہ اس امانت کا بار  جس کی جواب دہی کا احساس آج بھی ہمارے لاشعور میں پیوست ہے انسانیت نے خود قبول کیا ہے
.
٣. نیک عمل
--------------
.
خیر و شر کا تعین بھی ہماری فطرت میں ودیعت شدہ ہے. سورہ الشمس میں ارشاد باری تعالی ہے {فَأَلْہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَتَقْوَاہَا: ہم نے ا نسان پر اسکی نیکی و بدی کو الہام کردیا ہے-} گویا نیکی اور بدی کا بنیادی شعور ہم سب انسانوں میں موجود ہے. یہی وجہ ہے کہ پوری انسانیت کی تاریخ دیکھ لیجیئے، بناء تخصیص رنگ، نسل، مذھب آپ کو نظر آئے گا کہ انسان ہمیشہ یہ جانتا ہے کہ سچ بولنا اچھا اور جھوٹ بولنا برا ہے. کسی مظلوم کی مدد کرنا،کسی روتے کو ہنسانا، کسی بھوکے کو کھلانا اعلیٰ اوصاف اور کسی کا حق مارنا،ناحق قتل کرنا، کسی کو دکھ دینا برے اعمال ہیں. دنیا بھر کا جسٹس سسٹم کچھ معاشرتی اقدار کے علاوہ اپنی اصل میں ان ہی بنیادی قدروں سے پھوٹنے والی جزیات کا بیان ہے. یہ البتہ سچ ہے کہ الہامی کتب ہوں یا دیگر فلسفے ان سے اضافی اعمال بھی اس فہرست میں شامل ہوتے جاتے ہیں
.
یہ وہ مختصر بیان ہے جس سے ایک طالبعلم یہ سمجھ سکتا ہے کہ کیوں ان تین باتوں پر ایمان و عمل مذہب کے پہنچنے سے مشروط نہیں ہے. یہاں یہ بھی سمجھ لیجیئے کہ مسلمانوں کی اکثریت کی سمجھ ہماری اس پیش کردہ سمجھ کی موافقت میں نہیں ہے. ان کا نظریہ ٹھیک وہی ہے جو دیگر مذاہب کے نام لیوا اختیار کرتے آئے ہیں اور وہ یہ کہ ان کے ہم مذہبوں کے سوا کسی اور کی مجال نہیں کہ وہ جنت میں داخل ہوسکے.اس ضمن میں دوسری رائے کے علمبردار مسلمان علماء سب سے پہلے ہماری پیش کردہ آیت سمیت اسی موضوع کی دیگر آیات کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ ان کا اطلاق شریعت محمدی صلی اللہ علیہوسلم سے قبل کے مسلمانوں کے واسطے ہے. گو راقم نے بحیثیت قران حکیم کے طالبعلم کے ایسا کوئی واضح قرینہ نہیں پایا جس سے اس دعوے کی صحت کو تسلیم کرسکے. پھر وہ اس آیت کو پیش کرکے جنت میں داخلہ قبولیت اسلام پر منحصر قرار دیتے ہیں. 

’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ ۔ ۔ اور جس نے اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین چاہا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامرادوں میں سے ہو گا۔‘‘ ، (آل عمران3: 19 ، 85) 

قران حکیم کے مزاج اور دیگر مقامات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس آیت کے عمومی  اطلاق کے تو قائل ہیں مگر صرف اس وقت تک جب تک دین اسلام ایک شخص پر واضح انداز میں پہنچ جائے. دوسرے الفاظ میں اس پر اتمام حجت ہوجائے. اس کے بعد اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ دین اسلام کی بجائے وہ کسی دوسرے دین کو پیش کرکے نجات پالے گا تو یہ صریح غلط فہمی ہے اور اس کا رویہ کھلا کفر ہے. اگر پیغام پہنچا ہی نہیں یا درست طور پر نہیں پہنچا یا اسے تحقیق کیلئے جو مواقع و رغبت درکار ہے وہ حاصل نہیں ہوئی تو ایسے انسان کو ہم معذور خیال کریں گے. ہمارا رب بہترین منصف ہے اور یہ انصاف اس کی بہترین صورت میں روز جزا ہم مشاہدہ کرسکیں گے ان شاء اللہ. واللہ اعلم بلصواب
.
====عظیم نامہ====
.
نوٹ: یہ ہماری ناقص سمجھ ہے جس میں غلطی کا امکان ہے. قاری کو چاہیئے کہ وہ دونوں جانب کے دلائل کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرکے ہماری اس رائے کو قبول یا رد کردے

Wednesday, 13 December 2017

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے ..


کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے ..

.

Image may contain: text
میں آپ سے یہ وعدہ تو کرسکتا ہوں کہ ہمیشہ وہی لکھوں گا جسے پوری دیانت سے میں سچ سمجھتا ہوں. مگر میں یہ وعدہ قطعی نہیں کرسکتا کہ ہمیشہ وہی لکھوں گا جسے پوری دیانت سے آپ سچ سمجھتے ہیں. پھر میں بارگاہ خداوندی میں اس کا مکلف تو ہوں کہ میں کیا لکھ رہا ہوں؟ مگر اس کا ذمہ دار نہیں ہوں کہ اس سے آپ کیا مطلب نکال رہے ہیں؟ میں دانستہ اپنے سچ سے آپ کو گمراہ نہیں کروں گا مگر الفاظ خالی برتن کی مانند ہوتے ہیں، انہیں مفہوم ہم عطا کرتے ہیں. مجھ سمیت ہر انسان کے لکھے یا کہے میں غلطی کا احتمال ہوا کرتا ہے. لہٰذا لازمی نہیں کہ سچ بولنے والا اپنی سمجھ میں درست بھی ہو. ممکن ہے کہ اس نے سچائی کا ایک ہی زاویہ دیکھا ہو یا پھر اسے نتیجہ قائم کرنے میں غلطی لگ گئی ہو مگر وہ اسی غلط نتیجے کو پوری سچائی سے درست مان رہا ہو. گویا ایک شخص اپنی کسی سمجھ میں بیک وقت سچا اور غلط دونوں ہوسکتا ہے. کسی اور کا سچ میرا سچ بنے، یہ قطعی ضروری نہیں. ہم سب کو بس وہی بیان کرنا ہے جو ہم پر 'سچ' بن کر واضح ہوگیا ہے. میں اپنے سچ کو اسی وقت تک تھامے رکھوں گا جب تک اس سے برتر سچ میرے سامنے نہ آجائے. اگر کسی معاملے میں برتر سچ کا مجھے سامنا ہو تو لازم ہے کہ میں بعد از تحقیق اپنا سابقہ سچ چھوڑ دوں اور اس نئے سچ کو لپک کر قبول کرلوں. بعض لوگ سچ کڑوا ہوتا ہے، سچ کڑوا ہوتا ہے کی رٹ لگا کر ہر طرح کی بد تہذیبی کیئے جاتے ہیں. انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اکثر سچ کڑوا نہیں ہوتا بلکہ سچ بولنے والے کا انداز اور غلط الفاظ کا انتخاب اسے کڑوا بنا دیتا ہے. کڑوی سے کڑوی بات بھی اگر تہذیب اور شائستگی سے کی جائے تو اس میں شیرنی گھل جاتی ہے. اسکی سب سے بڑی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جنہوں نے ہمیشہ سچ بولا مگر کبھی کڑوا نہ بولا. اگر آپ سچ بولنے کی آڑ میں مخاطب کی دل آزاری کا سبب بن رہے ہیں تو جان لیجیئے، یہ سچ کا پرچار نہیں بلکہ آپ کی انا کی تسکین کا سامان ہے. 
.
====عظیم نامہ====

Tuesday, 12 December 2017

ممبئی کے بھائی لوگ اور کراچی کے دادا لوگ



ممبئی کے بھائی لوگ اور کراچی کے دادا لوگ 


.
تقسیم ہند کے بعد انڈیا اور پاکستان کی صورت میں جو دو ریاستیں وجود میں آئیں. وہ نظریاتی طور پر کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں مگر اپنے مزاج کے حوالے سے بڑی حد تک مماثلت رکھتی ہیں. یہاں تک کے دونوں ملکوں کے نمائندہ شہروں کے مزاج بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں. لہٰذا دہلی اور لاہور کئی ثقافتی و معاشرتی حوالوں سے ایک جیسے لگتے ہیں. اسی طرح ممبئی اور کراچی جڑواں بھائی محسوس ہوتے ہیں. دونوں پورٹ سٹی ہیں، معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں، کاروباری سرگرمیوں کے گڑھ ہیں، مختلف لسانی گروہوں کی آماجگاہ ہیں، جرائم یا انڈر ورلڈ کا بھی سب سے بڑا ٹھکانا ہیں. گویا ایسے ان گنت حوالے ہیں جن میں دونوں ہوبہو ایک جیسے محسوس ہوتے ہیں. ان ہی میں سے ایک حوالہ یا خاموش تعلق اس 'بازاری بولی' یعنی 'سلینگ لینگویج' کا بھی ہے جو ان دونوں شہروں میں اپنی اپنی طرح سے بولی جاتی ہے اور مختلف ہو کر بھی ایک دوسرے میں ضم ہوتی رہتی ہے. لہٰذا دونوں طرف اس بازاری زبان کے الفاظ بے تکلفی سے مستعار لے لئے جاتے ہیں اور کوئی ایک دوسرے سے پوچھتا تک نہیں. اسی زبان کے چند نمونے اپنی یادداشت سے درج کررہا ہوں. پہلا کالم میں ممبئی کی بازاری زبان کے الفاظ ہیں اور دوسرے کالم میں اسی کے قائم مقام کراچی کے بازاری الفاظ. امید ہے آپ اس خلاف معمول اور ہلکی پھلکی پوسٹ سے لطف لیں گے. یاد رہے کہ ایک لفظ کے ایک سے زیادہ اطلاق ہوسکتے ہیں. اسلئے ممکن ہے کہ ممبئی یا کراچی کا ہونے کے باوجود کچھ الفاظ آپ نے کسی ایک معنی میں سن رکھے ہوں اور دوسرے معنی میں نہ سن رکھے ہوں
.
بھاشن گیری = بھرم بازی 
راج ہے = ٹیکہ ہے 
راپ چک = بمباٹ 
بہت توڑو = بہت ادھم 
سولڈ ہے باپ = دھانسو ہے ماما 
جھکاس = چکاس 
چرکوٹ = چمپو 
گھنٹا = پونکا 
ٹھلو = کدو 
ہٹا ساون کی گھٹا ! = ابے خلی کرا !
جانے دے ہوا آنے دے ! = ہٹو بچو !
بن داس = لش پش 
کھجور = اخروٹ 
ھلکٹ = ڈھکن، ٹوکن 
بھائی گیری = دادا گیری 
سپاری = پرچی 
چیخم چلی = ادھم کوٹنا 
کان کے نیچے بجانا = رکھ کے دینا
اپن کا فنٹر ہے = اپنا جگر ہے 
پانڈو = آڑی 
لکھھا = فارغ 
زیادہ سیان پتی نہیں = زیادہ تین پانچ نہیں 
لفڑا = پھڈا ، پنگا 
دھو دیا = کوٹ دیا 
چل وٹ لے ! = چل کٹ لے !
ٹینشن لینے کا نہیں دینے کا ! = فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا !
ایک نمبر ! = چیتا !
چالو = دو نمبر 
مسکا = کنچا 
ھول دینا = تڑی دینا 
دماغ کی نہیں لگا = دماغ کی دہی نہ کر 
واٹ لگادی = ریڑھ ماردی
بول بچن = منہ کے فائر
ماموں = گھونچو
چپکانا = ٹوپی پہنانا
جلی کیا؟ = ہٹی کیا؟
سٹک گئی = سنک گئی
۔ 
یہ صرف چند امثال ہیں جو یادداشت سے درج کردی گئی ہیں۔ اگر آپ کو بھی کچھ ایسے مماثل الفاظ دونوں شہروں کے معلوم ہیں تو درج کردیں۔ البتہ خیال رہے کہ وہ نازیبا الفاظ ہرگز نہ لکھیں جو خواتین سے متعلق ہوں، کسی قسم کی گالی ہوں یا فحاشی کے زمرے میں آتے ہوں۔ ورنہ ایسا کمنٹ فوری ڈیلیٹ کردیا جائے گا۔ 🤗
۔
====عظیم نامہ====