Sunday, 26 November 2017

نیا دورنیا انداز


نیا دورنیا انداز 



دور حاضر میں جدید ذہن نے مذہبی تعبیرات سے جان چھڑانی تو ضرور چاہی ہے مگرملتی جلتی تعبیرات نئے ناموں سے ایجاد بھی کرڈالی ہیں. گویا آج کے انسان کو لفظ 'مذہب' سے تو ضرور چڑ ہے مگر خودساختہ فلسفوں سے مزین 'آرٹ آف لیونگ' یا 'وے آف لائف' اسے خوب متاثر کرتے ہیں. جس میں عقائد سے لے کر عبادات تک موجود ہیں. اسے لفظ 'خدا' سے تو الرجی ہے مگر 'مدر نیچر' ، 'سپریم انٹیلجنس' یا ' کولیکٹیو کانشئیس نیس' جیسے اصطلاحات اس کی توجہ کھینچ لیتی ہیں. وہ کسی خالق کے لافانی ہونے کا تو انکاری ہے مگر 'لاء آف تھرموڈائنامکس' کے تحت انرجی کو ابدی و ازلی ماننے سے نہیں جھجھکتا. اسے ملائکہ یا شیاطین جنات کا ذکر تو نری جہالت محسوس ہوتے ہیں مگر اپنے اردگرد موجود 'پازیٹو اور نیگٹو انرجیز' پر وہ بڑے بڑے سیمنار منعقد کرتا ہے. اسے نظر کے لگنے یا جادو کے ہونے پر تو ہنسی آتی ہے مگر 'ہپناسس' یا 'ریموٹ ویوینگ' جیسے موضوعات میں خوب دلچسپی ہوتی ہے. اسے نماز، تسبیحات، اعتکاف جیسی عبادات تو وقت کا زیاں لگتی ہیں مگر مختلف طریقوں کی 'میڈیٹشن' یا 'یوگا' خوب دل کو بھاتے ہیں. اسے 'دعا' کا مانگنا تو سراسر حماقت محسوس ہوتا ہے مگر 'لاء آف ایٹریکشن' جیسے فلسفے اسے اتنے پسند ہیں کہ اس پر لکھی کتب کو بیسٹ سیلر بنادیتا ہے. اسے روح کے ہونے پر بات بھی کرنا پسند نہیں مگر کیا 'مائنڈ اور کانشیس نیس' ہمارے دماغ سے الگ رہ کر بھی موجود ہوسکتے ہیں؟ اس پر وہ بات کرنے، سننے اور بعض اوقات ماننے پر بھی تیار ہوجاتا ہے. 
.
زمانے کے انداز بدلے گئے 
نیا دور ہے، ساز بدلے گئے 
.
====عظیم نامہ====

Saturday, 25 November 2017

دین اور میتھمیٹکس


دین اور میتھمیٹکس



اگر میں آپ احباب سے پوچھوں کہ 'چھ منفی چار' کتنے ہوتے ہیں؟ تو آپ سب فوری بتادیں گے کہ "دو" ! .. اگر میں آپ سے پوچھوں کہ اچھا 'دو جمع تین' کتنے ہوتے ہیں؟ تو آپ مل کر پکار اٹھیں گے کہ "پانچ" ! .. اگر میں پوچھوں کہ اچھا اچھا یہ بتایئے کہ 'پانچ ضرب تین' کتنے ہوتے ہیں؟ تو آپ سب کا یہی جواب ہوگا کہ "پندرہ" ! .. گویا آپ سب میتھمیٹکس یعنی حساب کے تسلیم شدہ بنیادی اصولوں جیسے منفی، جمع، ضرب وغیرہ سے واقف ہیں. یہی وجہ ہے کہ آپ سب کا ایک ہی جواب ہے. ان ہی اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر میں آپ کو مشکل سے مشکل حساب کا فارمولہ، سوال یا ایکویشن حل کرنے کو دوں تو مجھے اعتماد ہے کہ اگر آپ اصولوں کو ٹھیک سے اپلائی کریں گے تو آپ سب کا نتیجہ ایک سا برآمد ہوگا. یہ ممکن ہے کہ آپ سب ایک دوسرے سے مختلف میتھڈز یا طریق اپنائیں. کسی کا طریق زیادہ آسان، کسی کا مشکل ہو. کسی کا مختصر اور کسی کا طویل ہو مگر نتیجہ پھر بھی آپ سب کا ایک ہی نکلے گا. وجہ؟ وجہ وہی کہ آپ سب اصولوں میں متفق ہیں. 

.
دین کے بھی کچھ قطعی یعنی حتمی اصول ہیں دوستو. جنہیں اپنا کر جب محققین یا اہل علم تحقیق کرتے ہیں تو تفصیل میں یا میتھڈ میں تو فرق ہوسکتا ہے مگر آخری نتیجے میں فرق نہیں ہوا کرتا. گویا عقائد میں توحید ہو، آخرت ہو، الہامی کتب ہوں، رسول ہوں، تقدیر ہو یا ملائکہ سب محققین ان کے دین میں ہونے کے قائل ہیں. عبادات میں نماز ہو، روزہ ہو، حج ہو، زکات ہو ہر کوئی نمائندہ مسلک یا فرقہ آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو ان کا انکاری ہو. ان عبادات کی تفصیل کا بھی ایک بڑا حصہ ایسا ہوگا جس میں آپ کو ذرا سا بھی اختلاف نظر نہیں آئے گا جیسے نماز میں نماز کی رکعات، سورہ الفاتحہ کی تلاوت، ہر رکعت میں رکوع، سجدوں وغیرہ کی تعداد، پڑھے جانے والے اذکار پر آپ کو پوری امت کا اتفاق نظر آئے گا. وجہ ؟ وجہ وہی کہ تمام ترمسلکی اختلافات کے باوجود کیونکہ اصولوں پر اتفاق ہے اسلئے پوری امت ان 'قطعی' معاملات میں ایک ہی جگہ پر کھڑی نظر آتی ہے. جن مقامات پر آپ کو علماء میں اختلاف نظر آتا ہے وہ اختلاف بھی ان اصولوں سے ملی اجازت کی بناء پر ہوتا ہے. یہ علمی اختلاف ہے جو ہوتا ہے اور ہوتا رہنا چاہیئے تاکہ جمود طاری نہ ہو. مگر دین کا بنیادی ڈھانچہ چودہ سو سال سے جوں کا توں برقرار ہے. گویا بنیادی عقائد کون کون سے ہیں؟ بنیادی عبادات کون کون سی ہیں؟ بنیادی عبادات کی ادائیگی میں لوازم کون کون سے ہیں؟ اس میں آپ کو کوئی اختلاف نہیں ملے گا. 
.
اب ذرا ہماری آغاز میں دی گئی مثال کو ذہن میں رکھیئے اور سوچیئے کہ ایک محقق صاحب اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چھ منفی چار دو نہیں بلکہ تین ہوتے ہیں. دو جمع تین پانچ نہیں بلکہ نو ہوتے ہیں اور پانچ ضرب تین پندرہ نہیں بلکہ سترہ ہوتے ہیں. اب یہ صاحب ظاہر ہے کہ جس بھی فارمولے، سوال یا ایکویشن کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھائیں گے تو ان کا نتیجہ ہمیشہ آپ سب سے مختلف برآمد ہوگا. ٹھیک اسی طرح دین میں بھی ایسے 'محقق' اٹھتے ہیں جن کی ہر کی گئی تحقیق پوری امت سے الگ نتائج برآمد کرتی رہتی ہے. وجہ؟ وجہ وہی کہ ان محقق محترم نے اپنی تحقیق کے اصول ہی الگ اپنا رکھے ہوتے ہیں جسکی وجہ سے وہ قطعی ترین معاملات کو بھی رد کرکے ایسے نتائج پیش کرتے ہیں جو ورطہ حیرت میں مبتلا کردے. حماقت ہماری یہ ہے کہ ہم ان نتائج کے ٹھیک ہونے یا نہ ہونے پر بحث کرنے لگتے ہیں اور یہ دیکھتے ہی نہیں کہ وہ اصول تو غلط نہیں جن پر بنیاد رکھ کر یہ نتائج برآمد ہوئے ہیں؟ عوام تو عوام - علماء بھی اکثر یہی غلطی کررہے ہوتے ہیں. مثال کے طور پر ایک خود ساختہ محقق اجماع صحابہ یا حدیث متواتر کو سرے سے حجت یا اصول دین تسلیم ہی نہیں کرتا اور اس کے نتیجے میں وہ فقط لغت کے ذریعے قران حکیم سے دین کی ایک اچھوتی تفسیر پیش کرنے لگتا ہے. جیسے وہ کہتا ہے کہ بھائی یہ کیا ہندؤں کی طرح متھا ٹیکنے کو تم نے سجدہ سمجھ لیا ہے؟ سجدہ تو بس احکام پر سر تسلیم خم کرنے کا نام ہے یا یہ کیا تم مشرکین کی طرح قربانی کرکے خون بہاتے ہو؟ قربانی کا مطلب تو بس اپنی خواہشات نفس کی قربانی ہے یا حج تو انٹرنیشنل میٹنگ کا نام تھا، یہ کیا تم نے پتھر کی دیوار کو شیطان بنا کر پتھر مارنا شروع کردیا؟ وغیرہ. اب اگر آپ ان محقق صاحب کے اصولوں کو نظر انداز کرکے ان نتائج پر بحث کرنے لگیں تو کبھی نتیجہ نہیں نکلے گا بلکہ امکان ہے کہ آپ کو شکست فاش ہو. لازمی ہے کہ پہلے ان اصولوں کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہو پھر ان نتائج پر گفتگو کی جائے. اسی طرح ایک شخص ملحد ہے، وجود خدا کا ہی انکاری ہے اور آپ اس سے یہ مکالمہ کرنے لگیں کہ واقعہ معراج کی کیا حقیقت ہے؟ یا معجزات کیسے ممکن ہے؟ تو یہ صرف وقت کا زیاں ہے. لہٰذا دین کے سنجیدہ طالبعلمو اور علماء اکرام سے راقم کی یہی استدعا ہے کہ ہر مکالمے میں اصول دین کو نظر سے اوجھل نہ ہونے دیں.
.
====عظیم نامہ====
.
(نوٹ: راقم کو امید ہے کہ قاری دی گئی مثال کی کھال اتارنے سے زیادہ موجود پیغام کو سمجھنے کی سعی کرے گا)

Friday, 24 November 2017

پیرامیڈ مارکیٹنگ


پیرامیڈ مارکیٹنگ

کبھی آپ کا 'پیرامیڈ مارکیٹنگ' کا دعویٰ کرنے والی بزنس کمپنیوں سے واسطہ پڑا ہے؟ اگر ہاں تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ لوگ کس خوبی سے آپ کا بھروسہ جیت کر آپ کو ہفتوں مہینوں میں امیر کبیر ہوجانے کا یقین دلادیتے ہیں. آپ کتنے ہی پڑھے لکھے اور اپنی دانست میں عقلمند کیوں نہ ہوں؟ یہ اپنا بزنس پلان آپ کو کچھ اس طرح چپکاتے ہیں کہ آپ خوشی خوشی راضی ہوجاتے ہیں. مغربی ممالک میں ان کا طریقہ واردات اکثر کچھ یوں ہوتا ہے کہ کوئی بھروسے کا جاننے والا انسان آپ کو اپروچ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ کچھ ہی عرصے میں اپنا ایک ایسا کامیاب بزنس قائم کرچکا ہے جو اسے ناقابل یقین حد تک منافع دے رہا ہے. یہی نہیں بلکہ چند سالوں ہی میں یہ بزنس اسے یقینی طور پر کروڑپتی بنادے گا. یہ سن کر ظاہر ہے آپ میں شدید اشتیاق پیدا ہوجاتا ہے. اب آپ کا یہ لاڈلا دوست یا رشتہ دار آپ کو بھی اس بزنس کا مشورہ دیتا ہے مگر صرف چند نہایت جاذب باتیں بتاکر خاموش ہوجاتا ہے. آپ کتنا ہی اصرار کرلیں وہ مزید تفصیل نہیں بتاتا بلکہ کہتا ہے کہ اگر آپ واقعی بزنس مین بن کر مالامال ہونے میں سنجیدہ ہیں تو فلاں روز فلاں کمپنی کانفرنس میں شرکت کیجیئے. جہاں کمپنی کا مالک یا مینجر تفصیل سے اس بزنس کا ماڈل سمجھائے گا. ساتھ ہی وہ آپ کو ایک چمکتا ہوا بزنس کارڈ یا انویٹیشن بھی دیتا ہے. ساتھ ہی یہ تلقین کرتا ہے کہ اس روز آپ سوٹ ٹائی پہنیں کہ یہ بزنس کا ڈریس کوڈ ہے. آپ شدید مرعوب ہو جاتے ہیں اور طے شدہ روز بہترین سوٹ پہن کر پرفیوم لگا کر تیار ہوجاتے ہیں. بعض اوقات تو آپ کو مقررہ مقام پر کوئی مہنگی گاڑی لے کر جاتی ہے. یہ بھی ممکن ہے کہ اسے کم کپڑوں میں ملبوس کوئی حسینہ ڈرائیو کر رہی ہو.
.
کانفرنس کے ماحول میں ہر شے سے خوشی، کامیابی اور امیری جھلک رہی ہوتی ہے. یہاں آپ کی ملاقات ایسے بہت سے افراد سے ہوتی ہے جو کچھ روز قبل تک بے روزگار تھے یا معمولی سی نوکری کیا کرتے تھے مگر اب اس بزنس کی بدولت ان کی زندگی میں انقلاب آگیا ہوتا ہے. وہ آپ کو اپنے خوشحال ہونے کے قصے سناتے ہیں اور مستقبل قریب میں امیر کبیر ہوجانے کی نوید دیتے ہیں. یہ سب اشخاص آپ ہی کی طرح عام انسان ہوتے ہیں اور ان کے لہجے میں سچائی والا اعتماد جھلک رہا ہوتا ہے. آپ سے فارم بھروایا جاتا ہے اور ایک بہترین نشست پر دیگر افراد کے ہمراہ آپ بھی براجمان ہوجاتے ہیں. اب 'وہ' آتا ہے جس کا سب کو انتظار ہوتا ہے. یعنی کمپنی کا مالک و مینجر. یہ انتہاء درجے کا چرب زبان، حاضر جواب، پر مزاح اور پر اعتماد انسان ہوتا ہے. یہ بتاتا ہے کہ کس طرح امیر لوگ اس دنیا میں ہم عام لوگوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں اور غریب رکھنا چاہتے ہیں؟ یہ آپ کو سامنے بورڈ اور کمپیوٹر سلائڈز کے ذریعے ایک زبردست نیٹ ورک مارکیٹنگ کا بزنس ماڈل پیش کرتا ہے جس میں آپ کسی پروڈکٹ کو خرید کر شمولیت حاصل کرسکتے ہیں اور پھر اسی پروڈکٹ یا پروڈکٹس کو اپنے احباب میں بیچ کر انہیں بھی ممبر بنا سکتے ہیں. آپ جتنے ممبر بنائیں ہے، وہ ممبر مزید ممبرز لائیں گے اور یہ مزید ممبرز مزید اور ممبرز. اس طرح یہ پیرامڈ چلتا رہے گا. زبردست انکشاف یہ ہے کہ ہر آنے والے کے پرافٹ میں آپ کا ایک لازمی حصہ ہوگا کیونکہ اس چین (کڑیوں) کا آغاز آپ سے ہوا ہے. گویا آپ جب سو بھی رہے ہوں گے تو آپ کے لائے یہ سینکڑوں لوگ آپ کے لئے پرافٹ جمع کررہے ہوں گے. یوں آپ ہفتوں، مہینوں میں امیری کی سیڑھی چڑھنے لگیں گے. چند سالوں میں اتنا پیسہ ہوجائے گا کہ آپ خوشی سے ریٹائر ہوسکیں. اس کامیابی کی گواہی وہاں موجود بہت سے افراد اسٹیج پر آکر آپ کو دیتے ہیں. آپ کا لاڈلا عزیز جو آپ کو یہاں لایا تھا اور جس پر آپ کو بھروسہ ہے، وہ بھی ان ہی میں کسی درجے شامل ہوتا ہے. اس بزنس کی اثرانگیزی ثابت کرنے کیلئے بڑے بڑے بزنس مین کے اقوال دیکھائے جاتے ہیں جیسے ڈونالڈ ٹرمپ، رابرٹ کیوساکی وغیرہ. زندہ مثالوں اور میتھمیٹکس کے ذریعے آپ کو فارمولے دیکھائے جاتے ہیں. یہ فارمولے سالوں کی محنت کے بعد کچھ اس انداز میں تشکیل دیئے گئے ہوتے ہیں کہ جنہیں آپ کوشش کے باوجود غلط ثابت نہیں کرسکتے. چاہے آپ کسی ریاضی دان، سائنسدان یا فلسفی کے سپوت ہی کیوں نہ ہوں. یہ اور بات کہ وہ ہوتے فقط سراب ہی ہیں. ان کے پاس آپ کے ہر ممکنہ سوال کا پہلے سے ہی ایک نپا تلا جواب تیار ہوتا ہے. اگر بادل نخواستہ کوئی نیا سوال آپ اٹھا بھی دیں تو یہ اپنی ٹریننگ کی بدولت کسی نوسرباز کی مانند اس سوال کو ایسا گھمائیں گے کہ آپ شکل دیکھتے رہ جائیں. ستر فیصد کے قریب لوگ ایسی کانفرنسز میں ان سے مستقل جڑ جاتے ہیں یا کم ازکم جڑنے کی شدید خواہش لے کر گھر واپس آتے ہیں.
.
آپ کتنے ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں؟ ان نوسربازوں کو دلیل یا مکالمے سے ہرگز نہیں ہراسکتے. یہ اپنی دھوکہ دہی میں طاق اور نہایت تجربہ کار ہوتے ہیں. ان کی حقیقت جاننے کا ایک آزمودہ طریقہ یہ ہے کہ آپ ان افراد کی بینک اسٹیٹمنٹ چیک کریں جو ہر مہینے لاکھوں روپے کمانے کا دعویٰ کررہے ہیں. ان کا سجایا سارا بھرم چکنا چور ہوجائے گا. بہت سے بہت انہیں اتنا پیسہ ملتا ہوگا جتنا ایک معمولی سیلز مین کو ملتا ہے. کمپنی کے مالک اور اس کے چند چیلوں کے سوا باقی جتنے لوگ باسمیت آپ کے لاڈلے عزیز کے اس میں شامل ہیں وہ سب اس دھوکہ دہی کا شکار ہوتے ہیں. مشورہ صرف اتنا ہے کہ کامیابی کا شارٹ کٹ ڈھونڈھنا ترک کردیں اور ایسی خواب دکھاتی کمپنیوں سے کوسوں دور رہیں.
.
اب ایک آخری بات. یہ چرب زبان نوسرباز صرف بزنس کی دنیا میں نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنی دکان مذہب کے نام پر بھی چمکاتے ہیں. یہ آپ کو بتاتے ہیں کہ کیسے آج تک آپ کو ملاؤں نے دھوکہ دیا ہے؟ کیسے آپ چودہ سو سال سے ایک بہت بڑی سازش کا شکار رہے ہیں؟ اس کے بعد وہ آپ کو دین کی ایک نئی سمجھ دیتے ہیں، جسے رد کرنا آپ کو اپنے بس میں نظر نہیں آتا. ان کی باتیں آپ کو لاجک اور دلیل سے مزین نظر آتی ہیں. مگر جان لیجیئے کہ یہ وہی سراب ہے جسے ایک آدمی بزنس کا نام لے کر دیکھا رہا ہے اور دوسرا مذہب کی اوٹ میں یہی کام سرانجام دے رہا ہے. میں آپ کو انہیں سننے، پڑھنے اور تحقیق کرنے سے ہرگز نہیں روک رہا. صرف خبردار کررہا ہوں کہ جب کوئی نیا آدمی اپنی چرب زبانی سے آپ کو بتائے کہ دین کو یا دین کے فلاں عقیدے کو آج تک سب غلط سمجھے ہیں اور میں آپ کو درست بات بتا رہا ہوں تو بہت بہت زیادہ غور و فکر کے بعد کوئی فیصلہ لیجیئے. آخر یہ آپ کی عاقبت کا معاملہ ہے.
.
====عظیم نامہ====

.
(نوٹ: راقم ایک ایسی بہت بڑی پیرامڈ کمپنی کا لندن میں دو ہفتے حصہ رہا ہے اور ان کی حقیقت جاننے کے بعد انہیں مکمل طور پر تباہ کردینے میں کلیدی کردار ادا کرچکا ہے
)

Wednesday, 22 November 2017

Thursday, 16 November 2017

صرف دین کے سنجیدہ طلباء و طالبات کے لئے

 

صرف دین کے سنجیدہ طلباء و طالبات کے لئے  ..


.
اصول الفقہ کی رو سے دین میں درج احکامات، چاہے وہ عملی نوعیت کے ہوں یا ایمان کے حوالے سے. ہم انہیں دو بڑی اقسام میں بانٹ کر دیکھتے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
.
١. قطعی (یعنی وہ احکام جن کے سچ ہونے میں اختلاف و شک کی گنجائش نہیں)
٢. ظنی (یعنی وہ احکام جن کے سچ ہونے نا ہونے میں اختلاف و شک ممکن ہے)
.
پہلی قسم یعنی 'قطعی' کی بھی دو نمایاں شاخیں ہیں.
.
١. قطعی الثبوت (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے ارسال یا منتقلی میں اختلاف و شک کی گنجائش نہیں)
٢. قطعی الدلالہ (یعنی ان کے معنی و مفہوم اتنے عیاں ہیں کہ اختلاف و شک ممکن نہیں)

.
یہ ممکن ہے کہ کوئی حکم یا بات قطعی الثبوت تو ہو مگر قطعی الدلالہ نہ ہو. یا پھر قطعی الدلالہ تو ہو قطعی الثبوت نہ ہو. یا پھر بیک وقت قطعی الدلالہ بھی ہو اور قطعی الثبوت بھی. یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس حوالے سے بھی وہ حکم یا بات 'قطعی' تسلیم ہوگی، اس حوالے سے اس میں اختلاف و شک نہیں کیا جاسکتا. گویا اگر کوئی شخص قطعی امور میں سے کسی امر کو رد کرتا ہے یا مختلف بات پیش کرتا ہے تو اسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا. اختلاف صرف 'ظنی' امور میں ہی ہوسکتا ہے اور ہوتا آیا ہے.
.
دوسری قسم یعنی 'ظنی' کی بھی دو نمایاں شاخیں ہیں.
.
١. ظنی الثبوت (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ارسال یا منتقلی یقینی نہیں لہٰذا اختلاف و شک کی گنجائش ممکن ہے)
٢. ظنی الدلالہ (یعنی ان کے معنی و مفہوم واضح نہیں لہٰذا مختلف مفہوم اخذ کرنے کی گنجائش ہے)

.
ہمارے سامنے جب کسی محقق کی اختلافی رائے آتی ہے تو ہم قران و سنت سے یہ جانتے ہیں کہ وہ اختلاف 'قطعی امور' سے متعلق ہے یا 'ظنی امور' سے؟ اگر پیش کردہ رائے یا اختلاف 'ظنی امور' میں سے ہے تو ہم اس کا استقبال کرتے ہیں اور علمی طور پر اس کے رد یا قبول کا فیصلہ کرتے ہیں. البتہ اگر یہ اختلاف 'قطعی امور' سے متعلق ہے تو ہم اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں اور اس کا بھرپور علمی رد کرتے ہیں.
.
کوئی بات اسی وقت 'قطعی' تسلیم کی جائے گی جب وہ دو میں سے کسی ایک زریعے سے ہم تک پہنچی ہو.
.
١. قران حکیم
٢. متواتر سنت یا احادیث
.

پہلے ذریعے یعنی قران حکیم کی بات کریں تو تمام تر امت کے نزدیک قران حکیم کی ہر ہر آیت 'قطعی الثبوت' ہے یعنی یقینی طور ہم تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ارسال ہوا ہے. البتہ علماء کی غالب ترین اکثریت کے نزدیک قران حکیم کی تمام آیات 'قطعی الدلالہ' نہیں ہیں. بلکہ کچھ 'ظنی الدلالہ' بھی ہیں. آسان الفاظ میں یہ بات تو یقینی ہے کہ تمام تر آیات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ من جانب اللہ ہیں مگر یہ بات حتمی نہیں ہے کہ ہر ہر کا صرف ایک ہی یقینی معنی ہو. یہی وجہ ہے کہ کئی آیات کے معنی و مفہوم میں مفسرین ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں. مثال کے طور پر جنت و جہنم کا قیام اسی زمین پر ہوگا یا پھر وہ آسمانوں میں واقع ہوگی؟ اس میں مفسرین کچھ آیات کی تفسیر کرتے ہوئے اختلاف کرتے ہیں. گو یہ آیات بنیادی ایمانیات یا عبادت کی اصل سے متعلق نہیں ہیں. چناچہ اس میں معنوں کا اختلاف جائز بھی ہے اور اس سے دین کی بنیاد پر کوئی ضرب بھی نہیں پڑتی. یہاں یہ بھی نوٹ کرلیجیئے کہ علماء کا ایک چھوٹا گروہ مکمل قران حکیم کو 'قطعی الثبوت' کے ساتھ ساتھ 'قطعی الدلالہ' بھی تسلیم کرتا ہے. ان کے نزدیک قران مجید کی ہر آیت کا ایک ہی حتمی معنی ہے اور اس میں مفسرین کی مختلف رائے ان کی اپنی سمجھ کی غلطی ہے.
.
دوسرے ذریعے یعنی 'متواتر سنت یا احادیث' وہ احادیث ہیں جو اتنی زیادہ تعداد میں اور اتنے زیادہ راویوں سے ہم تک پہنچی ہیں کہ ان کے سچ ہونے میں اب کسی ابہام و شک کی گنجائش نہیں. گویا کسی بات کو پہنچانے والے اتنے سارے ہوں کہ اس بات کا جھوٹ ہونا عقلی و تحقیقی دونوں حوالوں سے ناممکن بن جائے. متواتر میں ہم اخبار احاد (عام انفرادی روایت و احادیث) کی طرح راوی کی صحت کے محتاج نہیں ہوتے. لہٰذا اس کا سچ ہونا کم و بیش ایسا ہی یقینی ہے جیسا آیات قرانی کا. تواتر کی تین نمائندہ اقسام ہے.
.
١. تواتر قولی (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد جو تواتر سے ہم تک پہنچے)
٢. تواتر عملی (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل جو تواتر سے ہم تک پہنچے)
٣. تواتر تقریری (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموش اجازت جو تواتر سے ہم تک پہنچے)
.
تواتر قولی کو بھی ہم دو بڑی اقسام میں بانٹتے ہیں
.
١. تواتر بلفظی (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد لفظ بالفظ ہم تک تواتر سے پہنچا ہو)
٢. تواتر بلمعنی (یعنی کسی ایک حقیقت سے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمختلف الفاظ میں ہم تک تواتر سے پہنچا ہو)
.
گویا اب تحریر کے اس مقام پر ہمیں یہ حقیقت سمجھ آگئی کہ ہر وہ بات یا حکم جو قران حکیم یا متواتر احادیث سے ہم تک منتقل ہوا ہے، وہ قطعی نوعیت کا حامل ہے. جس میں اختلاف و انکار دینی لحاظ سے ممکن و جائز نہیں. اب رہ گیا احادیث مبارکہ کا وہ 'ظنی' حصہ جس میں صحت روایت یا درایت سمیت مختلف قرینوں سے اختلاف و انکار ممکن ہے. اسی کو 'اخبار احاد' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. اخبار احاد کے بھی اس حصے کا انکار نہیں کیا جاسکتا جو 'عمل یعنی شریعت' سے متعلق ہے. البتہ وہ اخبار حاد جن میں ایمانیات کی ضمنی تفاصیل کا بیان ہوا ہے یا کسی ماضی و مستقبل کی خبر دی گئی ہے، اس میں رائے کا اختلاف یا قبول و رد ممکن ہے. یہاں ہم اخبار احاد کے اس ذخیرے کو بھی دو اقسام میں بانٹ رہے ہیں.
.
١. ایمانیات و اخبار سے متعلق احادیث (جن میں مظبوط تر قرینے سے انکار یا اختلاف ممکن ہے)
٢. عمل یعنی شریعت سے متعلق احادیث (ظنی ہونے کے باوجود بھی مطلق رد نہیں کیا جاسکتا)

.
یہاں یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ ان ظنی اخبار احاد کو تسلیم کرنا کیوں لازمی ہے؟ جو عمل یعنی شریعت کا بیان کرتی ہیں؟ ظنی تو اپنی تعریف ہی میں قطعی نہیں ہوتا اور اس کے غلط ہونے کا ہمیشہ امکان ہوا کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عمل یا شریعت کے امور میں اخبار احاد کو ظنی ہونے کے باوجود قبول کرنا قران حکیم اور متواتر احادیث دونوں سے ثابت ہے. قران کریم میں جہاں قصاص کا حکم اور کا بیان ہوا ہے، وہاں جرم ثابت کرنے کیلئے دو گواہوں کی گواہی کو کافی کہا گیا. دو گواہ کسی بھی صورت میں 'تواتر' نہیں کہلا سکتے. اس کا امکان ہوسکتا ہے کہ وہ دو گواہ آپس میں گٹھ جوڑ کرکے جھوٹ بول رہے ہوں جسے قاضی نہ سمجھ پائے. اس غلطی کے امکان کے باوجود رب العزت نے صرف دو گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے. اگر گواہ جھوٹ بولتے ہیں تو ان کی سزا روز جزاء کو نافظ کی جائے گی. جب ہاتھ کاٹنے اور انسانی جان لینے کے اہم ترین معاملے میں دو گواہوں پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے تو ظاہر ہے لازمی طور پر کمتر شرعی معاملات میں بھی احاد گواہوں کو تسلیم کیا جاسکتا ہے. اسی طرح متواتر احادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ شرعی یا قانونی معاملات کا فیصلہ کرتے ہوئے خلفاء یا قاضیوں نے اخبار احاد سن کر اسکی بنیاد پر فیصلہ سنایا.
.
یہ اخبار احاد کا آخری حصہ ہے جو ایمانیات یا اخبار یا اذکار و عادات سے متعلق ہے اور جس کا دلیل کی بنیاد پر انکار و رد ممکن ہے. محقق دیکھتا ہے کہ بیان کردہ حدیث کہیں عقل عام یا واضح زمینی حقائق کے صریح خلاف تو نہیں؟ وہ جائزہ لیتا ہے کہ پیش کردہ حدیث صحت کے اعتبار سے کس مقام پر ہے؟ صحیح، حسن، ضعیف، موضوع، مرسل وغیرہ بہت سی تفریق ہیں جو محدثین بعد از تحقیق کرتے ہیں. اسی طرح وہ حدیث کو جانچتا ہے کہ وہ کسی قطعی حکم سے تو نہیں ٹکرا رہی؟ تطبیق کی صورت نہ ہو تو قبول نہیں کرتا. یہی وجہ ہے کہ احادیث احاد میں موجود بہت سے موضوعات جیسے امام مہدی، دجال، واقعہ معراج، رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہونا وغیرہ پر صحیح حدیث ہونے کے باوجود آپ کو محققین مختلف آراء پر کھڑے نظر آتے ہیں. ایسے موضوعات اخبار احاد کے اسی حصے سے متعلق ہوا کرتے ہیں.
.
====عظیم نامہ====

.
(نوٹ: یہ دین کے ایک ابتدائی طالبعلم یعنی راقم کی ناقص سمجھ ہے. جس میں غلطی کا امکان ہوسکتا ہے. اقسام کی شاخوں کی زیادہ تفصیل سے اختصار کی خاطر دانستہ گریز کیا گیا ہے. اہل حدیث حضرات یا دیگر محققین جیسے مکتب فراحی وغیرہ اپر درج تفصیل سے کچھ اختلاف لازمی رکھتے ہیں. تحریر کے اصل مخاطبین عوام الناس نہیں بلکہ دین کے وہ سنجیدہ طالبعلم ہیں جو عرق ریزی کا شوق رکھتے ہوں.)

Sunday, 12 November 2017

ارتقاء




جاننا چاہیئے کہ ہم حاملین قران ایک ایسے خدا کو ماننے والے ہیں جو جہاں الخالق ہے (ایک تخلیق سے دوسری تخلیق کرنے والا) وہاں وہ الفاطر بھی ہے (بناء کسی موجود مثال کے بنانے والا). جو جہاں البدیع ہے (بناء کسی شے کے وجود بخشنے والا) وہاں وہ الباری بھی ہے (آغاز کرنے والا). گویا ہم صرف اس پر اکتفاء نہیں کرتے کہ کائنات کو بنانے والا ایک رب ہے بلکہ ہم اس رب کی لامحدود قوت کے قائل ہیں. ہم یہ مانتے ہیں کہ تخلیق کیلئے وہ رب چاہے تو کسی ایک طریق کو اپنائے، چاہے تو کسی دوسرے طریق کو اپنالے، چاہے تو کسی کے ذریعے تخلیق کا کام لے اور چاہے تو بناء ذریعے تخلیق کردے. آج جب معروف ملحد سائنسدان 'پروفیسر لارنس کراس' اپنی کتاب 'یونیورس فرام نتھنگ' میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات 'کچھ نہیں' سے وجود میں آگئی تو تمام ناقدین نفی میں مسکرانے لگتے ہیں. مگر بحیثیت مسلم ہم سب اس کے قائل ہے کہ ہمارے رب نے کائنات کو عدم (کچھ نہیں) سے وجود بخشا ہے. ہمارا رب وہ ہے جو 'کن فیکون' سے بھی چیزوں کو وجود میں لاتا ہے اور ارتقائی سفر سے گزار کر بھی چیزوں کو روپ دیتا ہے. وہ عموم میں ماں باپ کے زریعے اولاد کو دنیا میں لاتا ہے. مگر اگر چاہے تو عیسیٰ علیہ السلام کو بناء باپ کے پیدا فرمادیتا ہے اور آدم علیہ السلام کو ماں باپ دونوں کے بناء وجود بخش دیتا ہے. وہی تو ہے جو اپنے اذن سے عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں مٹی کے پرندوں کو زندہ فرما دیتا ہے. ابراہیم علیہ السلام کے لئے ذبح شدہ پرندوں کے اعضاء جوڑ کر انہیں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اصحاب الکہف کو موت نما نیند سے سینکڑوں سال تک سلا کر جگا دیتا ہے. اس تمام تمہید کو بیان کرنے کا فقط یہی مقصد ہے کہ ہم مسلمانوں کیلئے اہم یہ ہے کہ اس کائنات کو ، مخلوقات کو اور بلخصوص ہم انسانوں کو رب کریم نے پیدا فرمایا ہے. اب انہوں نے تخلیق کرنے کا جو بھی طریق ابتداء میں اختیار کیا ہو، یہ جاننا ہمارے ایمان سے متعلق نہیں ہے بلکہ ایک ضمنی و ظنی موضوع ہے. جب یہ واضح ہوگیا تو ان شاء اللہ اب ہم اپنے موضوع کی جانب آتے ہوئے ان ممکنہ طریقوں کو جاننے کی کوشش کریں گے جو مختلف مسلم اہل علم 'تخلیق انسان' کے متعلق اختیار کیئے ہیں. 

Sunday, 5 November 2017

سورہ الفیل اور ہاتھی


سورہ الفیل اور ہاتھی


سوال:
سورہ الفیل میں جو ہاتھی والو کا ذکر ہوا ہے، وہ صحرا میں کیسے رہ سکے؟ صحرا کا موسم ہاتھوں کیلئے موافق نہیں ہے؟ پھر ہاتھی یمن سے مکہ سینکڑوں میل کا فاصلہ کیسے طے کرپائے؟ ہاتھیوں کیلئے اتنے پانی کا بندوبست کیسے کیا گیا؟
.
جواب:
یہ سوال نیا نہیں ہے اور ملحدین کی جانب سے دیگر اعتراضات کی طرح ماضی میں کیا جاتا رہا ہے۔ یقین نہ آئے تو گوگل کرکے دیکھ لیجیئے۔ چنانچہ اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہمیں یہ جاننے میں دلچسپی ضرور ہوگی کہ پوچھنے والا کوئی مسلم ہے یا ملحد؟ اگر ملحد ہے تو اس سوال کا جواب دینا کوئی خاص سودمند ثابت نہیں ہوگا. وجہ یہ ہے کہ جب تک اس سے بنیادی سوالات جیسے وجود خدا اور رسالت پر اتفاق نہیں ہوگا تب تک اس طرح کے سوالات ختم نہ ہونگے. ایک سوال کا جواب ملے گا تو وہ دوسرا پوچھے گا اور دوسرے کا جواب دو گے تو وہ تیسرے پر چھلانگ لگا دے گا. گویا جب تک ترتیب سے پہلے بنیادی سوالات کے جوابات اسے حاصل نہیں ہوں گے تب تک اس کا دماغ نت نئے سوالات اور الجھنیں تراشتا ہی رہے گا. لیکن اگر پوچھنے والا ملحد نہیں مسلم ہے تب ہمیں اعتماد ہے کہ پوچھتے وقت اس کا مقصد فقط قرانی آیات پر تفکر و تدبر ہے. ایسے میں اسے اس واقعہ کے سچ ہونے میں ذرا بھی شائبہ نہ ہوگا. ہم یہاں یہ تصور کررہے ہیں کہ پوچھنے والا ایک مسلم ہے اور یہی ملحوظ رکھتے ہوئے کچھ گزارشات پیش کیئے دیتے ہیں. 
.
تمہید میں دو باتیں بتانا بھی ضروری ہیں. پہلی بات یہ کہ سورہ الفیل میں جس واقعہ کا ذکر ہوا ہے وہ عرب دنیا میں نزول قران سے قبل معروف تھا. اس کی دلیل کسی تاریخی کتاب سے بھی زیادہ یہ بنتی ہے کہ وہ مشرکین مکہ یا اہل کتاب جنہوں نے معمولی سے معمولی بات پر بھی شدید الزامات لگائے، رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم، امہات المومنین، صحابہ اکرام رضی اللہ اجمعین کی ہر طرح سے کردار کشی کی، قران حکیم کی مختلف آیات پر جی بھر کے اعتراضات کیئے. انہوں نے اس واقعہ کو نہ جھوٹ کہا نہ جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش کی. ایسا تب ہی ممکن ہے جب وہ اس واقعہ کی صحت کے پہلے ہی قائل ہوں یا ان تک اسکی اطلاع پہلے سے موجود ہوں. زمانہ جاہلیہ کی شاعری میں بھی اس واقعہ کے اشارے موجود ہیں. جیسے ابو قیس سیفی اپنی نظم میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ کیسے خدا نے ابی سینیا کے ہاتھی والے لشکر پر کنکر برسائے اور کیسے ہاتھیوں نے تشدد کے باوجود کعبہ کی طرف پیش قدمی نہیں کی. اس نظم کا انداز، الفاظ، اسلوب اور واقعہ کی تفصیل سب قران حکیم سے کئی حوالوں میں مختلف ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابو قیس کی شاعری قران مجید سے ہٹ کر ہے. چانچہ محققین کے نزدیک غالب امکان یہی ہے کہ اس نظم کا زمانہ قبل از نزول قران ہے.
.
دوسری بات یہ کہ سورہ میں 'ہاتھی والو' کا ذکر ہوا ہے. ان ہاتھیوں کی کیا تعداد تھی؟ یہ نہیں بتایا گیا. جہاں مفسرین بہت سے ہاتھیوں کے اس لشکر میں شامل ہونے کی بات کرتے ہیں. وہاں کئی نمائندہ مفسرین کے نزدیک اس لشکر میں صرف ایک ہاتھی تھا جسے یمن کے ایک ابراہہ نامی بادشاہ نے پکڑوایا اور سدھایا تھا. کہاں سے پکڑوایا تھا؟ اسکی تفصیل نہیں ملتی۔ گویا ہاتھی ایک تھا یا زیادہ دونوں امکانات ہوسکتے ہیں. کیا یمن میں یا یمن کے نزدیکی علاقے میں کبھی ہاتھی موجود تھے؟ یا اسے کسی دور دراز کے علاقے سے پکڑ کر بحری راستے سے یمن منتقل کیا گیا؟ ہم نہیں جانتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہاتھی کو یمن (صنعا) کی بجائے کسی اور علاقے/ ملک میں رکھا گیا ہو جہاں سے حملے کے موقع پر اسے لایا گیا ہو. ماضی میں ایسی کئی مثالیں ہمیں مل جاتی ہیں جب ہاتھی سمیت دیگر جانوروں کو جنگی مقاصد کیلئے کسی ایسے ملک لایا گیا جہاں ان کا پہلے وجود نہ تھا اور جہاں کا موسم ان کیلئے موزوں نہ تھا. ایسے میں ان کی افزائش کیلئے خصوصی انتظامات کیئے جاتے ہیں. یمن یا عرب میں چونکہ ہاتھی لشکروں میں شامل نہیں ہوا کرتے تھے یا کم از کم عام نہ تھے، اس وجہ سے ابراہہ کے لشکر میں ہاتھی کا ہونا ایک غیرمعمولی بات تھی اور اسی لئے لشکر کا نام ہی ہاتھی والا لشکر کہلانے لگا.
.
اب پوچھے جانے والے سوالات کی جانب آتے ہیں. پہلے دو سوالات کو اگر ایک سوال میں جمع کردیا جائے تو پوچھا یہ جارہا ہے کہ ہاتھی چونکہ صحرائی جانور نہیں ہے اسلئے وہ صحرا میں کیسے رہ سکتا ہے؟ اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ پوچھنے والا شائد افریقی نسل کے صحرائی ہاتھیوں سے واقف نہیں ہے. یہ ایشیائی ہاتھی کے مقابل قدرے چھوٹے صحرائی ہاتھی صحرا ہی میں بستے ہیں اور اب ان کی نسل کم سے کم ہوتی جارہی ہے. گو یہ آج بھی چھ سو کے قریب موجود ہیں آج بھی نمیبیا اور مالی کے افریقی ممالک میں یہ صحرا میں رہتے ہیں. گویا کسی خاص نسل کے ہاتھی کا صحرا میں زندہ رہ لینا کوئی انوکھی بات نہیں ہے. ایک اور سوال یہ پوچھا گیا ہے کہ ہاتھیوں کیلئے اتنے پانی کا بندوبست کیسے کیا گیا؟ اسی افریقی صحرائی ہاتھی ہی کی مثال لے لیجیئے تو یہ قدرتی طور پر تین دن تک بناء پانی پیئے چلنے کی استعداد رکھتا ہے. ساتھ ہی یہ اپنی پیاس اور بھوک ان صحرائی پودوں سے باآسانی پوری کرلیتا ہے جو اپنے اندر قدرتی طور پر لیس دار پانی رکھتے ہیں. ان کی رفتار بھی صحرا کے حساب سے حیرت انگیز طور پر تیز رہتی ہے. یوں تو ان پر بیشمار دستاویزات یا دستاویزی فلمیں موجود ہیں مگر ہم قارئین کی آسانی کیلئے ایک چھوٹا سا ویڈیو کلپ پہلے کمنٹ میں شیئر کررہے ہیں. 
.
آخر میں یہ ضرور سمجھ لیجیئے کہ یہ جواب فقط ایک ممکنہ صورت کی طرف نشاندھی ہے. حقیقت میں ہاتھی ایک تھا یا دس؟ وہ خود چل کر آیا تھا یا بحری جہاز سے؟ اپنی پیاس واقعی صحرائی پودوں سے بجھاتا تھا یا لشکر میں اس کے لئے پانی کا کوئی خاص انتظام تھا؟ اسے ہم میں سے کوئی نہیں جانتا اور ایسے سوالات میں بلاوجہ سر کھپانے کی چنداں کوئی ضرورت بھی نہیں ہے. زمانہ جاہلیہ کی شاعری میں بھی اس واقعہ کے اشارے موجود ہیں. جیسے ابو قیس سیفی اپنی نظم میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ کیسے خدا نے ابی سینیا کے ہاتھی والے لشکر پر کنکر برسائے اور کیسے ہاتھیوں نے تشدد کے باوجود کعبہ کی طرف پیش قدمی نہیں کی. اس نظم کا انداز، الفاظ، اسلوب اور واقعہ کی تفصیل سب قران حکیم سے کئی حوالوں میں مختلف ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابو قیس کی شاعری قران مجید سے ہٹ کر ہے. چانچہ محققین کے نزدیک غالب امکان یہی ہے کہ اس نظم کا زمانہ قبل از نزول قران ہے. کچھ جیالوجسٹ بتاتے ہیں کہ موجودہ یمن اور چودہ سو برس قبل کے یمن کی سرحدوں میں خاصہ فرق تھا. بہت سے علاقے جو پہلے یمن کہلاتے تھے، مختلف جنگی کاروائیوں کے نتیجے میں اب یمن نہیں کہلاتے. محمد العمری جو کنگ سعود یونیورسٹی میں ہیڈ آف جیالوجی ہیں، انہوں نے باقاعدہ اپنی تحقیق میں ابراہہ کے اس ہاتھی والے لشکر کا پورا راستہ ڈھونڈھ کر پیش کرنا چاہا ہے. اس راستے میں مختلف جگہ 'ہمیریا' زبان میں درج نقوش و کلمات ملے ہیں جو انکی تحقیق کو تقویت دیتے ہیں. نجران کے رستے پر ملنے والے نقوش کا ایک نمونہ پہلے کمنٹ کے نیچے دیا جارہا ہے. اب اس تحقیق میں کتنا سچ ہے اور کتنا ابہام؟ اسے کماحقہ جاننے کا دعویٰ راقم نہیں کرسکتا. اسکے لئے اتنا کافی ہے کہ یہ واقعہ دنیا کی سب سے مستند کتاب قران الحکیم میں درج ہے.
.
====عظیم نامہ====

https://www.youtube.com/watch?v=U0v5MIdyxZc

Wednesday, 1 November 2017

لڑکا ہوں مگر مجھے بچپن سے لڑکے پسند ہیں


لڑکا ہوں مگر مجھے بچپن سے لڑکے پسند ہیں

 سوال:

السلام علیکم. بہت ہمت کرکے یہ سوال پوچھ رہا ہوں. میں چوبیس برس کا ایک لڑکا ہوں لیکن مجھے بچپن سے لڑکے ہی پسند ہیں. مجھے لڑکیوں سے ذرا بھی جنسی لگاؤ محسوس نہیں ہوتا بلکہ خود اپنا ظاہر اور باطن لڑکی جیسا محسوس ہوتا ہے. میں نے نارمل ہونے کی بہت کوشش کی مگر میری دلچسپی مردوں ہی کی جانب ہوتی ہے. شرمندگی سے بتا رہا ہوں کہ ایک بار ہم جنسی کا ارتکاب بھی کیا ہے. اسلام میرے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کیا اس گندے عمل کے بعد بھی میں مسلمان کہلاسکتا ہوں؟ کیا ہم جنسی کی کوئی گنجائش ہے؟ کیا میں سیکس چینج آپریشن کروا سکتا ہوں؟ میری شادی کی عمر ہے، کیا میں شادی کرسکتا ہوں؟ مجھے خود سے نفرت ہوتی ہے، میں خود کو کیسے بدل سکتا ہوں؟
.
جواب:
وعلیکم السلام. سب سے پہلے تو مبارکباد قبول کریں کہ آپ میں یہ احساس موجود ہے کہ یہ عمل یا رجحان غلط ہے اور آپ کو اپنی تصحیح کرنی ہے. یہ آپ کے رب کا آپ پر احسان ہے کہ اس نے آپ کو اس احساس سے مزین رکھا ہے. یقین کیجیئے بیشمار افراد ایسے ہیں جو بڑی بڑی برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں مگر ساری زندگی اس کی سنگینی کا احساس ہی نہیں کرتے یا اسے جسٹیفائی کرتے رہتے ہیں اور یوں ہی مرجاتے ہیں. میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ ایک مسلسل کرب سے گزر رہے ہیں اور اس سچویشن سے نکلنا آپ کے لئے نہایت کٹھن ہے. میں عالم دین نہیں ہوں بلکہ دین کا ایک معمولی طالبعلم ہوں. لہٰذا ایک طالبعلم اور آپ کے خیر خواہ کی حیثیت سے کچھ گزارشات اپنی ناقص سمجھ کے مطابق لکھے دیتا ہوں.
.
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ آپ الحمدللہ مسلم ہیں. کسی شیطان کو یہ نہ بتانے دیجیئے کہ آپ مسلم نہیں. لہٰذا ذکر، عبادت اور دین کے دیگر شعائر کا اسی طرح بھرپور اہتمام کیجیئے جیسے کے ایک مسلم کو کرنا چاہیئے. جس طرح سود، زنا سمیت دیگر کبیرہ گناہوں کا مرتکب انسان غیرمسلم نہیں ہوتا. ٹھیک اسی طرح ہم جنسی جیسے کریہہ عمل کے ارتکاب سے آپ غیر مسلم نہیں ہوجاتے. البتہ یہ ایک بہت بہت بڑا گناہ ہے. ایک ایسا غلیظ گناہ جس سے فوری توبہ لازمی ہے. آپ کے ساتھ تو بچپن سے جسمانی و نفسیاتی طور پر یہ رجحان غیر اختیاری طور پر چمٹے رہے ہیں. ورنہ ایسے بھی ہیں جو مذہبی چوغہ پہن کر بچوں سے ہم جنسی کربیٹھتے ہیں. لہٰذا اس گندے عمل سے توبہ کی فکر ضرور کیجیئے مگر اسے دین چھوڑنے کا سبب نہ بننے دیجیئے.
.
ہم جنسی کے اس رجحان کی دو ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں. پہلی نفسیاتی اور دوسری جسمانی. بہت سے اہل علم کے مطابق اصل وجہ تمام یا اکثر کیسز میں صرف نفسیاتی ہی ہوا کرتی ہے مگر اس وقت ہم دونوں زاویوں سے بات کو دیکھ لیتے ہیں. اگر وجہ جسمانی ہے جیسے آپ کے جنسی اعضاء میں کوئی نقص ہے یعنی کچھ زنانہ اور کچھ مردانہ ہے تو ایسے میں آپ کو فوری طور پر میڈیکل ایکسپرٹس سے رجوع کرنا چاہیئے. ایسی صورت میں سیکس چینج آپریشن کیا جاسکتا ہے تاکہ کسی ایک جنس کا تعین ہوسکے. یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی بچہ جینیٹک ڈیزیز یا معذوری کے ساتھ پیدا ہو اور جسے آپریشن سے ٹھیک کیا جائے. ایسی انتہائی صورت میں علماء کی ایک جماعت اس کی اجازت دیتی ہے اور دوسری مخالفت کرتی ہے. میں خود اجازت کا قائل ہوں. باقی مزید تحقیق کی جاسکتی ہے.
.
لیکن اگر مسئلہ دوسرا ہو یعنی وجہ جسمانی بلکل نہ ہو بلکہ فقط نفسیاتی ہو تو ایسے میں توبہ اور تزکیئے ہی کو راستہ بنانا ہوگا. اس عمل سے آئندہ بچنے کو یقینی بنائیں. خدا نہ کرے کہ بہت کوشش کے بعد بھی یہ گناہ کبیرہ سرزد ہوجائے تو اس پر پشیمان رہیں. ہم جنسی کو کبھی جسٹیفائی نہ کریں. اس کا اعلان نہ کرتے پھریں بلکہ اسے ایک کریہہ گناہ جان کر اسے چھوڑنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں. یاد رکھیں کہ اپنے گناہ پر بناء اشد ضرورت گواہ نہ کیجیئے. اسی میں عافیت ہے کہ گناہ بندے اور اسکے رب کے درمیان ہی رہے. پھر گناہ کا اعلان سرکشی اور تکبر کی علامت ہے جو بارگاہ الہی میں آخری درجے کا جرم ہے. میں سمجھتا ہوں کہ جنسی میلانات انسان میں بہت شدید ہوا کرتے ہیں. بالخصوص عمر کے اس حصے میں جس میں آپ ہیں. مگر ان میلانات سے بھی زیادہ طاقتور آپ کا وہ ارادہ و اختیار ہے جو رب نے فطرت میں ودیعت کررکھا ہے. ایسے بھی بیشمار لوگ ہیں جو ساری عمر شادی نہیں کرتے. آپ بھی اس وقت تک شادی نہ کیجیئے جب تک خود کو نارمل محسوس نہ کرنے لگیں. ایسی حالت میں کسی لڑکی سے شادی کرنا اسکی زندگی تباہ کردینے کے مصداق ہوگا. ایک مثال لیجیئے کہ آپ کے کسی ہم عمر دوست کو اپنی والدہ کے ساتھ ایک گھر میں تیس چالیس سال کیلئے قید کردیا جاتا ہے. کیا ایسی صورت میں اس مرد کا معاز اللہ ثم معاز اللہ اپنی والدہ سے جنسی تعلق پیدا کرلینا درست قرار پائے گا؟ ظاہر ہے کہ نہیں. ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیونکہ اس لڑکے میں جنسی میلان شدید ہے اسلئے کوئی حرج نہیں. ہم اسے یہی نصیحت کریں گے کہ وہ اسے اپنے نفس کا امتحان سمجھ کر صبر کرے. ٹھیک اسی طرح آپ کو بھی ایک امتحان کا سامنا ہے جو مشکل ضرور ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں ہے. بحیثیت مسلمان آپ یہ خوب جانتے ہیں کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے جہاں کبھی بیماری سے، کبھی غربت سے اور کبھی مختلف میلانات سے آزمایا جاتا ہے. اس ضمن میں کسی نفسیاتی ماہر یا ھپناسس ایکسپرٹ سے کچھ کونسلنگ سیشن لینا بھی آپ کی اس اندرونی جنگ میں ان شاء اللہ معاون ثابت ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے اپنے امتحان میں سرخروئی نصیب فرمائے آمین.
.
====عظیم نامہ====

.
(اس سوال کو راقم نے ماضی میں پوچھے کئی سوالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے خود مرتب کیا ہے)