Wednesday, 17 May 2017

پاکستانی ڈرامے





یہcreativity کا قحط اور اندھی تقلید کا ثبوت ہےکہ ہر پاکستانی، گھر میں پلے سبز طوطےکا نام صرف "مٹھو" ہی رکھتا ہے



بہترین پاکستانی ڈرامے ثابت کرتے ہیں کہ انڈیا ہم سے زیادہ فلمی ضرور ہےمگرہم سے بڑا ڈرامہ باز نہیں !






ہیرو اور ولن

 ہیرو اور ولن



فلموں ڈراموں میں کہانی ہیرو اور ولن میں منقسم ہوتی ہے۔ گویا ایک شخص 'مسٹر پرفیکٹ' یعنی ہیرو ہوتا ہے جبکہ دوسرا 'مسٹر بیڈ' یعنی ولن ہوتا ہے۔ حقیقی زندگی اسکے برعکس ہے۔ یہاں نہ تو کوئی مکمل ہیرو ہے اور نہ ہی کوئی کامل ولن۔ ہر ہیرو میں ایک ولن اور ہر ولن میں ایک ہیرو چھپا بیٹھا ہے۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو کردار میں بیک وقت ہیرو اور ولن دونوں ہیں۔ فرق فقط تناسب کا ہے کہ کس میں ہیرو کی شرح و تناسب زیادہ ہے اور کس میں ولن کی؟ آج کا ہیرو کل کا ولن ہوسکتا ہے اور کل کا ہیرو آج کا ولن۔ کہانی ابھی باقی ہے میرے دوست ! 😎
۔
 ====عظیم نامہ====

جواب


جواب 



باپ نے ننھے سے بیٹے کو سمجھایا "بیٹا دیکھ بھال کر احتیاط سے چلا کرو"۔ بیٹے نے جواب دیا "بابا آپ بھی دیکھ بھال کر احتیاط سے چلا کیجئے۔ میں آپ ہی کے نقش قدم پر چلتا ہوں"۔ 
۔
 گوشت کی دکان پر کسی خریدار نے قصائی سے پوچھا "میاں حلال تو ہے نا؟" ۔۔۔ قصائی نے بھی خریدار سے پیسے لیتے ہوئے یہی سوال دہرا دیا۔ "میاں ۔۔۔ حلال تو ہے نا؟"

LUCKY


LUCKY 



محنت، ذہانت اور موقع شناسی۔ ان تینوں کا مل بیٹھنا آپ کو صحیح معنوں میں 'خوش نصیب' یعنی LUCKY بناتا ہے۔ ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی کم ہو تو خوش قسمتی اول تو پاس نہیں پھٹکتی اور اگر آبھی جائے تو بہت جلد روٹھ جاتی ہے۔ اگر دنیا میں کامیاب انسان اور LUCKY بننا چاہتے ہیں تو ان تینوں کو مستقل اختیار کر لیجیئے۔ 
۔
 ====عظیم نامہ====

رمضان کی آمد


رمضان کی آمد



رمضان کی آمد ہے۔ جب دارالدعوہ یعنی انگلینڈ جیسے غیر مسلم ممالک میں روزمرہ کی اشیاء نہایت سستی کردی جائیں گی اور دارالمسلمین یعنی پاکستان جیسے ممالک میں قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگیں گی۔ جب رمضان کے احترام میں مغرب میں بسے غیرمسلم، مسلمانوں کا ہر ممکن ساتھ دینے کی کوشش کریں گے۔ بہت سے تو یکجہتی میں روزہ بھی رکھیں گے مگر وطن عزیز پاکستان میں گیم شوز کی آڑ میں اسلام بلکہ انسانیت کی تذلیل کی کوششیں ہونگی۔ 'کیو موبائل' اور 'فردوس کی لان' بھکاریوں سے بدتر جھپٹتے، خوشامدیں کرتے تماشائیوں میں تقسیم ہوگی۔ "آم کھائے گا آم؟" جیسی تحقیر سے اس عوام کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بلکہ یہ اس بار بھی ایک موٹر سائیکل کیلئے اپنا تشخص، اپنی عزت نفس سب پامال کرنے کو تیار ہونگے۔ گوٹے لگے چمکیلے کرتوں میں ملبوس میکپ زدہ مولوی بھی نظر آئیں گے اور سارا سال رقص و سرور میں مشغول "آرٹسٹ" بھی آپ کو دین کے دقیق نکات سیکھائیں گے۔ کچھ فنکار تو طاق راتوں میں ایسی دل سوذ اجتماعی دعا بھی کروائیں گے کہ عوام کی بالعموم اور خواتین کی بالخصوص ہچکیاں بندھ جائیں گی۔ افطار سے پہلے مذہبی رنگ ضرور ہوگا مگر فکر نہ کیجیئے افطار کے فوری بعد تین چیزوں کا خصوصی اہتمام ہوگا یعنی ۔۔۔ انٹرٹینمنٹ ۔۔۔ انٹرٹینمنٹ ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ انٹرٹینمنٹ۔ 
۔
 ====عظیم نامہ====

انگریزی


انگریزی 



انگلینڈ آنے سے قبل میں واجبی سی انگریزی جانتا تھا. بچپن سے مجھے انگریزی میں مہارت حاصل کرنے کی تلقین کی جاتی رہی. کبھی مجھے بچوں کی انگریزی کہانیوں کی کتابیں لا کر دی جاتی اور کبھی والدہ کا اصرار ہوتا کہ میں اپنے ان کزنز سے انگریزی میں بات کیا کروں جو 'او لیول' کررہے تھے. مگر ہم ڈھیٹ ہڈی تھے یا یوں کہیئے کہ اردو کے دلدارہ تھے اسلئے انگریزی کبھی سیکھ کر نہ دی. انجینئرنگ یونیورسٹی میں بھی انگریزی لٹریچر فارم کی بجائے 'بزم ادب' کی ذمہ داری لے لی. حال یہ تھا کہ دوست یار جو فن خطابت میں ساتھ تھے مجھے 'اردو کی توپ' کہہ کر پکارنے لگے. غرض یہ کہ ہماری زندگی میں ساری محبت اردو کیلئے اور تمام فاصلے انگریزی زبان کیلئے وقف تھے. جب انجینئرنگ سے فراغت کا وقت آیا تو ماسٹرز ڈگری لینے کیلئے انگلینڈ جانے کا ارادہ کیا. معلوم ہوا کا کسی بھی بہتر یونیورسٹی میں داخلے کیلئے انگریزی زبان کا ایک انٹرنیشنل امتحان پاس کرنا ہوگا جسے ' آئی ایلٹس' یعنی 'انٹرنیشنل انگلش لینگویج ٹیسٹنگ سسٹم' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. اس کا مارکنگ سسٹم بھی نمبرز پر نہیں بلکہ 'بینڈز' پر تھا. کل ملا کر ٩ بینڈز ہوتے ہیں جن میں سے یونیورسٹی میں داخلے کیلئے مجھے کم از کم 6 (چھ) بینڈز لانے تھے. یہ ٹیسٹ چار مختلف مراحل میں منقسم تھا یعنی انگریزی پڑھنا، انگریزی لکھنا، انگریزی سننا اور انگریزی بولنا. ان سب میں الگ الگ بینڈز ملتے ہیں اور پھر مجموعی بینڈ اوسط نکل کر طے کیا جاتا ہے.ہمیں اپنی انگریزی کا حال خوب معلوم تھا لہٰذا یہ ٹیسٹ کسی زندگی موت کے معرکے جیسا معلوم ہورہا تھا. کوئی مہینے دو مہینے کا کورس کرکے ٹیسٹ کے تین حصوں میں تو کسی قدر اعتماد حاصل ہوا مگر چوتھا مرحلہ یعنی انگریزی بولنے کا سوچ کر بھی غش آتا تھا. خیر اللہ اللہ کر کے وہ دن بھی آگیا جب ہم برٹش کونسل کراچی میں اپنا انگریزی بولنے کا امتحان دینے پہنچے. کچھ انتظار کے بعد ایک کمرے میں بلالیا گیا. اندر داخل ہوا تو ایک ایک بوڑھا انگریز میز کے پیچھے کرسی پر براجمان تھا. انگریز دیکھ کر ہمارے اور اوسان خطا ہوگئے. رسمی سے ہیلو ہائے کے بعد اس نے انگریزی میں سوال و جواب شروع کئے. 
.
 اس کا لہجہ سمجھنا دشوار ہورہا تھا. کچھ ماحول کا اثر، کچھ ہماری خستہ انگریزی کا قصور اور کچھ اس انگریز کی بے اعتناعی نے مجھے پےدرپے گرامر کی غلطیوں پر مجبور کردیا. اٹک اٹک کر جواب دیتے ہوئے مجھے یقین ہوچلا تھا کہ میں فیل ہونے جارہا ہوں. ایسے میں اس انگریز نے بیزاری سے کہا کہ سامنے رکھے مرتبان میں سے کوئی بھی پرچی نکال لو اور اس پر جو بھی موضوع درج ہو، اس پر انگریزی میں ایک چھوٹی سی تقریر یا گفتگو کرو. یہ سنتے ہی ہم نے پرچی نکالی، عنوان کچھ ثقافت سے متعلق تھا. پرچی نکالتے ہی اندر کا مقرر بیدار ہوگیا اور بناء کسی ہچکچاہٹ ہم نے انگریزی میں پورے زور و شور سے تقریر کر ڈالی. وہ انگریز چونک کر پوری طرح سے میری جانب متوجہ ہوگیا، میری نظر میں بھی اب وہ ایک خوفناک انٹرویو لینے والا ممتحن نہیں تھا بلکہ فقط ایک ناظر و سامع بن چکا تھا. چانچہ ہم نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تقریر کی اور تب ہی رکے جب اس نے خود روکا. امتحان ختم ہوا اور ہم بجھے دل سے گھر واپس آگئے. دل میں احساس تھا کہ باقی مراحل میں تو چھ بینڈز کی اوسط شائد آجائے گی مگر اس مرحلے یعنی انگریزی بولنے میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. کچھ ہفتوں بعد گھر پر نتیجہ موصول ہوا، دھڑکتے دل سے لفافہ کھولا تو فرط حیرت سے گنگ ہوگیا کہ انگریزی بولنے کے اس مرحلے میں مجھے ٩ میں سے '٨' (آٹھ) بینڈ دیئے گئے تھے !! جو میرے انگریزی کے استاد کے بینڈ اسکور سے بھی زیادہ تھے. باقی میں بینڈز پانچ یا چھ کے اسکور میں منقسم تھے اور اگر مجھے انگریزی بولنے کے اس مرحلے میں یہ غیر معمولی اسکور حاصل نہ ہوا ہوتا تو کبھی میں مطلوبہ اوسط حاصل نہ کرپاتا. یقیناً یہ رب ہی کا انعام تھا مگر اس انعام کا ذریعہ شائد وہ پراعتماد تقریر بنی جس نے ممتحن کو گرویدہ کردیا. میں نے سیکھا کہ کلام کا حسن بعض اوقات کلام کے سقم پر پردہ ڈال دیتا ہے. یہ بھی کہ انسان اکثر اسی پر یقین کرتے ہیں جو انہیں نظر آتا ہے. اگر آپ پراعتماد نظر آئیں گے تو لوگ آپ کو پراعتماد تسلیم کرلیں گے. چاہے اندر سے آپ کتنے ہی لرزہ اندام کیوں نہ ہوں؟
.
 ====عظیم نامہ====

Thursday, 4 May 2017

رضا میں راضی


رضا میں راضی



میرے ایک قریبی دوست کا گھرانہ دینی ماحول کا نمونہ ہے. یہاں صوفیانہ رنگ غالب ہے. ایک ایسا گھر جہاں فی الواقع دین پہلی ترجیح نظر آتا ہے. مجھے یاد ہے کہ شروع دنوں میں جب ان کے گھر پڑھائی کیلئے رات کو رکنا ہوا تو کچھ دیر کیلئے آنکھ لگ گئی. آنکھ کھلی تو دیکھا گھر میں خوب چہل پہل ہے، کوئی وضو کررہا ہے تو کوئی نماز کی تیاری میں مصروف ہے. میں بھی جلدی سے اٹھا کہ ایسا نہ ہو صرف میں ہی فجر سے محروم رہ جاؤں. وضو کرکے جب نماز کو تیار ہوا تو منکشف ہوا کہ یہ وقت فجر کا نہیں ہے ! بلکہ تہجد کا ہے اور سب اسی کی تیار میں جاگے ہوئے ہیں. سبحان اللہ. 
.
 خیر ان دنوں یہ معمول بنا رہا کہ ہم دوست کبھی میرے گھر پر اور کبھی اس دوست کے گھر پر پڑھائی کی نیت سے جمع ہوجاتے. اسی طرح ایک موقع پر دوست کے چھوٹے بھائی نے داخلے کیلئے مختلف اداروں میں اینٹری ٹیسٹ دیئے. حسن اتفاق سے اسے دو بڑی یونیورسٹیوں میں قبول کرلیا گیا. اب مرحلہ یہ تھا کہ کون سی یونیورسٹی کا انتخاب کیا جائے؟ سب بڑے سر جوڑ کر بیٹھے، مذاکرے ہونے لگے. مجھے بھی مشورے میں شریک کیا گیا. سب نے خوب سوچ بچار کرکے ایک یونیورسٹی کے حق میں فیصلہ کیا. مجھ سمیت سب کا اسی پر اتفاق ہوگیا. دوست کا بھائی بھی خوب مطمئن تھا کہ اچانک اسی وقت کسی نے آکر بتایا کہ جن شیخ سے استخارے کا کہا گیا تھا، انہیں اشارہ اس دوسری یونیورسٹی کے حق میں ملا ہے جو ہم سب کی متفقہ پسند کے خلاف ہے. میں نے یہ سنا تو ایک لمحہ کو دھچکا لگا کہ اب کیا ہوگا؟ مگر یہ دیکھ کر ناقابل یقین سی حیرت ہوئی کہ پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی. سب ایک دوسرے کے گلے لگ کر مبارکباد دینے لگے. کسی نے مجھے بھی گلے لگا لیا. میں نے کن انکھیوں سے دوست کے بھائی کو دیکھا تو حیرت مزید بڑھ گئی. وہ مٹھائی کھا اور کھلا رہا تھا. چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا. میں حیران تھا کہ کیسے یہ انسان ابھی ایک لمحہ قبل ایک یونیورسٹی میں داخلے پر مسرور تھا اور اب استخارہ میں دوسری یونیورسٹی کا سن کر دگنا خوش ہے؟. کچھ توقف کے بعد میں یہ سمجھ پایا کہ اسی کو توکل یا رضا میں راضی ہونا کہتے ہیں. اس دن مجھے بندگی کا صحیح مفہوم نظر آیا کہ جب استخارہ کے ذریعے یہ اطمینان ہوگیا کہ خیر کا اشارہ ان کی پسند کے برعکس ہے، تب بھی انہیں اسے قبول کرنے میں ذرا دقت نہ ہوئی بلکہ وہ مزید خوشی میں سرشار ہوگئے. 
.
====عظیم نامہ====
.
 نوٹ: قارئین سے استدعا ہے کہ تحریر کا مقصد یہ قطعی نہیں کہ ہم یہ فیصلہ کرنے لگیں کہ استخارہ کرنا چاہیئے تھا یا نہیں؟ یا پھر استخارہ خود کیوں نہ کیا؟ شیخ سے کیوں کروایا؟ میں خود اسی کا قائل ہوں کہ استخارہ دعا ہے جو انسان کو خود ہی کرنی چاہیئے. لیکن جیسا عرض کیا کہ یہاں یہ موضوع نہیں بلکہ مومن کا وہ رویہ موضوع ہے جو اسے خدا کی رضا کے سامنے اختیار کرنا چاہیئے.

Monday, 1 May 2017

بیت بازی


بیت بازی


کراچی شہر کے رہائشیوں کیلئے 'کراچی کلب' کا نام اجنبی نہیں ہے. یہ ایک ایسا کلب ہے جس کی ممبرشپ حاصل کرنا قریب قریب ناممکن ہوتا ہے. اس کے ممبران میں بڑے بڑے ججز، فوجی جرنیل، نامور کاروباری حضرات، بیوروکریٹ اور سیاستدان وغیرہ شامل ہیں. بیشمار لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس کلب کے ممبر بن سکیں تاکہ ان کا اٹھنا بیٹھنا بھی پاکستان کی ایلیٹ کلاس میں ہو. لوگوں کے پاس پیسے کی کمی نہیں مگر اسکے باوجود کلب کی ممبر شپ آسانی سے اوپن نہیں کی جاتی. خیر جناب یہ میں کیا تفصیل لے کر بیٹھ گیا؟ اصل مطلوب تو آپ کو اپنی یونیورسٹی کے دنوں کا ایک چھوٹا سا دلچسپ واقعہ سنانا ہے. میں سرسید یونیورسٹی کراچی کی بزم ادب کا مرکزی منتظم ہوا کرتا تھا. ان ہی دنوں یونیورسٹی کے چانسلر زیڈ اے نظامی، میجر جنرل غلام عمر اور معروف ادبی شخصیت مظہر علی عارف صاحب نے میری ذمہ داری لگائی کہ بیت بازی کی دو بہترین ٹیمیں تیار کروں اور ان کا مقابلہ 'کراچی کلب' کیلئے تشکیل دوں. چنانچہ میں نے یونہی کیا اور چھ بہترین شرکاء کا دو مختلف ٹیموں کی صورت چناؤ کیا. مقررہ دن کراچی کلب ٹیمیں لے کر پہنچ گیا. بہت ہی عمدہ ادبی ماحول تشکیل دیا گیا. بڑے بڑے شاعر اور اہل ادب بھی سامعین و ناظرین میں شامل تھے. پروگرام کی ذمہ داری میرے کاندھوں پر تھی اور میزبانی معروف ٹی وی پروگرام 'کسوٹی' کے میزبان 'قریش پور' صاحب فرما رہے تھے. وقت مقررہ پر پوری ادبی شان کے ساتھ بیت بازی کا آغاز ہوا. میں دونوں ٹیموں کی حوصلہ افزائی کررہا تھا. دونوں جانب سے غضب کے اشعار پیش کیئے جارہے تھے جنہیں خوب واہ واہ حاصل ہورہی تھی. جب ضرورت پیش آئی تو میں نے بھی لقمہ دیا اور کوئی حسب موقع شعر سنا دیا. شعر سن کر ایک ادبی شخصیت نے سراہتے ہوئےمجھ پر تبصرہ کیا کہ 
.
یہ اور بات کہ منبر پر جاکر کچھ نہ کہیں 
خاموش لوگ بلا کے خطیب ہوتے ہیں !
.
 محفل یونہی آب و تاب سے چل رہی تھی. محسوس ہوتا تھا کہ دونوں ٹیمیں گویا شاعری کا خزانہ ہیں جو کسی صورت ہار نہ مانیں گی. مگر کب تک؟ آخر ایک وقت آیا جب ایک ٹیم حرف 'پ' پر پھنس گئی. اس حرف پر کئی اشعار پہلے ہی ہوچکے تھے اور اب سمجھ نہ آتا تھا کہ 'پ' سے مزید کیا شعر کہا جائے؟ جب شکست سامنے نظر آنے لگی تو اس ٹیم کی ایک لڑکی نے مائیک تھام لیا کہ مجھے 'پ' سے شعر یاد آگیا ہے. سب لوگ ہمہ تن گوش ہوگئے، اس لڑکی نے سانس کھینچا اور پوری لہک سے ایک ایسا شعر پڑھا کہ پوری محفل پہلے حالت سکتہ میں گئی اور پھر کِشتِ زعفران ہو گئی۔ شعر کچھ یوں تھا 
.
پستول سے نہ مارو !! خنجر سے نہ مارو !!
ہم خود ہی مرجائیں گے، ذرا آنکھ تو مارو !
.
 کافی تنقید و بحث کے بعد شعر قبول کرلیا گیا اور یہی ٹیم آگے جاکر کامیاب بھی ہوگئی. آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار لبوں پر مسکان چھا جاتی ہے. کبھی اس کی اس جرأت پر ہنسی آتی ہے اور کبھی سوچتا ہوں کہ اگر وہ لڑکی یہ جرأت نہ کرتی تو اسکی ٹیم کامیابی سے محروم ہوجاتی. :)
.
 ====عظیم نامہ====