Sunday, 26 February 2017

ہمیشہ رہنے والی کامیابی


ہمیشہ رہنے والی کامیابی



ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان وغیرہ بننے میں ایک طالبعلم سخت اور طویل سفر سے گزرتا ہے. مال خرچ کرتا ہے، آنسو بہاتا ہے، راتوں کو جاگتا ہے، خواہشات کو ترک کرتا ہے. پھر کہیں جاکر کم و بیش اٹھارہ سے بیس سال بعد وہ اپنی من پسند ڈگری حاصل کرپاتا ہے اور اپنا من چاہا کیرئیر بنا پاتا ہے. اس کٹھن سفر میں کئی بار اس پر مایوسی بھی طاری ہوتی ہے اور وہ پکار اٹھتا ہے کہ میں مزید پڑھنا نہیں چاہتا لیکن ایک بار جو اسے اپنی منزل بہترین جاب یا ڈگری کی صورت میں مل جائے تو راستے کی تمام مشکلات اور تمام شکوے بھلا دیتا ہے. اپنی کی گئی اس سالوں کی محنت پر وہ مسرور ہوتا ہے، فخر کرتا ہے، اپنی اولاد کو یہی کرنے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ مجبور کرتا ہے اور کبھی یہ سوچ کر افسوس بھی کرتا ہے کہ کاش اگر اس دوران زیادہ محنت کرلیتا تو شائد آج اور بھی اونچے مقام پر پہنچا ہوتا. 
.
 کیسی عجیب بات ہے؟ کہ ساٹھ ستر سال کی اس مختصر سی عمر کیلئے ایک انسان آدھی زندگی اپنی باقی 'ممکنہ' آدھی زندگی کو سنوارنے کیلئے دن رات جان مارتا ہے. اس ساری محنت و اذیت کو نہ صرف وہ گوارہ کرتا ہے بلکہ اسے عین عقلمندی بھی مانتا ہے مگر جب بات اخروی حیات کی ہو تو ہمت چھوڑ دیتا ہے. اسے اپنی اس مختصر زندگی میں ہمیشہ رہنے والی زندگی کی کاوش بھاری محسوس ہونے لگتی ہے. حالانکہ اسے سوچنا چاہیئے کہ ایک بار جو اسے اپنی منزل رضائے الہی اور جنت کی صورت میں حاصل ہوگئی، منزل پر پہنچ گیا تو اس راستے یعنی زندگی میں برداشت کی گئی ہر تکلیف اسے پھول محسوس ہوگی اور کوئی شکوہ باقی نہ رہے گا. اسے سمجھنا چاہیئے کہ اگر مال خرچ کرنا ہے، محنت کرنی ہے، آنسو بہانے ہیں، راتوں کو جاگنا ہے، خواہشات کو ترک کرنا ہے تو اس عارضی کامیابی سے بیشمار گنا زیادہ حقدار وہ ہمیشہ رہنے والی کامیابی ہے جسے کبھی زوال نہیں. 
.
 ====عظیم نامہ====

Saturday, 25 February 2017

دور حاضر کے بچے


دور حاضر کے بچے



بیشمار ایجادات کے اس جدید سائنسی دور نے جہاں انسانی ذہن کو نئی وسعتیں عطا کی ہیں وہاں بچوں پر اس کے اثرات و ثمرات حیرت انگیز ہیں. جس عمر میں سابقہ انسانی نسلیں کھیل کود کے سوا کچھ بھی سنجیدہ سوچنے سے قاصر ہوا کرتی تھیں، آج اسی عمر کے بچے مشکل انسانی موضوعات کو گہرائی میں سوچتے نظر آتے ہیں. مجھے ہمیشہ سے بچوں سے گپ شپ لگانا بہت پسند ہے، میرا ماننا ہے کہ اگر انسان خود سے ملاقات کرنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ بچوں کی گفتگو اور مزاج پر غور کرے. بعض اوقات مجھ سے بچے تقدیر اور وجود خدا سے متعلق ایسے پیچیدہ سوالات پوچھتے ہیں کہ انسان سن کر دنگ رہ جائے. کچھ روز قبل انگلینڈ ہی میں مقیم کچھ پاکستانی بچے ایک نجی تقریب میں بیٹھے بحث کر رہے تھے، مجھے اشتیاق ہوا تو پوچھا کہ بچہ پارٹی کیا بات ہو رہی ہے؟ ایک بچے نے سنجیدہ چہرے کے ساتھ مجھے بتایا کہ عظیم انکل ہم بات کر رہے ہیں کہ اصل میں "زندگی" ہے کیا؟ .. میں نے حیرت سے ان کے استدلال اور سوچ کو سنا تو اس میں زندگی کی حقیقتوں سے متعلق ایسے بہترین نکات موجود تھے کہ مزید حیرت زدہ ہوگیا. آج بھی ایک چھ سات برس کا بچہ اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آیا ہوا تھا. بتانے لگا کہ اسے خواب دیکھنا پسند ہیں. پوچھا کہ بیٹا ذرا یہ تو بتاؤ تمہارے لحاظ سے خواب کیا ہوتے ہیں؟ کچھ دیر توقف کے بعد بولا کہ "مجھے لگتا ہے کہ جیسے خواب بہت سے آئینے ہیں جن میں میری سوچوں کا عکس نظر آتا ہے." کم از کم خواب کی ایسی خوبصورت اور مختصر تعریف میں نے تو نہیں سنی. سوچتا ہوں کہ یہ بحث اپنی جگہ کہ انسانی جسم کا ارتقاء ہوا یا نہیں ہوا؟ مگر انسانی شعور کا ارتقاء آج بھی پورے زور و شور سے جاری ہے. 
.
 ====عظیم نامہ====

دیواریں



دیواریں 



اردگرد دیواریں کھینچ لینے سے انسان کو تحفظ کا احساس ضرور ہوتا ہے مگر یہی دیواریں اس کی نقل و حرکت کو سلب کر کے اسے قید بھی کردیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے گرد دیواریں کھینچتے ہیں تو ساتھ ہی ان میں دروازے کھڑکیاں بنانا نہیں بھولتے۔ گویا جہاں تحفظ اہم ہے وہاں آزادی اہم تر ہے۔ انسان فکری سطح پر بھی اپنے اطراف مختلف فلسفوں اور عقائد کی دیواریں قائم کرتا ہے جو اسے ایک نادیدہ احساس تحفظ دیئے رکھتی ہیں۔ ضروری ہے کہ وہ اس فکری دیواروں میں بھی تازہ تحقیق اور برتر حقائق کے حصول کیلئے دروازے کھڑکیاں موجود رہنے دے۔ ورنہ یہی دیوار اس کے شعوری ارتقاء کیلئے قبر بن جاتی ہے۔ 
۔
 ====عظیم نامہ====

Tuesday, 21 February 2017

برائے مہربانی انتظار فرمایئے


برائے مہربانی انتظار فرمایئے 



.
 انسان میں حقیقی سکون اور عاجزی ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ایسا انسان الجھے بناء انتظار کرسکتا ہے. سکون سے عاری یا خود پسند انسان پر انتظار پہاڑ بن کر گزرتا ہے. یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ راقم انتظار کا نام لے کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کی ترغیب نہیں دے رہا، نہ ہی یہ کہہ رہا ہے کہ اپنے مقصد کو کم وقت میں حاصل کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اسکی مراد وہ مواقع ہیں جب انسان کے پاس انتظار کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہوا کرتا. 
.
 دیہات میں بسنے والے لوگ عمومی طور پر زیادہ پرسکون ہوتے ہیں لہٰذا اگر انہیں کسی آفس یا قطار میں دو چار گھنٹے انتظار کرنا پڑجائے تب بھی وہ پورے سکون سے یہ وقت بناء شکایت گزار لیتے ہیں. اس کے برعکس اگر آپ کسی پڑھے لکھے شہری کو بیس پچیس منٹ بھی انتظار کا کہہ دیں تو اس کے پورے وجود پر بے چینی سوار ہوجاتی ہے اور وہ ہر دوسرے منٹ گھڑی تکتا رہتا ہے. اسے لگتا ہے کہ یہ انتظار اس کی جان لے رہا ہے یا اسے ایسا کرنا اپنی بے عزتی محسوس ہوتا ہے یا پھر اسے گمان ہوتا ہے کہ اس انتظار کی وجہ سے اس کے فلاں فلاں کام نہ ہو پائیں گے. حقیقت یہ ہے کہ اکثر وہ اس دیہاتی سے زیادہ مصروف نہیں ہوتا جو کھیتوں میں ھل جوتتا ہے یا سخت مزدوری کرتا ہے. اس کیلئے مال کا حصول بھی اصولی طور پر اتنا ضروری نہیں ہونا چاہیئے جتنا کے ایک غریب یا مفلس دیہاتی کیلئے. مگر چونکہ یہ شہری مادیت کا شکار ہوتا ہے، سکون سے خالی ہوتا ہے اسلئے یہ سکون سے ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتا، خود سے مخاطب نہیں ہوسکتا، اپنی ذات میں جھانک نہیں سکتا، خاموشی کو سن نہیں سکتا، توجہ کا ارتکاز نہیں کرسکتا اور انتظار میں صبر و شکر سے نہیں رہ سکتا. 
.
 ====عظیم نامہ====

Monday, 20 February 2017

سب سے زیاده جھگڑالو



 سب سے زیاده جھگڑالو



یہودیوں نے یہودیت کا نام لے کر انبیاء سمیت کروڑوں انسانوں کا استحصال اور خون کیا 
عیسائیوں نے عیسائیت کا نام لے کر کروسیڈ نامی مذہبی جنگ میں کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا 
 مسلمانوں نے اسلام کا نام لے کر آئی ایس ایس جیسی کئی تنظیموں سے ان گنت بے گناہوں کی زندگی چھین لی
 ہندوؤں نے ہندو دھرم کا نام لے کر سکھوں کے خون سے ہولی کھیلی 
سکھوں نے سکھ خالصہ کا نام لے کر مسلمانوں کی گردنیں اتاری 
بھکشوؤں نے بدھ ازم کا نام لے کر میانمار میں لاشوں کے انبار لگا دیئے 
 ملحدوں نے کبھی جوزف اسٹالن اور کبھی مسولینی جیسے درندوں کے ذریعے انسانی خون کی ندیاں بہا دی 
امریکہ نے جمہوریت کا نام لے کر پورے پورے ممالک پر بمباری کی 
انگلینڈ نے بادشاہت کا نام لے کر پوری پوری بستیوں کو موت کی نیند سلا دیا
روس نے کمیونزم کا نام لے کر لاتعداد انسانوں کو کچل ڈالا 
.
 گویا خرابی کسی مذہب یا فلسفے میں نہ تھی بلکہ انسان نے اس کا غلط استعمال کرکے خرابی و فساد پیدا کیا. شائد یہی وجہ تھی جس پر فرشتوں نے اللہ رب العزت سے استفسار کیا تھا کہ آپ اس انسان کو خلافت دیں گے جو زمین میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ 
.
سورہ الاعراف کی ٥٤ آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
.
 "ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طریقے سے تمام کی تمام مثالیں لوگوں کے لئے بیان کردی ہیں لیکن انسان سب سے زیاده جھگڑالو ہے"
.
 ====عظیم نامہ====

ہر دہشت گرد دیوبندی ؟



ہر دہشت گرد دیوبندی ؟

.
اگر آپ کی توجہ صرف ذکر، فقہ  یا نعت خوانی تک محدود ہے اور جہاد و خلافت آپ کی محافل میں موضوع ہی نہیں بنتے تو ظاہر ہے کہ ان موضوعات کے حوالے سے صحیح یا غلط سمجھ کا محفل کے شرکاء میں سوال بھی پیدا نہیں ہوگا. کمال تو تب ہے جب ان عنوانات کو موضوع بنایا جائے اور سننے والے اس ضمن میں دین کی درست سمجھ حاصل کریں. اس میں شک نہیں کہ جہادی اور دہشت گرد دونوں طرح کے طبقات کی غالب اکثریت دیوبندی یا اہل حدیث (سلفی) مکاتب فکر میں پائی جاتی ہے مگر اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اہل السنہ میں یہ ہی وہ دو مسالک ہیں جو ان عنوانات کو شدید مخالفت کے باوجود بھی اپنی محافل میں اہمیت دیتے ہیں اور ان پر بات کرتے ہیں. یہ اور بات ہے کہ ان عنوانات کی مد میں جو سمجھ پیش کی جارہی ہے وہ کس حد تک درست ہے؟ اور کس حد تک اصلاح کی متقاضی ہے؟
.
 ====عظیم نامہ====

Tuesday, 14 February 2017

کوئی کہہ رہا تھا



کوئی کہہ رہا تھا


کوئی کہہ رہا تھا کہ
محبوب نیکی کی طرح ہوتا ہے، اگر اس سے واقعی شادی ہو جائے تو دریا میں ڈال دینے کو جی چاہتا ہے 
.
اسی طرح بعض لوگ خزانے کی مانند ہوتے ہیں، دیکھتے ہی گاڑ دینے کو من کرتا ہے 
.
 اور کچھ رشتے چھینک کے جیسے ہوتے ہیں، ختم ہوتے ہی الحمدللہ کہنے کو دل کرتا ہے

Monday, 13 February 2017

نہیں۔ یہ درست نہیں


نہیں۔ یہ درست نہیں


۔
جملہ: "محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے"
.
جواب: قطعی نہیں. بحیثیت مسلمان ہمارے لئے محبت اور جنگ دونوں کی متعین حدود ہیں، جن سے تجاوز جائز نہیں.
.
جملہ: "دوستی میں کوئی شکریہ نہیں کوئی معذرت نہیں"
.
جواب: ہرگز نہیں. بحیثیت مسلمان آپ کیساتھ جو رشتہ دار، دوست، پڑوسی، اجنبی یا کوئی بھی انسان بھلائی کرے، آپ پر فرض ہے کہ اس کا شکریہ ادا کریں اور اگر دوست سمیت کسی سے بھی زیادتی کر بیٹھیں تو اس سے نادم دل سے معافی مانگیں.
.
جملہ: "نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی- اب نیک ہونے کا کیا فائدہ؟"
.
جواب: بالکل نہیں. بحیثیت مسلمان نو سو کی جگہ نو کروڑ چوہے کھا کر بھی اگر بلی حج کو جائے گی تو ان شاء اللہ رب کی رحمت کو اپنا دستگیر پائے گی. گویا کوئی شخص کتنا ہی گناہ سے آلودہ کیوں نہ رہا ہو؟ اگر سچی توبہ کر کے پلٹ آنا چاہے تو مغفرت کا دروازہ کھلا ہے.
.
جملہ: "ایک غلطی تو خدا بھی معاف کردیتا ہے"
۔
جواب: ہرگز نہیں۔ خدا صرف ایک نہیں بلکہ ایک ارب کھرب غلطیاں بھی سچی توبہ پر معاف کردیتا ہے۔ یہ تو کچھ تنگ دل انسانوں کا مزاج ہے کہ وہ دوسرے انسان کی ایک غلطی بھی معاف نہیں کرتے۔
۔
جملہ: "بھائی زندگی ایک بار ہی ملتی ہے۔ (یو اونلی لیو ونس)"
۔
جواب: بالکل نہیں۔ دین کے مطابق زندگی دو بار ملتی ہے۔ (یو اونلی لیو ٹوائس)۔ پہلی یہ عارضی زندگی جو دارالامتحان میں ہے۔ اور دوسری وہ دائمی زندگی جو دارالآخرت سے تعبیر ہے۔
۔
جملہ: "کسی کا مسلک چھیڑو نہیں اور اپنا مسلک چھوڑو نہیں"
.
جواب: قطعی نہیں. بحیثیت مسلمان مسلکی سمجھ چھیڑتے ہوئے، ہمیں اپنے بھائی کی غلطی محبت و حکمت سے واضح بھی کرنی ہے اور اگر برتر حق اپنے موجودہ مسلک کے برخلاف سمجھ آجائے تو اپنا مسلک چھوڑ بھی دینا ہے.
.
 ====عظیم نامہ====

Wednesday, 8 February 2017

خدا شعوری (God Consciousness)



خدا شعوری (God Consciousness)


.
 ہر لمحہ خدا شعوری کے ساتھ گزارنا ، مومن کیلئے سب سے بڑی کامیابی ہے. یہ آسان نہیں مگر یہی وہ درجہ احسان ہے جو کامیاب زندگی کی معراج ہے اور جس کے حصول کی مسلسل کوشش ہم سب کو کرنی ہے. گویا ہر لمحہ انسان یہ محسوس کرے کہ وہ اپنے رب کے روبرو ہے اور خدا اس کے ساتھ ایک زندہ حقیقت کے طور پر موجود ہے. کبھی آپ نے غور کیا ؟ کہ سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے جو نمونہ زندگی ہمیں حاصل ہوا ہے وہ فقط عبادات یا معاملات تک محدود نہیں بلکہ ہر ہر لمحے میں اسی خدا شعوری کو پیدا کرنے کی کوشش ہے. 
.
 ہر کام کی ابتداء بسم اللہ سے کرنا، خاتمہ الحمدللہ پر کرنا، داہنے ہاتھ سے کھانا، کپڑا یا جوتا پہنتے ہوئے دائیں جانب سے شروع کرنا، اتارتے ہوئے بائیں جانب سے اتارنا، اونچائی سے اترتے ہوئے سبحان اللہ کہنا، اونچائی پر چڑھتے ہوئے اللہ اکبر کا ورد کرنا، سوتے ہوئے داہنی کروٹ لینا، بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہوئے پہلے بایاں قدم رکھنا،معمولی ترین حاجت کیلئے بھی دعا کرنا، ہر ہر نعمت کیلئے رب کا شکر ادا کرتے رہنا، باوضو رہنا، پاکی کا اہتمام کرنا، خوشبو لگانا، ہر کام سے پہلے اسکی نیت کرنا، سلام میں پہل کرنا، سلام کا جواب بہتر سلام سے دینا، سواری سے لے کر سونے تک اور مباشرت سے لے کر رفع حاجت تک کی نبوی دعاؤں کا اہتمام کرنا. اسی طرح اور بیشمار افعال جو ہمیں قران و سنت سے حاصل ہوتے ہیں، ان کی اصل روح یہی ہے کہ خدا شعوری ہمارے شعور کا مستقل حصہ بن جائے. گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے ہم خدا شعوری سے محروم ہوجاتے ہیں لہٰذا حکم ہے کہ فوری توبہ کر کے اسی خدا شعوری سے دوبارہ رجوع کرو. مومن سے یہی طریق زندگی مطلوب ہے.
.
 ====عظیم نامہ====

Tuesday, 7 February 2017

بیوٹی اینڈ دی بیسٹ




'بیوٹی اینڈ دی بیسٹ' - Beauty & the Beast 


.
 اس کا تعلق مصر سے تھا اور وہ ہوش اڑا دینے کی حد تک حسین تھی. یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اپنی ماسٹرز کی تعلیم حاصل کررہا تھا اور ایک بہت بڑے ریٹیل اسٹور میں پارٹ ٹائم ملازم تھا. یہ اسٹور لندن بلکہ انگلینڈ کے بدنام ترین علاقے 'ھیکنی' میں واقع تھا، جہاں قتل اور ڈکیتی کی وارداتیں عام ہیں. یہ مصری لڑکی بھی یہاں ملازمت کررہی تھی. اس کے حسن کا یہ عالم تھا کہ میں نے کئی پراعتماد لوگوں کی زبان کو اس کے سامنے لڑکھڑاتے اور ہکلاتے سنا. مینجر ہو یا ملازم، کالا ہو یا گورا، نوجوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت - ہر ایک اس سے گفتگو کا شائق نظر آتا تھا.
.
 اگر ایک طرف یہ لڑکی تھی جس سے لوگ بات کے بہانے ڈھونڈھتے تو وہاں دوسری طرف تھا 'ڈیرن' نامی ایک دیو قامت سیاہ فام جس سے بات کرتے ہوئے لوگوں کی جان نکلتی تھی. اس کا تعلق جمائیکا سے تھا، یہ ایک زبردست باڈی بلڈر اور اس بدنام زمانہ علاقے کا چھٹا ہوا بدمعاش تھا. چہرے پر سفاکی، کرختگی اور چال میں غرور نمایاں تھا. دن یونہی گزر رہے تھے لیکن پھر ایک دن عجیب بات ہوئی. اس حسین لڑکی اور اس بدمعاش لڑکے میں دوستی ہوگئی جو دیکھتے ہی دیکھتے محبت میں ڈھل گئی. سب حیرت زدہ تھے کہ کیسے ایک گڈ گرل اس بیڈ بوائے کے چنگل میں جا پھنسی؟ مگر ابھی اس حیرت کا زور بھی نہ ٹوٹا تھا کہ ایک اور انکشاف ہوا اور وہ یہ کہ دونوں فوری شادی کررہے ہیں. گھر والو کو منالیا گیا ہے اور 'ڈیرن' اس لڑکی سے شادی کیلئے اسلام قبول کررہا ہے. جلد ہی دونوں کی شادی ہو گئی اور ڈیرن مسلمان ہوگیا. اکثر لوگوں کیلئے یہ جوڑی مشھور تصوراتی کہانی 'بیوٹی اینڈ دی بیسٹ' کا عکس تھی. 
.
 ڈیرن نے قبول اسلام سے کچھ پہلے اور کلمہ پڑھنے کے بعد اسلام کا مطالعہ کیا. جس سے اس کی شخصیت میں ایسا حیرت انگیز انقلاب آیا جو ناقابل یقین تھا. وہی شخص جس سے بات کرتے ہوئے جان نکلتی تھی، اب کسی 'میٹھے میٹھے اسلامی بھائی' کی طرح مسکرا مسکرا کر سب سے ملتا. آواز میں دھیما پن آگیا اور لبوں پر ایک مستقل مسکراہٹ سجی رہتی. ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو مگر کم از کم مجھے تو یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ اس کے چہرے پر کرختگی کی جگہ بھی بچوں جیسی معصومیت نے لے لی ہے. پہلی بار میری اور اس کی دوستی ہوئی. اب ہم اکثر باتیں کیا کرتے. ایک بار پوچھنے لگا کہ کیا مجھے کوئی مسلم نام رکھ لینا چاہیئے؟ میں نے اسے بتایا کہ ایسا کرنا اس کے لئے لازمی نہیں مگر مسلم شناخت کے حوالے سے بہتر ہے. میں نے پوچھنے پر یہ بھی کہا کہ میرے نزدیک اسکی شخصیت کو دیکھتے ہوئے 'عمر' ایک موزوں نام ہوگا. ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی کچھ تفصیل بتائی. ایک دن میں اسٹاک روم میں گیا تو دیکھا کہ وہ انتہائی بھاری بھاری سامان اکیلا اٹھا کر لوڈ کر رہا ہے. میں نے گھبرا کر اسے مدد کی پیشکش کی اور اکہا کہ تم یہ دو تین آدمیوں جتنا سامان اکیلے اٹھا کر کیوں خود کو تھکا رہے ہو؟ اس نے چمکتی آنکھوں اور پرسکون مسکراہٹ کے ساتھ مجھے کہا کہ عظیم تمہیں معلوم ہے ؟ جب میں اللہ اکبر کہتا ہوں تو مجھے یہ سامان بلکل بھی بھاری نہیں لگتا اور نہ ہی مجھے تھکن محسوس ہوتی ہے. یہ کہہ کر وہ پھر کام میں جت گیا اور میں کچھ دیر کھڑا اسے رشک و حیرت سے تکتا رہا. 
.
 چند مہینے مزید گزرے تو مجھے احساس ہوا کہ کچھ دنوں سے وہ اداس اداس اور خاموش نظر آتا ہے. پھر معلوم ہوا کہ اس کے اپنی مصری بیوی سے شدید اختلافات ہو رہے ہیں. میں اس سے تفصیل پوچھنا چاہتا تھا مگر میری ہمت نہیں ہوئی. یہاں تک کے ایک دن میں نے اس سے سرسری سا پوچھ لیا. اس نے دکھ سے کہا کہ اگر آپ خود کو مسلم کہتے ہیں تو پھر لازمی ہے کہ آپ وہ کریں جو ایک مسلم کرتا ہے. میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو اس نے بتایا کہ اس کی بیوی ایک رئیس اور فیشن ایبل مصری گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، جہاں فیشن کے نام پر اسکرٹس سمیت وہی کچھ پہنا جاتا ہے جو غیر مسلم پہنتے ہیں. میں جب اسے روکنا چاہتا ہوں تو وہ مجھ سے ناراض ہوتی ہے. جب اسے نماز یا دیگر باتوں کی تلقین کرتا ہوں تو خفا ہوجاتی ہے. کہتی ہے کہ میں نے تمھیں کلمہ پڑھ کر بس مسلمان ہونے کو کہا تھا لیکن تم تو پورے مولوی بن گئے ہو. اگر ایسے ہی رہنا تھا تو اسلام قبول کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اب علیحدگی کی نوبت آگئی ہے اور وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی .... ڈیرن مجھ سے میری رائے پوچھ رہا تھا اور میرا دماغ اسکی مشکل سن کر سائیں سائیں کررہا تھا. ہمت مجتمع کرکے میں نے اس سے کہا کہ سب سے پہلے تم خود سے یہ سوال کرو کہ آج تم مسلم کیوں ہو؟ کیا اسلئے کہ تم اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے؟ یا اب تم مسلم اسلئے ہو کہ تم نے اسلام کو حق پایا ہے؟ اس نے کچھ سوچا اور دوسری بات کی تائید کی. میں نے کہا پھر اس بات کو یقینی بناؤ کہ اس رشتے کا باقی رہنا یا نہ رہنا تمہارے مسلم ہونے پر اثر انداز کبھی نہ ہوگا. ممکن ہے کہ یہ شادی رب کی جانب سے صرف تمھیں حق تک پہنچانے کا راستہ ہو. رہی بات اس ازدواجی تعلق کی تو تمھیں اس رشتے کو کسی بھی فیصلہ لینے سے پہلے کچھ مزید وقت دینا چاہیئے.
.
 میری نوکری تبدیل ہوگئی اور اس کے بعد ان دنوں کا کیا بنا؟ مجھے معلوم نہ ہوسکا. لیکن اس واقعہ نے مجھے بہت سے اسباق سیکھائے. جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ کسی غیر مسلم یا کسی مجرم کو قابل نفرت نہ سمجھو. حقیر نہ جانو. کیا معلوم کہ اس کا انجام ایمان و عمل کے اس درجے پر ہو جس پر اولیاء بھی رشک کریں؟ 
.
====عظیم نامہ====
.
 (دوستو ! یہ واقعہ دس سال پرانا ہے اور میری یادداشت میں راسخ نہیں ہے. اسلئے اسکے جزیات میں کمی بیشی کا امکان ہے. گو اپنی اصل میں یہ سچ ہے)

Wednesday, 1 February 2017

علم کیا ہے؟


علم کیا ہے؟


.
وہ ہم سے پوچھنے لگے کہ علم کیا ہے؟
.
علم والفجر کی تنویر جہاں تاب کا نام ہے 
علم والیل کی خوشبو میں بسی ایک شام ہے 
کعبہ و کوسین کے منازل یہی سر کرتا ہے 
ایک پل میں صدیوں کا سفر کرتا ہے 
علم طالب کو طلب سے سوا دیتا ہے 
اور جہل کو ابو جہل بنادیتا ہے 
علم نے خوں رگ جاں دیا اور نہ مرا
علم نے زہر کا پیمانہ پیا اور نہ مرا
علم سقراط کی آواز ہے عیسیٰ کا لہو 
علم گہوارہ و سیارہ و انجام و نمو 
علم عباس علمدار کے زخمی بازو 
علم بیٹے کی نئی قبر پر ماں کے آنسو 
وادی ابر میں قطروں کو ترس جائے گا 
جو ان اشکوں میں ہنسے گا وہ جھلس جائے گا 
.
عزیزان من علم یہی نہیں کہ آپ ہر سوال کا جواب جان لیں بلکہ علم یہ بھی ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ آپ کیا نہیں جان سکتے؟
انسانوں میں کچھ ایسے ہیں جو علم نہیں رکھتے مگر پھر بھی مانتے ہیں اور باقی ایسے ہیں جو علم رکھتے ہیں مگر پھر بھی نہیں مانتے  
گویا کچھ مانتے ہیں مگر جانتے نہیں اور دوسرے جانتے ہیں مگر مانتے نہیں 
کہتے ہیں کہ جہل کی نشانی تکبر اور علم کی نشانی عاجزی ہے مگر علم والے ہی سب سے زیادہ اپنے علم پر تکبر کرتے ہیں 
میرے رفیق جو علم والا اپنے علم پر نازاں ہو وہی تو اپنی حقیقت میں جاہل ہے 
اور جو جاہل اپنی جہالت سے آگاہ ہو وہی تو اپنی اصل میں علم والا ہے 
سوچتا ہوں کہ علم کی کثرت کس کام کی؟ جب یاد الٰہی سے آنکھیں ہی نم نہ ہوں؟ 
جو علم عمل کے قالب میں نہ ڈھلے وہ علم ہے ہی نہیں بلکہ فقط معلومات ہے 
شائد اسی لئے کہنے والے کہہ گئے ہیں کہ
.
لفظ لفظ رٹنے سے آگہی نہیں ملتی
آگ نام رکھنے سے روشنی نہیں ملتی
اور آدمی سے انساں تک پہنچو گے تو سمجھو گے
کیوں چراغ کے نیچے روشنی نہیں ملتی؟
.
====عظیم نامہ====