اردو بازار
پاکستان جانے کی ایک بڑی کشش میرے لئے یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں سے میں اپنی من پسند کتابوں کی خریداری کرتا ہوں جو اکثر بلواسطہ یا بلاواسطہ دین سے متعلق ہوتی ہیں. اس بار بھی ایک لمبی فہرست لے کر اردو بازار کراچی جا پہنچا. جن کتابوں کو خریدنے کا متمنی تھا ، ان میں ایسی تصنیفات شامل تھیں جو آسانی سے کسی دکان پر میسر نہیں تھیں. ایک بڑی دکان پر یہ طے پایا کہ مالک دکان اپنے ملازمین کے ذریعے ان کتابوں کو پورے اردو بازار میں تلاش کروائے گا اور پھر میں اسے کچھ زیادہ دام دے کر خرید سکوں گا.... ایک ایک کر کہ کتابیں ملتی گئیں، یہ کتابیں ضحیم اور نادر ہونے کہ باوجود بھی نہایت مناسب قیمت میں مجھے حاصل ہو گئیں. اسی اثناء میں میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص آیا اور اس نے کسی کتاب کا دکان مالک سے تقاضہ کیا. وہ ایک بہت چھوٹا سا کتابچہ تھا، اس غریب آدمی نے قیمت پوچھی تو دکاندار نے کہا ٨٠٠ روپے !! .. میں چونکا کہ مجھے تو ہزاروں صفحات کی نادر کتاب بھی ٦٠٠ روپے تک میں حاصل ہو رہی ہے تو پھر اس چند صفحات کے کتابچے میں ایسا کیا ہے جو یہ ٨٠٠ روپے کا ہے ؟ غریب گاہک نے تقاضہ کیا کہ بھائی سات سو میں یہ کتابچہ دے دو، مگر مالک دکان نے جھڑک کر کہا کہ ایک پیسہ بھی کم نہ ہو گا ! لینا ہے تو لو ورنہ نکلو. اس میلے کچیلے لباس والے نے ٨٠٠ روپے جیب سے نکالے اور جھپٹ کر وہ کتابچہ لے لیا
.
میں حیرت سے یہ ماجرا دیکھتا رہا، اس کے جاتے ہی میں نے دکان مالک سے پوچھا کہ بھائی یہ کیسی کتاب تھی جس کی اتنی اہمیت ہے ؟ .. دکاندار نے نرم لہجے میں کہا ، سر آپ اسے چھوڑ دیں. میں نے مسلسل اصرار کیا تو اس نے مجبور ہوکر بتایا کہ یہ ہندووں کے سفلی عملیات کی ایک تصنیف تھی جس کے منہ مانگے دام مل جاتے ہیں. اس نے مزید بتایا کہ اس طرح کی اور بھی کئی کتابیں ہیں اور سب سے زیادہ اردو بازار میں یہی بکتی ہیں. میری موجودگی میں ہی کتابیں سپلائی کرنے والا ایک شخص وہاں آیا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ان اسلامی یا علمی کتب کے بیچ میں کتنے ہی ایسے چھوٹے چھوٹے عملیات کے کتابچے رکھے ہوئے تھے، جنہیں دکاندار نے فوری خرید لیا. میں افسردہ دل سے وہاں کھڑا رہ گیا ، آج میرا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا تھا کہ ان کتابوں سے سجی دکانوں کی رونق صرف علم دوست اشخاص سے ہے. یہاں تو علم کے عین درمیان میں جہل بک رہا تھا ، یہاں تو دین کی صدا لگا کر کفر کا بازار گرم تھا. میں نے اپنی خریدی ہوئی کتابوں کی قیمت ادا کی اور بوجھل قدموں سے گھر کی راہ لی
میں حیرت سے یہ ماجرا دیکھتا رہا، اس کے جاتے ہی میں نے دکان مالک سے پوچھا کہ بھائی یہ کیسی کتاب تھی جس کی اتنی اہمیت ہے ؟ .. دکاندار نے نرم لہجے میں کہا ، سر آپ اسے چھوڑ دیں. میں نے مسلسل اصرار کیا تو اس نے مجبور ہوکر بتایا کہ یہ ہندووں کے سفلی عملیات کی ایک تصنیف تھی جس کے منہ مانگے دام مل جاتے ہیں. اس نے مزید بتایا کہ اس طرح کی اور بھی کئی کتابیں ہیں اور سب سے زیادہ اردو بازار میں یہی بکتی ہیں. میری موجودگی میں ہی کتابیں سپلائی کرنے والا ایک شخص وہاں آیا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ان اسلامی یا علمی کتب کے بیچ میں کتنے ہی ایسے چھوٹے چھوٹے عملیات کے کتابچے رکھے ہوئے تھے، جنہیں دکاندار نے فوری خرید لیا. میں افسردہ دل سے وہاں کھڑا رہ گیا ، آج میرا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا تھا کہ ان کتابوں سے سجی دکانوں کی رونق صرف علم دوست اشخاص سے ہے. یہاں تو علم کے عین درمیان میں جہل بک رہا تھا ، یہاں تو دین کی صدا لگا کر کفر کا بازار گرم تھا. میں نے اپنی خریدی ہوئی کتابوں کی قیمت ادا کی اور بوجھل قدموں سے گھر کی راہ لی
.
====عظیم نامہ====
====عظیم نامہ====