Tuesday, 28 October 2014

اردو بازار

 

اردو بازار

 
پاکستان جانے کی ایک بڑی کشش میرے لئے یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں سے میں اپنی من پسند کتابوں کی خریداری کرتا ہوں جو اکثر بلواسطہ یا بلاواسطہ دین سے متعلق ہوتی ہیں. اس بار بھی ایک لمبی فہرست لے کر اردو بازار کراچی جا پہنچا. جن کتابوں کو خریدنے کا متمنی تھا ، ان میں ایسی تصنیفات شامل تھیں جو آسانی سے کسی دکان پر میسر نہیں تھیں. ایک بڑی دکان پر یہ طے پایا کہ مالک دکان اپنے ملازمین کے ذریعے ان کتابوں کو پورے اردو بازار میں تلاش کروائے گا اور پھر میں اسے کچھ زیادہ دام دے کر خرید سکوں گا.... ایک ایک کر کہ کتابیں ملتی گئیں، یہ کتابیں ضحیم اور نادر ہونے کہ باوجود بھی نہایت مناسب قیمت میں مجھے حاصل ہو گئیں. اسی اثناء میں میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص آیا اور اس نے کسی کتاب کا دکان مالک سے تقاضہ کیا. وہ ایک بہت چھوٹا سا کتابچہ تھا، اس غریب آدمی نے قیمت پوچھی تو دکاندار نے کہا ٨٠٠ روپے !! .. میں چونکا کہ مجھے تو ہزاروں صفحات کی نادر کتاب بھی ٦٠٠ روپے تک میں حاصل ہو رہی ہے تو پھر اس چند صفحات کے کتابچے میں ایسا کیا ہے جو یہ ٨٠٠ روپے کا ہے ؟ غریب گاہک نے تقاضہ کیا کہ بھائی سات سو میں یہ کتابچہ دے دو، مگر مالک دکان نے جھڑک کر کہا کہ ایک پیسہ بھی کم نہ ہو گا ! لینا ہے تو لو ورنہ نکلو. اس میلے کچیلے لباس والے نے ٨٠٠ روپے جیب سے نکالے اور جھپٹ کر وہ کتابچہ لے لیا
 
.
میں حیرت سے یہ ماجرا دیکھتا رہا، اس کے جاتے ہی میں نے دکان مالک سے پوچھا کہ بھائی یہ کیسی کتاب تھی جس کی اتنی اہمیت ہے ؟ .. دکاندار نے نرم لہجے میں کہا ، سر آپ اسے چھوڑ دیں. میں نے مسلسل اصرار کیا تو اس نے مجبور ہوکر بتایا کہ یہ ہندووں کے سفلی عملیات کی ایک تصنیف تھی جس کے منہ مانگے دام مل جاتے ہیں. اس نے مزید بتایا کہ اس طرح کی اور بھی کئی کتابیں ہیں اور سب سے زیادہ اردو بازار میں یہی بکتی ہیں. میری موجودگی میں ہی کتابیں سپلائی کرنے والا ایک شخص وہاں آیا تو میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ ان اسلامی یا علمی کتب کے بیچ میں کتنے ہی ایسے چھوٹے چھوٹے عملیات کے کتابچے رکھے ہوئے تھے، جنہیں دکاندار نے فوری خرید لیا. میں افسردہ دل سے وہاں کھڑا رہ گیا ، آج میرا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا تھا کہ ان کتابوں سے سجی دکانوں کی رونق صرف علم دوست اشخاص سے ہے. یہاں تو علم کے عین درمیان میں جہل بک رہا تھا ، یہاں تو دین کی صدا لگا کر کفر کا بازار گرم تھا. میں نے اپنی خریدی ہوئی کتابوں کی قیمت ادا کی اور بوجھل قدموں سے گھر کی راہ لی
.
====عظیم نامہ====

شیطان کا سب سے کاری وار کون سا ہے؟

 

شیطان کا سب سے کاری وار

 
شیطان بڑا کایاں ہے. یہ بڑے صبر ،عقل اور تدریج سے اپنے شکار پر وار کرتا ہے. یہ کسی دینی رجحان والے حضرت کو یہ نہیں کہتا کہ جاکر جوا کھیلو یا شراب پیؤ. وہ واقف ہے کہ ایسا وسوسہ ڈالنے سے یہاں کام نہیں بنے گا. وہ اب اپنی پالیسی بدل کر اس دینی شخص کو یہ سمجھاتا ہے کہ واہ بھائی تم تو بڑے نیک ہو، الله والے ہو. وہ پیٹھ تھپتھپا کر سرگوشی کرتا ہے کہ دیکھو کتنے لوگ تمھاری علمیت کے مداح ہیں. آھستہ آھستہ وہ اپنے شکار کے نفس کو قائل کرتا ہے کہ اس کے نام کے ساتھ لوگ بہت سے ستائشی القابات جوڑ دیں جیسے پیران پیر یا مجدد العصر وغیرہ ، اس کے ہاتھوں کو چومیں اور ٹانگوں کو دبائیں. اس کے ایک اشارے پر خدمت گزار حاضر ہوں. وہ اس دھوکے میں یہ بلکل بھول جاتا ہے کہ کسی صحابی نے یہ خدمت کروانے والا طریق نہیں اپنایا تھا اور رسول صلی اللہ و الہے وسلم اپنے معمولی کام بھی اپنے ہاتھ سے انجام دینا پسند کرتے تھے.
.

اسی طرح وہ دینی لوگ جو نفسی تجربات سے روشناس ہوتے ہیں. انہیں بھی شیطان ایک نئے ڈھب سے پھانستا ہے. وہ پہلے سامنے نیک اور سچا بن کر اپنے شکار کا بھروسہ جیتتا ہے اور پھر خود فریبی کی دلدل میں اسے دفن کردیتا ہے. یہ یاد رکھیں کہ اس غیبی دنیا میں بہت سے درجات ہیں اور اس میں داخلہ ہر مسلم، ہندو، سکھ عیسائی کر سکتا ہے مگر ہر ایک کی استعداد مختلف ہوتی ہے. میرا اپنا ایک عیسائی دوست جس کے سچ بولنے پر مجھے اطمینان ہے .. اسکے بقول وہ خدا کی آواز سنتا ہے اور مجھے بھی وہ میری اپنی ایسی ذاتی باتیں بتا چکا ہے جو اس کے علم میں نہیں ہو سکتی تھیں. اس نفسی عالم میں خیر اور شر یعنی ملائک اور شیاطین دونوں کام کر رہے ہیں. ہوتا کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ ایک شخص مختلف 'نفسی' وارداتوں سے گزرتا ہے جسے اکثر روحانی تجربہ کہہ دیا جاتا ہے. سچے خواب دیکھتا ہے یا عجیب واقعات سے گزرتا ہے جو اسے مدد کرتے ہیں. رفتہ رفتہ اس شخص کا اعتبار ان تجربات یا وارداتوں پر محکم ہوجاتا ہے. وہ شخص اب یہ ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ اپنے اس تجربہ کو قران و سنت کی کسوٹی پر پرکھ لے. بھروسہ جیتنے کے بعد یہی وہ نقطہ آغاز ہے جہاں شیطان اپنی اصل کاروائی کرتا ہے. اب انہی خوابوں یا تجربات کے ذریعے وہ نہایت خوش نمائی سے اسے شرک، بدعت ، کفر کی جانب لیتا جاتا ہے. غلام احمد قادیانی ہو یا بہاالدین بہائی یہ سب شیطان کی اسی چال کا شکار ہوکر جھوٹی نبوت کے دعویدار بنے. کتنوں نے خدائی اور کتنوں نے امام مہدی ہونے کا دعوا کیا. ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ سالک اپنے ہر نفسی یا روحانی تجربہ کو چاہے وہ کتنا ہی واضح کیوں نہ ہو ، قران و سنت کی کسوٹی پر جانچے اور اگر وہ اس سے کسی درجے میں متصادم ہو تو ایسے تجربہ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے.
.

میں نے کتنے ہی دینی رہنما ایسے دیکھے ہیں جو خود کو بہت اونچا زاہد و عابد سمجھتے ہیں، میں نے کتنے ہی ایسے روشن خیال مفکرین دیکھے ہیں جو قران حکیم پر اپنی علمیت کے حوالے سے مغرور ہیں، میں نے کتنے ہی ایسے پیر درویش دیکھے ہیں جو اپنی روحانیت پر نازاں ہیں. یاد رکھیں، شیطان کا سب سے مہلک وار .. احساس پارسائی ہے.
.
====عظیم نامہ====