Saturday, 26 September 2020

داڑھی کی مقدار

 داڑھی رکھنے  سے متعلق اہل علم میں مختلف آراء رہی ہیں

۔

کچھ کے نزدیک داڑھی رکھنا فرض یا واجب ہے

۔

کچھ کے نزدیک سنت موکدہ ہے

۔

کچھ کے نزدیک تمام انبیاء کی سنت ہے

۔

کچھ کے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق و محبت کا اظہار ہے، لہذا مستحب ہے

۔

کچھ کے نزدیک یہ فقط قبائلی معاشرے کی روایت ہے

۔

ہر ایک گروہ قران، حدیث، تاریخ اور عقل سے اپنا استدلال پیش کرتا نظر آتا ہے۔ رائے جو بھی آپ کو قرین قیاس لگے، اس حقیقت کو جھٹلانا ناممکن ہے کہ تمام معلوم انبیاء، کم و بیش تمام صحابہ اکرام رض کے چہرے داڑھیوں سے مزین تھے۔ اس میں شک نہیں کہ دشمنان اسلام کی بھی ایک بڑی تعداد روایتی طور داڑھی رکھتی تھی مگر ان میں ایسی مثالیں بھی مل جاتی ہیں، جہاں فرد یا مخصوص علاقائی گروہ نے داڑھی مونڈھ رکھی تھی۔ پھر آج اگر کوئی داڑھی رکھتا ہے تو وہ ظاہر ہے نسبت رسول کو یاد کرکے رکھتا ہے۔ ابوجہل یا دیگر کی سنت اس کے پیش نظر نہیں ہوتی۔ گویا کم سے کم یہ اجر تو پکا ہے کہ امتی نے اپنے محبوب آقا کی  ظاہری پیروی کی کوشش کی۔ مانا کہ باطنی یا اخلاقی پیروی اہم تر ہے مگر اسے بنیاد بناکر ظاہری پیروی کو معمولی گرداننا ہماری احقر سمجھ میں کوئی مناسب بات نہیں۔ 

۔

داڑھی کی مقدار کتنی ہو؟ یہ دوسرا سوال ہے۔ اس کا ایک سادہ جواب تو یہ ہے کہ مشت بھر ہو ، کیونکہ یہی سنت سے ثابت ہے. مگر سوال یہ ہے کہ کم از کم کا معیار کیا ہو؟ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ مونچھیں پست کرو اور داڑھی چھوڑ دو۔ مونچھوں کی پستی سے کچھ نے پوری مونچھوں کو کتر ڈالا اور کچھ نے مونڈھ کر بالکل ہی چکنا کردیا۔ مگر کیا مونچھوں کی پستی سے واقعی یہی دونوں صورتیں مراد ہیں؟ ہماری سمجھ کے مطابق ضروری نہیں۔ بلکہ ہونٹ سے اوپر کا حصہ بس اس قدر کترا ہو کہ پانی پیتے یا کھانا کھاتے صفائی کا اہتمام ہوسکے۔ اطراف میں مونچھیں جتنی بڑی ہوں، اجازت ہے۔ حضرت عمر رض کی مونچھیں صرف اوپر کی جانب سے پست تھیں، باقی اطراف میں خوب لمبی اور گھنی تھیں، جنہیں حالت جلال میں آپ تائو بھی دیتے تھے۔ ایسی ہی اور مثالیں بھی موجود ہیں۔ حدیث کا دوسرا حصہ کہتا ہے کہ داڑھی کو چھوڑ دو یعنی بڑھنے دو۔ اس سے مراد ایک گروہ نے یہ لی کہ اپنی داڑھی کاٹنا ہی ترک کردیا اور یوں طویل داڑھی اگا لی۔ اس داڑھی کو رکھ کر نفیس لگنا اور گنجلک ہونے سے بچانا خاصہ کٹھن ہے۔ دوسرے گروہ نے حج کے موقع پر صحابی رض کے اس عمل کو دلیل بنایا جس کے مطابق انہوں نے داڑھی کو پوری مٹھی میں تھام کر بقیہ باہر داڑھی کے بالوں کو کتر ڈالا۔ ان کا نتیجہ یہ ہے کہ داڑھی چھوڑنے سے مراد اسے مشت بھر چھوڑنا ہے اور باقی پاکیزگی کیلئے کتر ڈالنا ہے۔ تیسرے گروہ نے کہا کہ اس سے فقط اتنا ثابت ہوتا ہے کہ مشت سے زیادہ داڑھی نہیں رکھنی چاہیئے۔ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے کم نہیں رکھی جاسکتی۔ گویا داڑھی چھوڑنے سے مراد یہ ہے کہ اتنے بال اگا لیئے جائیں، جنہیں دیکھ کر داڑھی کہا جاسکے۔ پھر بھلے وہ مشت بھر ہوں یا اس سے کم۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ برصغیر پاک و ہند سے باہر نکلتے ہیں تو آپ کو بڑے بڑے امام چھوٹی چھوٹی داڑھیاں سجائے نظر آتے ہیں۔

۔

اب تک دو باتیں ہم نے زکر کی۔ پہلی یہ کہ داڑھی رکھنے پر کیا معروف آراء ہیں؟ اور دوسری یہ کہ داڑھی کی مقدار کتنی ہو؟، اس پر کیا اختلاف موجود ہے؟ اب ایک تیسری بات یہ کہ داڑھی آخر ہوتی کیا ہے ؟ ایک گروہ کے مطابق داڑھی ان بالوں کا نام ہے جو ٹھوڑی اور جبڑے پر اگائے جاتے ہیں۔ دوسرے گروہ کے مطابق یہ ان بالوں کا نام ہے جو ٹھوڑی پر نکلتے ہیں۔ گویا جبڑے پر نکلے بال ان احباب کے نزدیک داڑھی کی شرط نہیں۔ لہذا یہ فرینچ گوٹی کو بھی داڑھی مانتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ دوسری رائے بہت کمزور اور ناقابل قبول ہے۔ گویا آپ اگر ہماری رائے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو "کم از کم" کے اعتبار سے اب تک کی گفتگو کا خلاصہ ہماری دانست میں کچھ یوں ہے کہ داڑھی رکھنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، امتی کا رکھنا نسبت کا اظہار ہے لہذا کم سے کم مستحب کے درجے میں ہے (گو اس سے زیادہ کا بھی امکان ہے)۔ داڑھی مشت بھر رکھنا کم از کم افضل ہے۔ داڑھی کی مقدار کم از کم ٹھوڑی اور جبڑے پر اتنے بالوں کا ہونا ہے، جنہیں دیکھنے والا داڑھی ہی سمجھے (چند دن کا بڑھا شیو اور داڑھی میں ہر کوئی باآسانی فرق کرلیتا ہے)

۔

====عظیم نامہ====

۔

(نوٹ: میں اسوقت جہاز میں بیٹھا یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔ استنبول روانگی ہے، خیالات ذہن میں آئے تو لکھ ڈالے۔ سفر کے سبب کمنٹس میں جوابات دینا شائد ممکن نا ہوسکے۔ پیشگی معذرت)

Tuesday, 31 December 2019

تعارف

تعارف  

 "ڈوبتے سورج نے اہل زمین سے پوچھا ، "میرے بعد اس دنیا کو کون روشن کرے گا ؟

ایک ٹمٹماتا چراغ بولا ، میں کوشش کروں گا


میرا نام عظیم الرحمٰن ہے. میں نہ تو عالم ہوں نہ فاضل اور نہ ہی کوئی مستند تحقیق نگار. زبان اردو میں اگر کوئی لفظ میرا تعارف فراہم کرسکتا ہے تو وہ ہے مرکب لفظ 'طالب علم' . میں ایک معمولی طالبعلم ہوں کتاب الله قران کا اور دین الله اسلام کا

علماء کے قحط اور علمی انحطاط کے اس دور میں جب اجتہاد و تحقیق اجنبی الفاظ بن گۓ اور سوچنا جرم قرار پایا ہے. یہ امر لازم ہوگیا ہے کہ قران حکیم اور جدید علوم دونوں  سے آگاہی رکھنے والے افراد سامنے آکر یہ جائزہ لیں کہ قران پاک نئی تحقیقات کی روشنی میں کیا مطالب فراہم کر رہا ہے ؟
عبدالله ابن عباس رضی الله عنہ کو مفسر اعظم تسلیم کیا جاتا ہے، جب آپ کے انتقال کے ایام قریب تھے تو لوگوں نے استفسار کیا کہ اے عبداللہ ! آپ کے بعد کون ہمیں قران کے خزائن بتاۓ گا ؟ کون قران کی تفسیر کرے گا ؟ اس موقع پر آپ رضی الله عنہ نے وہ تاریخ ساز الفاظ کہے جو وقت اور اذہان دونوں پر ثبت ہو گئے. آپ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ

"قران ہر آنے والے دور میں اپنی تفسیر خود فراہم کرتا ہے"

المیہ یہ ہے کہ ہمارے علماء کی ایک کثیر تعداد نے خود کو تقلید اور تفرقے کے خول میں قید کرلیا. دنیا اور دین کے علوم میں فرق کرکے ایسی تخصیص کی کہ جدید فلسفوں سے بلکل نابلد ہو گئے. بقول اقبال

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایت میں کھو گئی


یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ مسلم نوجوان نسل میں مقبول اسکالروں کی اکثریت آج روایتی مدرسوں کے فارغ التحصیل نہیں ہیں. ڈاکٹر اسرار احمد سے لیکر جاوید احمد غامدی تک، ڈاکٹر ذاکر نائیک سے لے کر شیخ احمد دیدات تک، مولانا مودودی سے لیکر پرفیسر احمد رفیق تک، یاسر قاضی سے لیکر نعمان علی خان تک. یہ سب اور بہت سے مزید مقبول اشخاص جو مسلم نسل کی ذہن سازی کر رہے ہیں وہ سب جدید علوم پر دسترس رکھتے ہیں
روایتی علماء کا بدقسمتی سے یہ حال ہے کہ انہیں بخاری شریف تو زبانی یاد ہوگی، مثنوی کے دقیق نقطے تو وہ با آسانی بیان کر سکتے ہونگے مگر جدید اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات سے وہ ربط پیدا نہیں کرسکتے. وہ نہیں جانتے کہ چارلس ڈارون ، کارل مارکس ، رچرڈ ڈاکن کون ہیں ؟ نظریہ ارتقاء کیا بلا ہے ، تھیوری آف ریلٹوٹی کس چڑیا کا نام ہے ؟ لہٰذا انکا ہتھیار یہی ہوتا ہے کہ ایسے کفریہ سوال نہ پوچھو، اسلام سے باہر ہو جاؤ گے. نتیجہ الحاد اور شکوک کی صورت میں برآمد ہوا
یہی وجہ ہے کہ مجھ جیسا احقر طالبعلم اپنی تمام تر ناقص العلمی کے اعتراف کے باوجود یہ کاوش کرنے پر مجبور ہے کہ ان جدید فلسفیانہ شکوک کے جوابات دے، دین کی گم گشتہ حکمت کو کھوجنے کی کوشش کرے اور پھر اہل علم کو اپنی اس کوشش پر علمی تنقید و اصلاح کی دعوت دے. یہ بلاگ اسی کی کڑی ہے. میری اپنے رب سے دعا ہے کہ وہ اسے قبول کرے. آمین یا رب العالمین 

===عظیم نامہ====

Sunday, 29 September 2019

اسلام کا روایتی بیانیہ یا پھر جدید جوابی بیانیہ

اسلام کا روایتی بیانیہ یا پھر جدید جوابی بیانیہ ؟ کون سی فکر اسلام کی درست ترجمان ہے؟ ==================================================== . اگر اس جوابی بیانیہ سے آپ کی مراد وہ فکری تحریک ہے جو آج رائج و مقبول روایتی اسلامی فکر کے مقابل ہر دوسرے مذہبی موضوع کو للکار رہی ہے، اسے نئی تشریح فراہم کررہی ہے تو پھر یہ کوئی آسان سوال نہیں ہے. اس کا جواب کسی ایک کے مکمل اثبات و انکار میں دینا علمی دیانت کے خلاف ہوگا. میں حد سے حد آپ کو وہ زاویہ نظر دے سکتا جس سے میں خود اس موجودہ فکری کشمکش کو دیکھ پاتا ہوں. مگر اس سے پیشتر آپ کو ایک سادہ علمی نظریہ سمجھنا ہوگا. . مشہور جرمن فلسفی ہیگل کے فلسفہ سے ماخوز ایک نظریہ صاحبان دانش میں ہمیشہ معروف رہا ہے. اس نظریئے کے کی رو سے انسانی فکر کا سفر تھیسس (thesis) ، اینٹی تھیسس (antithesis) اور سینتھسس (synthesis) کے ذریعے اپنے شعوری مدارج طے کرتا آیا ہے. میں اسی فکر کو آج اپنے زاویہ نظر میں ڈھال کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں. آسان الفاظ میں کسی موضوع پر سب سے پہلے ایک تھیسس پیش کیا جاتا ہے، جس میں اس موضوع کا بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہوتا ہے. اس بیانیہ (thesis) کو عقل عام و خاص قبول کرلیتے ہیں مگر جب ایک لمبا وقت اسے پیش کئے گزر جاتا ہے تو کچھ نئے وقتی تقاضے پیدا ہونے لگتے ہیں، کچھ اس فکر کی خامیاں نمایاں ہوتی ہیں، کچھ نئی تحقیقات سامنے آتی ہیں، کچھ نئے زاوئیے جنم لیتے ہیں. اب اس مقام پر ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان تازہ دریافتوں کا خیر مقدم کیا جائے مگر انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا. بلکہ اس روایتی بیانیہ سے افراد گہرے تقدس میں مبتلا ہوجاتے ہیں. وہ نہ صرف کسی نئی تحقیق کو قبول کرنے میں شدید تردد ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہ سارا زور کسی ناقدانہ جدید سوچ کو کچلنے میں لگادیتے ہیں. اجتہاد کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور عقائد عقیدے کا لباس پہن لیتے ہیں. اس غیرفطری روک سے انسانوں میں ایک فکری بغاوت جنم لیتی ہے جو رستہ نہ پا کر اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ہے مگر دم نہیں توڑتی بلکہ ہر گزرتا وقت اسے ایک خاموش طوفان بناتا رہتا ہے. بلاخر ایک وقت آتا ہے جب یہ بغاوت اس تھیسس (thesis) یعنی بیانیہ کے رد کی صورت میں برآمد ہوتی ہے. اسی رد کو اینٹی تھیسس (antithesis) کہا جاتا ہے. یہاں تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ چونکہ اس رد بیانیہ یعنی اینٹی تھیسس (antithesis) کو ایک زمانے تک زبردستی دبایا گیا ہوتا ہے لہٰذا اب اس کا ابھرنا ردعمل کی نفسیات کو ساتھ لئے ہوئے ہوتا ہے. جہاں روایتی بیانیہ یعنی تھیسس (thesis) فکری جمود اور عقیدت کی چادر اوڑھ لینے کے بعد ایک انتہا کی صورت اختیار کر چکا ہوتا ہے ، وہاں یہ جوابی بیانیہ (antithesis) یعنی اینٹی تھیسس اپنے آپ میں ایک دوسری انتہا لئے ہوئے آتا ہے اور اس کے داعی بھی اکثر نئے نتائج کی لاشعوری تقلید اپنالیتے ہیں. . اب اس تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) یا بیانیہ اور جوابی بیانیہ کی فکری کشتی ہوتی ہے جو ایک لمبا عرصہ جاری رہتی ہے. اس گھمسان کی لڑائی میں بہت ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے جو نہ صرف فریقین کیلئے اذیت کا سبب بنتی ہے بلکہ دیکھنے والوں پر بھی تھرتھراہٹ طاری رکھتی ہے. یہ خاموش ناظرین بیچارے بہت ہی قابل رحم ہوتے ہیں. ہوا کے جھونکوں کی طرح کبھی یہ ایک جانب قلابازی کھاتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے کے زور بیان سے اس کی طرف لڑھکتے جاتے ہیں. آغاز میں اینٹی تھیسس (antithesis) کو بظاہر زیادہ کامیابی ہوتی نظر آتی ہے. جس کی بہت سی وجوہات ہیں. جیسے کچھ خاموش اقلیت روایتی بیانیہ (thesis) سے پہلے ہی ناراض بیٹھی ہوتی ہے. اس لئے وہ نئی فکر کا دل و جان سے خیر مقدم کرتی ہے. اسی طرح روایتی بیانیہ (thesis) کی خامیاں یا کچھ ناکامیاں .. جوابی بیانیہ (antithesis) پیش کرنے والے کے سامنے موجود ہوتی ہیں. جس کا وہ کھل کر فائدہ اٹھاتے ہیں. جب کے اسکے برعکس جوابی بیانیہ (antithesis) کی اپنی خامیاں اور ناکامیاں ابھی وقت کے امتحان سے نہ گزرنے کے سبب سامنے نہیں آئی ہوتیں. لہٰذا فطری طور پر آغاز میں اینٹی تھیسس (antithesis) یا جوابی بیانیہ ایک انقلابی سوچ کے طور پر نمودار ہوتا ہے. مگر جب اس علمی تصادم میں کچھ وقت گزر جاتا ہے تو اب بیانیہ (thesis) کے ساتھ ساتھ جوابی بیانیہ (antithesis) کی خامیاں بھی کھل کے سامنے آنے لگتی ہیں. پہلی بار یہ حاملین کو سمجھ آتا ہے کہ پیش کردہ تنقید یا فکر کے کئی حصے جزوی یا کلی طور پر غلط ہیں. یہی وہ مقام ہے جہاں کچھ اہل علم دونوں آراء میں تطبیق پیدا کرتے ہیں اور دونوں جانب کی مظبوط تر باتوں کو لے کر ایک مشترکہ بیانیہ پیش کردیتے ہیں. اسی مشترکہ بیانیہ کو سینتھیسس (synthesis) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. اب یہ سینتھیسس (synthesis) جو تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) دونوں کا نچوڑ اور علمی اعتبار سے افضل ہوتا ہے .. وقت گزرنے کے بعد پھر سے ایک نیا تھیس (thesis) بن جاتا ہے. پھر کوئی اینٹی تھیسس (antithesis) پیش کرتا ہے. پھر جنگ ہوتی ہے. پھر سینتھیسس (synthesis) نکالا جاتا ہے اور یوں انسانی فکر کا ارتقاء جاری رہتا ہے. . عزیزان من ، اس ساری تمہید و تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ آپ بالغ نظر ہوکر اسلام کی مذہبی فکری تشکیل نو کو نگاہ بصیرت سے دیکھ سکیں. علامہ اقبال رح نے اسی لئے اپنے خطبات پر مشتمل واحد کتاب کا نام 'اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو' رکھا تھا. آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہاں یہ فکری تصادم اپنی جولانیوں پر نظر آرہا ہے. جو اپنے آپ میں ایک عامی کیلئے نہایت تکلیف دہ عمل ہے. مگر اس صورت سے مایوس ہرگز نہ ہوں. جان لیں کہ آپ دو انتہاؤں میں سفر کر رہے ہیں ، آپ تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) کے تصادم میں زندہ ہیں مگر ابھی سینتھیسس (synthesis) پیش ہونا ہے جو انشاللہ سراسر خیر کا پیش خیمہ ہوگا. جان لیں کہ آپ کا رب .. فرعون کے گھر میں آسیہ اور موسیٰ کو پروان چڑھاتا ہے. وہی ہے جو مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا ہے اور شر سے بھی خیر کو برآمد کردیتا ہے. عقلمند وہ ہے جو دونوں فکری گروہوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لیتا رہے. جو نہ روایتی فکر کو جہالت سمجھے اور نہ جدید فکر کو گالی دے. وقت کی کسوٹی جلد یا بدیر کھرے کو کھوٹے سے جدا کردے گی. روایتی بیانیہ سے منسلک دوستوں کو سمجھنا چاہیئے کہ اگر جدید تشریحات فاسد ہیں تو جلد ہی انکار حدیث یا معتزلہ جیسے فلسفوں کی طرح دم توڑ دیں گی. آپ بس ان کے موقف کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیں اور اگر غلط پائیں تو دلیل سے ان کی غلطی ثابت کرتے رہیئے. دوسری طرف جوابی بیانیہ سے منسلک احباب کو سمجھنا چاہیئے کہ جہاں آپ کو دلیل سے تنقید کی اجازت ہے ، وہاں مختلف موضوعات پر مسلمانوں کی پوری علمی روایت کیلئے تحقیر کا لب و لہجہ اپنانا صریح ظلم ہے. ایک دوسرے کو عزت دینے کی اداکاری نہ کیجیئے بلکہ فی الواقع عزت دیجیئے. مقابل نقطہ نظر کیلئے دل میں حقیقی محبت پیدا کیجیئے کہ دونوں گروہوں کی نیت مبنی بااخلاص ہے. اگر سامنے والے کی سمجھ میں غلطی ہوسکتی ہے تو پیغمبر آپ بھی نہیں ہیں. سمجھ کی غلطی آپ کو بھی ہوسکتی ہے. چنانچہ مدمقابل کی دلیل کو وسعت قلبی سے سنیں اور پھر شائستگی سے رد یا قبول کرلیں. . (نوٹ: پوسٹ میں درج بیانیہ اور جوابی بیانیہ کی اصطلاحات کا استعمال صرف خلافت و جہاد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے مراد قدیم و جدید تشریحات کا تصادم ہے) . ====عظیم نامہ====

روایتی بیانیہ یا پھر جدید جوابی بیانیہ

اسلام کا روایتی بیانیہ یا پھر جدید جوابی بیانیہ ؟ کون سی فکر اسلام کی درست ترجمان ہے؟
====================================================
.
اگر اس جوابی بیانیہ سے آپ کی مراد وہ فکری تحریک ہے جو آج رائج و مقبول روایتی اسلامی فکر کے مقابل ہر دوسرے مذہبی موضوع کو للکار رہی ہے، اسے نئی تشریح فراہم کررہی ہے تو پھر یہ کوئی آسان سوال نہیں ہے. اس کا جواب کسی ایک کے مکمل اثبات و انکار میں دینا علمی دیانت کے خلاف ہوگا. میں حد سے حد آپ کو وہ زاویہ نظر دے سکتا جس سے میں خود اس موجودہ فکری کشمکش کو دیکھ پاتا ہوں. مگر اس سے پیشتر آپ کو ایک سادہ علمی نظریہ سمجھنا ہوگا.
مشہور جرمن فلسفی ہیگل کے فلسفہ سے ماخوز ایک نظریہ صاحبان دانش میں ہمیشہ معروف رہا ہے. اس نظریئے کے کی رو سے انسانی فکر کا سفر تھیسس (thesis) ، اینٹی تھیسس (antithesis) اور سینتھسس (synthesis) کے ذریعے اپنے شعوری مدارج طے کرتا آیا ہے. میں اسی فکر کو آج اپنے زاویہ نظر میں ڈھال کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں. آسان الفاظ میں کسی موضوع پر سب سے پہلے ایک تھیسس پیش کیا جاتا ہے، جس میں اس موضوع کا بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہوتا ہے. اس بیانیہ (thesis) کو عقل عام و خاص قبول کرلیتے ہیں مگر جب ایک لمبا وقت اسے پیش کئے گزر جاتا ہے تو کچھ نئے وقتی تقاضے پیدا ہونے لگتے ہیں، کچھ اس فکر کی خامیاں نمایاں ہوتی ہیں، کچھ نئی تحقیقات سامنے آتی ہیں، کچھ نئے زاوئیے جنم لیتے ہیں. اب اس مقام پر ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان تازہ دریافتوں کا خیر مقدم کیا جائے مگر انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اکثر ایسا نہیں ہوتا. بلکہ اس روایتی بیانیہ سے افراد گہرے تقدس میں مبتلا ہوجاتے ہیں. وہ نہ صرف کسی نئی تحقیق کو قبول کرنے میں شدید تردد ظاہر کرتے ہیں بلکہ وہ سارا زور کسی ناقدانہ جدید سوچ کو کچلنے میں لگادیتے ہیں. اجتہاد کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور عقائد عقیدے کا لباس پہن لیتے ہیں. اس غیرفطری روک سے انسانوں میں ایک فکری بغاوت جنم لیتی ہے جو رستہ نہ پا کر اندر ہی اندر گھٹتی رہتی ہے مگر دم نہیں توڑتی بلکہ ہر گزرتا وقت اسے ایک خاموش طوفان بناتا رہتا ہے. بلاخر ایک وقت آتا ہے جب یہ بغاوت اس تھیسس (thesis) یعنی بیانیہ کے رد کی صورت میں برآمد ہوتی ہے. اسی رد کو اینٹی تھیسس (antithesis) کہا جاتا ہے. یہاں تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ چونکہ اس رد بیانیہ یعنی اینٹی تھیسس (antithesis) کو ایک زمانے تک زبردستی دبایا گیا ہوتا ہے لہٰذا اب اس کا ابھرنا ردعمل کی نفسیات کو ساتھ لئے ہوئے ہوتا ہے. جہاں روایتی بیانیہ یعنی تھیسس (thesis) فکری جمود اور عقیدت کی چادر اوڑھ لینے کے بعد ایک انتہا کی صورت اختیار کر چکا ہوتا ہے ، وہاں یہ جوابی بیانیہ یعنی اینٹی تھیسس (antithesis) اپنے آپ میں ایک دوسری انتہا لئے ہوئے آتا ہے اور اس کے داعی بھی اکثر نئے نتائج کی لاشعوری تقلید اپنالیتے ہیں. 
.
اب اس تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) یا بیانیہ اور جوابی بیانیہ کی فکری کشتی ہوتی ہے جو ایک لمبا عرصہ جاری رہتی ہے. اس گھمسان کی لڑائی میں بہت ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے جو نہ صرف فریقین کیلئے اذیت کا سبب بنتی ہے بلکہ دیکھنے والوں پر بھی تھرتھراہٹ طاری رکھتی ہے. یہ خاموش ناظرین بیچارے بہت ہی قابل رحم ہوتے ہیں. ہوا کے جھونکوں کی طرح کبھی یہ ایک جانب قلابازی کھاتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے کے زور بیان سے اس کی طرف لڑھکتے جاتے ہیں. آغاز میں اینٹی تھیسس (antithesis) کو بظاہر زیادہ کامیابی ہوتی نظر آتی ہے. جس کی بہت سی وجوہات ہیں. جیسے کچھ خاموش اقلیت روایتی بیانیہ (thesis) سے پہلے ہی ناراض بیٹھی ہوتی ہے. اس لئے وہ نئی فکر کا دل و جان سے خیر مقدم کرتی ہے. اسی طرح روایتی بیانیہ (thesis) کی خامیاں یا کچھ ناکامیاں .. جوابی بیانیہ (antithesis) پیش کرنے والے کے سامنے موجود ہوتی ہیں. جس کا وہ کھل کر فائدہ اٹھاتے ہیں. جب کے اسکے برعکس جوابی بیانیہ (antithesis) کی اپنی خامیاں اور ناکامیاں ابھی وقت کے امتحان سے نہ گزرنے کے سبب سامنے نہیں آئی ہوتیں. لہٰذا فطری طور پر آغاز میں اینٹی تھیسس (antithesis) یا جوابی بیانیہ ایک انقلابی سوچ کے طور پر نمودار ہوتا ہے. مگر جب اس علمی تصادم میں کچھ وقت گزر جاتا ہے تو اب بیانیہ (thesis) کے ساتھ ساتھ جوابی بیانیہ (antithesis) کی خامیاں بھی کھل کے سامنے آنے لگتی ہیں. پہلی بار یہ حاملین کو سمجھ آتا ہے کہ پیش کردہ تنقید یا فکر کے کئی حصے جزوی یا کلی طور پر غلط ہیں. یہی وہ مقام ہے جہاں کچھ اہل علم دونوں آراء میں تطبیق پیدا کرتے ہیں اور دونوں جانب کی مظبوط تر باتوں کو لے کر ایک مشترکہ بیانیہ پیش کردیتے ہیں. اسی مشترکہ بیانیہ کو سینتھیسس (synthesis) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے. اب یہ سینتھیسس (synthesis) جو تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) دونوں کا نچوڑ اور علمی اعتبار سے افضل ہوتا ہے .. وقت گزرنے کے بعد پھر سے ایک نیا تھیس  (thesis) بن جاتا ہے. پھر کوئی اینٹی تھیسس (antithesis) پیش کرتا ہے. پھر جنگ ہوتی ہے. پھر سینتھیسس (synthesis) نکالا جاتا ہے اور یوں انسانی فکر کا ارتقاء جاری رہتا ہے. 
.
عزیزان من ، اس ساری تمہید و تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ آپ بالغ نظر ہوکر اسلام کی مذہبی فکری تشکیل نو کو نگاہ بصیرت سے دیکھ سکیں. علامہ اقبال رح نے اسی لئے اپنے خطبات پر مشتمل واحد کتاب کا نام 'اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو' رکھا تھا. آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہاں یہ فکری تصادم اپنی جولانیوں پر نظر آرہا ہے. جو اپنے آپ میں ایک عامی کیلئے نہایت تکلیف دہ عمل ہے. مگر اس صورت سے مایوس ہرگز نہ ہوں. جان لیں کہ آپ دو انتہاؤں میں سفر کر رہے ہیں ، آپ تھیسس (thesis) اور اینٹی تھیسس (antithesis) کے تصادم میں زندہ ہیں مگر ابھی سینتھیسس (synthesis) پیش ہونا ہے جو انشاللہ سراسر خیر کا پیش خیمہ ہوگا. جان لیں کہ آپ کا رب .. فرعون  کے گھر میں آسیہ اور موسیٰ کو پروان چڑھاتا ہے. وہی ہے جو مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا ہے اور شر سے بھی خیر کو برآمد کردیتا ہے. عقلمند وہ ہے جو دونوں فکری گروہوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لیتا رہے. جو نہ روایتی فکر کو جہالت سمجھے اور نہ جدید فکر کو گالی دے. وقت کی کسوٹی جلد یا بدیر کھرے کو کھوٹے سے جدا کردے گی. روایتی بیانیہ سے منسلک دوستوں کو سمجھنا چاہیئے کہ اگر جدید تشریحات فاسد ہیں تو جلد ہی انکار حدیث یا معتزلہ جیسے فلسفوں کی طرح دم توڑ دیں گی. آپ بس ان کے موقف کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیں اور اگر غلط پائیں تو دلیل سے ان کی غلطی ثابت کرتے رہیئے.  دوسری طرف جوابی بیانیہ سے منسلک احباب کو سمجھنا چاہیئے کہ جہاں آپ کو دلیل سے تنقید کی اجازت ہے ، وہاں مختلف موضوعات پر مسلمانوں کی پوری علمی روایت کیلئے تحقیر کا لب و لہجہ اپنانا صریح ظلم ہے. ایک دوسرے کو عزت دینے کی اداکاری نہ کیجیئے بلکہ فی الواقع عزت دیجیئے. مقابل نقطہ نظر کیلئے دل میں حقیقی محبت پیدا کیجیئے کہ دونوں گروہوں کی نیت مبنی بااخلاص ہے. اگر سامنے والے کی سمجھ میں غلطی ہوسکتی ہے تو پیغمبر آپ بھی نہیں ہیں. سمجھ کی غلطی آپ کو بھی ہوسکتی ہے. چنانچہ مدمقابل کی دلیل کو وسعت قلبی سے سنیں اور پھر شائستگی سے رد یا قبول کرلیں. 
.
(نوٹ: پوسٹ میں درج بیانیہ اور جوابی بیانیہ کی اصطلاحات کا استعمال صرف خلافت و جہاد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے مراد قدیم و جدید تشریحات کا تصادم ہے)
.
====عظیم نامہ====

ناس پیٹی فیس بک


کوئی کھیرا شریف کے چھلکوں سے تقدس سیکھا رہے ہیں تو کوئی اسٹرابیری کو زرقوم کہہ کر ممنوع بتا رہے ہیں. کوئی ایک سے زائد شادی کرنے کو فرض کررہے ہیں تو کوئی خوبصورت لڑکیوں سے بات کو مستحب بنارہے ہیں. کوئی مریدوں کو روحانیت کے کرنٹ لگارہے ہیں تو کوئی متعدد حوروں سے تعلق کا نقشہ سمجھا رہے ہیں.
.
ہائے رے ناس پیٹی فیس بک تو نے گھر بیٹھے ہمیں کیا کیا دیکھا دیا !

america

http://daleel.pk/2016/12/31/22965?fbclid=IwAR2OO6AzgL1EsPr0pxKC1zfOd6VFUbdW0zVGQNWfDmutkI_hG9AcHP_Tzh4

مولانا طارق جمیل


مولانا طارق جمیل - 'تبلیغی جماعت' کا یقینی طور پر سب سے زیادہ مقبول نام ہے. آپ بلا شبہ عالم اسلام کی ایک عظیم المرتبت شخصیت ہیں. جن کا پراثر طریقہ تعلیم خواص وعوام دونوں کو دین سے جوڑتا آیا ہے. آپ دور حاضر میں وحدت امت کے بہت بڑے داعی ہیں اور تفرقہ ختم کردینے کیلئے شب و روز کوشاں ہیں. دیگر بہت سے احباب کی طرح میں بھی مولانا سے کئی فکری اختلافات رکھتا ہوں مگر ساتھ ہی میں آپ کی وسعت قلبی، جذبہ ایمانی اور پر سوز واعظانہ قابلیت کا تہہ دل سے مداح رہا ہوں. میں ہمیشہ ان کے لئے دل میں بے پناہ محبت اور عزت محسوس کرتا ہوں. شائد اسلئے کہ میں ان میں دوسروں کی طرح محقق یا مجدد تلاش نہیں کرتا بلکہ ایک واعظ اور داعی کو دیکھتا ہوں. میں ان میں ایک ایسا عظیم مبلغ پاتا ہوں جو شیخ عبدلقادر جیلانی رح کی طرح آپ کے روحانی وجود کو سادہ باتوں کے زریعے جھنجھوڑ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے. ان کے خطبات، میں علمی وسعت کیلئے نہیں سنتا بلکہ اسلئے سنتا ہوں کہ مجھے اپنی موت یاد آجائے اور میری آنکھیں ندامت سے بھیگ سکیں. یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی سننے والا مولانا کو بناء تعصب کو سنے اور اسے فکر آخرت محسوس نہ ہو. میرا احساس یہ ہے کہ اللہ پاک نے مولانا کی دین میں محنت کے سبب ان کی زبان میں عجب سا اثر پیدا کردیا ہے. وہی جملہ اور وہی الفاظ جو کوئی اور ادا کرے تو عام سے محسوس ہوں وہی جب مولانا کی زبان سے ادا ہوتے ہیں تو مخاطب کے قلب میں جا اترتے ہیں. کچھ عرصہ قبل مولانا طارق جمیل انگلینڈ تشریف لائے تو حسن اتفاق سے آپ سے ملاقات ہوئی. آپ کے ساتھ بیٹھے، نماز پڑھی اور خطاب سنا. مولانا کو اس سے پہلے بھی کئی بار سامنے سن چکا تھا مگر آپ سے باقاعدہ ملاقات پہلی بار تھی. آپ کا ایک ایک انگ دین کی محنت سے سجا محسوس ہوا. اس عمر میں اتنا سفر اور مشقت اٹھانا صرف دین کی تبلیغ و ترویج کیلئے آپ ہی کا خاصہ ہے.
.
آپ کی فکر پر بہت سے اعتراض کئے جاتے ہیں جن میں سے کچھ احقر کی سمجھ میں حقیقت اور اکثر مذھبی منافرت پر مبنی ہیں. پہلا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ آپ کی دعوت کا محور صرف مشہور اشخاص ہیں. یہ ایک بے بنیاد بات ہے. اتنا ضرور ہے کہ عمران خان سے لے کر عامر خان تک اور فلمی اداکاروں، گلوکاروں سے لے کر کرکٹ ٹیم تک آپ کے ذریعے دین کا پیغام پاتے رہے ہیں مگر اسے بنیاد بناکر یہ کہنا کہ آپ عام لوگوں کو دین نہیں پہنچاتے بلکل غلط الزام ہے. اسی طرح ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہا کہ آپ فلاں عالم یا فلاں دہشت گرد گروہ یا فلاں سیاسی رہنما کا نام لے کر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ یہ کہنے والے ایک لمحہ یہ نہیں سوچتے کہ تبلیغی جماعت بحیثیت مجموعی کبھی بھی نام لے لے کر کسی کو ملامت نہیں کرتے بلکہ ہر کسی کو محبت سے دین کی جانب بلاتے ہیں. مختلف مذہبی گروہ اپنی اپنی دینی فکر کو سب سے اہم سمجھ کر مولانا سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان کے حق میں بات کریں اور جب وہ ایسا نہیں کرتے تو تو آپ پر الزامات لگاتے ہیں جیسے جہادی گروہ چاہتے ہیں کہ وہ جہاد کریں، تجدید امت کے دعویدار چاہتے ہیں کہ وہ جہادی گروہوں کا نام لے لے کر ان کی مذمت کریں، خلافت کے گروہ چاہتے ہیں کہ وہ اقامت دین کی ذمہ داری ادا کریں اور تحقیقی مزاج کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو قران ریسرچ اکیڈمی بنادیں. ان میں سے کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ہر جماعت کا اپنا منہج ہے اور وہ اپنے لحاظ سے دین کا کام کر رہے ہیں. جس طرح ان پر تبلیغی جماعت اپنا منشور نہیں تھوپتی، اسی طرح انہیں بھی یہ حق نہیں کہ مولانا کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کریں. اسی طرح سہہ روزہ یا چلہ وغیرہ کو بدعات قرار دیا جاتا ہے حالانکہ مولانا یا تبلیغی جماعت نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ دین کے لوازم ہیں بلکہ اسے ہمیشہ ایک تربیتی مشق کے طور پر پیش کیا. آپ پر جن اعتراضات سے میں متفق ہوں وہ تین ہیں. پہلا آپ کا دوران خطاب بعض اوقات ضعیف و موضوع احادیث کو پیش کردینا ہے. آپ کا ایسا کرنا احناف میں موجود اس رائے کے تحت ہے جس میں اگر قران اور صحیح حدیث کے نصوص سے اصول ثابت ہو تو فضائل کے ضمن میں ضعیف احادیث و واقعات بھی پیش کئے جاسکتے ہیں. میں خود کو اس سے بلکل متفق نہیں پاتا کہ اس سے بہت سے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے. دوسرا اعتراض یہ کہ قران مجید کو تبلیغ اور تربیت دونوں کا محور ہونا چاہیئے. جو راقم کی رائے میں نہیں ہے یا اس درجہ میں نہیں ہے جس میں ہونا چاہیئے. تیسرا اور آخری اعتراض یہ کہ مولانا بعض اوقات منظر نگاری میں بہت دور نکل جاتے ہیں جیسے جنت، جہنم، حور وغیرہ جو ممکن ہے سادہ طبیعتوں کو تو مائل کرتا ہو مگر بہت سے پڑھے لکھے اذہان کو متنفر کردیتا ہے. بہرحال میرے یہ اعتراضات اگر صحیح بھی مان لئے جائیں تب بھی بیشمار خیر کے پہلوؤں سے استفادہ نہ کرنا بہت بڑی محرومی ہوگی. میں دین پر تحقیق کیلئے انہیں نہیں سنتا بلکہ مجھے جب خود کو فکر آخرت کی جانب مائل کرنا ہو تو مولانا بلاشبہ میری پہلی ترجیح ہوتے ہیں. آپ سب پہلے ہی مولانا کو سنتے ہونگے مگر اگر کسی مسلکی منافرت کی وجہ سے نہیں سنتے تو ضرور سنیں بلکہ ان کے خطبات پر مشتمل کتب بھی لے آئیں.